Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
38 - 112
مسئلہ۱۳۵ تا۱۳۶ :

(۱) ایک مسجد کی ملکیت دیگر مسجد میں خرچ کرنا درست ہے یانہیں؟

(۲) مسجد کا پیسہ مدرسہ میں خرچ کرے تو درست ہوگا یانہیں؟
الجواب

دو نوں صورتیں حرام ہیں مسجد جب تک آباد ہے اس کا مال نہ کسی مدرسے میں صرف ہوسکتا ہے نہ دوسری مسجد میں، یہاں تک کہ اگر ایک مسجد میں سو چٹائیاں یا لوٹے حاجت سے زیادہ ہوں اوردوسری مسجد میں ایک بھی نہ ہوتو جائز نہیں کہ یہاں کی ایک چٹائی یالوٹا دوسری مسجد میں دے دیں۔
درمختار میں ہے:
اتحد الواقف والجھۃ وقل مرسوم بعض الموقوف علیہ جائز للحاکم، ان یصرف عن فاضل الوقف الاخر الیہ لانھما حینئذ کشیئ واحد وان اختلف احدھما بان بنی رجلان مسجدین اورجل مسجدا ومدرسۃ ووقف علیہما اوقافا لایجوز لہ ذٰلک۲؎۔
دو وقفوں کا واقف بھی ایک ہو اور ایک ہی چیز پر وقف ہوں، ان میں ایک کی آمدنی کم ہوجائے تو حاکم کوجائز ہے کہ دوسرے وقف کی بحث سے اس پر خرچ کرے اس لئے کہ اس حالت میں وہ دونوں گویا ایک ہی چیز ہیں،اور اگر واقف دوہوں یا جدا جدا چیزوں پر وقف ہوں جیسے دو شخصوں نے دو مسجدیں بنائیں یا ایک شخص نے ایک مسجد اور ایک مدرسہ بنایا اور ان پر جائداد یں وقف کیں تو اب حاکم کو بھی جائز نہیں کہ ایک کا مال دوسرے میں صرف کرے۔(ت)
 (۲؎ درمختار        کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۰)
ردالمحتار میں ہے:
المسجد لایجوز نقل مالہ الی مسجد اٰخر۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جائز نہیں کہ ایک مسجد کا مال دوسری مسجد کو لے جائیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۱)
مسئلہ۱۳۷: مسجد کی کوئی چیز ایسی ہو کہ خراب ہوجاتی ہے اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت مسجد میں دیں اور وہ چیز اگر دوسرا آدمی قیمت دے کر مسجد کی چیز اپنے مکان پر رکھے تو اس کو جائز ہے یانہیں؟
الجواب

جائز ہے مگر اسے بے ادبی کی جگہ نہ لگائے۔
درمختار میں ہے:
حشیش المسجد وکناستہ لایلقی فی موضع یخل بالتعظیم۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسجد کا گھاس کوڑا جھاڑ کر ایسی جگہ نہ ڈالیں جس سے اس کی تعظیم میں فرق آئے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ درمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۱/ ۳۴)
مسئلہ۱۳۸: ایک شہر میں سب لوگوں نے اتفاق کے ساتھ ایک مکان نماز پڑھنے کے لئے بنایا اور اس کا نام عبادت گاہ رکھا گیااور مسجد نام نہیں رکھا، اس کی وجہ یہ کہ کبھی آدمی نماز نہ پڑھے تو وہ عبادت گاہ بدعا نہ کرے، اب اس مکان میں بیٹھ کر لوگ دنیا کی باتیں کریں تو جائز ہے یانہیں؟ اور اس مکان میں جمعہ اور عیدین کی نماز بھی ہوتی ہے اورلکڑی کا منبر بھی رکھا گیا ہے اور پیش امام بھی ہے، تو اس عبادت گاہ میں فقط محراب نہیں ہے تو اس مکان کا مرتبہ مسجد کا ہوگا یانہیں؟اور اس میں دنیا کی باتیں کرنی درست ہیں یانہیں؟
الجواب

جب وہ مکان عام مسلمین کے ہمیشہ نماز پڑھنے کے لئے بنایا اسے کسی محدود مدت سے مقید نہ کیا کہ مہینے دو مہینے یا سال دو سال اس میں نماز کی اجازت دیتے ہیں اور اس میں نماز حتی کہ جمعہ و عیدین تک ہوتے ہیں تو اس کے مسجد ہونے میں کیا شک ہے، اس میں دنیا کی باتیں ناجائز اور تمام احکام احکام مسجد، مسجد ہونے کے لئے زبان سے مسجد کہنا شرط نہیں، نہ محراب نہ ہونا کچھ منافی مسجدیت۔ مسجد الحرام شریف میں کوئی محراب نہیں، خالی زمین نماز کے لئے وقف کی جائے وہ بھی مسجد ہوجائیگی،اگرچہ یہ نہ کہا ہوا سے مسجد کیا، اس میں محراب کہاں سے آئیگی،
ذخیرہ وہندیہ وخانیہ، بحروطحطاوی میں ہے:
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ فھذاعلی ثلثۃ اوجہ ان امرھم بالصلٰوۃ فیہا ابداً نصاً بان قالواصلوا فیہا ابدااوامرھم بالصلٰوۃ مطلقاونوی الابدصارت الساحۃ مسجداً اوان وقت الامر بالیوم او الشھر اوالسنۃ لاتصیر مسجداً لومات یورث عنہ۱؎۔
ایک شخص کی خالی زمین بے عمارت ہے اس نے کچھ لوگوں سے کہا کہ اس میں جماعت سے نماز پڑھیں، اس کی تین صورتیں ہیں اگر تصریحاً کہا کہ ہمیشہ پڑھیں یا مطلق کہا اور دل میں ہمیشگی کی نیت تھی تو وہ سادہ زمین مسجد ہوگئی اور اگر ایک دن یا مہینے یا برس کی قید لگادی کہ اتنے دن اس میں نماز پڑھ لو تو مسجد نہ ہوگی، اسکے مرنے پر وارثوں کو پہنچے گی۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف     الباب الحادی عشر فی المسجد الخ     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۵)
درمختار میں ہے:
یزول ملکہ عن المسجد بالفعل وبقولہ جعلتہ مسجدا۲؎
یعنی بانی کی ملک مسجد سے دو طرح زائل ہوتی ہے،ایک یہ کہ زبان سے کہہ دے میں نے اسے مسجد کیا، دوسرے یہ کہ یہ نہ کہے، اور اس میں نماز کی اجازت بلا تحدید دے اور اس میں نماز مثل مسجد ایک بار بھی ہوجائے تو اس سے بھی مسجد ہوجائے گی۔ معلوم ہوا کہ لفظ مسجد کہنا شرط نہیں۔
 (۲؎ درمختار     کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹)
بحرالرائق میں ہے:
لایحتاج فی جعلہ مسجدا الی قولہ وقفتہ ونحوہ لان العرف جاربا لاذن فی الصلٰوۃ علٰی وجہ العموم والتخلیۃ بکونہ وقفا علی ھذہ الجھۃ فکان کالتعبیربہ۳؎۔
مسجد ہونے کو کچھ ضروری نہیں کہ زبان سے کہے میں نے اسے وقف کیا یا اور کوئی لفظ اس کے مثل(۔مثلاً مسجد کیا) اس کے کہنے کی کچھ حاجت نہیں کہ عرف جاری ہے کہ نماز کی عام اجازت دے کر زمین اپنے قبضہ سے جدا کردینا نماز کیلئے وقف ہی کرنا ہے، تو یہ ایسا ہی ہوا جیسے زبان سے کہنا کہ اسے مسجد کیا۱۲۔
(۳؎ بحرالرائق        کتاب الوقف    فصل فی احکام المسجد    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۵/ ۴۹۔۲۴۸)
اسی میں ہے:
بنی فی فنائہ فی الرستاق دکانا لاجل الصلٰوۃ یصلون فیہ بجماعۃ کل وقت فلہ حکم المسجد۴؎۔
گاؤں میں اپنے پیش دروازہ کوئی چبوترہ نماز کیلئے بنالیا کہ لوگ پانچوں وقت اس میں جماعت کرتے ہیں اس چبوترے کے لئے مسجد کا حکم ہے۱۲
 (۴؎ بحرالرائق کتاب الوقف فصل فی احکام المسجدایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/۲۵۰)
اقو ل: بلکہ اگر نماز کےلئے وقف کرے اور اس کے ساتھ صراحۃً مسجد ہونے کی نفی کردے مثلاً کہے میں نے یہ زمین نماز مسلمین کے لئے وقف کی مگر میں اسے مسجد نہیں کرتا یا مگر کوئی اسے مسجد نہ سمجھے

جب بھی مسجد ہوجائے گی اور اس کا یہ انکار باطل کہ معنی مسجد یعنی نماز کے لئے موقوف پورے ہوگئے اور مذہب صحیح پر اتنا کہتے ہی مسجد ہوگئی اب انکار مسجدیت لغو ہے کہ معنی ثابت از لفظ سے انکار یا وقف مذکور سے رجوع ہے اور وقف بعد تمامی قابل رجوع نہیں، اس کی نظیریہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بی بی کی نسبت کہے میں نے اسے چھوڑ اچھوڑا چھوڑا مگر میں طلاق نہیں دیتا کوئی اسے مطلقہ نہ سمجھے۔ طلاق تو دے چکا اب انکار سے کیا ہوتا ہے۔ ہاں اگر یوں کہتے کہ ہم یہ زمین وقف نہیں کرتے صرف اس طور پر نماز کی اجازت دیتے ہیں کہ زمین ہماری ملک رہے اور لوگ نماز پڑھیں، تو البتہ نہ وقف ہوتی نہ مسجد۔  یہاں یہ بھی معلوم ہے کہ زمین مذکور جسے بالاتفاق اہل شہر نے محل نماز کیا یا تو عام زمین ملک بیت المال ہو جس میں اتفاق مسلمان بجائے حکم امام ہے یا ان کی ملک ہو یا اصل مالک بھی شامل ہو یا اس کی اجازت سے ایسا ہو ا ہو یابعد وقوع اس نے اسے جائز ونافذ کردیا ہو، ورنہ اگر اہل شہر کسی شخص کی مملوک زمین بے اس کی اجازت کے نماز کے لئے وقف کردیں اور وہ جائز نہ کرے، ہرگز نہ وقف ہوگی نہ مسجد، اگرچہ سب اہل شہر نے بالاتفاق یہ بھی کہہ دیا کہ ہم نے اسے مسجد کیا۔
بحرالرائق میں ہے:
فی الحاوی القدسی ومن بنی مسجدا فی ارض المملوکۃ لہ الخ فافادان من الخانیۃ لوان سلطانا اذن لقوم ان یجعلواارضا من اراضی البلدۃ حوانیت موقوفۃ علی المسجداو امرھم ان یزید وافی مسجدھم قالوا ان کانت البلدۃ فتحت عنوۃ وذٰلک لایضر بالمارۃ والناس ینفذ امرالسلطان فیہا وان کانت فتحت صلحا لاینفذ امر السلطان لان فی الاول تصیر ملکا للغانمین فجاز امر السلطان فیہا وفی الثانی تبقی علی ملک ملاکہا فلاینفذ امرہ فیہا۱؎۔
حاوی قدسی میں ہے جس نے اپنی مملوک زمین میں مسجد بنائی اس سے ثابت ہوا کہ مسجد ہونے کے لئے شرط ہے کہ بانی ا س زمین کا مالک ہو، اسی لئے فتاوٰی قاضی خاں میں فرمایا کہ اگر سلطان نے لوگوں کو اجازت دی کہ شہر کی کسی زمین پر دکانیں بنائیں جو مسجد پر وقف ہوں یا حکم دیا کہ یہ زمین مسجد میں ڈال لو،علماء نے فرمایا اگر وہ شہر بزورشمشیر فتح ہوا ہے اور وہ دکانیں بنانا یا مسجد میں اس زمین کا شامل کرلینا راستہ تنگ نہ کرے نہ عام لوگوں کا اس میں نقصان ہوتو وہ حکم سلطان نافذ ہوجائے گا، اور اگر شہر صلح سے فتح ہوا تو نہیں کہ پہلی صورت میں شہر کی زمین بیت المال کی ملک ہوگئی تو اس میں سلطان کا حکم جائز ہے اور دوسری صورت میں اصلا مالکوں کی ملک رہی تو سلطانی حکم اس میں نفاذ نہ پائیگا ۱۲
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الوقف    فصل فی احکام المسجد    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵/ ۲۴۹)
ردالمحتار میں ہے:
شرط الوقف التأبید والارض اذاکانت ملکا لغیرہ فللمالک استردادھا۲؎۔
وقف کی شرط ہمیشگی ہے اور زمین جب دوسرے کی ملک ہو تو مالک اسے واپس لے سکتا ہے۱۲
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۹۰)
یہ بیان بغرض تکمیل احکام تھا، سوال سے ظاہر وہی پہلی صورت ہے تو اس کے مسجد ہونے میں شک نہیں اور اس کا ادب لازم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter