فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف ) |
یعنی مسجد کا اسباب جیسے بوریا، مصلی، فرش،قندیل، وہ گھاس کہ گرمی کے لئے جاڑوں میں بچھائی جاتی ہے وغیر ذٰلک، اگر سالم وقابل انتفاع ہیں او رمسجد کو ان کی طرف حاجت ہے تو ان کے بیچنے کی اجازت نہیں، اور اگر خراب وبیکار ہوگئی یا معاذاﷲ بوجہ ویرانی مسجد ان کی حاجت نہ رہی، تو اگر مال مسجد سے ہیں تو متولی، اور متولی نہ ہو تو اہل محلہ متدین امین باذن قاضی بیچ سکتے ہیں، اور اگر کسی شخص نے اپنے مال سے مسجد کو دئے تھے تو مذہب مفتی بہ پر اس کی ملک کی طرف عود کرے گی جو وہ چاہے کرے، وہ نہ رہا ہو اور اس کے وارث وہ بھی نہ رہے ہوں یا پتا نہ ہو تو ان کا حکم مثل لقطہ ہے، کسی فقیر کو دے دیں، خواہ باذن قاضی کسی مسجد میں صرف کردیں،
فی الھندیۃ عن الذخیرۃ رباط کثرت دوابہ وعظمت مؤنھا ھل للقیم ان یبیع شیئا منھا وینفق ثمنھا فی علفھا او مرمۃ الرباط، فھذاعلی وجھین ان بلغ سن البعض الی حد لایصلح لما ربطت لہ، فلہ ذٰلک وما لافلا۲؎الخ
ہندیہ میں ذخیرہ سے منقول ہے کہ ایک رباط کے جانور بہت زیادہ ہوگئے اور ان کاخرچہ بہت بڑھ گیا تو کیا متولی ان میں سے بعض کو فروخت کرکے ان کی قیمت جانوروں کے چارہ اور رباط کی مرمت پرصرف کرسکتاہے یانہیں، اس مسئلہ کی دو صورتیں ہیں، اگربعض جانوروں کی عمریں اس قدر زیادہ ہوچکی ہیں کہ وہ اس مقصد کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کے لئے ان کو رباط میں باندھاگیا ہے تو متولی انہیں فروخت کرسکتاہے ورنہ نہیں الخ۔
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الثانی مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۷۰)
وفی الخانیۃ جنازۃ او نعش للمسجد فسد فباعہ اھل المسجد قالوا الاولی ان یکون البیع بامرالقاضی والصحیح ان بیعہم لایصح بغیر امر القاضی ۱؎ اھ وفیہا بسط من مالہ حصیرا فی المسجد فخرب المسجد ووقع الاستغناء عنہ فان ذٰلک یکون لہ ان کان حیا ولوارثہ ان کان میتا وان بلٰی ذٰلک کان لہ ان یبیع ویشتری بثمنھا حصیرا اٰخر، وکذالو اشتری حشیشا او قندیلا للمسجد فوقع الاستغناء عنہ،وعندابی یوسف یباع ویصرف ثمنہ الٰی حوائج المسجد فان استغنی عنہ ھذاالمسجد یحول الی المسجد الاٰخر، والفتوی علی قول محمد، ولو ان اھل المسجد باعوا حشیش المسجد اوجنازۃ او نعشا صار خلقا ومن فعل ذلک غائب، لایجوز الاباذن القاضی ھوالصحیح۲؎اھ
خانیہ میں ہے مسجد کا تابوت اور مسجد کی چارپائی جو کہ خراب ہوچکی ہو پس اہل مسجد نے اسے فروخت کردیا تو مشائخ فرماتے ہیں کہ قاضی کے حکم سے بیع کا ہونا اولی ہے اور صحیح یہ ہے کہ بلااذن قاضی ان کی بیع درست نہیں ہوگی اھ اسی میں ہے کسی شخص نے اپنے مال سے مسجد میں چٹائی بچھائی پھر مسجد ویران ہوگئی اور اس چٹائی کی ضرورت نہ رہی تو وہ چٹائی بچھانے والے کی ہوگی اگر وہ زندہ ہے ورنہ اس کے وارثوں کی ہوگی، اور اگر وہ چٹائی بوسیدہ ہوجائے تو بچھانے والے کواختیار ہے کہ اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے نئی چٹائی خریدلے۔ اسی طرح حکم ہے اگر کسی نے مسجد کےلئے گھاس یا قندیل خریدا پھر اس کی ضرورت نہ رہی ہو، اور امام ابویوسف کے نزدیک ان چیزوں کو فروخت کرکے ان کی قیمت کو مسجد کی ضروریات پر صرف کیاجائے گا اور اگر اس مسجد کوضرورت نہ ہو تو دوسری مسجد کی طرف منتقل کیاجائے گا، اور فتوٰی امام محمد کے قول پر ہے، اور اگراہل مسجد نے مسجد کی پرانی گھاس یا پرانا تابوت یا پرانی چارپائی فروخت کردی جبکہ یہ چیزیں مسجد کو دینے والاغائب ہے تو قاضی کی اجازت کے بغیر یہ جائز نہیں اور یہی صحیح ہے اھ
(۱؎ و ۲؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الوقف مطبوعہ نولکشور لکھنؤ اول۷۱۶، دوم ۷۱۳) ( فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الحادی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۸)
فی الھندیۃ ذکر ابواللیث فی نوازلہ حصیرالمسجد اذاصار خلقا واستغنی اھل المسجد عنہ وقد طرحہ انسان ان کان الطارح حیا فھو لہ وان کان میتا ولم یدع لہ وارث ارجو ان لاباس بان یدفع اھل المسجد الی فقیر ا وینتفعوا بہ فی شراء حصیر اٰخر للمسجد والمختار انہ لایجوز لھم ان یفعلوا ذٰلک بغیر امر القاضی کذافی محیط السرخسی ۱؎اھ فی ردالمحتار عن البحر الفتوی علی قول محمد فی اٰلات المسجد وعلی قول ابی یوسف فی تابید المسجد۲؎۔
ہندیہ میں ہے کہ ابولیث نے اپنی نوازل میں ذکرکیا کہ مسجد کی چٹائی جب پرانی ہوگئی اور اہل مسجد کو اس کی ضرورت نہ رہی جبکہ اس کو ایک شخص نے ڈلوایا تھا وہ اس کی ہوگی اگر وہ زندہ ہے اور اگر وہ مرگیا اورکوئی وارث نہیں چھوڑا تو میں امید کرتا ہوں کہ اس بات میں حرج نہیں کہ اہل مسجد وہ چٹائی کسی فقیر کو دے دیں یا اس کو بیچ کر مسجد کے لئے دوسری چٹائی خریدنے میں اس سے نفع اٹھائیں، اور مختار یہ ہے کہ قاضی کی اجازت کے بغیر انہیں ایسا کرنا جائز نہیں، محیط سرخسی میں یونہی ہے اھ، ردالمحتار میں بحوالہ بحر ہے کہ آلات مسجد کے بارے میں فتوٰی امام محمد کے قول پر ہے اور تابیدمسجد کے بارے میں فتوٰی امام ابویوسف کے قول پر ہے رحمۃ اﷲتعالٰی علیہما(ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الحادی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۸) (۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۱)
اوقاف:
جبکہ عامر وآباد نہ ہوں ان کی بیع اصلاً جائز نہیں مگر بناچاری کہ ظالم نے زبردستی ان پر قبضہ کرلیا اور اس سے رہائی کی سبیل نہیں مگر وہ قیمت دینے پر راضی ہے تو بمجبوری ثمن لے کر ان کے عوض اور خرید کر ان کے قائم مقام کردیں یا جبکہ واقف نے اصل وقف میں استبدال شرط کرلیا ہو تو جائز ہے کہ انہیں بیچ کر تبدیل کرلیں،
فی الدر عن الاشباہ لایجوز استبدال العامر الا فی اربع۳؎، فی ردالمحتار، الاولی لوشرطہ الواقف، الثانیۃ اذاغصبہ غاصب واجری علیہ الماء حتی صار بحرا، فیضمن القیمۃ ویشتری المتولی بھا ارضابدلا، الثالثۃ ان یجحدہ الغاصب ولابینۃ ای واراد دفع القیمۃ فللمتولی اخذھا لیشتری بھا بدلا، الرابعۃ ان یرغب انسان فیہ ببدل اکثر غلۃ واکثر صقعاً فیجوز علی قول ابی یوسف وعلیہ الفتوی کما فی فتاوٰی قارئ الھدایۃ،
درمختار بحوالہ اشباہ مذکور ہے کہ چار صورتوں کے علاوہ آباد وقف کو تبدیل کرناجائزنہیں، ردالمحتار میں ہے(ان چارصورتوں میں سے) پہلی صورت یہ ہے کہ خود واقف نے تبدیل کرنے کی شرط لگائی ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ غاصب نے اسے غصب کرکے اس پرپانی جاری کردیا یہاں تک کہ وہ وقف دریا بن جائے تو اس صورت میں غاصب قیمت کا تاوان دے گا اور متولی اس قیمت کے بدلے دوسری زمین خریدے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ غاصب انکاری ہے اور گواہ نہیں ہیں یعنی غاصب وقف زمین کی قیمت دینے پر آمادہ ہے تو متولی کواختیار ہے کہ اس سے قیمت وصول کرلے تاکہ اس کے بدلے دوسری زمین خرید لے چوتھی صورت یہ ہے کوئی شخص وقف زمین میں ایسی زمین کے بدلے رغبت رکھتا ہے جو غلہ کے اعتبار سے زمین وقف سے اکثر اور محل وقوع کے اعتبار سے زیادہ خوبصورت ہوتو امام ابویوسف کے قول پر تبدیل کرلینا جائز ہے اور اسی پر فتوٰی ہے جیسا کہ فتاوٰی قاری الہدایہ میں ہے،
(۳؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۴)
قال صاحب النھر فی کتابہ اجابۃ السائل قول قارئ الھدایۃ،''والعمل علی قول ابی یوسف'' معارض بما قالہ صدر الشریعۃ ''نحن لانفتی بہ''، وقد شاھد نا فی الاستبدال ما لایعد ویحصی، فان ظلمۃ القضاۃ جعلوہ حیلۃ لابطال اوقاف المسلمین وعلی تقدیرہ فقد قال فی الاسعاف المراد بالقاضی ھو قاضی الجنۃ المفسر بذی العلم والعمل اھ ولعمری ان ھذااعزمن الکبریت الاحمر، وما اراہ الالفظاً یذکر فالاحری فیہ السد خوفا من مجاوزۃ الحد واﷲ سائل کل انسان اھ قال العلامۃ البیری بعد نقلہاقول : وفی فتح القدیر الموجب الشرط اوالضرورۃ ولاضرورۃ فی ھذااذلاتجب الزیادۃ بل نبقیہ کما کان اھاقول : ماقالہ ھذاالمحقق ھوالحق الصواب اھ کلام البیری وھذا ماحررہ العلامۃ القنالی۱؎ اھ مافی ردالمحتار مختصراً
صاحب نہر نے اپنی کتاب اجابۃ السائل میں فرمایا قاری الہدایہ کا کہنا کہ عمل امام ابویوسف کے قول پر ہے صدر الشریعۃ کے اس قول کے مخالف ہے کہ ہم اس پر فتوٰی نہیں دیتے تحقیق ہم نے وقف کی تبدیلی میں بے شمار (خرابیاں) دیکھی ہیں کیونکہ ظالم قاضیوں نے اس کو مسلمانوں کے اوقاف باطل کرنے کا حیلہ بنالیا ہے، اسی لئے اسعاف میں فرمایا کہ قاضی مستبدل سے مراد قاضی بہشت ہے جس کی تفسیر اہل علم وعمل کے ساتھ کی جاتی ہےاھ میری عمر کی قسم یہ صورت تو کبریت احمر سے بھی زیادہ نادر ہے اور میں نہیں خیال کرتاہوں اس کو مگر محض لفظ جس کا ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ حد سے تجاوز کرنے کے خوف کے پیش نظر زیادہ مناسب اس میں ممانعت ہے اور اﷲ تعالٰی ہر انسان سے پوچھنے والاہے اھ علامہ بیری نے اس کو نقل کرنے کے بعد کہا میں کہتا ہوں اور فتح القدیر میں ہے کہ استبدال کا موجب یا تو شرط استبدال ہے یا ضرورت استبدال جبکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں کیونکہ وقف پر زیادتی واجب نہیں بلکہ ہم اس کو پہلی حالت پر باقی رکھیں گے اھ میں کہتاہوں جو کچھ اس محقق نے کہا وہی حق اور درست ہے اھ کلام البیری۔ یہ وہ ہے جس کو علامہ قنالی نے تحریر کیا ہے اھ مختصراً ردالمحتار،
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۸۹)
ورأیتنی کتبت علی ھامش قولہ واجری علیہ الماء حتی صار بحرامانصہاقول : علی ھذالم یبق عامراوفیہ کلام والصورۃ الرابعۃ سیأتی ان الحق عدم جواز الاستبدال فیہا فلم یبق الاصور تان بل لک ان تقول الثالثۃ ایضا خراب معنی وان لم یکن صورۃ فلک ان تقول ان العامر لایستبدل الابشرط کما ھو قضیۃ ماحقق المحقق فی الفتح حیث حصرہ فی الشرط اوضرورۃ خروجہ من الانتفاع بہ وان شئت اوضحت فقلت ان الوقف مھما امکن الانتفاع بہ لم یجز استبدالہ الابالشرط۔
اور مجھے یادپڑتا ہے کہ میں نے شامی کے قول کہ ''غاصب نے زمین وقف پرپانی بہایا یہاں تک کہ وہ دریا بن گئی'' پر یوں حاشیہ لکھا کہ میں کہتا ہوں اس صورت میں وہ آباد نہ رہی حالانکہ کلام تو آباد زمین میں ہورہی ہے، اور عنقریب چوتھی صورت کے بارے میں آرہا ہے کہ اس میں حق استبدال کا عدم جواز ہے، تو اب صرف دو صورتیں باقی ہیں بلکہ تو کہہ سکتا ہے کہ تیسری صورت بھی معنیً خراب ہے اگرچہ صورتاً نہیں، لہذا تو کہہ سکتا ہے کہ آباد زمین وقف میں استبدال نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ واقف نے خود استبدال کی شرط لگادی ہو، جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور کلام محقق کا تقاضاہے جہاں اس نے استبدال کو شرط یا انتفاع سے خارج ہونے کی ضرورت میں منحصر کیا ہے اگر توتفصیل کا طلبگار ہے تو میں کہتا ہوں کہ جب تک وقف سے انتفاع ممکن ہو بلا شرط اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں۔(ت)