Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
46 - 112
مسئلہ۱۵۰: ازکھٹور ضلع سورت کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسلمانان ہندوستان بہ تلاش معاش جنوبی افریقہ کے علاقہ ٹر نسوال میں جاکر آباد ہوئے، انہوں نے اس ملک میں مسجدیں بنائیں، اب وہاں کی گورنمنٹ نے ان پر طرح طرح کے ظلمی قانون نافذ کررکھے ہیں جن کی وجہ سے ان کا رہنا وہاں مشکل ہوگیا ہے، پس اگر یہ لوگ وہاں سے نقل مکان کریں تو دوسرے مذہب کے لوگ یقینا مسجدوں کے مالک بن کر ان کو اپنے تصرف میں لائیں گے، لہذا اس جگہ سے اثاث مسجد کو منتقل یا فروخت کرکے دوسری جگہ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے اس سے مسجد یں بنائی جائیں تو درست ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

اگر ٹرانسوال میں کبھی سلطنت اسلامی نہ ہوئی تھی جیسا کہ یہی ظاہر ہے یا ہوئی تھی اور پھر ایسی غیر قوم کا تسلط ہوگیا جس نے شعائر اسلام مثل جمعہ وجماعت واذان وغیرہما کی یکسر بندش کردی اگرچہ بعد کو اسی قوم یا اس کے بعد کسی اور قوم نامسلمان نے اجازت بھی دے دی ہوجب تو نہ مسلمان کو اس میں وطن بنانے کی اجازت ہے نہ وہ مسجدیں مسجدیں ہوئیں
کما بنی مسجدافی بریۃ کما فی الفتاوٰی العالمگیریۃ بل اضعف و ابطل
 (یہ تو جنگل میں مسجد بنانے والے شخص کی طرح ہوا، جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے بلکہ ان مساجد مزعومہ کا حکم تو اس سے بھی زیادہ ضعیف اور کمزور ہے۔ت) اس حالت میں بلا تکلف ان مکانات کو جنہیں مسجد سمجھے ہوئے ہیں مع زمین وعملہ سب بیچ ڈالیں اور بیچ نہ سکیں تو عملہ توڑ کر جہاں چاہیں لے جائیں یہ عملہ یا قیمت بانیوں کی ملک ہیں اور اگر اس علاقہ میں پہلے سلطنت اسلام ہوچکی تھی اور بعد کی قوموں نے کبھی جملہ شعائر اسلام کی بندش نہ کی بعض ہمیشہ جاری رہے اور اب جاری ہیں تو اس صورت میں اگر مسلمانوں کو ان میں توطن وبنائے مسجد کی اجازت تھی مگر جب حالت وہ ہے جو سوال میں مذکور ہوئی تو عملہ بیچ کر یا بعینہ دوسری جگہ لے جانے اور وہاں اس سے مسجدبنانے کی اجازت ہے،
علی مافصلہ وانقحہ العلامۃ الشامی رحمہ اﷲ تعالٰی فی ردالمحتار۱؎
وذکر ندامتہ علی افتائہ من قبل بخلاف ذلک فلیر اجع الیہ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس مسئلہ کی تفصیل و تنقیح علامہ شامی نے ردالمحتار میں فرمائی اور اس سے قبل حکم مذکور کے خلاف اپنے جاری کردی ایک فتوے پر افسوس وندامت کا اظہار کیا اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    مطلب فیما لوخرب المسجد اوغیرہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۱)
مسئلہ۱۵۱: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں، اب ج د ہ ایک مسجد ہے،ا مسجد، ب صحن مسجد، ج نالی مسجد برائے وضو، د نالی مسجد، ہ متعلق صحن مسجد۔ سوال یہ ہے کہ مقام ہ پر نماز پڑھنا اس قدر ثواب رکھتا ہے جس قدر مکان پر نماز پڑھنے سے ثواب ہے کیونکہ مقام ہ جمیع اہل محلہ کی رائے سے بڑھایا گیا ہے۔
الجواب

