مسئلہ۱۱: ازمقام کول مانک چوک مسئولہ زوجہ عبدالرشید خاں۲۲شعبان ۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک کسبی تائبہ کو کچھ جائداد پاک بعوض دین مہر کے ملی ہے یہ اس کے تئیں وقف کیا چاہتی ہے اور متولی خود اپنی حیات میں آپ ہوناچاہتی ہے اور بعد کو دوسرے کو کیا چاہتی ہے، آیایہ وقف کرسکتی ہے یانہیں؟ مگر اس جائداد میں ایک قید یہ لگی ہے کہ حین حیات اس نے پائی ہے بعد کو جس سے ملی ہے اسی پر عود کرے گی تو اس صورت سے وقف دوامی کرسکتی ہے یانہیں؟اور دوامی نہ کرسکے توحین حیات اپنی وقف کرسکتی ہے یانہیں؟اور حین حیات وقف کرکے کسی دوسرے کو متولی کرسکتی ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔(بیان کیجئے اجر پائیے۔ت)
الجواب
جائداد مہر میں دینا ہبہ بالعوض ہے اور ہبہ بالعوض ابتداءً و انتھاءً ہر طرح بیع ہے، اور بعد وفات شرط واپسی شرط فاسد ہے، اور بیع شروط فاسدہ سے فاسد وحرام ہوجاتی ہے، اس کا فسخ کرنا بائع ومشتری دونوں پر فرض ہوتا ہے، اور ان میں کسی کے مرنے سے یہ حکم فسخ زائل نہیں ہوتا، اگر نہ فسخ کریں تو گنہگار رہتے ہیں اور عقد فاسد سے جوجائداد خریدی جائے مشتری اگرچہ بعد قبضہ اس کا مالک ہوجاتا ہے مگر وہ ملک خبیث ہوتی ہے اس کا ازالہ واجب ہوتا ہے، علماء کو اختلاف ہے کہ اسی حالت پر اگر مشتری اسے وقف کردے تو وقف صحیح ولازم ہوجائے گا صرف واقف کے ذمہ اس عقد فاسد کو فسخ نہ کرنے کا گناہ رہے گا جوبے توبہ نہ جائے گا یا وقف ہی مسلم نہ ہوگا بلکہ توڑ دیاجائے گا اور وہ شیئ بائع یا اس کے ورثہ دی جائے گی جب تک واقف نے اس میں تعمیر وغیرہ زیادت سے حق فسخ کو زائل نہ کردیا ہو۔
درمختار وردالمحتار ومنح الغفار وغیرہ میں قول اول اختیار کیا اور اصح اور ظاہر الروایۃ قول ثانی ہے،
کما حققنا کل ذٰلک فیما علقنا علی ردالمحتار من اوّل کتاب الوقف فراجعہ فانہ مھم۔
جیسا کہ ردالمحتار کی کتاب الوقف کے ابتداء میں حاشیہ پر ہم نے اس کی تحقیق کی ہے، لہذا اسے دیکھاجائے کیونکہ ضروری بحث ہے(ت)
بہر حال اس وقف میں عورت کے لئے خیر نہیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ عقد یعنی معاوضہ مہر میں جائداد کا لینا فسخ کرے اور از سرنو وارثان شوہر سے مہر کا مطالبہ کرے، اگر اداکردیں فبہا ورنہ اس جائدادسے وصول کرے، اور اگر سمجھے کہ یوں نہ ملے گا اور مقدار مہر قیمت جائداد سے زائدیامساوی ہوں تومذہب مفتٰی بہ بطور خود اس جائداد کو اپنے مہر میں لے لے ۔
وھی مسئلۃ الظفر بخلاف جنس الحق وقد حققھا فی ردالمحتار وان الفتوی الاٰن علی جوازالاخذ۔
یہ کسی کے پاس اپنے حق پر خلاف جنس کے ذریعہ کامیابی کی بحث ہے، اس کی تحقیق ردالمحتار میں کی ہے اور موجودہ دورمیں جبراً لے لینے کے جواز پر فتوٰی ہے (ت)
یوں مالک ہوکر وقف تام ابدی کرے وقف کسی وقت خاص تک مقید نہیں ہوسکتا
لان من شرطہ التابید
(کیونکہ اس کی شرائط میں سے دائمی قرار دینا ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۲:ازمارہرہ مطہرہ مرسلہ حضور میاں صاحب قبلہ۱۹ربیع الآخر ۱۳۲۳ھ
زید اپنی جائداد مقبوضہ مملوکہ کو وقف کیا چاہتا ہے مگر جائداد پر قرضہ ہے تو بغیرادائے قرضہ وقف ہوسکتی ہے یانہیں، اور اگر وقف میں یہ قید لگا دیں کہ وقف بالفعل صحیح ہوجائے اور نفاذا س کا بعدا دائے قرض کے سمجھا جائے توصحیح ہوجائے گا یا بعد ادائے قرضہ ہی صحیح ہوگا؟
الجواب
