Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
36 - 112
پھر بحالت شرط استبدال بھی اس تبدیل کاجواز چند شرط سے مشروط:

اولاً یہ تبدیل کرنے والاخود واقف ہو یا وہ جس کی تبدیل اس نے شرط کی ہو مثلاً اپنے لئے تبدیل شرط کی تومتولی وغیرہ کسی کو اختیار نہیں اور دوسرے کے لئے شرط کی تو واقف کو اختیار ہے۔

ثانیاً جتنی بار شرط کی اس سے زائد نہ ہو مثلاً کہا کہ مجھے تبدیل کا اختیار ہے تو ایک ہی بار بدل سکتا ہے اور اگر کہا جس قدر بار چاہوں تبدیل کروں تو ہمیشہ مختارہے۔

ثالثاً تبدیل عقار یعنی جائداد غیر منقولہ سے ہونہ روپیہ اشرفی سے۔

رابعاًعقار میں تخصیص کردی ہے تو اس کے خلاف کا اختیار نہیں مثلاًزمین سے بدلنا شرط کیا تو مکان سے تبدیل نہیں کرسکتا اور مکان کی شرط کی زمین سے تبدیل کا اختیار نہیں رکھتا یونہی فلاں شہر یا گاؤں کی زمین یا فلاں محلہ کے مکان یا فلاں بازار کی دکان کی تخصیص کی تو معتبر رہے گی۔

خامساً تبدیل مکان بمکان میں وہ مکان اسی محلہ کا ہو یا اس سے بہتر کا، یونہی دکان میں بازار وہی ہو یا اس سے بہتر۔

سادساً بیع میں غبن فاحش نہ ہو۔

سابعاً ایسے کے ہاتھ بیع نہ کرے جس کے لئے اس کی شہادت بوجہ تہمت رعایت مقبول نہ ہوجیسے باپ بیٹا۔
اقول:  خلاصہ یہ کہ مخالفت شرط ومظنہ مخالفت نفع وقف سے بچے سب شرائط انہیں دو کلموں میں آگئے،
اما الاولان والرابع ففی الاولی ولیس استبدالہ بنفسہ اذا شرطہ لغیرہ من باب الخلاف لماصرح بہ فی الخانیۃ اٰخر فصل الشرط فی الوقف ان الوقف ھو الذی شرط لذٰلک الرجل وما شرط لغیرہ فھو مشروط لنفسہ  ۱؎ اھ واما البواقی ففی الاخری فان النقد اسرع ھلا کا من العقار فالا ستبدال بہ نزول الی الاخس وفیہ مخالفۃ النفع والسابع مظنتھا۔
بہر حال پہلی دونوں اور چوتھی شرط ہے تو اول میں خود واقف کا تبدیل کرنا جبکہ وہ غیر کیلئے استبدال کی شرط کرچکا ہو خلاف شرط کے قبیلہ سے نہیں، اس دلیل کی بناء پر جس کی تصریح خانیہ کے باب الوقف، فصل الشرط کے آخر میں کی گئی کہ بیشک واقف وہی ہے جس نے اس شخص (غیر) کے لئے استبدال کی شرط لگائی اور جو شرط اس نے غیر کے لئے لگائی وہ خود اس کے اپنے لئے بھی شرط ہوئی اھ لیکن باقی شرطوں میں سے دوسری اس لئے کہ نقدی عقار کی بنسبت جلد ہلاک ہوتی ہے تو نقدی کے ساتھ وقف زمین کا تبادلہ گھٹیاکی طرف نزول ہوگا اور اس میں نفع کی مخالفت ہے اور ساتویں شرط میں اس مخالفت کا ظن ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    فصل فی مسائل الشرط فی الوقف     مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۴/ ۷۲۲)
ہاں جو وقف ویران وخراب ہوجائے تو قاضی شرع حاکم اسلام عالم عادل متدین خداترس کو بلاشرط واقف بلکہ باوصف منع واقف بھی اسے بیچ کر دوسری جائداد اسی غرض کے لیے اس کے قائم مقام کردینے کی اجازت ہے بچند شروط، چار شرطیں تو یہی کہ اوپر گزریں یعنی اول وثانی و رابع کے سوااور پانچویں شرط جو ابھی بیان کی کہ قاضی قاضی  بہشت ہو، نہ قاضی جہنم،
سادساً وقف کا کچھ غلہ کرایہ وغیرہ ایسا نہ ہو جس سے اس کی آباد ی ہوسکے۔

