ولہذا فتح القدیر میں عبارت مذکورہ ہدایہ کی شرح میں فرمایا:
المسجد خالص ﷲ سبحانہ لیس لاحد فیہ حق، وھو منتف فیما ذکر اما اذاکان السفل مسجدافان لصاحب العلو حقافی السفل حتی منع صاحبہ ان ینقب فیہ کوۃ اویتد فیہ وتدا، واما اذاکان العلو مسجدا فلان ارض العلو ملک لصاحب السفل بخلاف ما اذاکان السرداب اوالعلو موقوفا لصاحب المسجد فانہ یجوز اذلا ملک فیہ لاحد۱؎اھ مختصرا۔
مسجد خالص اﷲ تعالی کے لئے ہے اس میں کسی کا حق نہیں اور یہ بات صورت مذکورہ میں منتفی ہے لیکن اگر نیچے والا حصہ مسجد ہو پھر تو ا س لئے کہ بالاخانے والا نچلے حصہ میں حق رکھتا ہے یہاں تک کہ نیچے والے کو دیواروں میں سوراخ کھودنے یا میخ گاڑنے سے منع کرسکتا ہے، اور اگر اوپر والا حصہ مسجد ہوتو پھر اس لئے کہ بالاخانے کی زمین نیچے والے کی ملک ہے بخلاف اس کے اگر تہ خانہ اور بالاخانہ دونوں ہی مصلحت مسجد کےلئے وقف کردئے گئے ہوں تو صحیح ہے کیونکہ اب اس میں کسی کی ملک باقی نہیں رہا اھ مختصرا۔(ت)
(۱ ؎ فتح القدیر کتاب الوقف فصل اختص المسجد باحکام مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵/ ۴۵۔۴۴۴)
مطلقا حق العبد کا تعلق اگر مانع مسجد یت ہوتو کوئی مسجد مسجد نہ ہوسکے کہ ہر مسجد میں ادائے نماز واعتکاف وغیرہ عام مسلمانوں یا خاص اس کے اہل کا بخصوصیت زائدہ حق ہے جس کے باعث وہ بحال تنگی اوروں کو اپنی مسجد محلہ میں نماز سے منع کرسکتے ہیں۔
عالمگیریہ میں ہے:
اذا ضاق المسجد کان للمصلی یزعج القاعد عن موضع لیصلی فیہ وان کان مشتغلا بالذکراوالدرس اوقراء ۃ القراٰن اوالاعتکاف،وکذالاھل المحلۃ ان یمنعوا من لیس منھم عن الصلٰوۃ فیہ اذا ضا ق بھم المسجد کذافی القنیۃ۲؎۔
اگر مسجد تنگ ہوتو نمازی دوسرے شخص کو جو کہ وہاں بیٹھا ہوا ہے وہاں سے ہٹاکر نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ وہ بیٹھاہوا شخص ذکر، تلاوت یا ا عتکاف میں مشغول ہو یوں ہی مسجد کی تنگی کی صورت میں اہل محلہ دوسروں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کرسکتے ہیں یونہی قنیہ میں ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس فی آداب المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۲۲)
بلکہ حق میت کہ قبر وسقف قبر میں ہے اگر ان حقوق عباد سے ہو جن کا تعلق خلوص لوجہ اﷲتعالٰی سے مانع ہوتو سرے سے مقبرہ موقوفہ ہی محال ہوجائے کہ مسجد کی طرح مقبرہ میں بھی محض خلوص وانقطاع جملہ حقوق عباد شرط ہے ولہذا بالاجماع مسجد کی طرح اس میں بھی افراز شرط ہوا۔
ہدایہ میں ہے:
وقف المشاع جائز عندابی یوسف الافی المسجد والمقبرۃ فانہ لایتم ایضا عند ابی یوسف لان بقاء الشرکۃ یمنع الخلوص ﷲ تعالٰی اھ۱؎۔ مختصراً۔
امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے نزدیک وقف مشاع جائز ہے سوائے مسجد ومقبرہ کے، اور وہ بھی امام ابویوسف کے نزدیک تام نہیں ہوتا کیونکہ شرکت اس وقف کے خالص اﷲ تعالٰی کےلئے ہونے سے مانع ہے اھ مختصراً(ت)
(۱؎ الھدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۱۸)
فتح القدیر میں ہے:
انما اتفقواعلٰی منع وقف المشاع مطلقا مسجد او مقبرۃ لان الشیوع یمنع خلوص الحق ﷲ تعالٰی ۲؎۔
مسجد ومقبرہ میں وقف مشاع کے مطلقاً ممنوع ہونے پر تمام ائمہ متفق ہیں کیونکہ شیوع وقف کے خالص اﷲ تعالٰی کے لئے ہونے سے مانع ہے(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الوقف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵/ ۴۲۶)
بلکہ میت تو کوئی حق مالکانہ نہیں رکھتا لان الموت ینافی الملک(کیونکہ موت ملکیت کے منافی ہے۔ت) نہر عام کی طرح نہر خاص اہل محلہ کا جزئیہ گزرا کہ اس کے اوپر پاٹ کر مسجد بنادینا جائزہے جبکہ ان کی نہر کو ضرر نہ پہنچے نہ وہ مانع آئیں تو اوپر مسجد ہے اور نیچے نہر بہتی ہے جس میں خاص قوم کا حق مالکانہ ہے مگر ازانجا کہ ان کے حق میں کوئی تصرف نہ کیا، نہ انہیں بالائے نہر اس پٹی ہوئی عمارت میں نماز سے ممانعت پہنچتی ہے کہ ان کا حق نہر میں ہے نہ کہ ہوا میں، وہ مسجدصحیح وجائز ہوگئی بلکہ حق مالکانہ درکنار خاص زمین مسجد جس پر عمارت بناکر مسجد کی گئی اگر ملک غیر ہو مگر اسے حق مزاحمت اصلاً نہ رہا ہو تو مذہب مفتی بہ پر وہ خالی عمارت بھی مسجد ہوجائے گی۔
درمختار میں ہے:
بنی علی ارض ثم وقف البناء قصدابدونھا ان الارض مملوکۃ لایصح وقیل صح وعلیہ الفتوی، وان موقوفہ علی ماعین البناء لہ جازتبعا اجماعا وان الارض لجھۃ اخرے فمختلف فیہ، والصحیح الصحۃکما فی المنظومۃ المجیبۃ۱؎اھ باختصار۔
ایک شخص نے کسی زمین پر عمارت بنائی پھر بالقصد عمارت کو وقف کیا بغیر زمین کے، اگر وہ زمین کسی کی مملوک ہے تو وقف صحیح نہیں، اور ایک قول میں صحیح ہے اور اسی پر فتوٰی ہے،اور اگر زمین وقف ہے اسی پر جس کے لئے عمارت معین ہوئی تو عمارت کا تبعاً وقف بالاجماع جائز ہے،ا ور اگر زمین کسی اور جہت کے لئے وقف ہے تو اس میں اختلاف ہے صحیح یہی ہے کہ اس صورت میں بھی عمارت کا وقف صحیح ہے جیسا کہ منظومہ مجیبہ میں ہے اھ باختصار(ت)
ماتن کا قول "الصحیح الصحۃ" (صحیح صحت ہے) اس وقت ہے جب زمین محتکرہ ہو(یعنی جس کی اجرت بطور ماہانہ یا سالیانہ مقرر ہو) اسی بنیاد پر انفع الوسائل میں فرمایا کہ اگر کسی نے موقوفہ مستاجرہ زمین پر مسجد بنادی توجائز ہے اھ میرے نزدیک یہ ہے۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۹۱)
مسئلہ۱۴۸: غرہ ربیع الآخر شریف ۱۳۲۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کی مسمی عنایت اﷲ نے حجرہ مسجد کی دیوار پر ایک دیوار بناکر مکان بنا لیا ہے اور اسی دیوار کو سائبان کرلیا ہےاور مسجد کی محراب اور دیوار سے ملاکر ایک پیل پایہ کھڑا کر کے خاص دیوار مسجد میں سوراخ کر کے ایک کڑی ڈال کر چھت بنائی اور پرنالہ مسجدکی دیوار سے ملا ہوا ر کھا جس سے مسجد کا ضرر ہے اور ایک کھڑکی بھی اسی دیوار میں جو حجرہ پر بنائی گئی ہے واسطے آمدورفت چھت حجرہ کے رکھی، عنایت اﷲ کو اس طریقہ سے مکان بنانا کیسا ہے؟ بینواتوجروا۔
الجواب
حرام حرام حرام، سخت گناہ، سخت کبیرہ، وہ شخص شرعاً اشد سزا کا مستحق۔ اس پر فرض ہے کہ حجرہ مسجد پر جو دیوار بنائی ہے ابھی ابھی ابھی فوراً فوراً ڈھادے مسمار کردے،اور اس میں جو کچھ نقصان حجرہ مسجد یا دیوار حجرہ مسجد کوپہنچے اسے اپنے داموں سے ویسا ہی بنوادے جیسا پہلے بناہواتھا،
فان کل ضرر ببناء یضمن بالقیمۃ ماخلا بناء الوقف فیومر باعادتہ۱؎ کماکان فی الاشباہ والنظائر والدرالمختار۔
عمارت کے ہر ضرر کاضمان قیمت سے ادا کیا جاتا ہے سوائے وقف کے عمارت کے کہ اس کے اعادہ کا حکم دیاجائے گا جیسا کہ وہ عمارت پہلے تھی (الاشباہ والنظائر اوردرمختار)(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی ۲/ ۹۷ وردالمحتار کتاب الغصب بیروت ۵/ ۱۱۵)
دیوار مسجد میں جو سوراخ کیا ہے وہ سوراخ اسکے ایمان میں ہوگیا اس پر فرض قطعی ہے کہ اس ناپاک کڑی کو ابھی ابھی فوراً نکال لے اور دیوار مسجد کی ویسی ہی اصلاح کردے جیسی تھی اور اس کے سبب اس کی چھت گرپڑے اور گرانا ہی فرض ہے اور وہ ناپاک پر نالہ کہ دیوار مسجد سے ملا ہو ابلااستحقاق شرعی رکھاہے اور اس میں مسجد کاضرر ہے،لازم ہے کہ فوراً اسے اکھیڑ دے اور بند کردے،اور حجرہ کی چھت پر آمدورفت کا اسے کوئی استحقاق نہیں،یہ ناپاک دیوار تو گرائی ہی جائے گی، اگر اسے ڈھاکر خاص اپنی زمین میں کوئی دیوار اس کے متصل بنائے تو اسے اصلاً اختیار نہیں کہ حجرہ کی چھت پرآنے جانے کو اس میں کھڑکی رکھی، یہ سب اس کی طرف سے ظلم اور سخت ظلم ہیں،
عنایت اﷲ اگر ان سب احکام شرعی کو فوراً مانے اور اپنے یہ سب ناپاک تصرفات فوراً ڈھادے مسمار کردے فبہا، ورنہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی چارہ جوئی کریں، اگر اس میں کمی یا دیر کرینگے تو وہاں کے سب مسلمان جوا س پر قادر تھے اور چارہ جوئی میں دیر لگائی عذاب شدید کے سزاوار ہوں گے والعیاذ باﷲ تعالٰی،واﷲ تعالٰی اعلم۔