کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص محض بغرض نفسانیت اور عداوت اور ضرر مسجد مقیم(یعنی جو پہلے بنی ہوئی ہو) مسجد بنائے وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے یانہیں؟اور ایسی مسجد بنائی جائے یانہیں؟
الجواب
ھو اﷲتعالٰی اعلمھم بالحق والصواب،
بلاشبہ جو مسجد بغرض نفسانیت وعداوت کے وضررمسجد قدیم کے تیار کی جائے حکم مسجدضرار رکھتی ہے اور ایسی مسجد کی بناء موجب ثواب نہیں بلکہ موجب نکال ہے،
چنانچہ تفسیر مدارک وکشاف میں اس آیت کے نیچے مرقوم ہے:
والذین اتخذوامسجداضراراوکفراوتفریقا بین المؤمنین وارصادالمن حارب اﷲ ورسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الاالحسنی واﷲ یشھد انھم لکٰذبون۱؎۔
اور جنہوں نے بنائی ہے ایک مسجد ضدپر اور کفر پر اور پھوٹ ڈالنے کو مسلمانوں میں،اور تھانگ اس شخص کی جو لڑرہا ہے، اﷲ سے اور رسول سے آگے کا اور اب قسمیں کھائیں گے کہ بھلائی چاہتے تھے اور اﷲ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۰۷)
قیل کل مسجد بنی مباھاۃ اوریاء او سمعۃ او لغرض سوی ابتغاء وجہ اﷲاوبمال غیر طیب فھو لاحق بمسجد الضرار انتہی۲؎۔
کہا گیا ہے کہ جو مسجد بھی تفاخر، ریاکاری، مشہوری یا طلب رضاء الٰہی کے علاوہ کسی غرض کے لئے بنائی جائے ناپاک مال سے بنائی جائے وہ مسجد ضرار سے ملحق ہوگی انتہی۔(ت)
(۲؎ تفسیر النسفی(المدارک) تحت ۹/۱۰۷ دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۱۴۵)
اور کشاف میں ہے:
عن عطاء لما فتح اﷲ الامصار علی یدعمر امر المسلمین ان یبنوا المساجدوان لا یتخذوافی مدینۃ مسجدین یضار احدھما صاحبہ۳؎انتہی۔
حضرت عطاسے مروی ہے کہ جب اﷲتعالٰی نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ بہت سے شہر فتح فرمائے تو آپ نے مسلمانوں کو مسجدیں بنانے کا حکم دیا اورفرمایا کہ ایک شہر میں دو مسجدیں نہ بنانا تا کہ ایک سے دوسری کو ضرر نہ پہنچے، انتہی (ت)
(۳؎ الکشاف (تفسیر) تحت ۹/۱۰۷ انتشارات آفتاب تہران ایران ۲/ ۲۱۴)
اور صاحب تفسیر احمدی نے لکھاہے:
فالعجب من المشائخین المتعصبین فی زماننا یبنون فی کل ناحیۃ مساجد طلبا للاسم والرسم واستعلاء لشانھم واقتداء بابائھم ولم یتاملوافی ھذہ الاٰیۃ والقصۃ من شناعۃ حالھم وسوء افعالھم۱؎انتہی۔
ہمارے زمانے کے متعصب مشائخ پر تعجب ہے کہ شہرت، رسم، اپنی رفعت شان اور اپنے آباء واجداد کی اقتداء کے لئے ہر کونے میں مسجدیں بنالی ہیں اور اس آیت کریمہ اور ان لوگوں کی بدافعالی اور بدحالی کے قصے میں غور نہیں کیا انتہی(ت)
مکرم کرم فرمایان سلمکم، وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!
