کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک رنڈی نے اپنے پیشہ کے ذریعہ سے کچھ دکانیں خریدیں، چندروز کے بعد وہ رنڈی مرگئی، بعد مرنے کے وہ دکانیں وراثۃً اس کی بہن کو پہنچیں جو اپنے پیشہ سے تائب اور کسی کے نکاح میں ہے، اب اس کی بہن اپنی طرف سے اس جائداد کو جو وراثۃً اس کو ملی ہے کسی مسجد کے نام وقف کرنا چاہتی ہے، اس صورت میں مہتممان مسجد کو ان دکانوں کا لینا اور ان کے کرایہ سے مسجد کے مصارف میں خرچ کرنا جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
جبکہ وہ دکانیں بعینہا رنڈی کو اجرت زنا یاغنا میں نہ ملی تھیں بلکہ اس نے خرید کیں، اگرچہ خریداری اسی زرِ خبیث سے ہو، تو ازانجا کہ عامہ عقود رائجہ میں یہ قاعدہ نہیں کہ روپیہ دکھا کر کہا جاتا ہو اس روپے کے عوض بیع کرے یا خریدے بلکہ مطلق بیع ہوتی ہے تو عقد ونقد زرِ حرام پر جمع نہیں ہوتی اور مذہب کرخی مفتی بہ پر ایسی حالت میں اس شے مشتری میں خباثت بھی نہیں آتی، تو وہ دکانیں خود اس رنڈی کے لئے اس صورت میں حرام نہ ہوں گی، نہ کہ بعد انتقالِ وراثت۔ لہذا وقف مذکور نہ فقط صحیح بلکہ جائز ومورث ثواب ہوگا اور متولیوں کو ان کالینا اور ان کا کرایہ مسجد میں صرف وخرچ کرنا ہر طرح جائز ہوگا،
والمسئلۃ قد فصلنا ھافی فتاوٰنا ثم ان کان خبث بالاجتماع لوفرض لم یکن فیہ الاکراھۃ والوراثۃ ناقلۃ والوقف اخراج عن الملک والابحاث طویلۃ الاذیال وانما یفتی فی الوقف بما ھوانفع لہ کیف والصحۃ لاشک فیہا قطعا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس مسئلہ کو ہم نے اپنے فتاوٰی میں مفصل بیان کردیا ہے، پھر اگر بالفرض عقد ونقد کے اجتماع سے خبث آئے بھی تو اس میں صرف کراہت آئے گی جبکہ وراثت نقل کرنے والی اور وقف ملک سے اخراج کا نام ہے اور اس میں طویل مباحث ہیں، اور بلاشبہ وقف میں فتوٰی اسی پر ہوتا ہے جو اس کے لئے زیادہ نفع بخش ہوتو یہاں کیونکر ایسا نہ ہوگا جبکہ اس کی صحت میں قطعاً شک نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ۱۶۱: ازموضع ملکی پور تھانہ کٹرہ ضلع شاہجہان پور مسئولہ جملہ مسلماناں موضع ۱۵جمادی الآخر ۱۳۳۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو عید گاہ موضع ملکی پور میں ہے وہ بہت چھوٹی ہے اور عیدین میں بفضلہ تعالٰی اس قدر مسلمان جمع ہوجاتے ہیں کہ نماز پڑھنے اور کھڑے ہونے کی
جگہ نہیں رہتی عیدگاہ سے باہرنماز کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں اور عیدگاہ قبرستان میں واقع ہے اگر یہاں وسعت دی جائے تو قبریں اندر آنے کا احتمال ہے اور جگہ بھی تحفظ کی نہیں ہے، مویشی وغیرہ پیشاب وغیرہ کرتے ہیں، ایسی حالت میں عیدگاہ قدیمی چھوڑ کر دوسری جگہ اگر بہت بلند ہے اور فضا کی جگہ ہے اور ہر قسم کا تحفظ ہے، مویشی وغیرہ بھی وہاں نہیں جاسکتے، وسعت دے کر تعمیر کرائی جائے یانہیں؟ اور عید گاہ قدیمی میں بحالت چھوڑنے قبرستان بناسکتے ہیں یانہیں؟ازروئے شرع شریف معزز وممتاز فرمائیے۔بینواتوجروا۔
الجواب
بیان سائل سے معلوم ہوا کہ یہ موضع ایک گاؤں ہے، اور ہمارے ائمہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے مذہب میں گاؤں میں عیدین جائز نہیں تو وہاں عید گاہ وقف نہیں ہوسکتی کہ محض بے حاجت و بے قربت بلکہ مخالف قربت ہے، تو وہ زمین وعمارت ملک بانیان ہیں انہیں اختیار ہے اس میں جو چاہیں کریں، خواہ اپنا مکان بنائیں یا زراعت کریں یا قبرستان کرائیں، اور اب وہاں دوسری عیدگاہ بنائیں گے اس کی بھی یہی حالت ہوگی۔
درمختار میں ہے:
فی القنیۃ صلٰوۃ العید فی القری تکرہ تحریما ای اشتغال بما لایصح۱؎۔
قنیہ میں ہے کہ گاؤں میں نماز عید مکروہ تحریمی ہے یعنی ایسی چیزمیں مشغول ہونا ہے جو صحیح نہیں(ت)
(۱؎ درمختار باب العیدین مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۱۴)
اسی کی کتاب الوقف میں ہے:
شر طہ ان یکون قربۃ فی ذاتہ۲؎۔
شرط وقف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے قربت مقصودہ ہو۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۷)
مسئلہ۱۶۲: ازاسکول بنام اسلامی مرسلہ مولوی یعقوب علی ۲۳جمادی الآخر ۱۳۳۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا پیشہ ڈھولک فروخت کرنے کا ہے، مڑھے ہوئے اور بغیر مڑھے ہوئے دونوں قسم کے ڈھولک فروخت کرتا ہے۔ عمرو کو پیشہ حکمت طبابت بید حکیمی کا کرتا ہے اور قمار بازی بھی کرتا ہے اور دھوکا دہی کرکے مریضوں سے روپیہ لیتا ہے۔ زید و عمرو یہ لوگ کچھ روپیہ مسجد کی مرمت یا مسجد بنوانے میں دیں تو ان کا روپیہ لے کر مسجد میں صرف کیا جائے یا نہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
جب تک ہمیں معلوم نہ ہو کہ یہ خاص روپیہ جو ہم کو دیتا ہے وجہ حرام سے ہے اس کا لینا اور مسجد میں صرف کرنا جائز ہے کچھ حرج نہیں،
بہ نأخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینہ۱؎کما فی الھندیۃ عن الذخیرۃ عن الامام محمد۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور ہم اسی کو قبول کرتے ہیں جب تک کہ کسی معین شے کے حرام ہونے کا ہمیں علم نہ ہو، جیسا کہ ہندیہ میں بحوالہ ذخیرہ امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے منقول ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الثانی عشر فی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۴۲)
مسئلہ۱۶۳تا۱۶۵: از شمس آباد ضلع کیمل پور پنجاب علاقہ مرسلہ مولوی قاضی غلام گیلانی صاحب ۱۸رجب مرجب ۱۳۳۱ھ
الاستفتاء فی حضرت مجدد المائۃ الحاضرۃ الفاضل البریلوی غوث الانام مجمع العلم والحلم والاحترام امام العلماء ومقدام الفضلاء لازال بالافادۃ والافاضۃ والعزوالا کرام!
کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ زید ایک مسجد کاامام تھا بعد اس کی موت کے اس کا برادر حقیقی ایک مدت تک امام رہا جب وہ بھی انتقال کر گیا تو زیدکا بیٹابکر امام ہو امگر چونکہ وہ دوسری مسجد میں امامت کرتا تھا اس مسجد میں ا س نے برضائے مقتدیان اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اس کے لئے معلومات امامت سے ایک شے قلیل مقرر کی اور باقی کا خود لینا ٹھہرایا چنانچہ کئی برس تک جو خلیفہ یکے بعد دیگرے آیا اسی شرط کا پابند رہا یہاں تک کہ خالد نام مولوی زید کے شاگرد علمِ دینی نے اپنے استاد زادے بکر سے کہا کہ مجھ کو اس مسجد میں آپ امام مقرر کیجئے میں آپ کا خلیفہ رہوں گا اور آپ کے وظائف مقررہ معہودہ میں کوئی نقصان نہ کروں گا پس بکر نے خالد کو اس اقرار پر خلیفہ مقرر کیا اور تخمیناً سترہ اٹھارہ برس تک خالد یہ پابندی شرط مذکور امامتی کراتا رہا اور امور مقررہ میں کبھی چون و چرانہ کی، اب چونکہ بکر کا بیٹا بالغ ہوگیا ہے اور علم امامت سے بہر مند ہے لہذا بکر خالد کو برطرف کرکے اپنے بیٹے کو امام کرنا چاہتا ہے اور ابتدائے تقرر خالد کے وقت خالد نے تسلیم کرلیا تھا کہ آپ کے بیٹے جب بالغ قابل امامت ہوں یا اور کسی امر سے جب کبھی آپ مجھ کو موقوف کردیں گے تو مثل خلفائے سابقین کے مجھ کو عذر نہ ہوگا، اب خالد اپنے اقرار سے فرار کرکے کہتا ہے کہ میں تمہارا کوئی خلیفہ نہیں کیونکہ جب میں نماز فرض و تراویح وعید وغیرہ خدمات مسجد ومراعات اہل محلہ ختم دعا، درود