Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
47 - 112
مسئلہ۱۵۳: مسئولہ منشی حاجی محمد ظہور صاحب ۲۳ربیع الآخر ۱۳۲۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اہلسنت وجماعت تابع شرع دین محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیچ اس مسئلہ کے کہ ایک مسجد لب سڑک شارع عام جس کے تین طرف راستہ اور دودروازے شرقی وجنوبی متصل بازار ہے اس کے بانی جو تھے وہ جوار رحمت میں ہیں اب مرمت وسفیدی  ونگرانی اہل محلہ کرتے ہیں، چند عرصہ ہواجو ایک مسماۃ نے از قول پنجابیان اس قدر مسجد میں اور اضافہ کیا ہے یعنی ایک درجہ مع مسافر خانہ زیر وبالا وچاہ اندرون مسجد ودو غسل خانہ مسقف وسقایہ و روکا ر دروازہ مسجد بلندی مینار ہائے مع کلس طلائی واز سر نو فرش واسترکاری والماریاں وحجرہ ودکانات زیریں برائے صرف مسجد تعمیر کرائیں ملحقہ مسجد مکان ایک شخص کا ہے جس نے بعد اس نو تعمیر کے چند عرصہ کے بعد اپنے مکانات کو بلند کیااور دیوار پاکہائے مسجد پر اپنے بالاخانہ کی دیواریں اور دروازے لگائے جس میں مینار مسجد کے آگئے اور بذریعہ ایک دروازہ کے جو چھت مسجد پر ہے آمدورفت آدمیوں اور کتوں کی اکثرچھت مسجد پر رہتی ہے اور مسافر خانہ کی چھت پر اپنی کھپریل رکھ لی اور حجرہ مسجد کی چھت کو اپنے بالاخانہ کے صحن میں ڈال لیا اس شخص کو ہر چند منع کیا مگر نہ مانا، زبانی اور تحریر کے ذریعہ سے اس نے ظاہر کیا کہ یہ مسجد وقف نہیں ہے یہ مسجددار کا حکم رکھتی ہے مثل حمام اور چاہ کے میرے مورثان کی ہے اور اب میری ہے یہ مال موقوفہ نہیں ہے میری جائداد ہے حالانکہ اس مسجد میں نمازیں باجماعت پنجگانہ اور تراویح رمضان شریف وختم قرآن مجید ونماز جمعہ وعیدین بہ ہجوم نمازیان محلہ ودیگر مسلمانان مدام پڑھتے ہیں اور پابندی امامت ومؤذنی وقیام طلبا ومسافران کی رہتی ہے تو ایسی صورتوں میں یہ مسجد حکم وقف کا رکھتی ہے یا مکان کا جو وراثۃً پہنچ سکتاہے مع حوالہ کتاب وصفحہ کے جواب عطا فرمایا جائے۔
الجواب

وہ مسجد یقینا مسجد ہے، شخص مذکور کا اسے حکم دار میں بتانا اور اپنے مورثوں کی ملک ٹھہرانا ظلم و غصب ہے اور واحد قہار کی ملک دبابیٹھنا ہے جب وہ عام طور پرمسجد مشہور ہے، مدتوں سے پنجگانہ جماعتیں جمعے، عیدین، تراویح وغیرہا مثل عام مساجد ہوتی ہیں، کوئی حق ملک اس میں غیر خدا کے لئے ثابت نہیں تو اسے مسلمان تو مسلمان جو غیر مذہب والا بھی دیکھے گا مسجد ہی جانے گا، شخص مذکور کے باپ دادا کی دار ہونے کا اصلاً گمان بھی نہ کرسکے گا، صورت مسجد کی صفت مسجد کی، برتاؤ مسجد کا، شہرت مسجد کی، ایسے روشن ثبوتوں کے بعد بھی کسی غاصب کا دعوی ملکیت سن لیا جائے تو ظالم لوگ تمام جہان کی مسجدیں دبابیٹھیں، جس کے گھر کے پاس جو مسجد ہو وہ کہہ دے کہ اس کے باپ کا دار یا دادا کا حمام ہے، آج کل دو چار آنے تک گواہیاں سستی ہوگئی ہیں، آٹھ آنے میں دو گواہ دے دے، چلئے فراغت شد، اﷲ واحد قہار کی مسجد انکے باپ دادا کا ترکہ ہوگئی، تمام ہندوستان میں وہ گنتی کی کےَ مسجدیں ہیں جن کے باضابطہ وقفنامے لکھے گئے ہیں اور وہ دستاویزیں محفوظ ہوں اور ان کے شاہد موجود ہوں تو یہ وہ ظالمانہ طریقہ ہے جس سے دنیا بھر کی تمام مسجدیں ظالموں غاصبوں کا گھر بن جائیں اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو گا ،اور ظلم بھی کیسی حماقت کا جسے مسلمین تو مسلمین کوئی سمجھ وال غیر مذہب بھی قبول نہیں کرسکتا، بھلا مسجد تو مسجد ہے جس کی صورت جس کی محراب جس کے منارے وغیرہا خود دور سے گواہی دیتے ہیں کہ یہ اﷲ واحد قہار کا گھر ہے۔ تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ عام وقفوں کے ثبوت کوصرف شہرت کافی ہے پھر اس سے زیادہ اور شہرت کیا ہوگی کہ تمام مسلمان اسے مسجد جانتے ہیں، مسجد کہتے ہیں، اذانیں ہوتی ہیں، پنجگانہ جماعتیں ہوتی ہیں۔ جمعہ عیدین تراویح ختم کی امامتیں ہوتی ہیں۔ مسلمان اپنے مصارف سے اس کی مرمت، اس میں اضافہ، اس کی عمارت کرتے ہیں۔ ایسی حالت کا نام نہ سنایا پکا بے دین بے حیا جو ساری دنیا کی آنکھوں پر اندھیری ڈال کر خدا کا مال غصب کرنا چاہے، والعیاذ باﷲ تعالٰی۔
درمختار جلد۳صفحہ ۶۲۴میں ہے:
تقبل فیہ الشہادۃ بالشھرۃ حفظا للاوقاف القدیمۃ عن الاستھلاک۱؎۔
وقف میں شہادۃ شہرت بھی مقبول ہے تاکہ اوقاف قدیمہ ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸)
فتاوٰی قاضیخاں جلد چہارم ص۲۳۳میں ہے:
اذا شھد الشھود ما تجوز بہ الشھادۃ بالسماع وقالو الم نعاین ذلک ولکنہ اشتھر عندنا جازت شھادتھم۱؎۔
جب گواہوں نے ان معاملات میں گواہی دی جن میں شہادت سماعت جائزہے، اور کہا کہ ہم نے معائنہ نہیں کیا لیکن یہ ہمارے نزدیک مشہور ہے، تو ان کی گواہی جائز ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الشہادات     فصل فی الشاہد یشہد الخ    نولکشورلکھنؤ    ۳/ ۵۵۵)
فتاوٰی عالمگیریہ جلد سوم ص۱۳۷میں ہے:
وتقبل الشھادۃ فی الوقف بالتسامع وان صرحابہ لان الشاھد ربما یکون سنہ عشرین سنۃ وتاریخ الوقف مائۃ سنۃ فیتیقن القاضی ان الشاھد یشھد بالتسامع لابالعیان فاذن لافرق بین السکوت والافصاح اشار ظہیر الدین المرغینانی الی ھذاالمعنی کذافی الفصول العمادیۃ۲؎۔ملتقطا۔
وقف میں شہادت تسامع یعنی سماعت کی گواہی مقبول ہے اگرچہ گواہ سماعت کی تصریح کردیں کیونکہ بسااوقات گواہ کی عمر بیس سال ہوتی ہے اور وقف سوسال سے ہوتا ہے، چنانچہ قاضی کو یقین سے علم ہوتا ہے کہ گواہ سنی ہوئی گواہی دے رہاہے نہ کہ دیکھی ہوئی، لہذا اس صورت میں سماع سے خاموشی اور تصریح کرنے میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ظہیرالدین مرغینانی نے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ فصول عمادیہ میں ہے۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب السادس فی الدعوٰی     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۴۳۸)
فتاوٰی خیریہ جلد دوم ص۲۷میں ہے:
فی الکنز لایشھد بمالم یعاینہ الافی النسب والموت والنکاح والدخول وولایۃ القاضی واصل الوقف ومثلہ فی المختار وتنویر الابصار والکل من ھٰؤلاء اطلق فعم المتقادم وغیرہ الخ۳؎۔
کنز میں ہے کہ جب تک گواہ نے معائنہ نہ کیا ہو وہ گواہی نہیں دے سکتا سوائے نسب، موت، نکاح، دخول، ولایت قاضی اور اصل وقف کے، اور مختار وتنویر الابصار میں بھی اسی کی مثل ہے اور ان سب نے مطلق رکھا قدیم وجدید کو عام ہیں۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی خیریۃ     کتاب الشہادات    دارالفکر بیروت    ۲/ ۲۹)
ہدایہ جلد دوم ص۱۰۴و۱۰۵میں ہے:
اماالوقف فالصحیح انہ تقبل الشہادۃ بالتسامع فی اصلہ دون شرائطہ لان اصلہ ھوالذی یشتھر۱؎۔
صحیح یہ ہے کہ شہادۃ تسامع اصل وقف میں جائز ومقبول ہے نہ کہ شرائط وقف میں، کیونکہ اصل وقف ہی شہرت پذیر ہوتاہے ۔(ت)
(۱؎ الھدایۃ     کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۳/ ۵۹۔۱۵۸)
بالجملہ شخص مذکور کا قول محض مدفوع وسخت باطل و نامسموع ہے، اس پر فرض ہے کہ مسجدکے مناروں دیواروں اور اس کی اور اس کے حجرہ وغیرہ کی چھتوں کو اپنے ظالمانہ تصرفوں سے فوراً پاک کردے، جوکچھ عمارت مسجد کے پکھے وغیرہ کسی پر بنائی ہے فوراً ڈھادے، جتنی راہیں اس کے یا کتوں کے آنے جانے کی مسجد یا حجرہ مسجد کی سقف پر ہیں فوراً بند کردے، وہ نہ مانے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ باضابطہ چار ہ جوئی کرکے اس کا دست تعدی مسجد سے کوتاہ کریں اور بالجبر ان ناپاک تصرفات کو مسجد سے دور کرادیں، واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۵۴: مرسلہ حکیم سراج الحق صاحب بریلی مسجد بدرالاسلام ۲۰جمادی الآخر ۱۳۲۸ھ دوشنبہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے عرصہ ۴۵ سال سے خارج ازمسجد یعنی حوالی مسجد کی اراضی میں مکان بنالیا ہے اس میں رہتا ہے اس نے چند عرصہ سے یعنی چھ ماہ سے اس مکان میں کچھ مرغیاں کے بچے واسطے اپنے کھانے کے خرید کرکے پرورش کری جب اس کو فہمائش کی گئی تو اس نے فوراًمرغیوں کو علیحدہ کردیا اور بحضوری قلب اﷲ تعالٰی سے توبہ بھی دل سے کی، علاوہ اس کے اور جو جو الزام کہ جھوٹے ذمہ زید کے لگائے گئے تھے ان سے زید توبہ کرتا ہے، اور کہا کہ یہ محض مجھ پر جھوٹا اتہام ہے آیا اس  توبہ حضوری قلب سے نزدیک خداوند عالم کے پاک ہوگیا یا نہیں؟
الجواب

اﷲ توبہ قبول کرتا ہے اگر اس نے سچے دل سے توبہ کی ہے تو اﷲ تعالٰی کے نزدیک اس گناہ سے پاک ہوجائے گا مگر حوالی مسجد یعنی فنائے مسجد میں جدید مکان بطور خود بنالینا اور اس کو اپنا مسکن کرلینا اور وہیں پاخانہ پیشاب کرنا یہ بھی حرام ہے اس کی توبہ سچی جب ہے کہ اپنے ان تصرفات کو بھی زائل کرے اور مسجد کو گھر نہ بنائے حوالی مسجد کا حکم بھی مثل مسجد ہوتا۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
المسجد اذا جعل حانوتا او مسکنا تسقط حرمتہ وھذالایجوز والفناء تبع للمسجد فیکون حکمہ حکم المسجد کذافی محیط السرخسی۱؎۔
یعنی مسجد کو اگر دکان یا مکان بنالیا جائے تو اس کی حرمت ساقط ہوگی بے ادبی بے حرمتی ہوگی اور یہ حرام ہے اور فنائے مسجد تابع مسجد ہے تو اس کا حکم بھی مثل حکم مسجد ہے، ایسا ہی محیط امام شمس الائمہ سرخسی میں ہے۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الوقف    الباب الحادی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۶۲)
اور یہ خیال کہ بہت مساجد میں مکان پیش امام و مؤذن کی سکونت کو بنے ہوئے ہیں نفع نہ دے گا، علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد بن جانے سے پہلے اگر بانی مسجد ایسا کوئی مکان بنادے تو جائز ہے اور اس کے بعد اگر خود بانی مسجد آئے اور بنانا چاہے تو اجازت نہ دیں گے اگر چہ وہ یہ ظاہر کرے کہ اول ہی سے میری نیت اس کے بنانے کی تھی،
درمختار میں ہے:
لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضرلانہ من المصالح امالوتمت المسجدیۃ ثم ارادالبناء منع ولو قال عنیت ذٰلک لم یصدق تاتارخانیۃ فاذا کان ھذافی الوقف فکیف بغیرہ فیجب ھدمہ ولو علٰی جدارالمسجد۔۲؎واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر مسجدکے اوپر واقف نے امام کے لئے مکان بنایا تو حرج نہیں کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے لیکن جب مسجدیت تام ہوجائے پھر اس پر مکان بنانا چاہے تو اس کو منع کیا جائے گا، اگر وہ کہے کہ میں نے پہلے سے اس کا ارادہ کیا تھا تو ا سکی تصدیق نہ کی جائے گی، تاتارخانیہ۔ جب خود واقف کا یہ حکم ہے توغیر واقف کو کیسے اجازت ہوسکتی ہے، لہذا ایسے مکان کو گرانا واجب ہے اگر چہ مسجد کی دیوارپر ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۲؎ درمختار         کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹)
Flag Counter