Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
41 - 112
مسئلہ۱۴۲: ازمیرٹھ کوٹھی انانش خیر نگر دروازہ     مرسلہ ولایت اﷲخاں۲جمادی الاولٰی۱۳۲۲ھ
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت صلی ا ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے وقت میں مسجدوں کے اوپر مینار اور برج نہیں تھے، اب کیونکر بنائے جاتے ہیں؟
الجواب

واقعی زمانہ اقدس حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں مساجد کے لئے برج کنگرے اور اس طرح کے منارے جن کو لوگ مینار کہتے ہیں ہر گز نہ تھے بلکہ زمانہ اقدس میں پکے ستون نہ پکی چھت، نہ پکا فرش نہ گچکاری، یہ امور اصلاً نہ تھے
کما فی صحیح البخاری فی ذکر مسجدہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
 (جیسا کہ بخاری شریف میں نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی مسجد کے ذکر میں ہے۔ت) بلکہ حدیث میں ہے:
ابنواالمساجد واتخذوھا جما۱؎۔ رواہ ابوبکر بن ابی شیبۃ والبیھقی فی السنن عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
مسجد یں بناؤ اور انہیں بے کنگرہ رکھو(اسے ابوبکر بن ابی شیبہ اور بیہقی نے سنن میں سیدنا حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور انہوں نے حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی وسلم سے روایت کیا۔ت)
(۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ     کتاب الصلوٰۃ فی زینۃ المسجد وماجاء فیہا    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۰۹)
دوسری حدیث میں ہے:
ابنوامساجد کم جماوابنوا مدائنکم مشرفۃ۲؎۔
رواہ ابن ابی شیبۃ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
اپنی مسجدیں منڈی بناؤ اور اپنے شہر کنگرہ دار۔ (اس کو ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا اور انہوں نے رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمایا۔ت)
 (۲؎ مصنف ابن ابی شیبہ     کتاب الصلوٰۃ فی زینۃ المسجد وماجاء فیہا    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۰۹)

(کنزالعمال     حدیث ۲۰۷۶۹    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۷/ ۶۵۶)
مگر تغیر زمانہ سے جبکہ قلوب عوام تعظیم باطن پر تنبہ کے لئے تعظیم ظاہر کے محتاج ہوگئے اس قسم کے امور علماء وعامہ مسلمین نے مستحسن رکھے، اسی قبیل سے ہے قرآن عظیم سے ہے قرآن عظیم پر سونا چڑھانا کہ صدر اول میں نہ تھا اور اب بہ نیت تعظیم واحترام قرآن مجید مستحب ہے۔ یونہی مسجد میں گچگاری اور سونے کاکام،
وماراٰہ المسلمون حسنا فھو عنداﷲ حسن۳؎۔
جس شیئ کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ عنداﷲ بھی اچھی ہوتی ہے۔(ت)
(۳ ؎ مسند احمد بن حنبل    ازمسند عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ     دارالفکر بیروت    ۱/ ۳۷۹)
درمختار میں ہے:
جاز تحلیۃ المصحف لما فیہ من تعظیمہ کما فی نقش المسجد۱؎۔
قرآن مجید کو مزین کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں قرآن مجید کی تعظیم ہے جیساکہ مسجد کوتعظیماً منقش کرنا جائز ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی البیع     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۴۵)
تبیین الحقائق میں ہے:
لایکرہ نقش المسجد بالجص وماء الذھب۲؎۔
قلعی اور سونے کے پانی سے مسجد کو منقش کرنا مکروہ نہیں۔(ت)
(۲؎ تبیین الحقائق کتاب الصلوٰۃ     باب مایفسد الصلوٰۃ     المطبعۃ الکبری الامیریۃ مصر    ۱/ ۱۶۸)
عالمگیری میں ہے:
