Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
37 - 112
فہذا بحمداﷲ نص صریح جلی فیما فہمت اماماکتبت علیہ فتبین وﷲالحمد ان ھذاالثامن لامساغ فی استبدال القاضی بلاشرط فلذااسقطتہ من شروطہ وابدلتہ فی الشرط الرابع، واسقطت من السابع فی الاول وھو الرابع فی الثانی عدم البیع بالدین لعلمی بان الثالث مغن عنہ وزدت فی سابع الثانی ان لایفی ریعہ بمؤنۃ اخذامماذکر فی ردالمحتار وقد نص علیہ فی الاسعاف والخانیۃ وعنھا فی البحر نفسہ وزدت فی الاول الشرطین الاولین لما فی الخانیۃ والاسعاف والبحر، واللفظ لہ لو شرط الاستبدال لنفسہ ثم اوصی بہ الی وصیہ،لایملک وصیہ الاستبدال ولو وکل وکیلا فی حیاتہ صح، ولوشرطہ لکل متولی صح، وملکہ کل متولی ولو شرط الاستبدال لرجل اٰخر مع نفسہ، ملک الواقف الاستبدال وحدہ ولایملکہ فلان وحدہ اھ۱؎ مختصرا
یہ بحمداﷲکھلی اور واضح نص ہے اس پرجو میں نے سمجھا اور جو میں نے شامی پر حاشیہ لکھا الحمد ﷲ وہ واضح ہوگیا کہ یہ جوآٹھویں شرط ہے استبدال قاضی بلا شرط میں اس گنجائش نہیں اسی لئے میں نے اس کو استبدال غیر مشروط کی شرطوں سے ساقط کردیا اور استبدال مشروط کی شرطوں میں اسے اس چیز کے ساتھ بدل دیا جو میں نے شرط رابع میں دیکھا اور میں نے اول میں ساتویں شرط جو کہ ثانی میں چوتھی ہے سے دین کے بدلے بیع کے عدم جواز کو یہ جان کر ساقط کردیا کہ تیسری شرط اس سے بے نیاز کردیتی ہے۔ اور جو کچھ ردالمحتار میں مذکور ہے اس سے اخذ کرتے ہوئے میں نے ثانی کی ساتویں شرط میں یہ اضافہ کیا کہ وقف کی آمدنی سے اس کا خرچہ پورا نہ ہوتا ہو حالانکہ اسعاف اور خانیہ میں اس پر نص کی گئی ہے اور خانیہ کے حوالے خود بحر میں مذکور ہے۔ اور اول میں پہلی دو شرطوں کا اضافہ میں نے اس دلیل کی بنا پر کہا جو خانیہ، اسعاف اور بحر میں ہے اور لفظ بحر کے ہیں کہ اگر واقف نے اپنے لئے استبدال کی شرط لگائی پھر کسی کے لئے اس کی وصیت کردی تو وصی استبدال کا مالک نہیں ہوگا، اور اگر اپنی زندگی میں کسی کو وکیل بنایا تو صحیح ہے، اور اگر ہر متولی کے لئے استبدال کی شرط لگائی تو صحیح ہے اور ہر متولی ا س کامالک ہوگا، اور اگر واقف نے اپنے  ساتھ دوسرے شخص کے لئے استبدال کی شرط لگائی تو واقف تنہا استبدال کا مالک ہوگا جبکہ دوسر اشخص تنہا اس کا مالک نہیں ہوگا اھ اختصار۔
 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الوقف     مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵/ ۲۲۲)
وفی الدر وغیرہ جاز شرط الاستبدال بہ ثم لایستبد لہا بثالثۃ لانہ حکم ثبت بالشرط والشرط وجد فی الاولی لاالثانیۃ ۲؎ اھ قال الشامی قال فی الفتح الاان یذکر عبارۃ تفید لہ ذٰلک دائما۳؎اھ فاغتنم ھذاالتحریر والحمد ﷲالعلی الکبیر۔
درمختار میں ہے وقف زمین کو دوسری زمین سے بدل لینے کی شرط لگانا جائز ہے پھر اسکو تیسری زمین سے نہیں بدلے گا کیونکہ یہ حکم استبدال شرط کے ساتھ ثابت ہوا اور شرط صرف پہلی زمین میں پائی گئی نہ کہ دوسری میں شامی نے کہا فتح میں فرمایا ہے مگر واقف ایسی عبارت ذکر کرے جو اسکے لئے دائمی استبدال کا فائدہ دے اھ اس تحریر کو غنیمت سمجھ، اور تمام تعریفیں اﷲ بزرگ وبرتر کے لئے ہیں(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/ ۳۸۳)

(۳؎ ردالمحتار      کتاب الوقف  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۸۸)
یہ حکم ہر عقار موقوف کا ہے جیسے زمین ،مکان ،دکان ، اسی طرح اشجار موقوفہ اگر پھل دار ہوں تو جب تک ہرے ہیں ان کاکاٹنا بیچنا ناجائز اور گرپڑنے یا سوکھ جانے کے بعد رواہے کہ لکڑی بیچ کر مصارف و قف میں صرف کردیں یہاں تک اگر کوئی پھل کادرخت نصف خشک ہوگیااو رنصف قابل انتفاع ہے تو اسی نصف خشک کی بیع جائز ،باقی کی ممنوع ،متولی اگر سبز کو کاٹے بیچے گا خائن ہے تولیت سے خارج کیا جائے گا، ہاں وہ پیڑ کہ پھل نہیں رکھتے بلکہ وقف کا انتفاع ان سے یونہی ہے کہ انہیں بیچ کر دام کئے جائیں ان کے سبز وخشک ہر طرح کی بیع جائز ہے،
فی العقودالدریۃ عن البحر لرائق عن عمدۃ الفتاوی لایجوز بیع الاشجار الموقوفۃ المثمرۃ قبل قلعھا بخلاف غیر المثمرۃ اھ وفی الفتح سئل ابو القاسم الصفار عن شجرۃ وقف یبس بعضھا وبقی بعضھا فقال مایبس منھافسبیلہ سبیل غلتھا وما بقی فمتروک علٰی حالھا اھ۱؎ (ملخصا)
عقود دریہ میں بحوالہ بحر عمدۃ الفتاوی سے منقول ہے کہ وقف شدہ پھل دار درختوں کو گر جانے سے قبل فروخت کرنا جائز نہیں بخلاف ان درختوں کے جو پھل دار نہیں اھ۔ فتح میں ہے کہ ابوالقاسم صفار سے ایسے وقف شدہ درخت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جس کا کچھ حصہ خشک ہوگیا اور کچھ ابھی باقی ہے تو انہو ں نے فرمایا کہ جو خشک ہوگیا ہے اس کا راستہ وہی ہے جو اس کے غلہ کا راستہ ہے اور جو باقی ہے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا اھ تلخیص۔
(۱؎ العقود الدریۃ  کتاب الوقف الباب الاول  مطبوعہ حاجی عبدالغفار ارگ بازار قندھار افغانستان   ۱/ ۱۱۵)
وفی العقود عن البحر عن الظہیریۃ لیس لہ ان یبیع الشجرۃ ویعمر الدار۲؎الخ وفیہا سئل فی ناظر وقف قطع اشجار بستان الوقف الیافعۃ الغیر الشالبۃ ولاالیابسۃ وباعھا بلاوجہ شرعی فھل اذاثبت ذلک علیہ بالوجہ الشرعی یستحق العزل الجواب نعم وافتی الشیخ اسمٰعیل بمثل ذلک۳؎۔
عقود دریہ میں بحوالہ بحر،ظہیریہ سے منقول ہے کہ وقف درخت بیچ کر وقف گھر کی تعمیر کااختیار متولی کو نہیں الخ۔ اسی میں ہے کہ ایسے متولی کے بارے میں سوال کیاگیا جس نے وقف باغ کے ایسے درخت کاٹ دئے جنکا پھل پکا ہوا تھا اور وہ بے کار اور خشک نہ تھے اور انہیں بغیر کسی شرعی وجہ کے فروخت کردیا کہ اگر اس پر شرعی طریقے سے اس فعل کا ثبوت ہوجائے تو کیا وہ ا س لائق ہے کہ اس کو معزول کردیاجائے؟، جواب: ہاں، اور شیخ اسمٰعیل نے اسی کی مثل فتوٰی دیا ہے (ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ     کتاب الوقف    الباب الثانی    مطبوعہ حاجی عبدالغفار ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱/ ۲۰۰)

(۳؎ العقود الدریۃ     کتاب الوقف    الباب الثالث  مطبوعہ حاجی عبدالغفار ارگ بازار قندھار افغانستان   ۱/ ۲۳۰)
زوائد
جیسے درختوں کے پھل، زمین کا غلہ وغیرہ جن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں بیچ کر مصارف مسجد واغراض معینہ واقف میں صرف کریں انکی بیع میں کوئی کلام نہیں مگر یہ بیع متولی کرے یا باذن قاضی شرع ہو  کما قدمناہ عن الھندیۃ عن السراجیۃ
 (جیسا کہ ہم نے پہلے ہندیہ سے بحوالہ سراجیہ ذکر کیا ہے۔ت) ہاں جہاں جہاں ان مسائل میں اذن قاضی کی شرط مذکور ہوئی اگر قاضی شرع نہ ہوجیسے ان بلاد میں، توبضرورت مسلمانان دین دار موتمن معتمد اس بار کو اپنے اوپر اٹھاسکتے ہیں اور اﷲ حساب لینے والا ہے اور وہ مصلح و مفسدکو خوب جانتاہے،
فی الخانیۃ من فصل المقابر والرباطات قد ذکرنا ان الصحیح من الجواب ان بیعھم بغیر امر القاضی لایصح الاان یکون فی موضع لاقاضی ھناک۱؎۔
خانیہ کی فصل المقابروالرباطات میں ہے تحقیق ہم ذکر کرچکے ہیں کہ صحیح حکم یہ ہے کہ قاضی کے حکم کے بغیر ان کی بیع درست نہیں سوائے اس جگہ کے جہاں کوئی قاضی نہ ہو۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان     کتاب الوقف    فصل فی المقابر والرباطات    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۴/ ۷۲۶)
اسی طرح وہ تمام اشیاء جو متولی بطور خود مسجد کے مال سے آمدنی مسجد بڑھانے کو خریدے ان کی بیع کا بشرط مصلحت وہ ہر وقت اختیار رکھتا ہے اگرچہ وہ دکان ومکانات و دیہات ہی ہوں کہ یہ خریداری اگرچہ بنظر مصلحت جائز ہوتی ہے مگر اس کے باعث وہ چیزیں وقف مسجد نہ ہوگئیں کہ ان کی بیع ناجائز ہو،
فی الخانیۃ باب الرجل یجعل دارہ مسجدا المتولی اذااشتری من غلۃ المسجد حانوتا او دار ا اومستغلا اٰخر جاز لان ھذامن مصالح المسجد فاذا اراد المتولی ان یبیع مااشتری وباع اختلفوافیہ قال بعضھم لایجوز ھذا البیع لان ھذاصار من اوقاف المسجد وقال بعضھم یجوز ھذاالبیع وھو الصحیح لان المشتری لم یذکر شیئا من شرائط الوقف فلایکون مااشتری من جملۃ اوقاف المسجد۲؎اھ
خانیہ کے ''باب الرجل یجعل دارہ مسجدا'' میں ہے کہ متولی اگر مسجد کی آمدنی سے دکان، گھر یا دیگر منافع خریدے تو جائز ہے کیونکہ یہ مسجد کے مصالح میں سے ہے۔ پھر جب متولی چاہے کہ جو اس نے خریدا اس کو فروخت کرے، اور فروخت کردے تو اس میں فقہاء نے اختلاف کیا، بعض نے کہایہ بیع ناجائز ہے کیونکہ یہ چیز اوقاف مسجد میں سے ہوچکی ہے اور بعض نے کہا یہ بیع جائز ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ مشتری نے شرائط وقف میں سے کچھ بیان نہیں کیا لہذا جو کچھ اس نے خریدا وہ اوقاف مسجد میں سے نہیں ہوگا اھ
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الوقف   باب الرجل یجعل دارہ مسجدا     مطبوعہ نولکشور لکھنؤ   ۴/ ۷۱۵)
وفی منحۃ الخالق وردالمحتار عن الفتح اعلم ان عدم جواز بیعہ الااذا تعذر الانتفاع بہ، انما ھوفیما ورد علیہ وقف الواقف امافیما اشتراہ المتولی من مستغلات الوقف فانہ یجوز بیعہ بلا ھذا الشرط وھذا لان فی صیرورتہ وقفا خلافا والمختار انہ لایکون وقفا فللقیم ان یبیعہ متی شاء لمصلحۃ عرضت۱؎اھ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
منحۃ الخالق اور ردالمحتار میں فتح کے حوالہ سے ہے۔ جان لے کہ بیشک وقف سے انتفاع کے متعذر ہوئے بغیر اسکی بیع کا عدم جواز صرف اس چیزمیں ہے جس پر واقف کا وقف وارد ہوا، رہی وہ چیز جس کو متولی نے وقف کی آمدنی سے خرید ا تو اس میں شرط مذکور کے بغیر بھی بیع جائز ہے کیونکہ اس کے وقف ہونے میں اختلاف ہےاور مختار یہ ہے کہ وہ وقف نہیں ہے لہذا متولی کو اختیار ہے کہ کسی مصلحت کے عارض ہونے پر جب چاہے اس کو فروخت کرسکتا ہے اھ، اور اﷲ سبحٰنہ وتعالی بہتر جانتا ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    مطلب فی الوقف اذاخرب الخ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۸۲)

(منحۃ الخالق علی ھامش البحرالرائق     کتاب الوقف    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵/ ۲۲۰)
Flag Counter