مسئلہ۱۵۹: مسئولہ مولوی صلاح الدین صاحب عرف حاجی دادا ساکن ضلع پشاور ۲۱ صفر ۱۳۳۰ھ
مسجد میں درخت بونا جائز ہے یانہیں؟اگر بولیا گیا تو وہ کس کی ملک شمار ہوگا؟
الجواب
مسجد میں درخت بونا ناجائز ہے اگرچہ مسجد وسیع ہو اگر چہ درخت پھلدار ہو(سوااس ضرورت کے کہ زمین مسجد سخت نمناک ہو جس کے باعث اس کی عمارت کو ضرر پہنچے ستون نہ ٹھہریں یا دیواریں پھولیں، اس لئے بوئے جائیں کہ ان کی جڑیں پھیل کر رطوبت کو جذب کرلیں)
خلاصہ میں ہے:
غرس الاشجار فی المسجد لاباس بہ اذاکان فیہ نفع للمسجد بان کان المسجد ذانزو الا سطوانات لاتستقر بدونہا وبدون ھذالایجوز اھ۱؎ ولفظ الامام ظہیر الدین بعد ذکر الحاجۃ المذکورۃ فحینئذیجوز والا فلا۲؎اھ قال فی منحۃ الخالق قولہ والا فلا دلیل علی انہ لایجوز احداث الغرس فی المسجدولاالقائہ وفیہ لغیر ذلک العذر ولو کان المسجد واسعا، ولوقصدبہ الاستغلال للمسجد۳؎ الخ۔
مسجد میں درخت لگانا جائز ہے جبکہ مسجد کے نفع کے لئے ہوجیسے زمین مسجد نمناک ہو اور درختوں کے بغیر اس کے ستون قرار نہ پکڑتے ہوں اور اس ضرورت کے بغیر درخت لگانا ناجائز ہیں اھ حاجت مذکور کے ذکر کرنے کے بعد امام ظہیرالدین نے یوں فرمایا کہ اگر یہ حاجت ہوتو جائز ورنہ ناجا ئز اھ منحۃ الخالق میں ہے فرمایا کہ امام ظہیر الدین کا قول والالاورنہ ناجائز ہے) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عذر مذکور کے بغیر مسجد میں ابتداً درخت لگانابھی ناجائز اور لگے ہوئے درختو ں کو باقی رکھنا بھی ناجائز ہے اگر چہ مسجد وسیع ہو اور اگرچہ اس سے مسجد کے لئے کرایہ لینا مقصود ہو الخ(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلٰوۃ الفصل السادس والعشرون فی المسجد مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۲۲۸)
(۲؎ بحرالرائق بحوالہ الظہیریہ کتاب الصلٰوۃ فصل لما فرغ من بیان الکراہیۃفی الصلٰوۃ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۳۵)
(۳؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلٰوۃ فصل لما فرغ من بیان الکراہیۃفی الصلٰوۃ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۳۵)
ہاں اگر درخت مسجد کے مسجد ہونے سے پہلے رکھا گیا تو عدم جواز مذکور کے تحت میں داخل نہیں کہ اس تقدیر پر یہ درخت مسجد میں نہ بویا گیا بلکہ مسجد زمین درخت میں بنائی گئی اس صورت میں اگر درخت بونے والا وہی مالک زمین وبانی مسجد ہے تو درخت مسجد پر وقف ہوگا، نہ کسی شخص کی ملک،
فی ردالمحتار یدخل فی وقف الارض مافیہامن الشجر والبناء۱؎الخ ۔
ردالمحتار میں ہے زمین کے وقف وہ درخت اور عمارت بھی داخل ہوگی جو اس زمین موقوفہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاءالتراث العربی بیروت۳/۳۷۳)
اوراگر درخت دوسرے کا ہے تو اس کی اجازت پر موقوف رہے گا اگر مسجد پر اس کا وقف تسلیم کرلے گا تو وقف ہوجائے گا ورنہ تفریغ مسجد کا حکم کیا جائے گا۔ رہا یہ کہ مسجد میں درخت بویا علماء نے فرمایا کہ درخت مسجد کے لئے ہوگا۔
ردالمحتار میں خانیہ سے ہے:
لوغرس فی المسجد یکون للمسجد لانہ لایغرس فیہ لنفسہ۲؎۔
اگر کسی نے مسجد میں درخت بویا تو وہ مسجد کاہی ہوگا کیونکہ وہ اپنے لئے نہیں ہوسکتا ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاءالتراث العربی بیروت ۳/ ۴۲۹)
ہندیہ میں ظہیریہ سے ہے:
اذا غرس شجرافی المسجد فالشجر للمسجد۳؎۔
جب کسی نے مسجد میں د رخت لگا یا تو وہ درخت مسجد کے لئے ہوگا(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الثانی عشر فی الرباطات والمقابر نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۷۴)
اسی میں محیط سے ہے:
سئل نجم الدین عن رجل غرس قالۃ فی مسجد فکبرت بعد سنین فاراد متولی المسجدان یصرف ھذہ الشجرۃ الی عمارۃ بئر فی ھذہ السکۃ والغارس یقول ھی لی فانی ماوقفتھا علی المسجد، قال الظاہران الغارس جعلھا للمسجد فلایجوز صرفھا الی البئر ولایجوز للغارس صرفھا الی حاجۃ نفسہ۴؎۔
نجم الدین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے مسجد میں پودا لگایا جو چند برس میں بڑا درخت بن گیا ،متولی مسجد کا ارادہ ہے کہ وہ اس درخت کو اسی کوچہ کے کنویں کی تعمیر میں صرف کرے، اور درخت لگانے والا کہتا ہے کہ یہ میراہے کیونکہ میں نے اس کو مسجد پر وقف نہیں کیا، تو امام نجم الدین نے فرمایا ظاہر یہ ہے کہ اگر درخت بونے والے نے مسجد کے لئے بویا تھا تو اس کو کنویں کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں اور نہ ہی بونے والا اپنی ضرورت میں اس کو صرف کرسکتا ہے۔(ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الثانی عشر فی الرباطات والمقابر نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۷۷)
درمختار میں ہے:
لوغرس فی المسجد اشجاراتثمران غرسھا للسبیل فلکل مسلم الاکل والافتباع لمصالح المسجد۱؎۔
واقف نے مسجد میں پھلدار درخت بوئے اگر تو اس نے فی سبیل اﷲ وقف کے طور پر بوئے ہیں تو ہر مسلمان کو پھل کھانا جائز ہے ورنہ ان پھلوں کو مصالح مسجد کے لئے فروخت کیا جائے گا(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۰)
ردالمحتار میں ہے:
ای وان لم یغرسھاللسبیل بان غرسھا للمسجد اولم یعلم غرضہ بحرعن الحاوی۲؎۔
یعنی اگر اس نے فی سبیل اﷲ وقف کے طور نہیں بوئے بایں طور کہ مسجد کے لئے ان کو بویا یا اس کی غرض معلوم نہیں ہوسکی، بحر بحوالہ حاوی۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۱۵)
اصل یہ ہے کہ بنایا غرس زمین وقف میں اگر متولی کرے تو مطلقاً وقف کے لئے ہے مگر یہ کہ اپنے ذاتی مال سے کرے اور بناو غرس سے پہلے گواہ کرلے کہ اپنے نفس کے لئے کرتا ہوں یا یہ کہ متولی خود واقف ہو اور وقف کے لئے اس کی نیت نہ کرے اور مسجد میں بونا دلالۃً مسجد کے لئے بونا ہے کہ کوئی مسجد میں اپنے لئے نہیں بوتا،یہ اس فرع کی تاصیل ہے،
متولی کا زمین وقف میں عمارت بنانا یا درخت لگانا وقف کےلئے ہی ہوگا جب تک وہ عمارت بنانے یا درخت لگانے سے قبل اس پر گواہ نہ قائم کردے کہ میں اپنی ذات کے لئے کررہا ہوں۔(ت)
(۳؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۳)
ردالمحتار میں ہے:
ان کان البانی المتولی بمال الوقف فوقف، سواء بناہ للوقف او لنفسہ اواطلق، وان من مالہ للوقف او اطلق فوقف الا اذاکان ھو الواقف واطلق فھولہ کمافی الذخیرۃ وان من مالہ لنفسہ واشھدانہ لہ فہو لہ کما فی القنیۃ والمجتبٰی، وان لم یکن متولیا فان بنی باذن المتولی لیرجع فوقف، والا فان بنی للوقف فوقف، وان لنفسہ واطلق فلہ رفعہ ان لم یضر۱؎۔
عمارت بنانے والااگر خود متولی ہو اور مال وقف سے بنائے تووہ وقف کے لئے ہے چاہے وقف کیلئے بنائے یا اپنے لئے بنائے یا مطلق رکھے، اور اگر اپنے مال سے وقف کے لئے بنائے یا مطلق رکھے تب بھی وقف کے لئے ہوگی ہاں اگروہ خود واقف ہو اور مطلق رکھے تو وہ اس کے اپنے لئے ہوگی (ذخیرہ) اور اگر اس نے اپنے مال سے اپنی ذات کےلئے عمارت بنائی اور اس پر گواہ بھی قائم کرلئے کہ اپنی ذات کےلئے بنارہاہوں تو وہ اسی کی ہوگی جیسا کہ قنیہ ومجتبی میں ہے۔ اگر بانی خود متولی نہ ہو تو اگر اس نے متولی کی اجازت سے عمارت بنائی تاکہ متولی سے خرچہ کارجوع کرسکے تو وہ وقف کےلئے ہے ورنہ اگر وقف کےلئے بنائی تو پھر بھی وقف ہے اور اگر اپنے لئے بنائی یا مطلق رکھی تو اس کو اٹھانے کا اختیار ہے جبکہ وقف کو نقصان نہ پہنچے (ت)
( ۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۲۹)
اشباہ میں ہے:
وان اضرفہو المضیع لما لہ فلیتربص الٰی خلاصہ۲؎۔
اور اگر اس کو اٹھالےجانے میں وقف کو نقصان ہے تونہ اٹھانے دیں گے کیونکہ اس نے اپنا مال خود ضائع کیا اب وہ انتظار کرے یہاں تک کہ وہ عمارت وقف سے خلاص ہوجائے۔(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۰۳۔۳۰۲)
اقول: مگر یہ بنا وغرس جائز میں ہے ناجائز کےلئے حکم ہدم وقلع ہے،
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس لعرق ظالم حق۳؎
(عرق ظالم کا کوئی حق نہیں۔ت)
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الحرث والمزارعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۱۴)
(سنن ابوداؤد کتاب باب احیاء الموات آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۸۱)
(السنن الکبرٰی کتاب الغصب باب لیس لعرق ظالم حق دارصادر بیروت ۶/ ۹۹)
درمختار میں ہے:
لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضرلانہ من المصالح اما لو تمت المسجدیۃ ثم ارادالبناء منع، ولو قال عنیت ذٰلک لم یصدق تاتارخانیۃ، فاذاکان ھذا فی الواقف فکیف بغیرہ، فیجب ھدمہ ولو علی جدارالمسجد۱؎۔
اگر واقف نے مسجد کے اوپر امام کا حجرہ بنادیا تو جائز ہے کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے لیکن تمام مسجدیت کے بعد اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو اسے روکا جائے گا اگرچہ وہ کہے کہ میرا شروع سے یہ ارادہ تھا، تو اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، تاتارخانیہ۔ جب خود واقف کا یہ حکم ہے توغیر واقف کو کیسے اجازت ہو سکتی ہے لہذا ایسی عمارت کو گرادینا واجب ہے اگرچہ وہ مسجد کی دیوار پر ہو۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۹)
ردالمحتار میں ہے:
فی فتاوی قاری الھدایۃ استاجردارا وقفا، وجعلھاطاحونا ان لم یکن انفع ولااکثر ریعا الزم بھدم ماصنع۲؎اھ مختصراً۔
فتاوٰی قاری الہدایۃ میں ہے کہ ایک شخص نے مکان وقف کو کرایہ پر لے کر اس میں آٹا پیسنے کی چکی بنادی اگروہ وقف کےلئے زیادہ نفع وخوبی کا حامل نہیں تو جو کچھ اس نے بنایا اس کو گرانے پر مجبور کیا جائے گا اھ مختصراً(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت۳/ ۴۲۴)
اور ہم بیان کرچکے بلا ضرورت مذکورہ مسجد میں پیڑبونا جائز نہیں
لشغلہ موضع الصلٰوۃ ولشبہ البیع والکنائس
(کیونکہ اسطرح نماز کی جگہ بھی مشغول ہوگی اور گرجا اور کلیسا سے مشابہت بھی ہوگی۔ت) اور یہ کہ اس کا باقی رکھنا جائز نہیں تو یہ فروع خانیہ صورت جواز پر محمول ہوں گی۔
کیا تو نہیں دیکھتا کہ وہ ممنوع ہے جبکہ وقف عبادت ہے اور اس کو اکھاڑنا لازم، جبکہ وقف کو ہمیشہ باقی رکھنا لازم ہے، یہ دونوں دلیلیں ہیں اس پر کہ وہ مسجد کےلئے نہیں(ت)
اور فرع مذکور بحر وحاوی ودرمختار فنائے مسجد میں غرس پر بھی محمول ہوسکتی ہے اور اگر ثابت ہوکہ فنائے مسجد میں بونا بھی دلالۃً مسجد میں بونا بتاتا ہے تو جملہ فروع مذکورہ کا یہ دوسرا عمدہ محمل ہے