لاباس بنقش المسجد بالجص والساج وماء الذھب والصرف الی الفقراء افضل کذافی السراجیۃ وعلیہ الفتوی کذافی المضمرات وھکذافی المحیط۳؎۔
مسجد کوقلعی، ساج کی لکڑی اور سونے کے پانی سے منقش کرنے میں حرج نہیں تاہم فقراء پرصرف کرنا اولٰی ہے جیساکہ سراجیہ میں ہے، اور اسی پرفتوٰی ہے، مضمرات اور محیط میں یونہی ہے(ت)
(۳ ؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکراہیۃ     الباب الخامس فی آداب المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۳۱۹)
اور ان میں ایک منفعت یہ بھی کہ مسافر یا ناواقف منارے کنگرے دور سے دیکھ کر پہچان لے گا کہ یہاں مسجد ہے، تواس میں مسجد کی طرف مسلمانوں کو ارشاد وہدایت اور امر دین میں ان کی امداد واعانت ہے،
اوراﷲ عزوجل فرماتا ہے:
تعاونواعلی البر والتقوٰی۴؎۔
نیکی اور تقوٰی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔(ت)
(۴؎ القرآن الکریم۵/ ۲)
تیسری منفعت جلیلہ یہ ہے کہ یہاں کفار کی کثر ت ہے، اکثر مسجدیں سادی گھروں کی طرح ہوں تو ممکن ہے کہ ہمسایہ کے ہنود بعض مساجد پر گھر اور مملوک ہونے کا دعوٰی کردیں اور جھوٹی گواہیوں سے جیت لیں بخلاف اس صورت کے کہ یہ ہیأت خود بتائے گی کہ یہ مسجد ہے تو اس میں مسجد کی حفاظت اور اعدا سے اس کی صیانت ہے،
وباﷲ التوفیق، واﷲتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ۱۴۳: از ملک بنگالہ ضلع نواکھالی ڈاکخانہ قاضی ہاٹ متصل بختیارمنشی کے بازار مرسلہ مولوی عبدالعلی صاحب ۱۳جمادی الآخر۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگرکوئی ہندو مشرک زمیندار اپنی زمین میں نماز پنجگانہ وجمعہ کے لئے ایک مسجد بنادے یا مسلمان کی بنائی ہوئی مسجد کو درست یا پختہ کردے یا ازروئے حیلہ کے دو سو یا چار سو کسی شخص کو مسجد بنوانے کی نیت سے دے وہ شخص زردادہ سے مسجد بنادے شرعاً اس میں نمازپڑھنا درست ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

اگر اس نے مسجد بنوانے کی صرف نیت سے مسلمان کو روپیہ دیا یا روپیہ دیتے وقت صراحۃً کہہ بھی دیا کہ اس سے مسجد بنوادو، مسلمان نے ایسا ہی کیا تو وہ مسجد ضرور ہوگئی اور اس میں نماز پڑھنی درست ہے۔
لانہ انما یکون اذناللمسلم بشراء الآلات للمسجد بمالہ وبمجرد ھذالایصیر وکیلا وان فرض التوکیل فحیث لم یعین جنس المشری لایقع الشراء الاللمسلم لان الجہالۃ الفاحشۃ تبطل الوکالۃ، فی الدرالمختار الاصل انہا(ای الوکالۃ) ان جھلت جہالۃ فاحشۃ وھی جھالۃ الجنس کدابۃ بطلت اھ ۱؎(ملخصاً) ومعلوم ان الشراء متی وجد نفاذا علی المشتری نفذ علیہ فعلی کل کانت الآلات ملک المسلم وقد جعلھا مسجدافصح۔
کیونکہ یہ اس کی طرف سے مسلمان کو اس کے مال سے مسجد کےلئے سامان خریدنے کا اذن ہوا اور محض اتنی بات سے وہ وکیل نہ ہوا اور بالفرض توکیل مان بھی لیں توجب جنس شراء غیر معین ہے تو شراء مسلمان کے لئے ہی واقع ہوگی اس لئے کہ جہالت فاحشہ وکالت کو باطل کردیتی ہے۔ درمختار میں ہے قاعدہ یہ ہے کہ اگر وکالت جہالت فاحشہ کے ساتھ مجہول ہو یعنی جہالت جنس ہوجیسے دابہ کا مجہول ہونا تو وکالت باطل ہوجاتی الخ(ملخصا) اوریہ بات معلوم ہے کہ شراء جب مشتری پر نفاذ پائے تو نافذ ہوجاتی ہے، بہر صورت وہ خریدا ہوا سامان مسلمان کامملوک ہوا اور اس نے مسجد بنادی تو صحیح ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار     باب الوکالۃ بالبیع والشراء    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۱۰۴)
یونہی مسجد قدیم کی درستی ومرمت اگر کافر کرے تو اسکی مسجدیت میں نقصان نہ آئے گا
لان المسجد اذاتم مسجدالا یعود غیر مسجدابدا
 (کیونکہ مسجدبن جانے کے بعد کبھی بھی وہ غیر مسجد نہیں بن سکتی۔ت)
اسی طرح کچھ مسجد کو اگر پکی کرادے فرش اور دیواریں پختہ بنوادے جب بھی اس کی مسجدیت میں حرج نہیں اس میں نماز درست ہے کہ یہ دیواریں اگرچہ ملک کافر رہیں گی کہ وہ مسجد کے لئے وقف کرنے کا اہل نہیں مگر دیواریں حقیقت مسجدمیں داخل نہیں،
حتی لولم تکن او رفعت لم یتطرق الی المسجد خلل الاتری ان المسجد الحرام لاجدران فیہ اصلا وان بناء الکعبۃ لو رفع کما وقع فی زمن سیدنا عبداﷲ بن الزبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما لصحت الصلوۃ الیہا کمانصواعلیہ۔
مسجد کی دیواریں اگر بالکل نہ ہوں یا مرتفع ہوجائیں تو مسجدیت میں کوئی خلل نہیں آتا،کیا تو نہیں دیکھتا کہ مسجد الحرام میں دیواریں نہیں ہیں اور اگرکعبۃ اﷲ کی عمارت اگر مرتفع ہوجائے جیسا کہ سیدنا حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ہوا تو تب بھی اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے، فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے(ت)
یوں ہی مسالہ کہ فرش پختہ کرنے کو ڈالاچٹائی کی طرح ایک شیئ زائد ہے اور جواز نماز  یوں کہ اگرچہ وہ مسالہ ملک کافر پررہے گامگر اس پر نماز اس کے اذن سے ہے،
فکان کالصلاۃ فی ارض الکافر باذنہ بل اولی۔
تو یہ کافر کی زمین میں اس کے اذن سے نماز پڑھنے کی مانند ہوا یا اس سے بھی اولٰی ہے۔(ت)
ہاں ایسی چیز کا قبول کرنا مسلمانوں کو نہ چاہئے کہ مسجد کو ملک کافر سے آلودہ کرنا ہے،
وقد قال رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انا لانستعین بمشرک۱؎۔
تحقیق رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مشرک سے استعانت نہیں کرتے(ت)
(۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ     کتاب الجہاد    باب فی الاستعانۃ بالمشرکین     ادارۃ القرآن کراچی    ۱۲/ ۳۹۵)
اور اس میں یہ بھی قباحت ہے کہ جب وہ فرش ملک کافر پر باقی ہے تو اگر کسی وقت وہ یا اس کے بعد اس کا وارث اس پر نماز سے منع کردے تو نماز ناجائز ہوجائے گی جب تک فرش کھود کر زمین صاف نہ کرلیں۔ رہی پہلی صورت کہ مشرک اپنی زمین میں مسجد بنوادے اگرمشرک نے وہ زمین کسی مسلمان کو ہبہ کردی اور مسلمان نے مسجد بنوائی تو جائز ہے اور اس میں نماز مسجد میں نمازہے، اور اگر بے تملیک مسلم اپنی ہی ملک رکھ کر مسجد بنوائی تو وہ مسجد شرعاً مسجد نہ ہوئی،
لان الکافر لیس اھل لوقف المسجد وفی جواھر الاخلاطی جعل ذمی دارہ مسجدا للمسلمین وبناہ کما بنی المسلمون واذن لھم بالصلٰوۃ فیہ فصلوافیہ ثم مات یصیر میراثا لورثتہ۱؎وھذاقول الکل۔
کیونکہ کافر مسجد کو وقف کرنے کا اہل نہیں جواہر الاخلاطی میں ہے کہ ذمی نے اپنے گھر کو مسلمانوں کے لئے مسجد بنایا اور مسلمانوں کی طرح اس کی تعمیر کرائی پھر مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کو کہا اور انہوں نے اس میں نماز پڑھی بعد ازاں وہ ذمی مرگیا تو وہ اس کے وارثوں کو بطور میراث ملے گی، اوریہی سب کا قول ہے(ت)
 (۱؎ جواہر الاخلاطی    کتاب الوقف    قلمی نسخہ     ص۱۲۷)
اس میں نماز ایک کافر کے گھر میں نماز ہے جس پر نماز مسجد کا ہرگزثواب نہیں مگر جبکہ اس کے اذن سے ہے نماز درست ہے اگر منع کردے گا تو اب اجازت نہ رہے گی اور زمین غصب میں نماز کی طرح مکروہ ہوگی
للتصرف فی ملک الغیر بغیر اذنہ
 (ملک غیر میں بلااذن مالک تصرف کرنے کی وجہ سے۔ت) وا ﷲتعالٰی اعلم۔
Flag Counter