عرف عوام میں جائداد پر قرضہ کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ جائداد رہن ہو مرتہن کے قبضہ میں دے دی گئی ہو، دوسرے جسے وہ مکفول و مستغرق کہتے ہیں کہ جائداد قبضہ مالک ہی میں رہے مگر وہ دائن کو لکھ دے کہ یہ تیرے دین میں مکفول ہے تاادائے دین کہیں بیع ہبہ وغیرہ انتقالات نہ کئے جائیں گے، یہ صورت ثانیہ توشرعاً محض باطل وبے اثر ہے کہ مال کوکسی کے حق میں اس کے استیفا کےلئے محبوس کردینا رہن ہے اور رہن بے قبضہ تمام نہیں ہوسکتا،
قال تعالٰی:فرھٰن مقبوضۃ۱؎
(اﷲ تعالٰی نے فرمایا: تو گروی قبضہ میں دیا ہوا۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم۲/ ۲۸۳)
اگریہی صورت ہے جب تو وقف بلاشبہہ صحیح وتام نافذ ہے اگرچہ قرضہ ادا نہ کرے نہ آئندہ ادائے قرض کے لئے اس کے پاس کچھ مال بچے اگرچہ اس نے وقف میں یہ نیت بھی رکھی ہوکہ دائن کا دین ماراجائے اگرچہ وہ اس نیت فاسدہ سے سخت گنہگار ہوگا مگر وقف میں کچھ خلل نہیں کہ جب وہ جائداد رہن نہیں تو قرض اس کی ذات پر ہے نہ کہ جائداد پر۔ جائداد میں اس کے تصرفات مالکانہ بلامانع نافذ ہیں، اور اگر صورت اولٰی ہے یعنی جائداد قبضہ مرتہن میں سپرد کردی تو اب دو صورتیں ہیں، اگر اس کے پاس اور مال قابل ادائے قرض موجود ہے تو اب بھی وقف قبل ادائے قرض صحیح وتام نافذ ہے حاکم اس پر جبر کرے گا کہ اپنے دوسرے مال سے قرض ادا کرے مگر وقف کو ہاتھ نہیں لگا سکتا، اور اگر مال نہیں تو اس صورت میں البتہ وہ وقف برقرارنہ رہے گا حاکم اسے باطل کرکے جائداد قرض میں بیع کردے گا، یونہی اگر مدیون مذکور مرجائے تو انہیں دونوں صورتوں پرلحاظ ہوگا اور جائداد موجود ہے تو اس سے ادائے قرض کریں گے اور وقف صحیح رہے گا ورنہ توڑدیاجائے گا۔
ردالمحتار میں ہے:
فی الاسعاف وغیرہ لووقف المرھون بعد تسلیمہ صح واجبرہ القاضی علی دفع ما علیہ ان کان موسراً و ان کان معسرا ابطل الوقف وباعہ فیما علیہ اھ۔ وکذالومات فان عن وفاء عاد الی الجہۃ والابیع وبطل الوقف کما فی الفتح بخلاف وقف مدیون صحیح فانہ یصح ولو قصد بہ المماطلۃ لانہ صادف ملکہ کما فی انفع الوسائل عن الذخیرۃ قال فی الفتح وھو لازم لاینقضہ ارباب الدیون۱؎اھ ملخصاً، واﷲتعالٰی اعلم۔
اسعاف وغیرہ میں ہے مرہون چیز کو قبضہ دے دینے کے بعد اگر وقف کیا جائے تو صحیح ہے جبکہ اس کو رہن کے بدلے قرض کو اداکرنے کے لئے قاضی مجبور کریگا بشرطیکہ مالدار ہو ورنہ تنگ دست ہونے کی صورت میں قاضی وقف کو باطل کرکے اس کے ذمہ قرض کی ادائیگی میں فروخت کردے گااھ، اوریونہی اگر مرہون کو وقف کرنے پر فوت ہوجائے تو اگر قرض کی ادائیگی کے لئے مال ترکہ چھوڑا ہوتو وقف معینہ جہت پر برقرار رہے گا ورنہ فروخت کردیا جائے گا وقف باطل قرار پائیگا جیسا کہ فتح القدیر میں ہے، اس کے برخلاف مقروض شخص کا وقف کردہ بہر صورت صحیح ہے بشرطیکہ وہ تندرست ہواگرچہ وہ ادائیگی میں تاخیر کے لئے ایسا کرے کیونکہ یہ کارروائی اس کی اپنی ملکیت میں ہوئی ہے جیسا کہ انفع الوسائل میں ذخیرہ سے منقول ہے، فتح القدیر میں کہا ہے کہ مقروض کا یہ وقف لازم ہوگا قرض خواہ حضرات اس کو باطل نہیں کرسکیں گے اھ ملخصاً۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف مطلب فی وقف الراہن الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۹۵)
مسئلہ۱۳: ازقصبہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد محلہ چھجہ پور مرسلہ حافظ یارمحمد صاحب۲۶ربیع الآخر ۱۳۲۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک، زمانہ گزرا کہ زید نے ایک عالیشان پختہ مسجد چوک کے بیچ میں تیار کرائی اور گرد اسکے چوطرفہ دکانیں بنوائیں اور دکانوں کے محاصل کو ہمیشہ اپنے ذاتی تصرف میں رکھا، بعد انتقال زید کی یہ دکانیں بھی مثل اور جائداد کے ارثا اس کے اولاد کو ملیں اور ایک مدت تک یہ سلسلہ قبضے کا اس کے خاندان میں جاری رہا یعنی دکانوں کی آمدنی اور کرایہ سے خاندانِ زید کی اوقات بسر ہوتی رہی اور مسجد کے متعلق وہ آمدنی نہ تھی بعد ایک مدت دراز کے ان دکانوں کا وارث یعنی خالد نے بسبب افلاس کے ان دکانوں کو عمرو بکر کے ہاتھ فروخت کر ڈالا اب عمروبکر چاہتے ہیں کہ ان دکانوں کو واسطے اجرائے مدرسہ اسلامی کے مسلمانوں کے نام وقف کردیں کہ دینی مدرسہ جاری ہو اور مسجد کی ترمیم وقتاً فوقتاً ہوتی رہی، دریافت طلب یہ امر ہے کہ وقف جائز ہے یانہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب
جبکہ صورت واقعہ یہ ہے اور ان دکانوں کا وقف مسجد ہونا ثابت نہیں بلکہ ملک (میراث زید ہونا ثابت ہے تو عمرو بکر کہ وارث شرعی سے بروجہ شرعی مشتری ہوئے اگروہ مسجد ومدرسہ دینیہ اسلام کے نام انہیں وقف کریں گے جس میں تعلیم دین متین مطابق مذہب اہل سنت وجماعت ہو اور اس کے مدرسین واراکین وہابیہ یاروافض یا غیر مقلد نیچری وغیرہم ضالین نہ ہوں) تو ان کے لئے اجرعظیم وصدقہ جاریہ ہے سالہا سال گزر گئے ہوں قبر میں ان کی ہڈیاں بھی نہ رہی ہوں ان کو بعونہٖ تابقائے مسجد و مدرسہ وجائداد برابر ثواب پہنچتارہے گا،
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلٰث صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ اوولد صالح یدعولہ۱؎۔ رواہ مسلم فی صحیحہ والبخاری فی الادب المفرد وابوداؤد والترمذی والنسائی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ وفی الباب احادیث کثیرۃ شہیرۃ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
جب انسان فوت ہوجائے تو اس کے عمل منقطع ہوجاتے ہیں مگر تین وجہ سے جاری رہتے ہیں:صدقہ جاریہ یا نافع علم یاصالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے اس کو مسلم نے اپنی صحیح میں اور بخاری نے ادب مفرد میں، اور ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور اس باب میں کثیراحادیث مشہورہ ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم(ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الوصیۃ باب مایلحق للانسان من الثواب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۴۱)
مسئلہ۱۴: مسئولہ احمد حسن طالب علم بنگالی بروز دوشنبہ ۲۵ربیع الاول شریف ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے برائے منفعت عوام ایک تالاب بنوایا اور اسے وقف کردیا اور اس کے زمانہ حیات میں لوگ عام طور سے تاریخ معینہ پر شکار کرتے اور ہمیشہ غسل وغیرہ کرتے جیسا کہ تمام تالابوں سے نفع حاصل کیاکرتے ہیں بعد اسکی موت کے بھی عرصہ تک یہی طریقہ جاری رہا پھر ایک مدت کے بعد ایک غیر شخص نے جو اس کے خاندان سے بھی نہیں ہے اپنے زمیندار کے بندوبست میں اپنی جانب منسوب کرلیا اب اس نے اپنے واسطے اس تالاب کو مخصوص کرلیا اب دوسرا شخص کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھاسکتا تو اس بارے میں کیا حکم ہے،آیا اس کاقبضہ صحیح ہے یانہیں اور کیا ہونا چاہئے؟
الجواب
اگر حالت یہ ہے جو سوال میں مذکور ہوئی تو اس کا قبضہ باطل ہے، شکار کرنا کوئی قربت نہیں نہ تفریح کا نہانا، تو اس تالاب کے وقف ہونے میں کلام ہے بخلاف حوض مساجد کہ وضو کے لئے وقف ہے، ظاہراً وہ وارثان بانی کی ملک ہے جیسا وہ ہونا چاہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