Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
40 - 112
مسئلہ ۱۴۱: منشی عبدالصبور صاحب     ۲۹صفر مظفر۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک مسجد زید کے آباواجداد کی تعمیر ہے اور اسی بناء پر زید اپنے کو متولی مسجد مذکور قرار دیتا ہے، یہ مسجد ویران رہتی تھی، متولی ضروریات واقع کاخبر گیراں نہیں ہوتا تھا، اہل محلہ نے مرمت شکست ریخت کے واسطے متولی سے کہاکچھ بندوبست نہیں کیا تو اہل محلہ نے تعمیر شروع کرادی،مسجد میں نماز وجماعت ہونے لگی، تعمیر ناتمام تھی کہ متولی نے روکا کہ جب ہم کو مقدرت ہوگی خود بنوادیں گے، تعمیر ناتمام رہی، اس مسجد میں کنواں بھی نہیں، متصل شارع عام کے کنویں سے کہ ہر کس وناکس پانی بھرتا ہے مسجد میں پانی آتا ہے، ہنود کی بے احتیاطی دیکھ کر اب اہل محلہ کا قصد ہے کہ مسجد میں ہی کنواں تعمیر ہوجائے اور ایک حجرہ بھی سکونت جاروب کش و مؤذن کے واسطے تعمیر ہوجائے مگر متولی مانع ہوتا ہے کہ اور کوئی نہ بنوائے 

جب ہم کو استطاعت ہوگی خودبنوادیں گے ایسی حالت میں تعویق تعمیر کا حق متولی کو شرعاً حاصل ہے یانہیں اور تعمیر سابق بدون اجازت متولی جائز ہوئی یانہیں اور ممانعت متولی باطل تھی یاصحیح؟اب بدون اجازت اہل محلہ تعمیرکراسکتے ہیں یانہیں؟اور متولی مذکور پابند صوم وصلوٰۃ بھی نہیں ہے اورتعمیر ضروریات میں مانع ومزاحم ہوتاہے شرعاً متولی رہ سکتا ہے؟یا تولیت سے معزول ہوسکتا ہے۔بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں واقعی متولی کو بھی ہر گز حق نہ تھا کہ تعمیر مسجد سے اہل محلہ کو روکتا، نہ کہ یہ شخص جو صرف اس بناپر کہ مسجد اس کے بزرگوں کی تعمیر ہے اپنے آپ کو متولی ٹھہراتا ہے، تعمیر سابق کہ مسلمانان اہل محلہ نے بے اجازت شخص مذکور کی ضرور جائز ہوئی کہ وہ باجازت قرآن عظیم ہے ۔اللہ عزوجل کی اجازت کے  بعد زید وعمرو کی اجازت وعدم اجازت کیا چیز ہے،
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
انما یعمر مسٰجد اﷲ من اٰمن باﷲ والیوم الاٰخر واقام الصلٰوۃ واٰتی الزکوٰۃ ولم یخش الااﷲ۱؎۔
خدا کی مسجدیں وہی عمارت کرتے ہیں جو اﷲ اور قیامت پر ایمان لاتے اورنماز بر پا رکھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اﷲ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
 (۱ ؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۸)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من بنٰی ﷲ مسجدا بنی اﷲ لہ بیتا فی الجنۃ۲؎۔
جو اﷲ کے لئے مسجد بنائے اﷲ عزوجل اس کے لئے جنت میں مکان تعمیر فرمائے۔
 (۲؎ مسند احمد بن حنبل     مسند عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ     دارالفکر بیروت    ۱/ ۲۰)

(مشکوٰۃ المصابیح     باب المساجد        مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۶۸)
شخص مذکور کی ممانعت محض باطل ونامسموع تھی اب بھی اہل محلہ بے اس کی اجازت کے تعمیر کرسکتے ہیں،
درمختار میں ہے:
اراداھل المحلۃ نقض المسجد وبناء ہ احکم من الاول ان البانی من اھل المحلۃ لھم ذٰلک والالا،بزازیۃ۳؎۔
اہل محلہ نے مسجد گرانے اور پہلے سے مضبوط تر بنانے کا ارادہ کیا اگر دوبارہ بنانے والا اہل محلہ سے ہے تو انہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے ورنہ نہیں، بزازیہ۔(ت)
(۳؎ درمختار  کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی  ۱/ ۳۷۹)
فتاوٰی قاضی خاں پھر ردالمحتار میں ہے:
لیس لورثتہ منعھم من نقضہ والزیادۃ فیہ ولاھل المحلۃ تحویل باب المسجد۱؎۔
واقف کے ورثاء اہل محلہ کو مسجد گراکر وسیع کرنے سے منع نہیں کرسکتے مسجد کا دروازہ تبدیل کرنے کابھی اہل محلہ کواختیار ہے(ت)
(۱؎ردالمحتار     کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۰)
محیط امام سرخسی پھر فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
رجل بنی مسجد اثم مات فاراداھل المسجد ان ینقضوہ ویزیدوافیہ فلھم ذٰلک ولیس لورثۃ المیت منعھم۲؎۔
ایک شخص نے مسجد بنائی پھر وہ فوت ہوگیا، بعد ازاں اہل محلہ نے اس مسجد کو گرانے اور اس میں اضافہ کرنے کا ارادہ کیا تو بانی اول کے ورثاء کو منع کرنے کا اختیار نہیں(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۷)
شخص مذکور ضروریات مسجد کاخبر گیراں نہیں ہوتا اور اہل محلہ کی درخواست پر بھی درستی مسجد کا کچھ بندوبست نہ کیا اور جب اہل محلہ نے تعمیر شروع کی اور مسجد میں نماز وجماعت ہونے لگی تو روکنے کو آموجودہوا اور وہ روکنا بھی یوں نہیں کہ آ پ تعمیر کرنا شروع کرتا بلکہ نراوعدہ کہ ہم بنوادیں گےوعدہ بھی کیسا، محض موہوم کہ جب ہمیں مقدرت ہوگی بنوائیں گے،
تو ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ شخص مذکور آبادی و عمارت مسجد میں خلل انداز ہے اور وہ ضرور
مناع للخیر معتداثیم۳؎
 (نیکی سے بہت زیادہ منع کرنیوالا حدسے تجاوز کرنے والا گنہگار ہے۔ت) میں داخل ہے آپ تعمیر نہ کرتا ہے نہ کرسکتا ہے کہ خود اپنی مقدرت سے انکار رکھتا ہے اور مسلمانوں نے جو تعمیر کی جس سے نماز وجماعت ہونے لگی اسے روکتا ہے توصاف ویرانی مسجد کاخواستگار اور
من اظلم ممن منع مساجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۴؎
 (اس شخص سے بڑاظالم کون ہوسکتا ہے جو مساجد میں اﷲ تعالٰی کے ذکر سے منع کرے اور مساجد کی بربادی میں کوشاں ہو۔ت) کی وعید شدید کا سزاوار ہے۔
(۳؎ القرآن الکریم     ۶۸/ ۱۲)( ۴؎ القرآن الکریم    ۲/ ۱۱۴)
شخص مذکور کو اگر متولی فرض بھی کرلیں تو اور مسلمانان محلہ کی تعمیر میں اس کی کوئی اہانت نہیں نہ ہرگز شرع مطہرمیں متولی کو حق دیا گیا ہے۔
کہ بوعدہ موہومہ مقدرت آپ تعمیر کرنے کے لئے مسجد کو خراب رکھے اہل محلہ کو تعمیر سے روکے۔ فرض کیجئے اسے مقدر ت کبھی نہ ہوئی تو کیا ہمیشہ مسجد ویران رکھیں یااسے استطاعت دس برس یا دس مہینے یا دس دن ہی بعد ہوگی تو کون سی شریعت نے فرض کیا ہےکہ اس کی مقدرت کاانتظار کرو اور اتنی مدت مسجد خراب رکھو۔
جو شخص دعوٰی کرتا ہے کہ بسبب وعدہ اور لوگوں کو اس کے تیار کرانے کا انتظار کرنا ہوگا اگر اپنی ہوائے نفس کا حکم دیتا ہے تومسلمانوں پر اس کا اتباع نہیں، اوراگر اسے شرع مطہرہ کاحکم ٹھہراتا ہے تو صراحۃً شریعت غرا پر افتراء کرتاہے، شریعت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں کہیں نہیں کہ ایسے مہمل وعدوں کا انتظار مسلمانوں کو کرنا ہوگا انتظار انتظار میں مسجد کوخراب رکھنا ہوگا، مسجد متولی یا اس کے بزرگوں کی ملک نہیں۔
قال اﷲ تعالٰی وان المسٰجدﷲ۱؎
 (اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: بیشک مسجدیں اﷲ تعالٰی ہی کی ہیں۔ت) فرضی یا واقعی متولی کو کیاحق حاصل ہے کہ مسلمانوں کو اپنے وعدہ فرد اکے انتظار پر مجبور کرے اور تاتریاق ازعراق کے لئے مسجد کوخراب رکھے، ایسے انتظار کا فتوٰی دینا صریح جہالت و ضلالت ہے خصوصاً جبکہ مسلمان آنکھوں دیکھ چکے کہ وہ ضروریات مسجد کی خبر گیری نہیں کرتا اور باوصف درخواست اس نے کچھ پروانہ کی،
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لایلدغ المؤمن من جحرواحد مرتین۲؎۔
مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا(ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۷۲/ ۱۸)

(۲ ؎ مسند احمد بن حنبل     مسند ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ     دارالفکر بیروت    ۲/ ۳۷۹)
اور اگر بفرض باطل تسلیم بھی کرلیں کہ اوروں کی تعمیر میں بخیال عوام اس کی کوئی اہانت ہے تو بیت اﷲ کی اہانت وخرابی سے اس کی یہ نفسانی اہانت آسان تر ہے۔ بھلا متولی تو متولی، علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ اگر خود اصل بانی مسجد اور اہل محلہ میں دربارہ امام ومؤذن نزاع ہو اور جسے اہل محلہ چاہیں وہ زیادہ مناسب ہو تو اصل بانی کے اختیار پر اہل محلہ ہی کے اختیار کوترجیح دی جائے گی۔
اشباہ والنظائر میں ہے:
ان تنازعوافی نصب الامام والمؤذن مع اھل المحلۃ ان کان مااختارہ اھل المحلۃ اولٰی من الذی اختارہ البانی فما اختارہ اھل المحلۃ اولٰی۳؎۔
بانیان مسجد اور اہل محلہ کے درمیان اما م مؤذن کی تقرری میں اختلاف واقع ہو اور جس کو اہل محلہ پسند کریں وہ بانی کے پسند کردہ سے اولٰی ہے تو اسی کو مقرر کرنا بہتر ہے(ت)
(۳؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۷)
جب اصل واقف پر اہل محلہ کو صرف اس وجہ سے کہ ان کا پسند کردہ زیادہ مناسب ہے شرع مطہر نے ترجیح عطا فرمائی تو یہاں کہ آبادی وویرانی کااختلاف ہے اور شخص مذکور خود واقف بھی نہیں اور خود عمارت کرتا بھی نہیں نرے وعدہ ہی پرٹالتا ہے اور وہ وعدہ بھی ایک غیبی بات پر موقوف کہ خدا جانے ہوئی یا نہ ہوئی کیونکہ اہل محلہ کی کارروائی کے آگے جو سراسر نافع مسجد ہے کوئی چیز ٹھہرسکتی ہے، اور جب اس ترجیح اہل محلہ میں خود واقف کی اہانت نہ تھی یا فرضاً ہوتو شرع مطہر نے اصلاً اسپر لحاظ نہ فرمایا اور محض ایک انسب بات کے لئے اہل محلہ ہی کو ترجیح بخشی تو یہاں اس غیر واقف کی اہانت کیا ہوگی یا ہو تو اس پر شرع کیا لحاظ فرمائے گی ایسے بیہودہ مخیلات کو مدار فتوٰی قرار دینا سخت عامیانہ سفاہت ہے جس کے لئے شرع الٰہی میں اصلاً اصل نہیں، معہذا ظاہر ہے کہ اہل محلہ کا مقصود آبادی مسجد ہے نہ کہ اس شخص کی اہانت، ولہذا پہلے خود اسی سے درخواست کی جب اس نے کان نہ رکھا مجبور انہ خود عمارت شروع کی تو اہل محلہ کی یہ غرض ٹھہرالینی کہ شخص مذکور کو ذلت پہنچے کس قدر شدید سوئے ظن وجہالت ہے کیا وہ اس قول رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
ان اﷲ لاینظر الٰی صورکم واموالکم ولٰکن ینظر الٰی قلوبکم واعمالکم۱؎۔
بیشک اﷲ تعالٰی تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہاری نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔(ت)کے مستحق نہیں؟
 (۱؎ صحیح مسلم    کتاب البر    باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۳۱۷)
کیا صحیح حدیث میں ارشاد رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم :
ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۲؎۔
بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے(ت) کا مخالف فاسق نہیں؟ ضرور ہے۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الفرائض    باب تعلیم الفرائض    قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲/ ۹۹۵)
اور شخص مذکور جبکہ تعمیر ضروریات کا مانع ومزاحم ہے تو بدخواہی مسجد کے سبب اگر متولی بھی ہوتا اس کا معزول کرنا واجب تھا نہ کہ فقط اولادِ بانی سے ہونا کہ ہرگز موجب تولیت نہیں کما لایخفی(جیسا کہ چھپا ہوا نہیں۔ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter