Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
50 - 112
مسئلہ ۱۵۶: ازمارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ مسئولہ جناب سید علی شاہ حسن میاں صاحب غرہ ماہ مبارک ۱۳۲۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد مسقف میں شدت گرما کے سبب مصلیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور پسینہ کی کثرت وحبس کی وجہ سے ادائے فرض میں نقصان اور خلل ہوتا ہے ایسی حالت میں اس کے انسداد کےلئے اگر مسجد میں سقفی بادکش لٹکایا جائے تو یہ بھی جو بحالت معذوری ومجبوری کیا گیا ہے خلاف آداب مسجد ومنافی احکام شریعت تو نہ ہوگا؟بینواتوجروا۔
الجواب

موسم گرما ہمیشہ سے آتا ہے اور عرب شریف میں آتا تھا ارو مکہ معظمہ میں گرمی یہاں سے سخت تر تھی اور ہے، اس میں نہ کوئی معذوری ہے نہ مجبوری، ورنہ ہر زمانے اور ہر مقام میں اس کا علاج ملحوظ ہوتا کہ انسان سے معذور ومجبور کبھی نہیں رہا جاتا، نماز عبادت وبندگی ہے اور بندگی کمال تذلل وفروتنی، نہ کہ مخدوم بننااور عین دربار بے نیازمیں خادم کو مقرر کرنا کہ ہم کو پنکھا جھلے کچہریوں میں جو فرشی پنکھے ہوتے ہیں اس میں اصل مقصود حاکم ہوتا ہے کہ خود وہ ایک عاجز ومحتاج ہے جسے گرمی سردی سب ستاتی ہے بلکہ اور بہت سے جفا کشوں کی نسبت وہ زیادہ محتاج ہے پنکھا اس کے لئے لگاتے ہیں خادم اس کے لئے کھینچتا ہے حاضرین بالطبع اس سے ہوا پاتے ہیں اس سبب سے وہ بے ادبی خلاف ادب دربار نہیں گناجاتا ۔یوں نہ دیکھئے  بلکہ یوں کہ کوئی شخص دربار شاہی میں حاضر ہو اور اپنا خادم مقرر کرے کہ بادشاہ کے سامنے مجھے دستی جھل، کیا اسے بے ادب نہ کہا جائےگا؟بیشک کہا جائے گا، اور اب مسئلہ میں قدرے زیادہ بیان اور ادائے فرض میں عذر خلل ونقصان کا جواب   فقیر کے فتاوٰی میں ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۵۷: ازاحمد آباد     محلہ پانچ پیلی تاجپور ۱۴رمضان ۱۳۲۹ھ
ایک مسجد جنگل میں ہے جس کی تولیت چھیپوں کی جماعت کرتی ہے اور وہ منہدم ومسمار ہوگئی ہے اور اس کی صرف ایک محراب ہی باقی ہے اور اس مسجد کے تمام پتھر لوگ چرالے گئے، اب اس صورت میں وہ محراب دوسری مسجد میں لگانا جائز ہے یانہیں؟
الجواب

جبکہ اس مسجد شہید شدہ کا آباد کرنا فرض ہے ناممکن ہوگیا ہو اور اس کی طرف کوئی راہ میسر نہ ہو اور چور اس کے مال پر دست درازی کررہے ہیں تو ایسی صورت میں اس ضرورت میں اس کی محراب دوسری مسجد میں لگادینے کی اجازت ہوگی
کما بینہ العلامۃ الشامی فی ردالمحتار وفصلناہ فی فتاوٰنا
 (جیسا کہ علامہ شامی نے اس مسئلہ کو ردالمحتارمیں بیان فرمایا اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کا مفصل ذکر کیا ہے۔ت)واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۵۸: ازالہ آباد بنگلہ نمبر۱۶مہابلی پر شاد سود اگر پناہی مرسلہ حاجی منشی محمد ظہور صاحب جوہری بریلوی ۱۷صفر مظفر ۱۳۳۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ مسجد میرے مورثان نے بغرض نماز اپنے اور اپنے خاندان کے باستثناء عورات کے بنوائی اور اس کے ساتھ متصل اس کے اپنا مکان بنوایا اور ایک طرف کی کڑیاں مسجد کے ایک سمت کی دیوار پر اسی وقت میں رکھ لیں اب تیس سال ہوئے جو اس نے اجازت عام نمازیوں کو واسطے نماز کے دے دی اب نماز پنجگانہ اور نماز عیدین ہوتی ہے اب اس کی اولاد میں ایک شخص نے اپنے مکان کی نیچی چھت کوڈیڑھ گز اونچاکیا اور وہاں کڑیاں یا شہتیر اٹھاکر دیوار پردیوار کو بلند کرکے ڈال لیں اور بجائے ایک کھڑکی کے دو کھڑکی جانب مسجد اضافہ کی اور دیوار کو اونچا کرکے سائبان ٹین کا اپنی طرف کو ڈال لیا جس کا مگر مسجد کے دیوار پر رہا(خلاصہ) جب خانہ خدا وہ مسجدعام نمازیوں کے واسطے وقف ہوگئی تو وہ دیوار مسجد جس پر کڑیاں یا شہتیر رکھا ہو اور دو مینار بھی اسی دیوار پر ہوں تو وہ دیوار بھی وقف ہوئی یانہیں اور اس دیوار سے کڑیاں اٹھاکر اور دیوار بلند کرکے پھر دوبارہ کڑیاں رکھنے یا دیوار مسجد پر دیوار بنانے یا اضافہ کرنے کا کوئی حق ہے یانہیں وارثان بانی مسجد کو ازروئے شرع شریف، اور وہ حق یا تعلق جوبانی مسجد نے رکھا تھا بعد علیحدہ کرنے کے باقی رہا یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

وہ مسجد روز اول سے عام مسلمانوں کے لئے خانہ خدا ہوگئی خاص ایک قوم کےلئے نیت کرنے سے خاص نہیں ہوسکتی نہ بانی کو اس میں اپنے لئے کوئی حق یا تعلق رکھنے کااختیار ہے،
فتاوٰی عالمگیری جد ۳ص۱۳۷میں ہے:
اتفقواعلی انہ لواتخذ مسجدا علی انہ بالخیار جاز الوقف وبطل الشرط کذافی مختار الفتاوی، فی وقف الخصاف اذا جعل ارضہ مسجداوبناہ واشھدان لہ ابطالہ وبیعہ فہو شرط باطل ویکون مسجدا کما لو بنی مسجدا لاھل محلۃ وقال جعلت ھذا المسجد لھذہ المحلۃ خاصۃ کان لغیراھل تلک المحلۃ ان یصلی فیہ ھکذافی الذخیرۃ۱؎۔
یعنی سب علماء کا اتفاق ہے کہ اگر مسجد بنائی اس شرط پر کہ مجھے اختیار رہے تو مسجد صحیح ہوگئی  اور وہ شرط جو لگائی باطل و بے اثر ہے، ایسا ہی مختار الفتاوٰی میں ہے۔ وقف خصاف میں ہے جب اپنی زمین کو مسجد کیا اور مسجد تعمیر کی اور لوگوں کو گواہ کرلیا کہ اس کا باطل کرنا اور بیچنا مجھے جائز ہوگا تو یہ شرط باطل ہے اور وہ مسجد ہوجائیگی اسی طرح اگر مسجد کسی محلہ والوں کے لئے بنائی اور کہا کہ میں نے خاص اس محلہ والوں کےلئے اسے مسجد کیا تویہ شرط بھی باطل ہے اور وہ عام مسجد ہوجائیگی ہر شخص کو اس میں نماز کا اختیار ہوگا اگرچہ وہ غیر محلہ کا ہو۔ذخیرہ میں یونہی ہے۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۵۸۔۴۵۷)
اور جب وہ دیوار مسجد کی ہے خود بیان کرنے والا کہہ رہا ہے کہ مسجد کی دیوار پر کڑیاں رکھ لیں اور اس دیوار پر مسجد کے دو منارے ہونا روشن دلیل ہے کہ وہ مسجد کی دیوار ہے تو اس دیوار کے وقف و مسجد ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے، بانی مسجد کو حرام تھا کہ مسجد کی دیوارپر اپنی کڑیاں رکھے، یوں ہی اس وارث نے جو تصرفات مذکورہ کئے سب حرام ہیں، اور واجب ہے کہ کڑیاں اتاردی جائیں اور ٹین جدا کر دیا جائے، مسجد کی دیوار ان تصرفات سے پاک کردی جائے۔
درمختارمطبع قسطنطنیہ جلد ۳ص۵۷۳ میں ہے:
لو بنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح امالوتمت المسجدیۃ ثم ارادہ البناء منع ولو قال عنیت ذٰلک لم یصدق تاتارخانیۃ فاذاکان ھذا فی الواقف فکیف بغیرہ فیجب ھدمہ ولو علی جدارالمسجد۱؎۔
یعنی اگر مسجد کی چھت پر امام کے لئے گھر بنایا تو نقصان نہیں کہ یہ بھی مصالح مسجد سے ہے مگر مسجد پوری ہونے کے بعد اگر امام کےلئے بھی گھر بنانا چاہے گا نہ بنانے دیں گے اور اگر کہے گا میری پہلے سے یہی نیت تھی جب بھی نہ مانیں گے۔ تاتارخانیہ میں ہے تو جب یہ حکم خود بانی مسجدپر ہے تو دوسرے کا کیاذکر، تو اس کا ڈھادینا واجب ہے اگرچہ مسجد کی فقط دیوار ہی پر کچھ بنایا ہو۔
 (۱؎ درمختارکتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی   ۱/ ۳۷۹)
بحرالرائق مطبع مصر جلد ۵ص۲۷۱ میں ہے:
اذاکان ھذافی الواقف فکیف بغیرہ فمن بنی بیتا علی جدارالمسجد وجب ھدمہ۲؎۔
یعنی جب خودبانی مسجد کو ممانعت ہے تو غیر بانی کیا چیزہے تو جو شخص مسجد کی دیوار پر کوئی عمارت بنائے اس کا ڈھادینا واجب ہے۔
 (۲؎ بحرالرائق     کتاب الوقف  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۵/ ۲۵۱)
ردالمحتار مطبع استنبول جلد ۳ص۵۷۳میں ہے:
نقل فی البحر قبلہ ولایوضع الجذع علی جدار المسجد وان کان من اوقافہ اھ قلت وبہ علم حکم مایصنعہ بعض جیران المسجد من وضع جذوع علی جدارہ فانہ لایحل ولودفع الاجرۃ۳؎۔
یعنی بحرالرائق میں اس سے پہلے نقل فرمایا ہے کہ مسجد کی دیوار پر کڑی نہ رکھی جائے اگرچہ وہ کڑی خود مسجد ہی کی کسی وقفی مکان کی ہو اور یہیں سے معلوم ہوا کہ مسجد کے زیر سایہ رہنے والے بعض لوگ جو مسجد کی دیوار پر کڑیاں رکھ لیتے ہیں یہ حرام ہے اگرچہ وہ کرایہ بھی دیں جب بھی اجازت نہیں ہوسکتی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ ردالمحتار    کتاب الوقف  داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۱)
Flag Counter