جبکہ وہ زمین متعلق مسجد تھی اورجمیع اہل محلہ کے رائے سے جزو مسجد کرلی گئی تو اب وہ مسجد ہوگئی اور اس میں نماز کا وہی ثواب ہے جو مسجد میں۔
فی الھندیۃ عن المضمرات عن الکنزمسجد اراد اھلہ یجعل الرحبۃ مسجدا لھم ذلک ۲؎اھ
ہندیہ میں مضمرات سے بحوالہ کنز مذکور ہے کہ ایک مسجد والوں نے چاہا کہ برآمدہ کو مسجد بنا لیں توانہیں یہ اختیار ہے۔
 (۲؎ فتاوی ہندیۃ کتاب الوقف      الباب الحادی عشر فی المسجد        نورانی کتب خانہ پشاور        ۲/ ۴۵۶)
وفیہا عن الخلاصۃ ارض وقف علی مسجد والارض بجنب ذٰلک المسجد وارادوا ان یزید وافی المسجد شیئا من الارض جاز لکن یرفعون الامرالی القاضی لیاذن لھم ومستغل الوقف کالدار والحانوت علی ھذا ۱؂اھ ومثلہ فی ش عن البحر عن الخانیۃ وفیہ عن الفتح ولوضاق المسجد وبجنبہ ارض وقف علیہ حانوت جاز ان یوخذویدخل فیہ۲؎اھ ومعلوم ان الجماعۃ کالقاضی حیث لاقاضی وفی الدرالمختار لم یختص ثواب الصلٰوۃ فی مسجدہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بماکان فی زمنہ۳؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اسی میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ایک زمین مسجد پر وقف ہوئی اور مسجد کے پہلو میں ایک وقف زمین خالی پڑی ہے مسجد والوں نے چاہا کہ اس خالی زمین کا کچھ حصہ مسجد میں شامل کرکے مسجد میں اضافہ کرلیں تو جائز ہے، لیکن وہ یہ معاملہ قاضی کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ انہیں ایسا کرنے کا اذن دے دے اور وقف آمدنی کے لئے گھر اور دکان کا بھی یہی حکم ہے اھ اور اس کی مثل ش میں بحر سے بحوالہ خانیہ ہے اور اس میں فتح سے منقول ہے کہ اگر کوئی مسجد تنگ ہے اور اس کے پہلو میں اسی مسجد کےلئے ایک وقف زمین ہے جس پر دکان بنی ہوئی ہے تو اس کو(بغرض توسیع) مسجد میں داخل کرلینا جائز ہے اھ اور یہ بات معلوم ہے کہ جہاں قاضی نہ ہو وہاں جماعت مسلمین قاضی کی مانند ہے،  اور درمختار میں ہے کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب صرف اسی مسجد کے ساتھ مختص نہیں جو عہد رسالت میں تھی۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۶)

(۲؎ ردالمحتار        کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۸۴)

(۳؎ درمختار)
مسئلہ۱۵۲: ازضلع کبرے ڈاکخانہ مونڈا سوداران مقام نجیب نگر مسئولہ سردار مجیب رحمان تعلقہ دار ۱۹شوال۱۳۲۷ھ
عالی جناب حاجی مولوی احمد رضاخان صاحب زاد فیوضکم، پس از تسلیم مسنون نیاز مشحون! گزارش مدعا یہ ہے کہ راقم نے جو مسجد جدید تعمیرکرائی اس میں ایک مختصر ساباغیچہ ہے جس میں اکثر اشجار ثمر دار ہیں اور مرچیں وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ آپ کی التماس ہے کہ براہ کرم حکم شرع شریف سے معزز فرمائیے کہ ان اشیاء کا استعمال جائز ہے یانہیں؟اگر استعمال جائزہے تو کس طریقہ سے؟جواب سے معزز کیا جاؤں۔
الجواب

خاص مسجد میں باغیچہ ہونے کے تو کوئی معنی ہی نہیں۔ اگر یوں ہے کہ جس زمین کا ایک قطعہ مسجد کیا ہے اس کے دوسرے قطعہ میں باغیچہ ہے تو اس صورت میں اگر باغیچہ مسجد پر وقف نہ کیا گیا تو وہ ملک اصل مالک پر باقی ہے اسے اختیار ہے کہ اس کے پھل جو چاہے کرے، اور اگر وہ بھی مسجد پر وقف کردیا ہے تواب اپنے صرف میں لانا اسے جائز نہیں بلکہ پھل بیچ کر مسجد کے صرف میں لائے۔ اور اگر واقف نے یہی کیا ہے کہ جس زمین میں باغیچہ ہے خود اسی کو مسجد کردیا ہے یعنی باغیچہ کو وقف علی المسجد نہ کیا بلکہ خود اس کی زمین کو مسجد کردیا تو اس کے پھل توڑ کر اپنے صرف میں لائے اور درخت کاٹ کر زمین ہموار کرکے مسجد بنائے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter