Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
39 - 112
مسئلہ۱۳۹: غرۃ شعبان المعظم ۱۳۲۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بارش کے دن مسجد میں بیٹھ کر وضو کرنا اس طرح پر کہ غسالہ صحن مسجد میں گرے جائز ہے یانہیں؟اگر جائز ہے تو مع الکراہت یا بلا کراہت؟بینواتوجروا۔
الجواب

صحن مسجد مسجد ہے
کما حققناہ فی فتاوٰنا بما لامزید علیہ
 (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتاوٰی میں اس انداز سے کردی ہے کہ اس پر اضافہ کی گنجائش نہیں۔ت)
اور مسجد میں وضوحرام۔
واستثناء موضع اعد لذلک لایصلی فیہ معناہ اذاکان الاعد ادمن الوقف قبل تمام المسجدیۃ اما بعدہ فلایمکن منہ الواقف نفسہ فضلا عن غیرہ کما حققناہ فیما علی ردالمحتار علقناہ واذاکان ذلک کذلک لم یکن الثنیاالاصور یا منقطعاکما لایخفی۔
وضو کے لئے بنائی گئی جگہ جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی کے استثناء کا مطلب یہ ہے کہ واقف نے تمام مسجدیت سے قبل وہ جگہ وضو کے لئے بنائی ہو لیکن تمام مسجدیت کے بعد تو خود واقف بھی اس پر شرعاً قادر نہیں چہ جائیکہ کوئی اور ایسا کرسکے جیسا کہ ہم نے ردالمحتار پر اپنی تعلیق میں اس کی تحقیق کی ہےاور جب صورت حال یہ ہے تو پھر یہ استثناء محض صوری ومنقطع ہوگا، جیسا کہ مخفی نہیں۔(ت)
یہاں تک کہ غیر معتکف کو اس کی بھی اجازت نہیں کہ مسجد میں بیٹھ کر کسی برتن میں اس طرح وضو کرلے کہ ماءِ مستعمل برتن ہی میں گرے، ہاں صرف معتکف کو اس صورت کی رخصت دی گئی ہے بشرطیکہ کوئی بوند برتن سے باہر نہ جائے۔
درمختا ر میں ہے:
یحرم فیہ(ای فی المسجد) الوضوء الافیما اعد لذٰلک۱؎۔
مسجد میں وضو حرام ہے سوائے اس جگہ کے جو وضو کے لئے بنائی گئی ہے(ت)
(۱؎ درمختار    باب مایفسد الصلوٰۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۹۴)
اشباہ میں ہے:
تکرہ المضمضۃ والوضوء فیہ الاان یکون ثمہ موضع اعد لذٰلک لایصلی فیہ اوفی اناء۲؎۔
مسجد میں کلی کرنا اور وضو کرنا مکروہ ہے الایہ کہ وہاں کوئی جگہ اسی مقصد یعنی وضو کے لئے بنائی گئی ہو جس میں نماز نہ پڑھی جاتی ہو یا پھر کسی برتن میں وضو کیاجائے۔(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     القول فی احکام المسجد    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۰)
غمزالعیون میں ہے:
فی البدائع یکرہ التوضی فی المسجد لانہ مستقذرطبعا فیجب تنزیہ المسجد عنہ کما یجب تنزیہہ عن المخاط والبلغم۳؎۔
بدائع میں ہے کہ مسجد میں وضو کرنا مکروہ ہے اس لئے کہ اس سے طبعاً گھن محسوس ہوتی ہے لہذا اس سے مسجد کو پاک رکھنا ایسے ہی واجب ہے جیسا کہ رینٹ اور بلغم سے مسجد کو پاک رکھنا(ت)
(۳؎ غمز العیون البصائر     مع الاشباہ والنظائر    القول فی احکام المسجد    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۰)
اسی میں ہے:
قولہ اوفی اناءاقول :  ھذالیس علی العموم بل فی المعتکف فقط بشرط عدم تلویث المسجد۴؎۔
اس کا کہنا کہ یا برتن میں وضو کرلے، میں کہتا ہوں کہ یہ حکم عموم پر نہیں بلکہ صرف معتکف کےلئے ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ مسجد ملوث نہ ہونے پائے۔(ت)
(۴؎ غمز العیون البصائر     مع الاشباہ والنظائر    القول فی احکام المسجد    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۳۱۔۲۳۰)
بحرالرائق باب الاعتکاف میں ہے:
فی البدائع وان غسل المعتکف رأسہ فی المسجد فلاباس بہ اذا لم یلوث بالماء المستعمل فان کان بحیث یتلوث المسجد یمنع منہ لان تنظیف المسجد واجب ولوتوضأ فی المسجد فی اناء فہو علی ھذا التفصیل انتہی  بخلاف غیر المعتکف فانہ یکرہ لہ التوضی فی المسجد ولو فی اناء ان یکون موضعا اتخذ لذٰلک لایصلی فیہ۱؎اھ۔
بدائع میں ہے کہ اگر معتکف مسجد میں اس طرح سردھوئے کہ مستعمل پانی سے مسجد ملوث نہ ہو تو حرج نہیں ورنہ ممنوع ہے کیونکہ مسجد کوپاک صاف رکھنا واجب ہے اور اگر وہ مسجد میں کسی برتن میں وضو کرے تب بھی وہی تفصیل ہے جومذکور ہوئی(انتہی) بخلاف غیرمعتکف کےکہ اس کے لئے مسجد میں وضو کرنا مکروہ ہے سوائے اس جگہ کے جو وضو کے لئے بنائی گئی ہو جس میں نماز نہ پڑھی جاتی ہواھ۔
 (۱؎ بحرالرائق     باب الاعتکاف     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۳۰۳)
تو اگر خروج ممکن ہے مثلاً بارش خفیف ہے یا چھتری وغیرہ آلات حفاظت پاس ہیں او باہر نکلنے سے معذور نہیں تو واجب ہے کہ باہر ہی وضوکرے اور اگر عذر قوی قابل قبول ہے تو اگر کوئی برتن وغیرہ میسر ہے جس میں بلا تلویث مسجد وضو کرسکے جب بھی صحن میں وضو حرام ہے بلکہ چاہئے کہ اعتکاف کی نیت کرلے اور  برتن میں اس طرح وضو کرے کہ باہر چھینٹ نہ پڑے یا جو تدبیر ممکن ہو۔ ایک سال اعتکاف میں شب کے وقت بارش بشدت تمام ہورہی تھی اور کوئی برتن اس اطمینان کا نہ تھا کہ وضوکرتے میں پانی قطرہ قطرہ سب اسی میں جائے، جاڑے کا موسم تھا فقیر نے تو شک پر چادر چندتہہ کرکے رکھی اور اس پر وضو کیا کہ سب پانی چادرہی میں رہا۔ غرض جو طریقہ تحفظ مسجد کا ممکن ہو بجالائے ورنہ بمجبوری بضرورت در میں بیٹھ کر اس طرح وضوکرے کہ خود سائے میں رہے اور پانی تمام وکمال موقع آب ومجرائے بارش میں گرے کہ ساتھ ہی مینہ اسے بہاتا لے جائے
لان من قواعد الشرع ان الضرورات تبیح المحظورات۲؎
 (کیونکہ شرعی قواعد میں سے ہے کہ ضرورتیں محظورات و ممنوعات کو مباح وجائز کردیتی ہیں۔ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر    الفن الاول     القاعدۃ الخامسۃ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۱۱۸)
وقد قال اﷲ تعالٰی ماجعل علیکم فی الدین من حرج۳؎
وقد رخصت الشریعۃ لعذر المطر فی ترک الجماعۃ وحضور المسجد مع وجوبھما علی المعتمد کما حققناہ فی رسالۃ لنا فی حکم الجماعۃ بل فی ترک الجمعۃ مع انھا فریضۃ قطعیۃ اجماعیۃ۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اور تحقیق شریعت نے بارش کی وجہ سے جماعت ترک کرنے اور مسجد میں حاضر نہ ہونیکی رخصت دی ہے حالانکہ مذہب معتمد پر یہ دونوں واجب ہیں، جیسا کہ ہم نے حکم جماعت سے متعلق اپنے رسالے میں اسکی تحقیق کی ہے، بلکہ جمعہ کو چھوڑنے کی بھی بسبب بارش رخصت دی گئی باوجودیکہ وہ فرض قطعی اجماعی ہے۔(ت)
(۳ ؎ القرآن الکریم ۲۲ / ۷۸)
تنویر الابصار میں ہے:
لاتجب (یعنی الجماعۃ) علی من حال بینہ وبینھا مطر وطین وبردشدید۱؎۔
اس شخص پر جماعت واجب نہیں جس کےلئے بارش کیچڑ او شدید سردی رکاوٹ بن جائے(ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    باب الامامۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۸۲)
ردالمحتار میں ہے:
اشار بالحیلولۃ الی ان المراد المطر الکثیر کما قیدہ بہ فی صلٰوۃ الجمعۃ وکذا الطین۲؎۔
رکاوٹ بننے کے ذکر سے صاحب تنویر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مراد شدید بارش اور سخت کیچڑ ہے، جیساکہ نماز جمعہ میں انہوں نے یہ قید لگائی ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ داراحیاء التراث العربی بیروت  ۱/ ۳۷۳)
درمختار میں ہے:
شرط لافتراضھا (ای الجمعۃ) بلوغ وعقل وعدم مطر شدید ووحل وثلج ونحوھما۳؎اھ ملتقطا وذلک
ان اﷲ رؤف بالعباد،
والحمدﷲ، واﷲتعالٰی اعلم۔
نماز جمعہ کی فرضیت کے لئے عاقل وبالغ ہونا اور شدید بارش، کیچڑ اور برف وغیرہ کا نہ ہونا شرط ہے (التقاط) اور یہ اس لئے ہے کہ بیشک اﷲ تبارک وتعالٰی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اور تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۳؎ درمختار     باب الجمعۃ        مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۱۱۲)
مسئلہ۱۴۰ : ۱۸ذی الحجہ۱۳۲۱ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں حدث کرنا جائز ہے یانہیں؟اور معتکف کو حدث کرنا مسجد میں جائز ہے یانہیں؟اور کوئی طالبعلم باوجود حجرہ ہونے کے مسجد میں کتب بینی کرے اور حدث بھی کرے تو اب اس صورت میں مسجد میں بیٹھنا افضل ہے یا حجرہ میں؟اور جو صاحب اس کو تسلیم نہ کریں ان کو کیاحکم ہے شریعت کا؟بینواتوجروا۔
الجواب

مسجد میں حدث یعنی اخراج ریح غیر معتکف کو مکروہ ہے، اسے چاہئے کہ ایسے وقت باہر ہوجائے پھر چلاآئے، طالب علم کو مسجد میں کتب بینی کی اجازت ہے جبکہ نمازیوں کا حرج نہ ہو،اور اخراج ریح کی حاجت نادر ہو تو اٹھ کر باہر چلاجائے، ورنہ سب سے بہتر یہ علاج ہے کہ بہ نیت اعتکاف مسجد میں بیٹھے اور کتاب دیکھے جبکہ کتاب علم دین کی ہو یا ان علوم کی جو علم دین کے آلہ ہیں، اور یہ اسی نیت سے اسے پڑھتا ہو، جو شخص غیر معتکف کو اخراج ریح مسجد میں خلاف ادب نہیں جانتا غلطی پر ہے اسے سمجھا دیاجائے، یہ طریقہ اعتکاف کہ اوپر بیان ہوا اس کے لئے ہے جس کی ریح میں وہ بونہ ہو جس سے ہوا ئے مسجد پر اثر پڑے، بعض لوگوں کی ریح میں خلقی بوئے شدید ہوتی ہے بعض کو بوجہ سوئے ہضم وغیرہا عارضی طور پر یہ بات ہوجاتی ہے ایسوں کو ایسے وقت میں مسجد میں بیٹھنا ہی جائز نہیں کہ بوئے بدسے مسجدکا بچانا واجب ہے۔
وان الملٰئکۃ تتأذی ممایتاذی منہ بنواٰدم۱؎۔ قالہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
جس بات سے آدمیوں کواذیت پہنچتی ہے اس سے فرشتے بھی اذیت پاتے ہیں۔(رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب المساجد    باب نہی من اکل ثوماالخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۰۹)
Flag Counter