سب بذات خود کرتا رہا تو میں امام مستقل ہوگیا تم کو میرے عزل کا کوئی اختیار نہیں اور قبل ہی سے جو کچھ میں نے تم کو دیا یالینے دیا وہ شرم وحیا کی وجہ سے تھا ورنہ تمہارا کوئی استحقاق نہیں ہے کہ امامت تو میں کراؤں اور منافع تم لو، خلافت اور اصالت کے کیا معنی پس بکر نے علمائے اطراف کو جمع کیا تھا کہ خالد سے تحقیق کریں اور فہمائش کرکے اس کو برطرف ہونے کا حکم دیں مگر خالد ذرا چالاک آدمی ہے علماء سے کبھی امامت کی تعریف، کبھی خلیفہ کے معنی، کبھی وظیفہ امامت کے معنی دریافت کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ امام کی تعریف میرے پر صادق آتی ہے یا کہ بکرپر۔ غرض کہ ایسی باتوں میں وقت ٹال دیتا ہے ، یہاں کے علماءکو یہ مسئلہ مصرحہ طور پر اور مفصل کسی کتاب میں نہیں ملتا اور ایسی طاقت نہیں کہ اجزائے مسئلہ کو ابواب مختلفہ ونظائر متفقہ سے استنباط کرکے فیصلہ کریں، چونکہ حضور پر نور بفضلہ تعالٰی مذہب مہذب حنفی کے بلکہ جمیع مذاہب حقہ کے مجتہد ہیں اور موافق ومخالف سب کے مسلم ہیں لہذا التماس کہ خالد باوجود دینے وظائف امامت کے بکر کوبہ اقرار خلافت سولہ سترہ برس تک مثل خلفائے پیشیں کے شرعاً مستقل امام متصور ہوگا۔ حالانکہ مقتدی لوگ کل سوا دوچار آدمیوں کے خالد کے اس فرار عن الاقرار سے سخت ناخوش ہیں یا مثل خلفائے پیشیں کے خالد بھی خلیفہ ہی ہوگا، واضح ہوکہ اس ملک میں کئی جگہ دستور ہے کہ ایک شخص ایک مسجد کا امام ہوتا ہے اور باقی مساجد میں خود امامت کا مباشر تو نہیں ہوتا مگر ایسا تصرف رکھتا ہے کہ ان مساجد کے عمدہ عمدہ منافع خود لے لیا کرتا ہے اور معمولی قسم کی آمدنی خلیفہ کو دیا کرتا ہے اور چاہتا ہے تو اسے موقوف کردیتا ہے اور دوسرا اس کی جگہ قائم کردیتا ہے اور چونکہ اول ہی سے یہ بات قرار داد بین الاصل والخلیفہ ہوا کرتی ہے اور مقتدی لوگ بکر کے اس تصرف پرکسی طرح کے معترض نہیں ہوتے، کچہری انگریزی میں بھی ایک آدھ مقدمہ اس امر کاکیا گیا جس میں اصل ہی کامیاب ہوا۔بینواتوجروا۔
الجواب
یہ مسئلہ تین مسائل پر مشتمل: اول آیا امام دوسرے کو اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے؟
دوم اگر کرسکتا ہے تو وظائف امامت کا مستحق وہ اصل ہوگا اور نائب صرف اسی قدر لے سکے گا جو اصل نے اس کے لئے بتایا ازانجا کہ فعل وخدمات امامت یہ نائب بجالاتا ہے، یہی جملہ معلومات کا مستحق ہوگا اور اصل معزول سمجھا جائے گا۔
سوم اگر اصل معزول نہیں بلکہ وہی اصل امام اور یہ اس کا مقرر کیا ہوا نائب ہے تو آیا امام اصل کو اس نائب کے معزول کردینے اور اس کی جگہ دوسرا نائب مقرر کرنے کا اختیار ہے یانہیں؟ بحمداﷲ یہ تینوں مسائل واضح ومصرح ہیں۔
مسئلہ اولٰی : ہاں امام دو سرے کو اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے،
فتاوٰی خلاصہ میں ہے:
اما م کے لئے بلااجازت نائب مقرر کرنا جائز ہے بخلاف قاضی کے، اسی بنیاد پر اس کا وظیفہ غیر مقرر ہوتا ہے اور نیابت صحیح ہے(ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ خلاصہ کتاب الوقف فصل یراعی شرط الوقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۰۸)
(فتاوٰی خیریہ بحوالہ خلاصہ کتاب الوقف دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۱۵۱)
مسئلہ ثانیہ : وظائف امامت کا مستحق اصل ہوگا اور نائب صرف اس قدر لے سکے گا جو اصل نے اس کے لئے معین کیا۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
یجب العمل بما علیہ الناس وخصوصا مع العذر، وعلی ذٰلک جمیع المعلوم للمستنیب ولیس للنائب الاالاجرۃ التی استأجرہ بھا۲؎۔
اس پر عمل واجب ہے جو لوگوں میں معروف ہے خصوصاً عذر کی صورت میں، لہذاتمام معلومات اصل امام کے لئے ہوں گے نائب کے لئے فقط اتنی ہی اجرت ہوگی جس پر اصل نے اس کو رکھا ہے۔(ت)
مسئلہ ثالثہ : صورت مذکورہ میں وہ نائب جبکہ اس کےلئے اصل کچھ مقرر کرے اصل کا اجیر ہوتا ہے پھر اگر وہ اجرت معینہ ہے تو اجارہ صحیحہ ورنہ فاسدہ، اور اگر کچھ مقرر نہ کرے نہ نصاً نہ عرفاً، تو اجیر بھی نہیں محض بیگاری ہوتا ہے، صورت اخیرہ میں تو ظاہر ہے کہ نائب کوئی استحقاق اصلاً نہیں رکھتا اس کاکام اصل کی طرف سے ایک مفت ستخدام تھا اصل جس وقت چاہے اسے منع کرسکتاہے نہ اس صورت میں وہ کسی معاوضہ کا مستحق ہوتا ہے، ایسی ہی صورت پر قنیہ میں ہے:
ان النائب لایستحق شیئا من الوقف لان الاستحقاق بالتقریر ولم یوجد۳؎۔
بیشک نائب وقف میں سے کسی شیئ کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ استحقاق تو مقر رکرنے سے ہوتا ہے جو پایا نہیں گیا۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ القنیۃ کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۰۸)
(العقود الدریۃ بحوالہ بحرالرائق کتاب الوقف الباب الثالث ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۲۲۵)
پس صورت ثانیہ میں کہ اجارہ فاسد ہے آپ ہی ہر وقف اختیار فسخ ہونا درکنار خود وجوب فسخ ہے کہ اجارہ فاسدہ معصیت ہے اور معصیت کا ازالہ فرض، یہاں تک کہ اصل و نائب باہم فسخ نہ کریں تو حاکم پر فرض ہے کہ جبراً اسے فسخ کرد ے
کما عرف ذٰلک فی البیوع
(جیسا کہ بیوع میں معلوم ہوچکا ہے۔ت)
درمختار میں ہے:
ولذالایشترط فیہ قضاء قاض لان الواجب شرعا لایحتاج للقضاء درر۱؎۔
اسی واسطے ا س میں قضا قاضی شرط نہیں کیونکہ جو شرعاً واجب ہو وہ قضاء کا محتاج نہیں ہوتا، درر۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع باب البیع الفاسد مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۸)
اور صورت اولٰی میں جبکہ عام رواج یہی ہے کہ کوئی مدت اجارہ معین نہیں کی جاتی کہ سال بھر کیلئے تجھے امام کیا یا چھ مہینے کے لئے بلکہ صرف امامت اور اس کے مقابل ماہوار اتنا پانے کا بیان ہوتا ہے تو اجارہ صرف پہلے مہینے کےلئے صحیح ہوا اور ہر سرماہ اجیر ومستاجر ہر ایک کو دوسرے کے سامنے اس کے فسخ کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔
درمختار میں ہے:
اجر حانوتا کل شھر بکذاصح فی واحد فقط وفسد الباقی لجہالتھا واذا مضی الشھر فلکل فسخھا بشرط حضور الاخر لانتھاء العقد الصحیح۲؎۔
دکان کرایہ پر دی کہ ہر ماہ اتنا کرایہ ہوگا تو فقط ایک ماہ کے لئے اجارہ صحیح ہوا باقی مہینوں میں بسبب جہالت کے فاسدہے اور جب مہینہ پورا ہوگیا تو دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی موجودگی میں اجارہ فسخ کرنے کا اختیار ہے کیونکہ عقد صحیح ختم ہوگیا(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الاجارۃ باب الاجارۃ الفاسدۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۷۸)
بہر حال اصل کو ہر سرماہ پر اس نائب کے معزول کردینے اور دوسرے کو اس کی جگہ نائب کرنے کااختیار ہے۔ مسئلہ مسئولہ سائل کا تو جواب یہ ہے اور یہاں ایک امر ضروری اللحاظ یہ ہے کہ بعض جگہ معلومات ووظائف امامت ایسے مقرر ہوتے ہیں جو شرعاً جائز یا صحیح نہیں ان کا استحقاق نہ اصل کو ہوگا نہ نائب کو بلکہ صرف اجرت مثل کا، مگر نائب ان میں بھی اصل سے اپنے لئے منازعت نہیں کرسکتا کہ وہ اسے بھی حلال نہیں صرف ا پنی اجرت مثل لے سکتا ہے۔ فلیتنبہ (پس آگاہ رہنا چاہئے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