عنایت نامہ مع فتاوٰی فریقین ملا، فقیر نے آپ کے فرمانے سے یہاں کے فتوے پر مکرر نظر کی اور اس طرف کے فتاوٰی کو بھی دیکھا جو یہاں سے لکھا گیا خالص حق وصحیح ہے اس میں بحمداﷲ تعالٰی کسی کی طرف داری نہیں حکم شرعی بیان کیا ہے کسی کے مخالف موافق ہو اس سے بحث نہ کی نہ کی جاسکتی ہے کیا آپ نے اس میں یہ لفظ نہ دیکھے کہ چھوٹی جماعت والے اگر خوف نزاع وجدال وغیرہ کسی مصلحت شرعیہ کے باعث دیوار توڑ کر مسجدیں ایک کرنے سے انکار کریں تو ان پر جبر بھی نہیں پہنچتا، کیا آپ نے اس میں یہ لفظ نہ دیکھے کہ بہرحال چھوٹی جماعت والوں کے انکار سے ان کی مسجدمیں نماز ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ان عبارات کو دیکھ کر آپ حضرات نے فریق اول کی طرفداری سمجھی، ان عبارات کو دیکھ کر وہ فریق آپ کی طرفداری سمجھے، خلاصہ یہ ہوگا کہ دونوں فریق کی طرفداری ہے یعنی کسی کی طرفداری نہیں صرف بیان حکم سے غرض ہے والحمد ﷲرب العٰلمین۔ اور یہ الزام کہ آپ ہر دو جانب کی گفتگو نہیں سنتے ایک ہی طرف کی بات سن کر حکم لگانا ناانصافی ہے اگر آپ انصاف فرمائیں تو یہ الزام محض بے اصل ہے یہاں فتوٰی دیا جاتا ہے دار القضا نہیں کہ فریقین کے بیان سننا تحقیقات امر واقع کرنا لازم ہو، مفتی تو صورت سوال کا جواب دے گا اس سے اسے بحث نہیں کہ واقع کیا ہے ،نہ فریقین کا بیان سننا اس پر لازم نہ اس کا کام ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سوال اگر ظاہر البطلان ہوتو اس کا جواب نہ دے اور دے تو اس کی غلطی ظاہر کردے تاکہ وہ اپنے فتوے سے باطل کا مدد گار نہ بنے، یہاں بحمدہٖ تعالٰی اس کا لحاظ رہتا ہے جس سوال پر بریلی سے جواب گیا اس میں کوئی امر ایسا نہ تھا کہ صورت سوال کو غلط سمجھا جاتا مگر افسوس کہ اس طرف کے فتووں میں اس امر اہم کا لحاظ اصلاً نہ ہوا، ان کے سوالوں میں صورت یہ فرض کی تھی کہ دوسری مسجد کی بناء ضد سے کہ آپس میں تفرقہ ہواور اگلی مسجد کی آبادی میں فرق آئے محض نفسانیت وعداوت وضرر مسجد قدیم کے لئے بنائی ہے، ظاہر ہے کہ یہ بنانے والوں کے قلب پر حکم تھا کہ ان کی نیت یہ ہے اور نہ صرف یہ بلکہ صرف یہی ہے، حالانکہ نیت کا جاننا اﷲ عزوجل کا کام ہے اور مسلمان پر بدگمانی سخت حرام ہے تو مفتی صاحب کا منصب نہ تھا کہ اس صورت باطلہ کی تقدیر مان کر مسجد کے بنانے کو موجب عذاب ٹھہرائے اور حاکم وقت کو معاذاﷲخانہ خدا کے ڈھانے پر ابھارے، ایسی جگہ صرف صورت پر حوالہ کا حیلہ یا اس کہدئیے کی آڑ جو چیز ایسی ہے اس کاحکم یہ ہے اہل عقل وعلم واقعات حال زمانہ کے نزدیک ہرگز کافی نہیں جبکہ صراحۃً معلوم ہے کہ ایک فریق بناواقفی حکم شرع وہ صورت گمان یا فرض کرکے فتوے لینا چاہتا ہے جس کے فرض وگمان کا شرعاً اسے اصلاً حق نہیں، نہ دوسرے کو جائز کہ اس کی بدگمانی مقرر رکھے،
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں پر اچھا گمان کرتے(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۱۲)
اور وہ اپنے اس فرض باطل کے ایک فریق مسلمان کو بذریعہ فتوٰی ضرر پہنچانا چاہتا ہے تو صرف اس صورت کا حکم بتانا اور اس کا حکم نہ بتانا صراحۃً باطل کو مدد دینا ہے جوایک جاہل مسلمان کے لائق بھی نہیں مفتی تو مفتی،
ومن لم یکن عالما باھل زمانہ فھو جاھل۲؎۔
جو اپنے اہل زمانہ کے احوال کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوتر والنوافل مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۹)
اور حقیقت یہ کہ نہ صرف فریق دیگر بلکہ خود اس فریق کی بھی بدخواہی ہے بلکہ اس کی بدخواہی سخت تر ہے، فریق اول کی نیت اگر صحیح ہے تو ان کے فرض باطل یا نا فہم مفتیوں کے اقوال ہائل سے اس کا کیا ضرر، مگر اس فریق کو جوبدگمانی اور مسلمانوں کو ایذارسانی کی بیماری تھی وہ مفتیوں کی تقریر وعدم انکار کے بعد پختہ ہوگئی،
فھلکوا واھلکوا وانما الدین النصح لکل مسلم۱؎۔
وہ خود ہلاک ہوئے اور دوسروں کو ہلاک کیا دین تو محض ہر مسلمان کی خیر خواہی کا نام ہے۔(ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدین النصیحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۵)
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مریض نے براہ ناواقفی اپنا مرض الٹا تشخیص کیا اور اس کےلئے طبیب سے دوا پوچھی، طبیب اگرا س کا اصل مرض جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ دوا اسے نافع نہیں بلکہ اور مضر ہوگی، تو اسے ہرگز حلال نہیں کہ الٹے مرض کی اسے دوا بتاکر اس کی غلطی کو اور جمادے اور اس کے ہلاک پر معین ہو اور یہاں اتنا کہہ دینے سے کہ مرض مسئول کی دوا یہ ہے یا جسے یہ مرض ہو اس کی دوایہ ہے، طبیب الزام سے بری نہیں ہوسکتا جبکہ وہ جانتا ہے کہ اسے نہ یہ مرض نہ یہ اس کی دوا، بلکہ یہ اس کے مرض کو اور محکم کردے گی، حاشا یہ وہی کرے گا جو یاتو خود ہی طب نہیں جانتا اور خواہی نخواہی لوگوں کا گلاکاٹنے کو طبیب بن بیٹھا یا دیدہ دانستہ مریض کی غلط تشخیص مقرر رکھ کر خلاف مرض دوادے کر اسے ہلاک کیا چاہتا ہے، دونوں صورتیں سخت بلا ہیں، ایک دوسرے سے بدتر، توصاف روشن ہوا کہ انہیں فتووں میں سخت ناانصافی اور نہ ایک فریق بلکہ دونوں کی سخت بدخواہی ہوئی اگرچہ بظاہر فریق دوم کی طرفداری نظر آئے اگر کسی ذی علم عاقل خیر خواہ مسلمان سے یہ سوال ہوتا تو وہ یوں جواب دیتا کہ بھائیواس کی بناء محض نیت پر ہے اور نیت عمل قلب ہے اور قلب پر اطلاع اﷲ عزوجل کو، تم نے کیونکر جانا کہ اس فریق نے یہ مسجد اﷲ کےلئے نہ بنائی بلکہ محض نفسانیت وعداوت واضرار مسجد سابق کا ارادہ اس کے دل میں ہے،
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
افلاشققت عن قلبہ۲؎
تونے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھا۔
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۶۸)
باہم تفرقہ کے بعد اس کی بناء سے غایت یہ کہ تفرقہ کے باب الوقف میں ہے، اور مسلمان پر بدگمانی حرام قطعی، اس بیان ضروری کے بعد چاہتا تو یہ بھی لکھتا کہ ہاں اگر دلیل شرعی سے ثابت ہو جا تا کہ ان کی نیت اضرار تھی اور اسی غرض سے انھوں نے مسجد بنائی تو ضرور اس کےلئے مسجد ضرار کا حکم ہوتا مگر حاشا اس کے ثبوت کا کیا طریقہ اور اس کی طرف راہ کیا، آپ کے سوال کا جواب یہ تھا، نہ وہ جوایرانی ودہلوی صاحب نے دیا، بہرحال فقیر آپ صاحبوں کا ممنون احسان ہے کہ اپنے نزدیک جو عیب اپنے بھائی مسلمان یعنی اس فقیر میں سمجھا اس سے مطلع فرمایا، مجھ پر فرض تھا کہ بات ٹھیک ہوتی تو تسلیم کرتا اب کہ باطل ہے اس کا بطلان آپ کو دکھادیا، ماننا آپ صاحبوں کا کام ہے، سنیوں بھائیوں کو آپس میں ایک رہنا لازم ہے، سنیوں پر دشمنان دین کے آلام کیا تھوڑے بندھ رہے ہیں کہ آپس میں بھی خانہ جنگی کریں اور نہ ہوسکے تو اتنا ضرور ہے کہ دنیوی رنجش جانے دیں
انما المؤمنون اخوۃ۱؎
بیشک تمام مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ت) پر نظر فرماکر گلے مل لیں،
(۱؎ القرآن الکریم۴۹ /۱۰)
فریق اول کو اپنی نیت معلوم ہے اور اﷲ تعالٰی اس سے زائد اس کی نسبت جانتا ہے اگر واقع میں مسجد انہوں نے محض براہ نفسانیت بقصداضرار مسجد سابق بنائی ہے تو ضرور وہ مسجد ضرار ہے اسے دور کردیں اورتائب ہوں مگر فریق دوم کو ہر گز حلال نہیں کہ مسلمانوں پر اتنی سخت بدگمانی کرکے معاذاﷲ مسجد ڈھانا چاہیں اور ایسے بے معنی ناموں کے فتووں کی آڑلیں جو اس سے زیادہ اور کیا ظلم کریں گے کہ مسجد گرانے کا حکم دیتے اور حاکم وقت کو بربادی خانہ خدا پر ابھارتے ہیں