زید نے قبرستان قدیم اہل اسلام کو پاٹ کر ان قبروں کی چھت پر مسجد بنانا اور اس کو ایک مسجد قدیم کے صحن میں داخل کرنے کا قصد کیا ہے اور دروازہ قدیم مسجد کو بھی پاٹ کر اسکے نیچے دکان یا حجرہ بنانا اور چھت کو مسجدکرنا چاہتا ہے، آیا شرعاً زید کویہ منصب ہے اور یہ سقف قبور مسجد ہوجائے گی اور مصلی کو ثواب مسجد ملے گایانہیں؟بینواتوجرواعندا ﷲ تعالٰی(بیان کیجئے اور اﷲ تعالٰی سے اجر پائیے۔ت)
الجواب
دروازہ پاٹ کر اس کے نیچے دکان بنانا ہرگز جائز نہیں،
عالمگیری میں ہے:
قیم المسجد لایجوزلہ ان یبنی حوانیت فی حد المسجداوفی فنائہ۲؎۔
ناظم مسجدکو جائز نہیں کہ وہ مسجد کی حدود میں یا فنائے مسجد میں دکانیں بنائے(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد فصل ثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۶۲)
اور حجرہ بنانے کی اجازت ہے جبکہ زمین مسجد سے اس میں کچھ نہ لیا جائے، نہ مسجد پرراہ وغیرہ کسی امر کی تنگی لازم آئے اور یہ تغییر دروازہ کرنے والے خود اہل محلہ ہوں یا ان کے اذن سے ہو۔
فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے :
لاھل المحلۃ تحویل باب المسجد۱؎
(اہل محلہ کو دراوزہ مسجد کی تبدیل کااختیار ہے۔ت)اور اس صورت میں حجرہ کی چھت مسجد ہوجائے گی جبکہ برضائے اہل محلہ ہے۔
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الوقف باب الرجل جعل دارہ مسجداً نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۱۳)
خلاصہ میں ہے:
ارض وقف علی مسجد والارض بجنب ذلک المسجد وارادوا ان یزید وا فی المسجد شیئا من الارض جاز الخ۲؎۔
ایک زمین مسجد کے لئے وقف ہوئی اور اس مسجد کے پہلو میں زمین ہے اہل محلہ نے ارادہ کیا کہ مسجدمیں کچھ اضافہ اس زمین سے کریں تو جائز ہے الخ(ت)
(۲؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الوقف الفصل الرابع فی المسجد مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۴۲۱)
فتاوٰی کبرٰی پھر جامع المضمرات شرح القدوری پھر فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
مسجداراد اھلہ ان یجعل الرحبۃ مسجدا وان یحولواالباب عن موضعہ فلہم ذٰلک فان اختلفوا نظر ایھم اکثر وافضل فلھم ذلک۳؎اھ، بتلخیص۔
اہل محلہ نے چاہاکہ برآمدہ کو مسجدکردیں اوردروازہ کو اپنی جگہ سے تبدیل کردیں تو جائز ہے اور اگر ان میں باہم اختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ ان میں اکثر وافضل گروہ کی کیا رائے ہے اور انہیں کو اختیاردیاجائیگااھ بتلخیص(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۶)
اور اس کے نیچے حجرہ ہونا کچھ منافی مسجدیت سقف نہ ہوگا،
قول بحر شرط کونہ مسجداان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا۴؎
(اس کے مسجد ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس کے نیچے اور اوپر والاحصہ بھی مسجد ہو۔ت) یہاں وارد ہوگا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جمیع جہات میں حقوق مالکانہ عباد سے منقطع ہومصالح مسجد توابع مسجد ہیں،
(۴؎ بحرالرائق کتاب الوقف فصل فی احکام المسجد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۲۵۱)
خود بحر میں تتمہ عبارت مذکوریہ ہے:
لینقطع حق العبد عنہ بقولہ تعالٰی وان المسٰجدﷲ بخلاف مااذاکان السرداب العلوموقوفالمصالح المسجد کسرداب بیت المقدس ھذاھوظاہر الروایۃ۱؎۔
تاکہ حق عبداس سے منقطع ہوجائے اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کی بنیاد پرکہ مسجدیں اﷲتعالٰی کی ہیں بخلاف اس کے کہ جب تہ خانہ یا بالاخانہ مصالح مسجد کیلئے موقوف ہوں جیسا کہ بیت المقدس کا تہہ خانہ ہے یہی ظاہر الروایہ میں ہے(ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الوقف فصل فی احکام المسجد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۲۵۱)
ہدایہ میں ہے:
من جعل مسجداتحتہ سرداب اوفوقہ بیت وجعل باب المسجد الی الطریق وعزلہ عن ملکہ فلہ ان یبیعہ وان مات یورث عنہ لانہ لم یخلص ﷲتعالٰی لبقاء حق العبد متعلقا بہ ولوکان السرداب لمصالح المسجد جاز۲؎۔
جس شخص نے مسجد بنائی جس کے نیچے تہ خانہ اور اوپر مکان ہے اس نے مسجد کادروازہ راستے کی طرف بنایااور اس کو اپنی ملک سے نکال دیا تو وہ اس کو بیچنے کااختیار رکھتا ہے اگر وہ مرجائے تو اس کی میراث قرار پائے گا کیونکہ وہ خالص اﷲ تعالٰی کے لئے نہیں ہو ا اس سبب سے حق عبد اس کے ساتھ منسلک رہا اور اگر وہ تہ خانہ مصالح مسجد کیلئے ہوتو جائز ہے۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
ہاں اگر زید بطور خود یہ کارروائی بے رضائے اہل محلہ کرے تو وہ چھت مسجد نہ ہوجائے گی اور اس میں نماز اگرچہ جائزہے مگر اس پر نماز مسجد کا ثواب نہ ہوگا۔
عالمگیریہ میں ہے:
متولی مسجد جعل منزلا موقوفا علی المسجد مسجدا وصلی الناس فیہ سنین ثم ترک الناس الصلوٰۃ فیہ فاعید منزلا مستغلا جاز لانہ لم یصح جعل المتولی ایاہ مسجدا کذافی الواقعات الحسامیۃ۳؎۔
ایک مسجد کے متولی نے ایک گھر جو کہ مسجد پر موقوف تھا کو مسجد بنادیا لوگ اس میں کئی برس نماز پڑھتے رہے، پھر لوگوں نے اس میں نماز پڑھنا چھوڑدیا پھر وہ اپنی سابقہ حالت یعنی کرایہ پر چلنے لگا تو جائز ہے کیونکہ متولی کااس کو مسجد کردینا صحیح نہیں ہواتھایہ واقعات حسامیہ میں مذکور ہے(ت)
(۳؎ فتاوی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۶)
رہا مسلمانوں کا قبرستان قدیم کہ وہ ضرور دفن موتٰی کے لئے موقوف ہوتا ہے، اس میں دوصورتیں ہیں اگر وہ قبرستان قابل کار ہو کہ اس میں دفن اموات کو جگہ بھی ہے اور کسی اور وجہ کے باعث اس سے استغناء بھی نہ ہوگیا نہ داخل حدود شہر ہونے کے سبب اس میں دفن کی ممانعت انگریزی طور پر ہوگئی جب تو اسے پاٹ کر دفن سے روک دینا سرے سے ناجائز وحرام ہے کہ یہ ابطال غرض وقف ہے اور وہ اصلاًر وا نہیں۔
عالمگیریہ میں ہے:
لایجوز تغییر الوقف۱؎
(وقف میں تغییر وتبدیل جائز نہیں۔ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الرابع عشر فی المتفرقات نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۹۰)
فتح القدیر میں ہے:
الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ۲؎۔
وقف کو حال سابق پر برقرار رکھنا واجب ہے(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الوقف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵/ ۴۴۰)
اور اگر وہ قابل کار نہ رہا یا اس سے استغناء ہوگیا یا وہاں دفن کی ممانعت ہوگئی جس کے سبب اب وہ اس کام میں صرف نہیں ہوسکتا یامسجد قدیم لب مقبرہ واقع ہے یہ بیرون حدود مقبرہ ستون قائم کرکے اوپر کافی بلندی پر پاٹ کر چھت کو صحن مسجد سابق سے ملا کر مسجد کردینا چاہتا ہے اس طرح کہ زمین مقبرہ نہ رکے نہ اس میں دفن موتی کرنے اور اس کی غرض سے لوگوں کے آنے جانے کی راہ رکے نہ اس چھت کے ستون قبور مسلمین پرواقع ہوں بلکہ حدود مقبرہ سے باہر ہوں تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ زمین جس میں ستون قائم کئے گئے متعلق مسجد ہو اور کارروائی اہل محلہ کی یا ان کے اذن سے ہو یا وہ زمین اس بانی سقف یا کسی دوسرے مسلمان کی ملک ہو اور مالک اسے ہر کام کے لئے وقف کردے یا وہ زمین افتادہ بیت المال کی ہو اور اس میں اس کارروائی سے مسلمانوں کے راستے وغیرہ کو ضرر نہ ہو کہ ان حالتوں میں اس نے کوئی بیجا تصرف نہ کیا نہ وقف کو روکا نہ اس کی زمین کو کسی دوسرے کام میں صرف کیا صرف بالائی ہوا میں کہ نہ موقوف تھی نہ مملوک ایک تصرف غیر مضر نفع مسلمین کےلئے کیا۔
