Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
4 - 112
جواب سوال چہارم: دختریں مکان قدیم سے کہ وقت مرگ خالد موجود تھا ترکہ پدری پائیں گی کہ ہبہ جو خالد نے ہندہ کے نام کیا تھا بوجہ قبضہ نہ دینے کے موت خالد سے باطل ہوگیا اور ترکہ ترکہ خالد ہی ٹھہرااور اس میں سے جو حصہ ہندہ نے پایا اور نیز تعمیر مزید سے کہ زمانہ ہندہ میں سب شرکاء کے لئے ہوئی جس قدر حق ہندہ تھا ان دونوں میں سے ترکہ مادری لیں گی اور اگر زید کے ورثہ میں بہنوں کا کوئی حاجب مثلاً بیٹا یا پوتا نہیں تو جب کچھ زید کو ترکہ پدری وہر دو ترکہ مادری سے پہنچا اور اس کا اپنا خاص بنگلہ ان تینوں میں سے میراث برادری کی مستحق ہوں گی، واﷲتعالٰی اعلم۔
جواب سوال پنجم:حساب دکان لکھنا عمرو پر واجب نہ تھا اگر نہ لکھا اس پر کوئی الزام نہ ہوا،
فی العقودالدریۃ عن البحرالرائق من تصرفات القیم یجوز الاخذ علی نفس الکتابۃ ولایجوز الاخذعلی نفس المحاسبۃ لان الحساب واجب علیہ۲؎اھ فافادان الکتابۃ لاتجب علیہ حتی جازلہ اخذالاجرۃ علیہا فعلم ان الامین فی معاملۃ لایجب علیہ کتابۃ حسابہ وان کان نفس الحساب واجباعلیہ۔
عقوددریہ میں بحرالرائق سے منقول ہے کہ قیمتی تصرفات میں لکھائی پر معاوضہ لینا جائز ہے اور محض حساب پر معاوضہ لیناجائز نہیں کیونکہ حساب اس پر واجب ہے، اھ، اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ وہاں لکھائی واجب نہ ہوگی جہاں اجرت لینا جائز ہوگا تو اس سے معلوم ہواکسی معاملہ منتظم پر حساب کی لکھائی واجب نہیں اگرچہ نفس حساب اس پر واجب ہے۔(ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ تنقیح الفتاوی الحامدیۃ     کتاب الوقف     الباب الثالث     ارگ بازار قندھار،افغانستان    ۱/ ۲۱۵)
بلکہ یہ قرار داد ہی کہ عمرووبقیہ شرکاء میں ہو کہ عمرو مال بیچے حساب لکھے اور اکنی روپیہ دستور ی لے محض ناجائز و حرام ہے
کمالایخفی علی الفقیہ
 (جیسا کہ فقہ جاننے والے پر مخفی نہیں ہے۔ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔
جواب سوال ششم:خاص ہندہ کے لئے اس کے بیوہ ہو نے پر شریکوں کایہ یومیہ مقرر کرنا ظاہراًبہ نیت ثواب،بطور مواسات بیوہ برادر ہے اگر ایسا ہی ہے تو ہرگزواپس نہیں ہوسکتا کہ وہ اس حال میں تصدق ہے اور تصدق میں اصلاً رجو ع  نہیں۔
در مختا ر میں  ہے ؛
لا ر جوع فیھا و لو علی  غنی لا ن ا لمقصو د فیھا الثو اب  لا العوض ؂۱
اس میں رجو ع نہیں اگر چہ غنی پر کیا ہو کیو نکہ ا س سے مقصود ثواب ہے معاوضہ نہیں ہے(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الھبہ     فصل فی مسائل متفرقہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۶)
اور اگر دکان میں جو اس کا استحقاق بذریعہ ترکہ شوہری ہے اسے حق میں سمجھ کردیتے ہیں تو اگر اس کا حق اسی قدر یا اس سے زائد ہے جب بھی رجوع کے لئے کوئی معنی نہیں، اور اگر ظاہر ہوکہ حق سے زائد پہنچا تو البتہ بقدر زیادت واپس لیاجائےگا،
فی شرکۃ العقود الدریۃ سئل فیما اذاکان لکل من زید وعمر و عقارجارفی ملکہ بمفردہ فتوافقاعلی ان مایحصل من ریع العقارین بینھما نصفین واستمر علی ذٰلک تسع سنوات، والحال ان ریع عقار زید اکثر ویرید زید مطالبۃ عمروبالقدر الزائد الذی دفعہ لعمر وبناء علی انہ واجب علیہ بسبب الشرکۃ المذکورۃ فہل یسوغ لزید ذٰلک (الجواب) الشرکۃ المزبورۃ غیرمعتبرۃ فحیث کان ریع عقار زیداکثر تبین ان مادفعہ لعمرومن ذٰلک بناء علی ظن انہ واجب علیہ ومن دفع شیئا لیس بواجب علیہ فلہ استردادہ الااذادفعہ علی وجہ الھبۃ واستھلکہ القابض کما فی شرح النظم الوھبانی وغیرہ من المعتبرات۲؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
عقو د در یہ کی کتا ب الشر کہ میں ہے کہ زید اور عمر و  ہر ایک انفر اد ی طو ر پر اپنی زمین کا ما لک ہے تو دو نو ں نے باتفاق طے کیا کہ دو نوں زمینو ں سے جو پید او ار  حا صل ہو وہ دو نو ں میں نصف نصف  ہو گی اسی معا ہد ہ پر نو سا ل معا ملہ چلتا رہا حا لا نکہ زید کی زمین ز یا دہ تھی اب زید اپنے  زائد حصہ کا عمر و سے مطالبہ کرنا چا ہتا ہے اس مبنٰی  پر  کہ عمر و کو ادا شدہ حصہ معاہدہ مذ کو رہ کی وجہ سے واجب تھا تو کیا زید کو اس زائد  اد ا شدہ کو واپس لینے کا اختیا ر ہے؟ (الجواب) مذکو رہ شراکت معتبر نہیں تو جب زید کی زمین کا رقبہ زیا دہ ہے تو پید اوار کا زیا دہ ہونا واضح ہو گیا تو معلو م ہوا کہ اس نے عمر و کو  جو زائد مقد ار دی وہ اس خیال سے دی کہ اس کی ادائیگی واجب تھی جبکہ کوئی شخص غیر وا جب چیز کو ادا کرے تو اس کی واپسی مطالبہ کاحق ہو تا ہے،ہاں اگر ہبہ کے طور پر دیا اور قابض نے اس کو ہلا ک کر دیا ہو تو واپسی کا حق نہیں جیسا کہ النظم الوہبانی کی شرح وغیرہ معتبر کتب میں ہے۔واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
(۲؎ العقود الدریۃ تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ ،کتاب الشرکۃ، ارگ بازار قندھارافغانستان ۱/ ۹۱)
جواب سوال ہفتم: یہ قرضہ کہ عمرودکان کے ذمے بتاتا ہے اگر یوں ہے کہ اس نے حسب عادت تجار کچھ مال قرضوں مول لیا اور ہنوز زرِ ثمن ادانہ کیا یادکان میں خسارہ واقع ہونے کے سبب ادا نہ ہوسکا تو یہ قرض سب شرکاء کے ذمے حصہ رسد ہوگا اور عمرو کا قول اس بارے میں قسم کے ساتھ معتبر ہوگا اور اگر یوں ہے کہ عمرو نے سر مایہ  دکان بڑھانے کے لئے کچھ روپیہ قرض لے کر اور مال خریدا تو یہ قرض خاص ذمہ عمروہوگا باقی کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔
تحقیق مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ جو اکثر ورثاء میں معمول ہوتا ہے کہ مورث مرگیا اس کے اموال دیہات دکانات یوں ہی شرکت پر بلا تقسیم رہتے ہیں اور منجملہ ورثہ بعض وارث باقیوں کے اجازت ورضامندی سے ان میں تصرف کرتے ہیں شرکت عقد نہیں شرکت ملک ہی ہے،
کما حققہ فی العقود الدریۃ، وقال فی ردالمحتار ھی شرکۃ ملک کما حررتہ فی تنقیح الحامدیۃ ثم رأیت التصریح بہ بعینہ فی فتاوی الحانوتی۱؎۔
جیسا کہ عقود الدریۃ میں اس کی تحقیق کی ہے اور ردالمحتار میں فرمایا یہ شرکت ملک ہے جیسا کہ میں نے تنقیح الحامدیہ میں اس کوواضح کیا ہے اور پھر میں نے فتاوٰی حانوتی میں اس کی تصریح دیکھی (ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الشرکۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۳۸)
اور شرکت ملک میں ہر شریک دوسرے کے حصہ سے اجنبی ہوتا ہے،
کما صرحوابہ قاطبۃ، وفی الدرالمختار کل من شرکاء الملک اجنبی فی مال صاحبہ لعدم تضمنھا الوکالۃ۲؎۔
جیساکہ اس کا جواب مکمل طور پر گزرا،اوردرمختار میں ہے کہ شرکت ملک کے تمام فریق دوسرے کے مال سے اجنبی ہوتے ہیں کیونکہ یہ شرکت و کالت کو متضمن نہیں ہوتی۔(ت)
 (۲ ؎ درمختار     کتاب الشرکہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۰)
مگر یہاں کہ تصرف باجازت ورضائے باقی شرکاء ہے یہ تصرف کرنے والا اپنے حصہ میں اصیل اور باقیوں کی طرف سے وکیل ہوتا ہے،
قال فی ردالمحتار یقع کثیرافی الفلاحین ونحوھم ان احدھم یموت فتقوم اولادہ علی ترکتہ بلاقسمۃ ویعملون فیہا من حرث وزراعۃ وشراء واستدانۃ ونحوذٰلک وتارۃ یکون کبیرہم ھوالذی یتولی مھماتھم ویعملون عندہ بامرہ وکل ذٰلک علی وجہ الاطلاق والتفویض۱؎الخ فلاشک فی تحقق معنی التوکیل۔
ردالمحتار میں فرمایا: کاشتکار لوگوں میں جیسے یہ معاملہ عام ہے کہ جب ان شرکاء میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس کی اولاد تقسیم کے بغیر ہی اپنے والد کے ترکہ پر قائم مقام بن جاتی ہے اور کھیتی باڑی اور خرید وفروخت اورلین دین جیسے امور سرانجام دیتی رہتی ہے اور کبھی ان میں سے بڑا وہ خود ہی ضروری امور کا متولی بن جاتا ہے  اورچھوٹے اس کے کہنے پر عمل کرتے رہتے ہیں جبکہ یہ تمام کارروائی بطور اجازت اور تفویض ہوتی ہے الخ، تو اس میں وکالت کے معنی پائے جانے میں شک نہیں ہے(ت)
(۱؂رد المحتا ر کتا ب الشرکۃ دار احیا ء التراث العربی بیروت     ۳/ ۳۳۸)
خصوصاً صورت مستفسرہ میں توصراحۃً بقیہ شرکاء کی طرف سے عمرو کو تفویض دکان واجازت اعمال تجارت ہوئی یہ معنے وکالت ہیں اور اس میں یہ شرط قرار پانا کہ جومال بکے عمرو اکنی روپیہ دستور لے اگرچہ شرط فاسد ہے کہ شریک کو مال مشترک میں تصرف کرنے کے لئے اجیر کرنا اصلاً جائز نہیں،
وھذا باجماع من ائمتنا خلافاللامام الشافعی رضی اﷲتعالٰی عنہم ثم ھل ھو باطل ام فاسد ذکرناہ فیما علقناہ علی ردالمحتار، قال فی الدرالمختار لواستأجرہ لحمل طعام مشترک بینھما فلا اجرلہ لایعمل شیئا لشریکہ الاویقع بعضہ لنفسہ فلایستحق الاجر۲؎ اھ
اس پر ہمارے ائمہ کرام کا اجماع ہے بخلاف امام شافعی رضی اﷲ تعالٰی عنہم، پھر یہ بحث کہ کیا وہ باطل ہے یافاسد ہے، تومیں نے اس کو ردالمحتار پراپنے حاشیہ میں ذکر کیا ہے، درمختار میں فرمایاکہ اگر ایک شریک مشترکہ سامان کو اٹھانے کے لئے اجیر بنا تو اس کو اجرت نہ ملے گی کیونکہ جو کچھ اس نے اٹھایا اس میں شریک کے ساتھ اس کا اپنا حصہ بھی تھا لہذااس اشتراک کی بنا پر وہ اجرت کا مستحق نہ ہوا اھ ۔
 (۲؎ درمختار    کتاب الاجارۃ     باب الاجارۃ الفاسدۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۷۹)
وقال الامام الاتقانی فی غایۃ البیان قال الکرخی قال محمد وکل شیئ استأجر احدھما من صاحبہ ممایکون عملافانہ لایجوز وان عملہ فلا اجرلہ وکل شیئ لیس یکون عملا استأجرہ احدھما من صاحبہ فھو جائز وقال شمس الائمۃ البیہقی فی الکفایۃ والاصل ان فی کل موضع لا یستحق الاجر الا بایقاع عمل فی العین المشترک لا یجوزلانہ لا یمکن کما فی نقل الطعام المشترک بنفسہ او احبتہ اوغلامہ وکل ما یستحق بدون ایقاع عمل فی المشترک یجوز  فانہ تجب الاجرۃ بوضع العین فی الدار والسفینۃ والرحی لا بایقاع عمل اھ ۱؂
اور امام اتقانی نے غایۃ البیان میں فرمایا کہ امام کرخی نے کہا کہ امام محمد نے فرمایا کہ شریکین میں سے اگر ایک مشترکہ چیز کے کسی عمل میں اجیر بناتو یہ جائز نہیں اگر اس نے ایسا کیا تو کوئی اجرت نہ پائے گا، اور ایسی مشترکہ چیز جو عمل نہ بنے اس کو اگر شریک اجرت پرلیتا ہے تو جائز ہے، اور شمس الائمہ بیہقی نے کفایہ میں فرمایا کہ قاعدہ یہ ہے کہ ایسا مقام جہاں صرف عمل کرنے پر ہی اجرت کا مستحق بنے تو وہاں کسی شریک کا اجیر بننا جائز نہیں کیونکہ مشترکہ چیز میں یہ ممکن نہیں جیسا کہ مشترکہ طعام کو خود شریک یا اس کا قریبی یا اس کا غلام منتقل کرنے کا اجیر بنے تو ناجائز ہے،اور ایسا مقام جہاں مشترک چیز میں بغیر عمل اجرت کا مستحق بنے وہاں جائز ہے کیونکہ عین چیز کو گھر میں یا کشتی یا چکی کے مکان میں کرایہ پر رکھ چھوڑنے پر اجرت واجب ہوتی ہے، عمل پر واجب نہیں ہوتی۔(ت)
(۱؎ غایۃ البیان للاتقانی )
مگر وکالت شروط فاسدہ سے فاسد نہیں ہوتی،  بزازیہ میں ہے:
الوکالۃ لاتبطل بالشروط الفاسدۃ ای شرط کان۲؎۔
وکالت فاسد شرطوں سے فاسد نہیں ہوتی جو بھی شرط ہو۔(ت)
 (۲؎ الفتاوٰی البزازیۃ علٰی ہامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الوکالۃ الفصل الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۴۶۱)
درمختار میں ہے:
مایصح ولایبطل بالشرط الفاسد الوکالۃالخ۳؎۔
جو چیز صحیح قرار پائے اور فاسد شرطوں سے فاسد نہ ہو وہ وکالت ہے(ت)
 (۳؎ درمختار     کتاب البیوع     باب المتفرقات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۵۳و۵۴)
تو وہ شرط ہی فاسد و باطل قرار پائی اور وکالت عمرو صحیح وتام رہی،
عالمگیریہ میں ہے:
ولوقال اشترجاریۃ بالف درھم لک علی شرائک درھم فحینئذ یصیر وکیلا ویکون الوکیل اجر مثلہ ولایزاد علی درھم۴؎۔
اگر کہا کہ ہزار درہم سے لونڈی خرید لاؤ اور خریداری پر تجھے ایک درہم دوں گا تو ایسی صورت میں وہ شخص وکیل قرار پائے گا اور وکیل عمل پر اجرت مثل کا مستحق ہوگا جو ایک درہم سے زائد نہ ہوگی(ت)
 (۴؎ الفتاوی الہندیۃ     کتاب الوکالۃ     الباب الاول     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۵۶۶)
اور وکیل بالشراء قرضوں خرید سکتا ہے،
کما نصواعلیہ فی غیر ما مسئلۃ، و فی الخانیۃ الوکیل بالشراء اذااشتری بالنسیئۃ فمات الوکیل حل علیہ الثمن ویبقی الاجل فی حق المؤکل۱؎۔
جیسا کہ بہت سے مسائل میں فقہاء کرام نے نص فرمائی ہے، اور خانیہ میں ہے کہ خریداری کے وکیل نے اگر ادھار خرید کی ہوتو وکیل کے فوت ہونے کی صورت میں موکل پر رقم کی ادائیگی آئے گی اورمدت ادھار اس کے حق میں منتقل ہوجائے گی۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الوکالۃ     نولکشور لکھنؤ    ۳/ ۵۷۶)
بلکہ وکیل تجارت کو موافق معمول تجارقرضوں بیچنے کا بھی اختیار،
فی الدرالمختار صح بالنسیئۃ ان التوکیل بالبیع للتجارۃ وان کان للحاجۃ لایجوز۲؎۔
درمختار میں ہے اگر تجارت کے طور پر ادھار فروخت کرے تو جائز ہے اگر اپنی حاجت کی وجہ سے ادھار کیا تو ناجائز ہے(ت)
(۲؎ درمختار         کتاب الشہادات    باب الوکالۃ بالبیع والشراء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۰۷)
مگر وکیل کو روپیہ قرض لینے کا اختیار نہیں، نہ قرض لینے پر توکیل روا، اگر لے گا خود وکیل ہی پر قرض ہوگا،
فی جامع الفصولین التوکیل بالاقراض جائز لابالاستقراض۳؎الخ۔
جامع الفصولین میں ہے قرض دینے کے لئے وکیل بنانا جائز ہے اور قرض حاصل کرنے کے لئے وکیل بنانا جائز نہیں الخ(ت)
(۳؎ جامع الفصولین     الفصل الثلاثون فی التصرفات الفاسدہ الخ        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۷)
وفی ردالمحتار قالواانمالم یصح التوکیل بالاستقراض لانہ توکیل بالتکدی وھو لایصح الخ۴؎۔
اور ردالمحتار میں ہے کہ فقہاء کرام نے فرمایا: قرض لینے کے لئے وکیل بناناصحیح نہیں کیونکہ یہ حاجتمندی پر توکیل ہے جو کہ صحیح نہیں ہے الخ(ت)
(۴؎ ردالمحتار         فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۵۳)
ہاں اگرصورت یہ ہوتی کہ بقیہ شرکاء عمرو سے کہتے ہم سب شریکوں کے لئے اتنا روپیہ قرض لے کر سرمایہ تجارت بڑھاؤ اور عمرو قرض دینے والے سے کہتا کہ ہم شرکاء کو قرض دے، تو البتہ وہ قرض سب پر ہوتا اور اگر کہتا کہ مجھے ہم سب شرکاء کے لئے قرض دے تو اب بھی خاص عمرو ہی پرہوتا،
الرسالۃ بالاستقراض تجوز ولو اخرج وکیل الاستقراض کلامہ مخرج الرسالۃ یقع القرض للآمر ولو مخرج الولایۃ بان اضافۃ الٰی نفسہ یقع للوکیل۱؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
قرض لینے کے لئے قاصد بنانا جائز ہے اور اگر قرض لینے کے لئے بنائے وکیل نے قاصد ہونے کا اظہار کرتے ہوئے قرض لیا تو یہ قرض وکیل بنانے پر ہوگا اور اگر وکیل نے وکالت کا اظہار کرتے ہوئے کہ قرض لیا کہ اپنی طرف منسوب کیا تو قرض وکیل کے ذمہ آئے گا، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین    الفصل الثلاثون فی التصرفات الفاسدۃ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۷)
Flag Counter