سابعاً ویرانی کامل ومطلق ہو کہ اصلاً قابل انتفاع نہ رہے جس غرض کے لئے وقف کیا کچھ کام نہ دے یا آمدنی اس قدر ناقص ہو کہ اس کے خرچ کو بھی غیر وافی ہو،
ھذامالخصناہ بتوفیق اﷲتعالٰی من کلمات العلماء سنذکرکلامھم لیتضح لک جلیلۃ الماٰل قال فی ردالمحتار اعلم ان الاستبدال علی ثلٰثۃ وجوہ، الاول ان یشترطہ الواقف لنفسہ اولغیرہ اولنفسہ وغیرہ،فالاستبدال فیہ جائز علی الصحیح، والثانی ان لایشرطہ سواء شرط عدمہ اوسکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بان لایحصل منہ شیئ اصلا اولایفی بمؤنتہ فھو ایضا جائز علی الاصح اذاکان باذن القاضی ورأیہ المصلحۃ فیہ، والثالث ان لایشرطہ ایضا ولکن فیہ نفع فی الجملۃ وبدلہ خیرمنہ ریعاونفعا وھذالایجوز استبدالہ علی الاصح المختار کذاحررہ العلامۃ قنالی زادہ وھو ماخوذ من الفتح ۱؎اھ
یہ وہ خلاصہ ہے جو ہم نے علماء کی کلاموں سے اﷲ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ اخذ کیا ہے اب ہم ان علماء کرام کا کلام ذکر کرینگے تاکہ تیرے لئے بحث کے انجام کی عظمت واضح ہوجائے، ردالمحتار میں فرمایا تو جان لے کہ استبدال تین وجہوں پر ہے، اول یہ کہ واقف نے اپنے لئے یا غیر کےلئے یا دونوں کے لئے استبدال کی شرط لگائی ہوتو اس صورت میں صحیح قول کے مطابق استبدال جائز ہے۔ دوم یہ کہ واقف نے استبدال کی شرط نہ لگائی ہو عام ازیں کہ عدم استبدال کی شرط لگائی ہو یا خاموشی اختیار کی ہولیکن وقف ایسا ہو گیا کہ اب اس سے بالکل نفع نہیں اٹھایا جاسکتا بایں طور کہ اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا یا اتنا حاصل ہوتا ہے جس سے وقف کاخرچہ پورا نہیں ہوتا تو اصح قو ل کے مطابق اس میں بھی استبدال جائز ہے بشرطیکہ قاضی اس کا اذن دے اور وہ اس میں مصلحت سمجھے۔ سوم یہ کہ واقف نے استبدال کی شرط تو نہ کی ہو لیکن اس وقف میں کچھ نفع ہو اور اس کا بدل ماحول اور نفع کے اعتبار سے وقف سے بہتر ہوتو اصح ومختار قول کے مطابق اس کا استبدال جائز نہیں۔ علامہ قنالی زادہ نے یوں ہی تحریر فرمایا ہے اور یہی فتح سے ماخوذ ہے اھ
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۸۷)
ثم قال وفی البحر، المعتمد انہ بلاشرط یجوز للقاضی بشرط ان یخرج عن الانتفاع بالکلیۃ وان لایکون ھناک ریع للوقف یعمربہ وان لایکون البیع بغبن فاحش وشرط فی الاسعاف ان یکون المستبدل قاضی الجنۃ المفسر بذی العلم والعمل 

ویجب ان یزاد اٰخر فی زماننا وھو ان یستبدل بعقار لابدراھم ودنا نیر فانا قد شاھد نا النظار یأکلونھا وافادفی البحرزیادۃ شرط سادس ان لایبیعہ ممن لاتقبل شہادتہ لہ ولاممن لہ علیہ دین، حیث قال باع من رجل لہ علی المستبدل دین وباع الوقف بالدین وینبغی ان لایجوز علی قول ابی یوسف وھلال لانھما لایجوز ان البیع بالعروض فالدین اولی اھ وذکر عن القنیۃ مایفید شرطا سابعا حیث قال مبادلۃ دار الوقف بداراخری انما یجوز اذاکانتا فی محلۃ واحدۃ اومحلۃ الاخری خیرا، وبالعکس لایجوز وان کانت المملوکۃ اکثر مساحۃ وقیمۃ واجرۃ لاحتمال خرابھا فی ادون المحلتین اھ
پھر فرمایا اور بحر میں ہے معتمدیہ ہے کہ یہ بلاشرط ہے جبکہ قاضی کےلئے اس شرط کے ساتھ استبدال جائز ہے کہ وقف کلی طور پر انتفاع سے خارج ہوجائے اور نہ ہی وقف کا ماحول اس قابل ہو کہ اس کے ذریعے وقف کو آباد کیاجاسکے اور نہ ہی یہ بیع غبن فاحش کے ساتھ ہو۔ اسعاف میں یہ شرط لگائی گئی کہ تبدیل کرنے والا قاضی بہشت یعنی صاحب علم وعمل ہواور ہمارے زمانے میں ایک اور شرط کااضافہ ضروری ہے وہ یہ وقف کاتبادلہ عقار کے ساتھ کیاجائے نہ کہ درہموں اور دیناروں کے ساتھ،کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ متولی وقف کے عوض دراہم ودینار لے کر کھاجاتے ہیں اور بحر نے چھٹی شرط کے اضافے کا فائدہ دیاہے وہ یہ کہ وقف کی زمین ایسے شخص کے ہاتھ فروخت نہ کرے جس کے حق میں اس کی گواہی مقبول نہیں اور نہ ہی ایسے کے ہاتھ فروخت کرے جسکا یہ مقروض ہے۔جہاں صاحب بحر نے فرمایا کہ وقف کو ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کیا جسکا تبدیل کرنے والے پر قرض تھا اور اس نے قرض کے بدلے وقف کو بیچا تو امام ابویوسف اور ہلال کے نزدیک یہ بیع ناجائز ہونی چاہئے کیونکہ یہ دونوں عروض کے عوض بیع کو ناجائز مانتے ہیں، تو دین کے عوض بدرجہ اولٰی ناجائز ہوگی اھ اور قنیہ کے حوالے سے صاحب بحر نے جو ذکر کیا وہ ساتویں شرط کا فائدہ دیتا ہے جہاں یہ فرمایا کہ وقف مکان کو دوسرے مکان سے تبدیل کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے کہ وہ دونوں مکان ایک ہی محلہ میں واقع ہوں یا دوسرا محلہ بہتر ہو اور اس کے برعکس استبدال ناجائز ہے اگرچہ تبدیل شدہ مکان وسعت،قیمت اور اجرت کے اعتبار سے وقف کی بنسبت اکثر ہو کیونکہ کمتر محلہ میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کی خرابی کا احتمال ہے اھ،
وزاد قنا لی زادہ ثامنا وھو ان یکون البدل والمبدل من جنس واحدلما فی الخانیۃ لو شرط لنفسہ استبدالھا بدارلم یکن لہ استبدالہا بارض وبالعکس او بارض البصرۃ تقید اھ فھذافیما شرطہ لنفسہ فکذایکون شرطا فیما لم یشرطہ لنفسہ بالاولی تامل ثم قال والظاہر عدم اشتراط اتحاد الجنس فی الموقوفۃ للاستغلال لان المنظور فیہا کثرۃ الریع وقلۃ المرمۃ والمؤنۃ اھ ولایخفی ان ھذہ الشروط فیما لم یشرط الواقف استبدالہ لنفسہ اوغیرہ، فلو شرطہ لایلزم خروجہ عن الانتفاع ولامباشرۃ القاضی لہ ولاعدم ریع یعمربہ کما لایخفی فاغتنم ھذاالتحریر۱؎اھ کلام الشامی ملخصاً
اور قنالی زادہ نے آٹھویں شرط کا اضافہ کیا وہ یہ کہ بدل اور مبدل دونوں ایک ہی جنس سے ہو ں اس دلیل کی بنا پر جو خانیہ میں ہے کہ اگر واقف نے شرط لگائی کہ وہ وقف گھر کو گھر سے بدلے گا تو اس کے بدلے میں زمین لینا اس کے لئے جائز نہیں یونہی اسکے برعکس یا یہ شرط لگائی کہ اس کے بدلے بصرہ کی زمین لے گا تویہ مقید ہوجائے گااھ یہ اس صورت میں ہے جب واقف نے اپنے لئے یہ شرط لگائی ہو اسی طرح یہ بدرجہ اولٰی شر ط ہوجائے گی جبکہ اس نے خاص اپنے لئے یہ شرط نہ لگائی ہو، غور کر، پھر فرمایا غلہ حاصل کرنے کے لئے زمین موقوفہ کے استبدال میں ظاہر اتحاد جنس کا شرط نہ ہونا ہے کیونکہ اس میں سبزہ، گھاس اور غلہ کی کثرت اور مرمت اور خرچہ کی قلت ملحوظ ہوتی ہے اھ اور پوشیدہ نہ رہے کہ یہ تمام شرطیں اس صورت میں ہیں جب واقف نے اپنے لئے یاغیر کے لئے استبدال کی شرط نہ لگائی ہو چنانچہ اگر واقف نے استبدال کی شرط لگائی ہے تو استبدال کےلئے وقف کا انتفاع سے خروج اور اس کے لئے قاضی کی مباشرت اور وقف کے مال کا ایسا نہ ہونا جس سے اس کو آباد کیاجاسکے کچھ بھی ضروری نہیں جیسا کہ مخفی نہیں، پس اس تحریر کو غنیمت سمجھ اھ تلخیص کلام شامی۔
 (۱؎ ردالمحتار     کتا ب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۸۸)
ورائیتنی کتبت علی ھامشہ عند ذکرہ الشرط الثامن وھواتحاد جنس البدلین مانصہاقول :  الذی یظھر للعبد الضعیف انہ غیر شرط الا لاتباع الشرط حتی لو شرط الاستبدال واطلق لم یتقید بالجنس کما یفیدہ کلام الاسعاف فاذن لایکون ھذامشروطا فی التبدیل بالشرط، ثم راجعت الخانیۃ فوجدت کلامھا انص علی مافھمت وﷲالحمد حیث قال رضی اﷲ تعالٰی عنہ،لوقال ارضی صدقہ موقوفۃ علی ان لی ان استبدلھا بارض اخری لم یکن لہ ان یستبدلھا بدار لانہ لایملک تغیر الشرط، ولو قال ان لی ان استبدلھا بدارلم یکن لہ ان یستبدلھا بارض، ولو شرط الاستبدال ولم یذکر ارضا ولادارافباع الارض الاولی کان لہ ان یستبدلھا بجنس العقارات ماشاء من دار اوارض لاطلاق اللفظ۱؎اھ مختصرا،
اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے شامی کے اس مقام پر حاشیہ لکھا جہاں علامہ شامی نے آٹھویں شرط یعنی بدلین میں اتحاد جنس کاصراحۃً ذکر کیا(اور وہ حاشیہ یوں ہے) اقول: (میں کہتا ہوں جو ا س ضعیف بند ے پر ظاہرہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ غیر شرط ہے مگر اتباع شرط کے لئے یہاں تک کہ اگر واقف نے مطلقاً استبدال کی شرط لگائی تو یہ استبدال جنس کے ساتھ مقید نہ ہوگا جیسا کہ اسعاف کا کلام اس کا فائدہ دیتا ہے لہذایہ بلاشرط تبدیل میں مشروط نہیں ہوگا پھر میں نے خانیہ کی طرف رجوع کیا تو الحمد ﷲ اس کے کلا م کو اپنے فہمیدہ پر بہترنص پایا جہاں امام قاضی خاں رضی اﷲتعالٰی عنہ نے فرمایا اگر واقف نے کہا میری یہ زمین صدقہ موقوفہ ہے اس شرط پرکہ مجھے دوسری زمین کے ساتھ استبدال کا اختیار ہوگا تو اس کو گھر کے ساتھ استبدال کا اختیار نہ ہوگا کیونکہ وہ شرط میں تبدیلی کا مالک نہیں، اور اگر اس نے کہا کہ مجھے گھر کے ساتھ استبدال کا اختیار ہوگا تو وہ دوسری زمین کے ساتھ استبدال نہیں کرسکتا اور اگر اس نے استبدال کی شرط لگائی مگر اس نے زمین یا گھر کاذکر نہیں کیا پھر پہلی زمین کو بیچ دیا تو اس کو اختیار ہوگا کہ وہ ثمن کے بدلے کوئی بھی غیر منقولہ جائداد لے سکتا ہے چاہے زمین ہو یا گھر کیونکہ اس نے لفظ مطلق بولا ہے اھ اختصارا۔
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    فصل فی مسائل الشرط فی الوقف    مطبوعہ منشی نولکشور لکھنؤ    ۴ /۷۲۱)
Flag Counter