عالمگیریہ میں ہے:
ذکر فی المنتقی عن محمد رحمہ اﷲ تعالٰی فی الطریق الواسع بنی فیہ اھل المحلۃ مسجدا و ذلک لایضر بالطریق فمنعھم رجل فلا باس ان یبنواکذافی الحاوی۳؎۔
منتقی میں حضرت امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی سے یوں منقول ہے کہ ایک وسیع راستہ میں اہل محلہ نے مسجد بنائی جس سے راستہ کو کچھ ضرر نہ پہنچا ایک شخص نے انہیں اس سے منع کیا تو ان کے مسجد تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں، حاوی میں یونہی ہے(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۶)
اسی میں خزانۃ المفتین سے ہے:
قوم بنوامسجداواحتاجواالٰی مکان لیتسع المسجد واخذوامن الطریق وادخلوہ فی المسجد ان کان یضرباصحاب الطریق لایجوز وان کان لایضربھم رجوت ان لایکون بہ بأس کذافی المضمرات وھو المختار کذافی خزانۃ المفتین۱؎۔
لوگوں نے مسجدبنائی تو انہیں مسجد کو وسیع کرنے کے لئے کچھ جگہ کی ضرورت پڑی اور انہوں نے راستہ سے کچھ جگہ لے کر مسجد میں داخل کرلی، اگر اس سے راستہ والوں کو ضرر ہوتو ناجائز ہے اور اگر ضررنہ ہوتو مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہ ہوگا جیساکہ مضمرات میں ہے اور یہی مختار ہے خزانۃ المفتین میں یونہی ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۷)
نیز ہندیہ میں حق عام کی شے پاٹ کر مسجد اس طرح بنانے کا جس سے ان حقوق کو ضرر نہ پہنچے جزئیہ یہ ہے:
فی نوادرھشام سألت محمدالحسن عن نھر قریۃ کثیرۃ الاھل لایحصی عددھم وھو نھر قناۃ او نھر وادلھم خاصۃ، واراد قوم ان یعمر وابعض ھذاالنھر ویبنواعلیہ مسجدا اولایضرذٰلک بالنھر ولایتعرض لھم احدمن اھل النھر،قال محمد رحمہ اﷲ تعالٰی یسعھم ان یبنواذلک المسجد للعامۃ اوالمحلۃ کذافی المحیط۲؎۔
ہشام نے نوادر میں کہا کہ میں نے امام محمد بن حسن رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے دریافت فرمایا کہ ایک کثیر آبادی والے قصبہ میں ایک نہر ہے جو کہ جنگل یا پہاڑ کے نالے کی صورت میں ہے اور وہ خاص انہی لوگوں کی ہے اب کچھ لوگوں کا ارادہ ہوا کہ وہ نہر کے کچھ حصہ تعمیر کرکے مسجد بنادیں، اس سے نہ تو نہر کو کوئی نقصان ہے اور نہ ہی نہر والوں میں سے کسی کو کوئی اعتراض ہے تو امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو ایسی مسجد بنانے کا اختیارہے چاہے وہ مسجدا ہل محلہ کےلئے بنائیں یا عام لوگوں کے لئے، جیساکہ محیط میں ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۷)
اور یہیں سے ظاہر ہوگیا کہ وہ وقف بھی مسجد ہوجائے گی اور اس میں نمازی کو ثواب مسجد ملے گا اور اس کے نیچے قبریں ہونا اس بنا پر کہ ہمارے علماء نے قبروں کے سطح بالائی کو حق میت لکھا ہے،
فی العالمگیریۃ عن القنیۃ قال علاء الترجمانی یأثم بوطئ القبور لان سقف القبر حق المیت۳؎۔
عالمگیریہ میں بحوالہ قنیہ مذکور ہے کہ علاء ترجمانی نے فرمایاقبور کوروند نا گناہ ہے کیونکہ قبروں کی بالائی سطح میت کا حق (ملکیت) ہے۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۱)
اور مسجد کا جمیع جہات میں حقوق العبادسے منقطع ہونا لازم ہے
کما تقدم
(جیسا کہ آگے آئے گا۔ت) ہرگز مانع مسجدیت نہ ہوگا کہ اس حق سے مراد کسی کی ملک یا وہ حق مالکانہ ہے جس کے سبب وہ اس مسجد میں تصرف سے مانع آسکے کہ جب ایسا ہوگا تو وہ خالص لوجہ اﷲنہ ہوئی، اور مسجد کاخالص لوجہ اﷲہونا ضرور ہے،