Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
48 - 112
مسئلہ۱۵۵:  ازاحمد آباد گھیسا محلہ خماشہ مرسلہ عبدالرحمٰن صاحب مع جماعت۱۰شعبان ۱۳۲۹ھ
حضرت مولانا ومخدومنافاضل اجل عالم مولوی احمد رضاخاں صاحب!بعد آداب وتسلیمات کے آپ کی خدمت فیضدرجت میں دست بستہ ملتمس ہوں کہ یہاں احمد آباد میں اسلام رخنہ اندازہ ہورہی ہے آپ کو اﷲ عزوجل نے وارث انبیاء کیاہے واسطے اسلام میں اتفاق رکھنے کے ، بجائے اس کے اسلام میں نفسانیت کی وجہ سے نااتفاقی از حد پھیل رہی ہے، کئی فتووں پر آپ کی مہر دیکھی جس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر دو جانب کی گفت وشنید نہیں سنتے، ایک ہی طرف کی بات سن کر حکم لگانا ناانصافی ہے، خیر یہاں ایک جھگڑا پڑا ہے، مسجد ایک مدت سے بن گئی ہے اورایک مسجد اب بن رہی ہے، ہر دو جانب کے فتوے نکلے ہیں مذکور دو فتوے آپ کی خدمت اقدس میں روانہ ہیں بغور ملاحظہ فرماکر جو حکم صحیح ہو روانہ کریں، آپ کی حق تحریر آنے سے ان شاء اﷲالعزیز شرمٹ جائے ایسی امید ہے، و السلام۔
نقل فتوائے بریلی
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شہر احمد آباد میں محلہ تاجپور پانچ پیلی میں سنت جماعت چھیپوں کی جماعت میں عرصہ چند روز کا ہوا اختلاف دنیویہ کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوگئے ہیں، ایک طرف آٹھ سو گھر ہیں اور ایک طرف پچاس گھر ہیں، دونوں فرقوں نے مکان مسجد بنانے کےلئے خرید کئے، چھوٹی جماعت نے مسجد کی بنیاد ڈالنی شروع کی، ان کو بڑی جماعت کی جانب سے سمجھا یا گیا کہ تمہاری مسجد کی مغرب کی جانب بڑی جماعت کا مکان ہے، ان دونوں مکانوں کو مسجد بناؤ اور بنانے میں ہم مال کی مدد میں شریک رہیں گے، انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ ہم فی الحال مسجد بناتے ہیں اور جب مغرب کی جانب مسجد بڑی جماعت والوں کی بنے گی تو ہم بیچ کی دیوار توڑ ڈالیں گے اب بڑی جماعت کی بھی مسجد قریب تیار ہونے کے ہے، اب چھوٹی جماعت کو کہا جاتا ہے کہ بیچ کی دیوار توڑ کر دونوں مسجدوں کو ایک کردو ،اب چھوٹی جماعت کے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ بیچ کی دیوار توڑ کر دونوں مسجدوں کو ایک کرنا ناجائز ہے۔ اب علمائے اہلسنت عم فیوضہم کی خدمات عالیہ میں عرض ہے کہ بیچ کی دیوار توڑ کر دونوں مسجدوں کو ایک کرنے سے نمازیوں کوگنجائش نماز کی اچھی طرح سے ہوجائے گی اب اس صورت میں بیچ کی دیوار کو توڑ کر مسجد کو ایک کرنا جائز ہے یانہیں؟ اور مسجد کی دیوار چھوٹی جماعت والے توڑنے کا انکار کریں تو ان کی مسجد میں نماز جائز ہوگی یانہیں؟
الجواب

ہاں اہل محلہ کو اختیار ہوتا ہے کہ نماز کے لئے دو مسجدوں کو ایک کردیں، اس کو ناجائز کہنا محض غلط و باطل ہے۔
درمختار میں ہے:
لھم ای لاھل المحلۃ نصب متولی وجعل المسجدین واحد وعکسہ لصلاۃ لالدرس اوذکر فی المسجداھ۱؎۔
اہل محلہ کو اختیار ہے کہ وہ مسجد کا متولی مقرر کریں، اور یہ بھی اختیار ہے کہ دو مسجدوں کو ایک یا ایک کو دو کرلیں نماز کےلئے نہ کہ درس وذکر کے لئے اھ(ت)
 ( ۱؎ درمختار    کتاب الصلٰوۃ     باب مایفسد الصلٰوۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۹۴)
مگر چھوٹی جماعت والے اگر خوف نزاع وجدال وغیرہ کسی مصلحت صحیحہ شرعیہ کے باعث دیوار توڑ کر مسجدیں ایک کرنے سے انکار کریں تو ان پر بھی جبر نہیں پہنچتا کہ جب ایک مسجد کو دو کرلینا جائز ہے کما تقدم عن الدر ان لھم جعل مسجد واحد مسجدین(جیسا کہ در کے حوالے سے گزرا کہ ایک مسجد کو دو کرنے صرف کا اہل محلہ کو اختیار ہے۔ت) تو دو کو دو رکھنا کیونکر ممنوع ہوسکتا ہے، ہاں اگر اصلاً کوئی وجہ شرعی نہ ہو صرف ضد کے سبب تفریق جماعت کریں تو ان کی بات نہ سنی جائے گی کہ اس صورت میں وہ متعنت یعنی بے جا ہٹ کرنے والے ہیں اور متعنت کا قول مسموع نہیں ہوتا،
فی الھدایۃ وغیرہا من القسمۃ الاول منتفع بہ فاعتبر طلبہ والثانی متعنت فلم یعتبر۱؎۔
ہدایہ وغیرہ میں قسمت کے باب میں ہے کہ اول اس سے نفع حاصل کرنے والا ہے لہذا اس کا مطالبہ معتبر ہے اورثانی ہٹ دھرمی کرنے والا ہے اس کا مطالبہ معتبر نہیں(ت)
(۱؎ الہدایۃ     کتاب القسمۃ     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴/ ۴۱۱)
درمختار میں قبیل استصناع ہے:
الاصل ان من خرج کلامہ تعنتا فالقول لصاحبہ بالاتفاق۲؎۔
قاعدہ یہ ہے کہ جس کا کلام تعنت یعنی ہٹ دھرمی پر مبنی ہو اس کے مخالف کا قول بالاتفاق معتبر ہوگا۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب البیوع باب المسلم    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۴۹)
تو حسب صوابدید اکثر اہل جماعت اس دیوار فاصل کو علیحدہ کردیا جائے گا،
ردالمحتار میں ہے:
فی التتار خانیۃ سئل ابوالقاسم عن اھل مسجداراد بعضھم ان یجعلوا المسجد رحبۃ والرحبۃ مسجدااو یتخذ وا لہ بابا اویحولوا بابہ عن موضعہ وابٰی بعض ذٰلک قال اذا اجتمع اکثرھم وافضلھم لیس للاقل منعھم۳؎۔
تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابوالقاسم سے یہ سوال کیا گیا کہ بعض اہل مسجد ایک مسجد کو صحن اور صحن کو مسجد بنانا، مسجد کا دروازہ بنانااور سابق دروازے کو اس کی جگہ سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض اس کاانکار کرتے ہیں تو کیا حکم ہے، آپ نے فرمایا کہ اکثر وافضل حضرات متفق ہیں تواقل کو اختیار نہیں کہ انہیں منع کریں(ت)
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت۳/ ۳۸۳)
یوں ہی اگر اس دیوار وتعدد کے باعث اہل محلہ پر مسجدیں تنگی کرتی ہیں کہ ایک تو دیوار نے جگہ گھیری دوسرے دواماموں کے باعث کمی ہوئی کہ خود امام ایک صف کامل کی جگہ لیتا ہے اس وجہ سے اہل محلہ دونوں مسجدوں میں پورے نہیں آتے اور دیوار توڑ کر ایک جماعت کردینے سے وسعت ہوجائیگی تو اس صورت میں وہ دیوار خواہی نخواہی جدا کردی جائیگی کہ تنگی مسجد کی ضرورت سے اس کے قریب کی زمین یا مکان یا دکان مملوک بلارضا مندی مالک بقیمت لینے کا اختیار حاکم کوہے، تو مسجد کو مسجد میں ملالینا بدرجہ اولٰی،      درمختار میں ہے:
