Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
42 - 112
مسئلہ۱۴۴:ازکانپور     مرسلہ مولوی عبیداﷲ صاحب
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت مسماۃ ہندہ نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرکے کسب ناجائز اختیار کرلیااور مال میں ہزار پانسو کی تجارت بھی کرتی رہی چنانچہ اس نے اسی مال سے چند دن میں متعدد مکان وغیرہ بھی خریدکئے اور وہ مال اسکے پاس کچھ بطور حلال حاصل ہوا تھا اور کچھ بطور حرام، لیکن یہ امر کہ مال حلال کس قدر تھا اور مال حرام کس قدر، کچھ معلوم نہیں، خلاصہ یہ کہ وہ مال اس کے پاس مختلط تھا، اس کے بعد اس مال کی وارث اس کی ماں بنی، ہندہ کی ماں نے محض اپنی رائے سے ایک مسجد کی تعمیر کی، اب اس مسجد میں لوگ نمازپڑھنے سے پرہیزکرتے ہیں، پس یہ فرمایاجائے کہ ایسی مسجد کو حکم مسجد کا دیں گے یانہیں؟اور یہ وقف شرعاً صحیح ہے یانہیں؟اور یہ بھی ارشاد ہو کہ مال مختلط وراثۃً اگر شخص کو نہ ملا ہو جبکہ خود اس کے پاس مختلط اپنا ذاتی ہو جیساآج زمانے میں بکثرت لوگوں کے پاس ہے اگر ایسے سے مسجد بنوائی جائے تو کیا حکم ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

مال مختلط کہ مورث وجوہ مختلفہ سے جمع کرلے اور وارث کو اس کی کچھ تفصیل کا پتا نہیں چل سکا کہ کتنا حلال ہے کتناحرام ہے، جو حرام ہے کس کس سے لیا ہے تو امر مجہول کامطالبہ ا س سے نہیں ہوسکتا ایسی ہی

جگہ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ:
الحرمۃ لاتتعدی بیان المسئلۃ فی الدرالمختار وردالمحتار وغیرہما من الاسفار۔
حرمت متعدی نہیں ہوتی اس مسئلہ کی وضاحت درمختار اور ردالمحتار وغیرہ کتب میں ہے(ت)
تو مسجد مذکور ضرور مسجد ہے اور اس کا وقف صحیح اور اس میں نماز جائز، اور اگر خود اپنا روپیہ مختلط بلکہ حرام ہو اور اس سے مسجد یوں بنائے کہ زمین وخشت وغیرہما آلات کی خریداری میں زر حرام  پرعقد ونقد جمع نہ ہو تو مذہب امام کرخی پر کہ اب وہی مفتی بہ ہے ان خریدی ہوئی اشیاء میں خباثت اثر نہ کرے گی
بل استحسن فی الطریقۃ المحمدیۃ الافتاء بمااوسع من ھنا وھوان الخبث لایسری فی الابدال مطلقا اذاکان ذلک فیمالایتعین فی البیع کالدراھم والدنانیر۔
بلکہ طریقہ محمدیہ میں تو اس سے وسیع ترصورت پر فتوٰی کو مستحسن قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ خباثت ابدال میں مطلقاً اثر نہیں کرتی جبکہ ان اشیاء میں ہوجو بیوع میں متعین نہیں ہوتیں جیسے دراہم ودنانیر۔(ت)
حرام پر عقد کے یہ معنی کہ زرحرام دکھا کر کہے اس کے عوض فلاں شیئ دے دے، اور نقد کے یہ معنی کہ پھر زرِ حرام ہی اس کے معاوضہ میں دے، ا گر مطلقاً بغیر روپیہ دکھائے کوئی چیز خریدے اور پھر زرِحرام عوض میں دیا تو یہ دینا اگرچہ اسے حرام تھا،
لانہ فیہ بادائہ الی من کان لہ وان لم یبق ھو ولاوارثہ اولم یعرف فالتصدق وھذا عدول عنھما فلایجوز۔
کیونکہ اس میں وہ مال حرام اس شخص کو واپس کرنے کا پابند تھا جس کا وہ ہے اگر وہ یا اس کا کوئی وارث باقی نہیں یا ان کاعلم نہیں توصدقہ کرنا لازم ہے جبکہ یہ مال حرام کسی کو معاوضے میں دینے اور اصل مالک کو واپس کرنے سے عدول ہوگا تو جائز نہیں(ت)
بلکہ بائع کو بھی لینا حرام تھا جبکہ اسے معلوم ہوکہ یہ روپیہ عین حرام اور اس کے پاس بلا ملک ہے جیسے غصب ورشوت واجرت زنا وغیرہ کا روپیہ مگر جبکہ حرام پر عقد نہ ہوافردمطلق پر ہواخریدی ہوئی شے میں خبث نہ آیا یونہی اگر زر حرام دکھا کر کہا اس کے عوض فلاں شیئ دے دے، جب اس نے دے دی اس نے وہ روپیہ ثمن میں نہ دیا بلکہ زرحلال دیاتو اب اگرچہ عقد حرام پر ہوا مگر نقد اس کا نہ ہوا، ان دونوں صورتوں میں مذہب مفتی بہ پر ابدال یعنی خریدی ہوئی چیزیں حلال رہتی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہاں عام خریداریاں اسی صورت اولٰی پر ہوتی ہیں کہ حرام پر عقد نہیں ہوتا، اور اگر بالفرض بعض آلات پر اتفاقاً ایسا ہوا ہو تو اس کا حال معلوم نہیں،
وقد قال فی الاصل بہ ناخذمالم نعرف شیئا حراما بعینہ۱؎۔
امام محمد نے اصل میں فرمایا کہ ہم اسی کو اپناتے ہیں جب تک ہمیں کسی خاص شئے کے حرام ہونے کا پتا نہ چل جائے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الکراہیۃ     الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۳۴۲)
تو ایسی مساجدکی مسجدیت اور ان میں نماز کی صحت میں شک نہیں
وقد فصلنا المسألۃ فی فتاوٰنا
 (تحقیق ہم نے اس مسئلہ کی تفصیل اپنے فتاوی میں بیان کردی ہے۔ت)
مسئلہ۱۴۵: از شہر کہنہ     ۲۳محرم شریف ۱۳۲۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چھوٹی مسجد کو مسلمانوں نے بڑھایا جو زمین اندر آتی اس میں ایک محراب ہوتی ہے کسی حساب سے پانچ در نہیں ہوسکتے، نہ تو زمین زیادہ ہے کہ دو در بن کر پانچ ہوجائیں نہ اتنا روپیہ کہ سامنے کی محرابیں توڑ کر اس زمین کو شامل کرکے تین در بنائے جائیں، اب اگر ایک در تیار ہوجائے اور سب مل کر چاردر ہوجائیں تو کسی طرح کا نماز میں فتور آئے گا یانہیں؟شرع شریف نے کیا اجازت دی ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

اتنا ضرور ہے کہ طاق عدد اﷲ عزوجل کو محبوب ہے
ان اﷲ وتریحب الوتر۲؎
 (اﷲ تعالٰی وتر یعنی طاق ہے اور طاق کو پسند کرتاہے۔ت)
(۲؎ مسند احمد بن حنبل     ازمسند علی رضی اﷲ عنہ    دارالفکربیروت    ۱/ ۱۴۳)
اور یہاں عام مسلمانوں میں مسجد کے درطاق ہی رکھنے کا رواج ہے
وقد نص العلماء ان الخروج عن العادۃ شھرۃ ومکروہ
(علماء نے تصریح فرمائی کہ مسلمانوں کی عادت مستمرہ سے خروج مکروہ ہے۔ت) تو جہاں تک ممکن ہو مخالفت عادت مسلمین سے احتراز کریں اور ناممکن ہو تو کوئی حرج نہیں اور نماز میں تو کسی طرح دروں کے طاق یا جفت ہونے سے کوئی فضیلت یا فتور اصلاًنہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۴۶: مرسلہ عنایت حسین ۴صفر ۱۳۲۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک موضع میں ایک مسجد چھوٹی ہے اور ایک جانب اس کے قبرستان ہے دو جانب تالاب ہے اور ایک جانب راستہ ہے اور مرمت طلب ہے، ایک شخص یہ چاہتاہے کہ میں ایک مسجد بناؤں مگر شرط یہ ہے کہ اس مسجد سے بڑی ہو اور اس میں حجرہ وغیرہ اور وہیں چاہ بھی ہو اور پیش امام اور مؤذن کے واسطے بھی انتظام جائداد سے کردیا جائے اور یہ جو مسجد ہے اسکے آس پاس بڑھانے کی گنجائش نہیں ہے اگر دوسری مسجد اس موضع میں تعمیرہوئی تو یہ مسجد ویران ہوجائے گی اس میں کوئی نماز ی نماز کے واسطے نہیں آئے گا اس وجہ سے کہ اس مسجد میں کوئی امام نہیں ہے اور نمازی بھی ایسے نہیں کہ اس میں امامت کرکے جماعت کرلیں ایسی حالت میں مسجد تعمیر کرنا چاہئے یانہیں؟اور یہ مسجد شہید کرکے اینٹ وغیرہ اس مسجد کی اس مسجد میں لگائیں یا کیاکریں؟
الجواب

مسجد بنانا باعث اجر عظیم ہے جس طرح ممکن ہو کوشش کیجائے وہ مسجد بھی آباد رہے او ریہ بھی آباد ہو، ثواب لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھی امام مقرر کرے اگرکسی طرح یہ ممکن ہوبلکہ اگر معلوم ہوکہ اس مسجد کا بننا اسے ویران کردے گا توہر گز نہ بنائے کہ مسجد کا ویران کرنا حرام قطعی ہے اور اسے شہید کرنا حرام قطعی، اورآباد مسجد کی اینٹ وغیرہ دوسری مسجد  میں لگادینا حرام قطعی۔
قال اﷲتعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۱؎۔
 واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ اس سے ظالم تر کون ہوسکتا ہے جو مساجد میں اﷲکے ذکر سے روکے اور ان کی بربادی کی سعی کرے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱ ؎ القرآن الکریم     ۲/ ۱۱۴)
Flag Counter