مسئلہ ۱۶۶: ازنینی تال بڑا بازار مرسلہ فدا حسین صاحب سادہ کار ۶رمضان مبارک ۱۳۳۱ھ
بعالی خدمت جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب !جناب من!یہاں مسجد نینی تال میں گیس کی لالٹین روشن کی گئی ہے خاص اندرون مسجد، جس وقت وہ روشن کی جاتی ہے اسپرٹ شراب ڈال کر گرم کی جاتی ہے تب وہ روشن ہوتی ہے اور ایک ہندو ان کو جلانے کے واسطے اندر جا کر جلاتا ہے جس کے پیر دھلائے جاتے ہیں اور ناپاکی سے اس کی کچھ مطلب نہیں، یہ کام جائز ہے یاناجائز؟
الجواب
اسپرٹ شراب ہے اور شراب ناپاک ہے اور ایسی ناپاک چیز مسجد میں لیجانا منع ہے ہر گز اجازت نہیں، ولہذا فتاوٰی عالمگیری ودرمختار وغیرہ معتبر کتابوں میں تصریح فرمائی کہ تیل کسی طرح ناپاک ہوگیا ہوتو مسجد میں اسے جلانا ہرگز جائز نہیں۔
مسجد کی چھت پر وطی کرنا، پیشاب وپاخانہ کرنا اور اس میں نجاست کو داخل کرنا مکروہ ہے لہذا ایسا چراغ مسجد میں جلانا ناجائز ہے جس میں نجس تیل ڈالا گیا ہو۔(ت)
( ۱؎ درمختار کتاب الصلٰوۃ باب مایفسد الصلٰوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۳)
ۤ
اور کافر کا اس میں جانا بھی بے ادبی ہے
کما حققناہ فی فتاوٰنا بتوفیقہ تعالٰی
(جیسا کہ اﷲ تعالٰی کی توفیق سے اس کی تحقیق ہم نے اپنے فتاوٰی میں کردی ہے۔ت) وھو تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۶۷: ۸رمضان المبارک ۱۳۳۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص مسمی سالاربخش نے محلہ بانخانہ میں مسجد تعمیر کرائی اور اس کا فرش تھوڑا درست کراکر چھوڑدیا اور چہار دیواری وغیرہ بھی ٹھیک طور پر درست نہ کرائی، عرصہ قریب چھ سال کے گزر گیا مگر چند مرتبہ سالار بخش سے کہا گیا انہوں نے کچھ خیال نہ کیا اب اور چند لوگوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہ مسجد ہنوز ایسی نہیں ہے کہ اس میں نماز پڑھی جائے، چنانچہ اس کو درست کریں تاکہ نماز پڑھی جائے، مسمی سالار بخش کو یہ بات ظاہر ہوئی کہ اور لوگ اس مسجد کو درست کرانا چاہتے ہیں فوراً ان لوگوں سے یہ لفظ کہا کہ اس کو میں خود درست کراؤں گا آپ لوگ اس میں ایک حبہ نہیں لگا سکتے ہیں اور نہ میں کسی کو روپیہ لگانے دوں گا جس وقت میرے پاس روپیہ ہوجائیگا میں خود درست کرادوں گا، اب وہ مسجد اسی طرح پر ہے نہ تو کسی کو مرمت کرانے دیتے ہیں اور نہ خود درست کراتے ہیں، امیدوار کہ بعد ملاحظہ جو کچھ حکم شرع شریف ہوتحریر فرما کر مہر ثبت کردی جائے۔
الجواب
اگر سالاربخش نے مسجد کی بنا ڈالی ہے اور ابھی یہ نہ کہا کہ میں نے اسے مسجد کردیا جب تو وہ ابھی وقف نہ ہوئی سالاربخش کی ملک ہے دوسروں کو اس میں دست اندازی نہیں پہنچتی اور اگر اسے وقف کرچکا یہ کہہ چکا ہے کہ میں نے اسے مسجد کردیا جب بھی اس کے بنانے کا حق اسی کو ہے اسے چاہئے کہ خود بنائے ورنہ جو مسلمان بنانا چاہتے ہیں ان کو اجازت دے اور اگر باہم راضی ہوں تو یوں کریں کہ ان مسلمانوں سے کہے تم بناؤ اور جو کچھ اس میں صرف ہو وہ میرے ذمہ ہے اس کا حساب لکھتے رہو میں ادا کروں گا یوں مسجد بن بھی جائے گی اور وہ سب مسلمان بھی اس کے بنانے کا پورا ثواب پائیں گے اور ساری مسجد اسی کے روپے سے بنے گی سب مطلب حاصل ہوجائیں گے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۶۸: ازمارہرہ شریف سرکار خورد مرسلہ حضرت سید شاہ میاں صاحب ۹رمضان مبارک۱۳۳۱ھ
کیافرماتے ہیں عمائے اہل دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد جس کا صحن مسقف ہے اور اس سقف کے نیچے سو دو سو برس سے نماز ہوتی ہے اب اس سقف کو بالائی حصہ مسجد میں بطور صحن شامل کرلیا ہے ایسی حالت میں حسب مذہب اہلسنت وجماعت اس مسقف صحن میں نماز جائز ہے یانہیں اور حصہ زیریں جو مرتب ومسقف ہے بدستور رکھا جائے یا بھراؤ ڈال کرصحن بنالیا جائے، ایسی صورت میں کہ سقف نہ رکھی جائے اور ایک بنی بنائی عمارت مسمار کردی جائے شرعاً خلاف ہے یانہیں؟بحوالہ کتب وروایات جواب لکھا جائے۔بینواتوجروا۔
الجواب
سوال میں حصہ بالائی وحصہ زیریں کہنے سے ظاہر کہ مسجد دو طبقہ ہے:علووسفل یعنی بالاخانہ ومنزل زیریں۔ اور یہ الفاظ کہ ایک مسجد جس کا صحن مسقف ہے اور اس سقف کے نیچے سودوسوبرس سے نماز ہوتی ہے بظاہر اس طرف جاتے ہیں کہ سرے سے بانی مسجد نے طبقہ سفل کا کوئی صحن نہ رکھا بلکہ اس کے دونوں درجہ اندرونی و بیرونی مسقف ہی بنائے اور بعد کے الفاظ کہ اب اس وقف کے بالائی حصہ مسجد میں بطور صحن شامل کرلیا ہے یہ بھی سقف کاحدوث نہیں بناتے بلکہ اس کا پہلے سے ہونا اور اسے طبقہ علو کے لئے بجائے صحن قرار دینے کا حدوث۔ لیکن سفل جب اصل سے دو درجہ مسقف ہو اور درجہ اندرونی پر علو ہوتو درجہ بیرونی کی سقف خود ہی اس علو کےلئے بجائے صحن ہوگی، اب بطور صحن شامل کرلیا ہےکا کیا محصل ہوگا یہ ظاہراً حدوث سقف کی طرف ناظر ہے مگر یہ کہ اس وقف پر نماز پہلے نہ پڑھی جاتی ہو اب پڑھنے لگے بایں معنی شامل کرنے کا حدوث بتایاہو، نیز صحن کا مسقف کہنا بھی حدوث سقف کا پتا دیتا ہے کہ صحن کبھی مسقف نہیں ہوتا نہ مسقف کو صحن کہیں مگر بایں معنے کہ پہلے جو صحن تھا بعد کو مسقف کرلیا ہے، اسی طرح عبارت سوال کہ اس مسقف صحن میں نماز جائز ہے یانہیں نظر بالفاظ اسی درجہ بیرونی منزل زیریں سے سوال ہے کہ وہی صحن مسقف ہے اور اوپر اسی کو اس لفظ سے تعبیر کیا بھی تھا، مگر وہاں تو سودو سو برس سے نماز ہوتی ہے اور اس میں عدم جواز کا کوئی منشا بھی نہیں، ہاں سقف کو جو حصہ بالا میں اب شامل کیا گیا اسے صحن حادثات بتایا اور یہاں سوال کے لیے منشابھی ہے شاید اسے مسقف بایں معنی کہا ہو کہ یہ درجہ زیریں کی سقف کیا گیا ہے نہ یہ کہ اس پر سقف بنائی گئی بہر حال ہم ہر احتمال پر کلام کریں۔ یہ سقف اگر حادثات ہے بانی مسجدنے منزل زیریں کے سامنے صحن رکھا تھا بعدہ کسی نے اسے بھی مسقف کردیا، جب توظاہر ہے کہ اس درجہ بیرونی میں جو پہلے صحن تھا اور اب مسقف ہے عدم جواز نماز کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ بدستور مسجد ہے سقف نے اسے مسجدیت سے خارج کیا، ہاں اس سقف پر بلاضرورت نماز کی اجازت نہیں کہ سقف مسجد پر بے ضرورت چڑھنا ممنوع وبے ادبی ہے اور گرمی کا عذر مسموع نہ ہوگا، ہاں کثرت جماعت کہ طبقہ زیریں کے دونوں درجے بھر جائیں اور لوگ باقی رہیں تو سقف پر اقامت نما زکی اجازت ہوگی،
فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ ولہذا اذااشتدالحریکرہ ان یصلوابالجماعۃ فوقہ الااذاضاق المسجد فحینئذ لایکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ۱؎۔
ہر مسجد چھت پر چڑھنا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ شدید گرمی کے باوجود مسجد کی چھت پر باجماعت نماز پڑھنا مکروہ ہے مگر جب مسجد نمازیوں کے لئے تنگ پڑگئی تو مجبوراً چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس فی آداب المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۲۲)
اور اگر یہ سقف قدیم ہے خود بانی مسجد ہی نے طبقہ زیریں کے دونوں درجے مسقف بنائے تو اب نظر لازم ہے اگر ثابت اور تحقیقاً معلوم ہو کہ بانی نے اصل مسجد علو کو رکھا اور نیچے یہ دو درجے وقت ضرورت کے لئے بنا دئے کہ اگر جماعت کثیر ہو تو ان میں قیام کریں تو اس صورت میں ظاہراً سقف پر نماز مطلقاً جائز ہے کہ درجہ زیریں حسب نیت بانی اصل مسجد نہیں بلکہ تابع ومعین مسجد ہے اور زیر سقف تو مطلقاً جواز خود ظاہر ہے کہ وقت ضرورت کی نیت اس کے غیر میں ممانعت نہیں
کما لایخفی
(جیسا کہ مخفی نہیں۔ت) اور اگر ثابت ہو کہ بانی نے اصل مسجد طبقہ زیریں کو کیا اور طبقہ بالا وقت ضرورت یا وقت گرمی کےلئے بنایا دونوں کو اصل مسجد کیا مثلاً اختلاف موسم کے خیال سے طبققہ زیرریں بالکل مسقف اورطبقہ بالامع صحن بنایا یا کچھ ثابت نہ ہوا تو ان تینوں صورتوں کا حکم مثل اس سب سے پہلی صورت حدوث سقف کے چاہئے کہ دو صورت پیشین میں تو طبقہ زیریں کا مسجد ہونا خود ہی ثابت و مرادہے تو یہ سقف سقف مسجد ہوئی اور سقف مسجد پر بے ضرورت صعود ممنوع، اور صورت اخیرہ میں اگرچہ نصاً ثبوت نہ ہو عرفاً ثبوت ہے کہ منازل میں منزل زیریں ہی اصل ہے اور بالاخانہ تابع کہ اس کا قیام اس پر موقوف اور صحن نہ رکھنا عدم ارادہ اصالت کا موجب نہیں جیسے صورت لحاظ مواسم میں گزرا، بالجملہ زیر سقف نماز پڑھنا مطلقاً جائزہے اور چھت پر بحال ضرورت تو مطلقاً اور بلاضرورت صرف اس صورت میں کہ بانی سے تحقیق طور پر ثابت ہو کہ مسجد صرف علو کو کیا اور اسے تابع رکھا، باقی صورتوں میں چھت پر نماز سے احتراز ہو۔ رہابھراؤ ڈال کر حصہ زیریں کو نیست ونابود کردینا یہ کسی صورت جائز نہیں جن صورتوں میں یہی مسجد یا یہ بھی مسجد ہے جب تو ظاہر کہ یہ مسجد کا اعدام اور معاذاﷲ اس وعید شدید پر اقدام ہوگا،
ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعی فی خرابھا۱؎۔
اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو لوگوں کو مساجد میں ذکر الٰہی سے منع کرے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔(ت)
(۱؎ القرآ ن الکریم۲/ ۱۱۴)
اور اگر نہیں تو لااقل وقف صحیح تابع مسجد ہے اور وقف کی ہیئت بدلنا تو جائز نہیں، نہ کہ بالکل مسدود ومفقود کردینا۔
عٰلمگیریہ میں سراج وہاج سے ہے:
لایجوز تغییر الوقف عن ھیأتہ فلایجعل الدار بستانا ولاالخان حماما ولاالرباط دکانا الااذاجعل الواقف الی الناظر مایری فیہ مصلحۃ الوقف۲؎اھ ھذا کلہ ماظھر لی۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
وقت کی ہیئت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں۔ لہذا مکان کو باغ، سرائے کوحمام اور اصطبل کو دکان نہیں بنایا جائے گا ہاں اگر واقف نے خود متولی کومصلحت وقف کےلئے تبدیلی کا اختیار دیا ہو تو جائز ہے اھ یہ تمام میرے لئے ظاہر ہوا۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الرابع عشر فی المتفرقات نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۹۰)