توخذارض ودار وحانوت بجنب مسجد ضاق علی الناس بالقیمۃ کرھا درر وعمادیۃ۱؎۔
مسجداگر تنگ ہوتو اس کے پہلو میں جو زمین، مکان یا دکان ہے وہ قیمت دے کر جبرامسجد میں داخل کی جاسکتی ہے، درروعمادیۃ۔(ت)
 ( ۱؎ درمختار     کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۲)
اور بہر حال چھوٹی جماعت والوں کے انکار کرنے سے ان کی مسجد میں نمازناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں خواہ ان کا انکار سنا جائے یا نہیں کہ آخر وہ مسجد ہی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کتبہ عبدالنبی نواب مرزا عفی عنہ الجواب صحیح۔واﷲ تعالٰی اعلم
16_1.jpg
نقل فتوائے دہلی
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد جس میں پنجگانہ نماز تین ماہ سے ہورہی تھی متصل اس کے اورثانی مسجد بنائی گئی اس ضد پر کہ محلہ والوں کے دو گروہ ہوجائیں اور آپس میں تفرقہ پڑجائے اور اگلی مسجد کی آبادی میں فرق آئے پس اس ثانی مسجد کے لئے کیاحکم ہے؟آیا اس میں نماز جائز ہے یانہیں اور اسکو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا جائے یانہیں؟

الجواب

صورت مسئولہ میں مسجد ضرار کا حکم رکھتی ہے یعنی اس میں نماز پڑھنا منع ہے اور حاکم وقت کو چاہئے کہ اس کو مسجد کی صورت میں نہ رہنے دے خواہ اس کو ہدم کرادیا جائے یا کوئی مکان دوسرا بنادے جیسا کہ تفسیر جامع البیان میں آیہ
والذین اتخذوامسجداضرارا۱؎
اوروہ لوگ جنہوں نے ضرر کے لئے ایک مسجد بنائی الخ۔ت) کی تفسیر میں لکھا ہے عبارت اس کی بلفظہ یہ ہے:
فلمااتموابناء ہ اتوارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حین رجع من تبوک وقال اتممنامسجد اللضعفاء واھل العلۃ واللیلۃ المطیرۃ نلتمس ان تصلی فیہ وتدعوبالبرکۃ فنزلت فی تکذیبہم فامررسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بھدمہ فھدموہ واحرقوہ (لاتقم فیہ) فی ذٰلک المسجد ابداللصلٰوۃ۲؎۔
جب انہوں نے مسجد کی تعمیر مکمل کرلی تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام تبوک سے واپس تشریف لائے اور کہا کہ یارسول اﷲ! ہم نے کمزوروں، بیماروں اور رات کی تاریکی میں نماز پڑھنے والوں کی خاطر مسجد بنائی ہے۔ہماری التماس ہے کہ آپ اس میں برکت کےلئے دعا فرمائیں، تو اﷲ تعالٰی نے ان لوگوں کی تکذیب میں یہ آیہ کریمہ نازل فرمائی، چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس مسجد کے گرانے کا حکم دیا لہذا لوگوں نے مسجد کو گراکر جلادیا، اﷲتعالٰی نے اپنے محبوب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ اس مسجد میں کبھی بھی نماز کےلئے قیام نہ فرمائیں۔(ت)
16_2.jpg
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۰۷)

(۲؎ جامع البیان     تحت آیۃ ۹/ ۱۰۷    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالا    ۱/ ۲۸۶)
Flag Counter