مسئلہ۱۴۹: ازریاست رامپور مرسلہ شاہ مفتاح الاسلام صاحب پانی پتی ۹شوال المکرم۱۳۲۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کبوتر بازی، بیٹربازی وغیرہا حرکات نامشروعہ مسجد میں کرنا اور کسی غیر کا کبوتر مینار یادیوار مسجد پر بیٹھ جائے اس کے پکڑنے کے لئے اپنے کبوتر چھوڑ کر اور دانہ پانی صحن مسجد میں ڈال کر پکڑنا جائز ہے یانہیں؟اورایسی بے حرمتی مسجد سے فاعل ایسے فعل کےلئے اور نیز متولی ودیگر متعلقین مسجد کے واسطے جو اس امر سے مانع نہ ہوں اور سکوت کریں یا شرکت اس میں کریں یا ان افعال سے رضامند ہوں پس ان کے لئے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی وعید ہے یانہیں اور وہ سب گنہگار ہوتے ہیں یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
پرایا کبوتر پکڑنا حرام ہے اور اس کا فاعل فاسق وغاصب وظالم ہے بلکہ خالی کبوتر اڑانے والا کہ اوروں کے کبوتر نہیں پکڑتامگر اپنے کبوتر اڑانے کو ایسی بلند چھتوں پرچڑھتا ہے جس سے مسلمانوں کی بے پردگی ہوتی ہے یاان کے اڑانے کو کنکریاں پھینکتا ہے جن سے لوگوں کومالی یا جسمانی ضرر پہنچتا ہے اس کے لئے بھی شرع مطہر میں حکم ہے کہ اسے نہایت سختی سے منع کیا جائے تعزیر دی جائے،اس پر بھی نہ مانے تو احتساب شرعی کا عہدہ دار اس کے کبوتر ذبح کرکے اس کے سامنے پھینک دے۔
درمختارمیں ہے:
یکرہ امساک الحمامات ولو فی برجھا ان کان یضربالناس بنظر اوجلب، فان کان یطیرھا فوق السطح مطلعا علی عورات المسلمین ویکسرز جاجات الناس یرمیہ تلک الحمامات عزر ومنع اشد المنع، فان لم یمتنع ذبحھا المحتسب،وصرح فی الوھبانیۃ بوجوب التعزیر وذبح الحمامات ولم یقیدہ بما مرو لعلہ اعتمد عادتھم۱؎۔
کبوتر رکھنا اگرچہ اپنے برجوں میں ہوں مکروہ ہے جبکہ کبوتر باز کے لوگوں کے گھروں میں نظر کرنے یا دوسروں کے کبوتر اپنے کبوتروں میں ملانے کے سبب سے لوگوں کو ضرر پہنچے، اور اگر چھت پرچڑھ کر کبوتر اڑاتا ہے جس سے مسلمانوں کی بے پردگی ہوتی ہے یا کنکریاں پھینکتا ہے جس سے لوگوں کے برتن اور شیشے ٹوٹ جاتے ہیں تو اسے تعزیر کی جائے، اگر باز نہ آئے تو حاکم محتسب اس کے کبوتروں کو ذبح کردے۔ صاحب وھبانیہ نے مطلقاً وجوب تعزیر اور کبوتر کو ذبح کردینے کی تصریح کی ہے لوگوں کی بے پردگی کی قید کاذکر نہیں کیا، شاید انہوں نے لوگوں کی عادت پر اعتماد کرتے ہوئے اس قید کو ترک کیا ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۹)
اقول: بلکہ ان کاخالی اڑانا کہ نہ کسی کی بے پردگی ہو نہ کنکریوں سے نقصان، خود کب ظلم شدید سے خالی ہے جبکہ رواج زمانہ کے طور پر ہو کہ کبوتروں کو اڑاتے ہیں اور ان کادم بڑھانے کے لئے(جس میں اصلاً دینی یا دنیوی نفع نہیں فیصدی کا خیال کہ اگلے زمانہ میں تھا اب خواب وخیال وافسانہ ہوگیا ہے نہ ہر گز یہ ان جہال کا مقصود، نہ کبھی ان سے یہ کام کوئی لیتا ہے) محض بے فائدہ اپنے بیہودہ بے معنی شوق کے واسطے انہیں اترنے نہیں دیتے وہ تھک تھک کے نیچے گرتے یہ مار مار کر پھر اڑادیتے ہیں صبح کا دانہ دیر تک کی محنت شاقہ پر واز سے ہضم ہوگیا بھوک سے بیتاب ہیں اور یہ غل مچاکر بانس دکھا کر آنے نہیں دیتے خالی معدے شہپر تھکے اور کسی طرح نیچے اترنے، دم لینے دانہ پانی سے اوسان ٹھکانے کرنے کاحکم نہیں۔ یہاں تک کہ گھنٹوں اور گھنٹوں سے پہر وں انہیں
اسی عذاب شدید میں رکھتے ہیں، یہ خود کیا کم ظلم ہے اور ظلم بھی بے زبان بے گناہ جانور پر کہ آدمیوں کی ضرر رسانی سے کہیں سخت تر ہے،
جیسا کہ عنقریب آئے گا، اور گویا کہ یہ ان شاء اﷲتعالٰی علامہ ابن وھبان کے اطلاق میں ملحوظ ہے اور اﷲ تعالٰی سے ہی مدد طلب کی جاتی ہے(ت)
بے درد کو پرائی مصیبت نہیں معلوم ہوتی اپنے اوپر قیاس کرکے دیکھیں اگر کسی ظالم کے پالے پڑیں کہ وہ میدان میں ایک دائرہ کھینچ کر گھنٹوں ان سے کا واکاٹنے کو کہے یہ جب تھکیں پست ہو کر رکیں، کوڑے سے خبر لے، ان کا دم چڑھ جائے، جان تھک جائے، بھوک پیاس بیحد ستائے، مگر وہ کوڑا لئے تیار ہے کہ رکنے نہیں دیتا، اس وقت ان کو خبر ہو کہ ہم بے زبان جانور پر کیساظلم کرتے تھے، دنیا گزشتنی ہے، یہاں احکام شرع جاری نہ ہونے سے خوش نہ ہوں ایک دن انصاف کاآنے والا ہے جس میں شاخدار بکری سے منڈی بکری کا حساب لیا جائے گا حالانکہ جانور غیر مکلف ہے تو تم مکلفین کہ تمہارے ہی لئے ثواب وعذاب جنت وجہنم تیار ہوئے ہیں کس گھمنڈ میں ہو وہاں اگر نار سقر میں کاوا کاٹنا پڑا کہ وہاں
جزاء وفاقا۱؎
(پوری پوری جزا۔ت) ہے تو ا سوقت کے لئے طاقت مہیا کر رکھو،
(۱؎ القرآن الکریم ۷۸/ ۲۶)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
دخلت امرأۃ النار فی ھرۃ ربطتھا فلم تطعمہا ولم تدعھا تأکل من خشاش الارض۲؎ فوجبت لہا النار بذٰلک۳؎۔ رواہ البخاری عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما، وجملۃ''فوجبت''من روایۃ الامام احمد عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما۔
ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھ رکھا تھا نہ خود کھانادیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کےلئے جہنم واجب ہوگئی(اس کو امام بخاری نے سیدنا حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا اور جملہ
''فوجبت''
(یعنی اس عورت کےلئے جہنم واجب ہوگئی) حضرت امام احمد بن حنبل نے بروایت سیدنا حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ذکر فرمایا۔ت)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب بدأالخلق باب خیر مال المسلم غنم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۶۷)
(۳؎ مسند احمد بن حنبل از مسند جابر رضی اﷲ عنہ دارالفکر بیروت ۳/ ۳۳۵)
اورجب کبوتر بازی بیرون مسجد اپنے گھر میں بھی حرام ہے تو مسجد میں کس درجہ اشد سخت تر حرام ہوگی، بادشاہ جبار قہار کی ایک نافرمانی اپنے گھر میں بیٹھ کر کیجئے اور ایک نافرمانی خاص اس کے دربار میں کہ یہ نافرمانی کے علاوہ دربار کی توہین اور بادشاہ کو معاذاﷲ بے قدر سمجھنے پر دال ہے، اگر واقعی دل میں یہی ہوکہ مسجد کیا محل ادب ہے جس میں گناہ سے رکئے جب تو خالص کفر ہے ورنہ جرم پہلے سے اضعافاً مُّضَاعَفہ ہوجانے میں شک نہیں، وہ مسجد جس میں دنیا کی مباح باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکیوں کو کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔
فتح القدیر میں ہے:
الکلام المباح فیہ مکروہ یاکل الحسنات۱؎۔
مسجد میں کلام مباح بھی مکروہ ہے اور نیکیوں کو کھاجاتا ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الصلوٰۃ فصل ویکرہ استقبال القبلۃ بالفرج فی الخلاء مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۳۳)
اشباہ میں ہے:
انہ یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب۲؎۔
بیشک وہ نیکیوں کو یوں کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی احکام المساجد ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۲۳۳)
امام ابو عبداﷲ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نقل کی کہ:
الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البھیمۃ الحشیش۳؎۔
مسجد میں دنیا کی بات نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو۔(ت)
(۳؎ المدارک (تفسیر النسفی) سورۃ لقمان آیۃ ومن الناس من یشتری دارالکتاب العربی بیروت ۳/ ۲۷۹)
غمزالعیون میں خزانۃ الفقہ سے ہے:
من تکلم فی المساجد بکلام الدنیا احبط اﷲ تعالٰی عنہ عمل اربعین سنۃ۴؎۔
جو مسجد میں دنیا کی بات کرے اﷲ تعالٰی اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے۔
(۴؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الثالث فی احکام المسجد ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۲۳۳)
اقول: ومثلہ لایقال بالرائ
(میں کہتا ہوں کہ اس قسم کی بات رائے اور اٹکل سے نہیں کہی جاسکتی۔ت)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
سیکون فی اٰخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مساجد ھم لیس ﷲ فیہم حاجۃ۵؎۔رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
آخر زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کریں گے اﷲ عزوجل کو ان لوگوں سے کچھ کام نہیں(اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں سیدنا ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت فرمایا:ت)
(۵؎ موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان کتاب المواقیت حدیث ۳۱۱ المطبعۃ السلفیہ مدینہ منورہ ص۹۹)
یعنی دنیا کی بات جبکہ فی نفسہٖ مباح اور سچی ہو مسجد میں بلاضرورت کرنی حرام ہے ضرورت ایسی جیسے معتکف اپنے حوائج ضروریہ کے لئے بات کرے، پھر حدیث مذکور ذکر کرکے فرمایا معنی حدیث یہ ہیں کہ اﷲ تعالٰی ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہ کریگا اور وہ نامراد محروم وزیاں کار اور اہانت وذلت کے سزاوار ہیں۔
(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ نوع ۴۰ کلام الدنیا فی المساجد بلاعذر مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/ ۱۷۔۳۱۶)
اسی میں ہے:
وروی ان مسجدا من المساجد ارتفع الی السماء شاکیا من اھلہ یتکلمون فیہ بکلام الدنیا فاستقبلتہ الملٰئکۃ وقالوابعثنا بھلاکھم۲؎۔
یعنی مروی ہوا کہ ایک مسجد اپنے رب کے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ملائکہ اسے آتے ملے اور بولے ہم ان کے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں۔
(۲؎ الحدیقۃ الندیۃ نوع ۴۰ کلام الدنیا فی المساجد بلاعذر مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/ ۳۱۸)
اسی میں ہے:
وروی ان الملٰئکۃ یشکون الی اﷲ تعالٰی من نتن فم المغتابین والقائلین فی المساجد بکلام الدنیا۳؎۔
یعنی روایت کیا گیا کہ جو لوگ غیبت کرتے ہیں(جو سخت حرام اور زنا سے بھی اشد ہے) اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے وہ گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اﷲعزوجل کے حضور ان کی شکایت کرتے ہیں۔
(۳؎ الحدیقۃ الندیۃ نوع ۴۰ کلام الدنیا فی المساجد بلاعذر مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/ ۳۱۸)
سبحان اﷲ !
جب مباح وجائز بات بلا ضرورت شرعیہ کرنے کو مسجد میں بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں توحرام و ناجائز کام کرنے کا کیا حال ہوگا، مسجد میں کسی چیز کا مول لینا بیچنا خرید وفروخت کی گفتگو کرنا ناجائز ہے مگر معتکف کو اپنی ضرورت کی چیز مول لینی وہ بھی جبکہ مبیع مسجد سے باہر ہی رہے مگر ایسی خفیف و نظیف وقلیل شے جس کے سبب نہ مسجد میں جگہ رکے نہ ا سکے ادب کے خلاف ہو اور اسی وقت اسے اپنے افطار یا سحری کے لئے درکار ہو،
اس چیز کا استثناء میں نے بطور تفقہ کیا ہے کیونکہ معتکف کو اس قسم کی اشیاء مسجد میں لانے کی قطعاً اجازت ہے اور اسے کھانے پینے کے لئے خروج کا حکم نہیں کیا جائے گا۔(ت)
اور تجارت کے لئے بیع وشرا کی معتکف کو بھی اجازت نہیں،
اشباہ میں ہے:
یمنع من البیع والشراء لغیر معتکف ویجوزلہ بقدر حاجتہ ان لم یحضرالسلعۃ۱؎۔
مسجد میں بیع وشراء غیر معتکف کےلئے ممنوع ہے اور معتکف کو بقدر حاجت جائز ہے جبکہ سامان مبیع مسجد میں نہ لایا جائے(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی احکام المسجد ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۲۳۲)
ردالمحتار میں ہے:
بشرط ان لایکون للتجارۃ بل یحتاجہ لنفسہ اوعیالہ بدون احضار السلعۃ۲؎۔
بشرطیکہ وہ تجارت کے لئے نہ ہوبلکہ معتکف کوا پنی ذات یا اہل وعیال کے لئے اس کی ضرورت ہو اور وہ سامان بھی مسجد میں حاضر نہ کیا گیا ہو(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۴۵)
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جنبوامساجد کم صبیانکم ومجانینکم وشراء کم وبیعکم وخصوماتکم ورفع اصواتکم۳؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن مکحول عن واثلۃ وعبدالرزاق فی مصنفہ عن مکحول عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہما۔
اپنی مسجد کو بچاؤ اپنے ناسمجھ بچوں اور مجنونوں کے جانے اور خرید وفروخت اور جھگڑوں اورآواز بلند کرنے سے۔ اس کو ابن ماجہ نے مکحول سے اور انہوں نے واثلہ سے روایت کیا جبکہ امام عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں مکحول سے اور انہو ں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت فرمایا۔ت)
(۳؎ سنن ابن ماجہ ابواب المساجد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۵)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذارأیتم من یبیع او یبتاع فی المسجد فقولوا لااربح اﷲ تجارتک واذا رأیتم من ینشد ضالۃ فی المسجد فقولوالارد اﷲ علیک۱؎۔ رواہ الترمذی وقال حسن صحیح والنسائی وابن خزیمۃ والحاکم بسند صحیح عن ابی ھریرۃرضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جب تم کسی کو مسجدمیں کچھ بیچتے یا مول لیتے دیکھو تو اس سے کہو اﷲ تیری تجارت میں نفع نہ دے، او رجب کسی کو دیکھو کہ اپنی کوئی گم شدہ چیز مسجد میں لوگوں سے پوچھتا ہے تو اس سے کہو اﷲ تجھے تیری چیز نہ ملائے(اس کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حسن صحیح ہے۔ نیز امام نسائی، ابن خزیمہ اور امام حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت فرمایا۔ت)
(۱؎ جامع الترمذی کتاب البیوع باب النہی عن البیع فی المسجد امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۵۸)
دوسری صحیح روایت میں ارشاد فرمایا:
قولوالاردھا اﷲ علیک فان المساجد لم تبن لھذا۲؎۔ رواہ مسلم عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
اس سے کہو اﷲ تیری گمشدہ چیز تجھے نہ ملائے مسجد یں اس لئے نہیں بنی ہیں کہ ان میں آکر گمشدہ چیزوں کی تفتیش کرو (اس کو امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت فرمایا۔ت)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب عن نشد الضالۃ فی المسجد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۱۰)
سبحان اﷲ !
جب دوسرے کا مال بخوشی برضاورغبت دام دے کر مول لینے کی بات چیت کرنے پر یہ احکام ہیں تو پرایا مال بلارضابلااجازت غصباً پکڑلینے کے لئے مسجد میں اپنے کبوتر چھوڑنا، دانہ پانی ڈالنا، قابو چلے تو پکڑلینا کس درجہ اشد عظیم وبالوں کا موجب ہوگا، اور بٹیر بازی کہ ان کے لڑانے سے عبارت ہے اس سے بھی سخت تر ہے کہ وہ بلافائدہ بلاوجہ اپنے ناپاک شوق کے لئے جانوروں کو ایذا دینی ہے۔
حدیث میں ہے:
نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن التحریش بین البھائم۳؎۔رواہ ابوداؤد والترمذی وقال حسن صحیح عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہماْ
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا جانوروں کو باہم لڑانے سے (اسے ابوداؤد اور امام ترمذی نے سیدناابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت فرمایا اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا۔ت)
(۳؎ جامع الترمذی کتاب الجہاد باب ماجاء فی التحریش بین البہائم امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۰۲)
علماء فرماتے ہیں مسلمان پر ظلم کرنے سے ذمی کافر پر جو پناہ سلطنت اسلام میں رہتا ہو ظلم کرنا سخت تر ہے اور ذمی کافر پر ظلم کرنے سے بھی جانور پر ظلم کرنا سخت تر ہے،
درمختار میں ہے:
جاز رکوب الثور وتحمیلہ والکراب علی الحمیر بلاجھد وضرب، اذظلم الدابۃ اشد من الذمی وظلم الذمی اشد من المسلم۱؎۔
بیل پر سوار ہونا اور بوجھ لادنا اور گدھے کو ہل میں جوتنا جائز ہے جبکہ مشقت وتشدد کے بغیر ہو، کیونکہ جانور پرظلم ذمی پر ظلم ہے اور ذمی پر ظلم مسلمان پر ظلم سے زیادہ برا ہے(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۹)
اس مسئلہ کی کمال تحقیق وتفصیل فقیر کے فتاوی مجلد چہارم (ف)کتاب الحظر والاباحۃمیں ملاحظہ ہو، جو لوگ ان افعال شنیعہ میں شریک ہوں وہ تو ظاہر شریک ہیں اور جو شریک نہ ہوں راضی ہوں وہ بھی شریک ہیں اورگناہ وعذاب میں حصہ دار، بلکہ اگر راضی بایں معنی ہوں کہ ان افعال کو خوب وپسندیدہ جانتے ہوں تو ان کا حکم سخت تر ہے کہ گناہ گناہ ہے اور اسے اچھا جاننا کفر۔ اور جو لوگ باوصف قدرت منع نہ کریں انسداد نہ کریں متولی مسجد ہو خواہ اہل محلہ خواہ غیر وہ سب بھی گنہگاروماخوذ وگرفتا ر ہیں،
ف: کتاب الحظر والاباحۃ مکمل بارہ جلدوں میں سے اب مطبوعہ دسویں جلد ہے۔
اس کی مثال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ ایک جہاز میں کچھ لوگ سوار ہیں تتق والے چھتری پر پانی بھرتے آتے چھتری والے تکلیف پاتے ، تتق والوں نے کہا ہم نیچے جہاز میں سوراخ کر لیں کہ یہیں سے پانی بھر لیا کریں کہ اوپر جا نے میں چھتری والوں کو ایذا نہ ہو، اب اگر چھتری والے انہیں نہ روکیں اور سکوت کریں تو نرے وہی نہ ڈوبیں گے بلکہ یہ اور وہ سب ڈوبیں گے، اور روک دیں تو یہ اور وہ سب نجات پائیں گے۔یہی حال گناہ کرنے والوں اور باوصف قدرت انہیں نہ روکنے والوں کا ہے۲؎
رواہ البخاری والترمذی عن النعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما
(اس کو امام بخاری وترمذی نے نعمان بن بشیررضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت کیا۔ت)
اور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: پہلا نقص بنی اسرائیل میں یہ آیا کہ ان میں ایک گناہ کرتا دوسرااسے منع تو کرتا مگر اس کے نہ ماننے پر اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا نہ چھوڑتا، اسکے سبب اﷲ تعالٰی نے ان سب کے دل یکساں کردئے اور ان سب پر لعنت اتاری۱؎،
رواہ ابوداؤد والترمذی وحسنہ عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ
(اس کو ابوداؤد وترمذی نے حضر ت ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا۔ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ المائدۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۳۰)
(سنن ابوداؤد کتاب الملاحم آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۴۰)
اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا:
کانوالایتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوایفعلون۲؎۔
یعنی ان پر لعنت اس لئے ہوئی کہ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے روکتے نہ تھے بیشک یہ ان کا بہت ہی برا کام تھا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۵/ ۷۹)
اﷲتعالٰی مسلمانوں کوتوفیق تو بہ نصیب فرمائے،آمین ! واﷲ تعالٰی اعلم۔