رسالہ
التحریر الجید فی حق المسجد(۱۳۱۵ھ)
(مسجد کے حق میں عمدہ تحریر)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ۱۳۴:بنگال ضلع نواکھالی مقام ہتیامرسلہ مولوی عباس علی عرف مولوی عبدالسلام صاحب ۲۱ذوالحجۃ الحرام ۱۳۱۵ہجری قدسیہ۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین وفضلائے شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد کی چیزیں فروخت کرنا جائز ہوگا یانہیں؟
الجواب
مسجد کی چیزیں اس کے اجزاء ہیں،یا آلات یا اوقاف یا زوائد، اجزاء یعنی زمین و عمارت قائمہ کی بیع تو کسی حال ممکن نہیں مگر جب مسجد معاذاﷲ ویران مطلق ہوجائے اور اس کی آبادی کی کوئی شکل نہ رہے تو ایک روایت میں باذن قاضیِ شرع حاکم اسلام اس کا عملہ بیچ کر دوسری مسجد میں صرف کرسکتے ہیں، مواضع ضرورت میں اس روایت پر عمل جائز ہے۔
فی الدرالمختار لوخرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدا عند الامام والثانی ابدا وبہ یفتی وعن الثانی ینقل الٰی مسجد اٰخر باذن القاضی۱؎، وفی ردالمحتار قولہ وعن الثانی الخ جزم بہ فی الاسعاف حیث قال ولو خرب المسجد وما حولہ وتفرق الناس عنہ لایعود الی ملک الواقف عند ابی یوسف فیباع نقضہ باذن القاضی ویصرف ثمنہ الی بعض المساجد۲؎ اھ وفیہ ایضاً الشیخ الامام امین الدین بن عبدالعال والشیخ الامام احمد بن یونس الشبلی والشیخ زین بن نجیم والشیخ محمد عبدالوفائی فمنھم من افتی بنقل بناء المسجد ومنھم من افتی بنقلہ ونقل مالہ الٰی مسجد اٰخر، والذی ینبغی متابعۃ المشائخ المذکورین فی جواز النقل بلا فرق بین مسجد اوحوض کما افتی بہ الامام ابوشجاع والامام الحلوانی وکفی بھما قدوۃ ولاسیمافی زماننا فان المسجد اذالم ینقل یاخذانقاضہ اللصوص والمتغلبون کما ھو مشاھد ۱؎اھ ملتقطاً
درمختار میں ہے اگر مسجد کا گردو پیش ویران ہوگیا اور مسجد کی ضرورت نہیں رہی تب بھی امام اعظم ابوحنیفہ
اور امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہما کے نزدیک وہ ہمیشہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی اور اسی پرفتوٰی دیاجاتا ہے۔ اور امام ابویوسف کی ایک روایت یہ ہے کہ قاضی کی اجازت سے اسے دوسری مسجدکی طرف منتقل کردیا جائیگا۔ ردالمحتار میں ہے کہ ماتن کا قول''وعن الثانی الخ''اسعاف میں اسی پر جزم کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر مسجد اور اس کا گردوپیش ویران ہوجائے اور لوگ وہاں سے نقل مکانی کرجائیں، تو امام ابویوسف کے نزدیک وہ واقف کی ملک میں نہیں لوٹے گی چنانچہ قاضی کی اجازت سے اس کا ملبہ فروخت کرکے ثمن کسی دوسری مسجد میں صرف کیا جائے گااھ اسی میں یہ بھی جیسے شیخ امام امین الدین بن عبدالعال، شیخ امام احمد بن یونس شبلی، شیخ زین بن نجیم اور شیخ محمد الوفائی ان بزرگوں میں سے بعض نے مسجد کی عمارت اور بعض نے عمارت اور اس کے مال کو دوسری مسجد کی طرف منتقل کرنے کا فتوٰی دیا، اور جو بات مناسب ہے وہ یہی ہے کہ مسجد وحوض میں فرق کئے بغیر جواز نقل میں مشائخ مذکورہ کی اتباع کی جائے جیسا کہ امام ابوشجاع اور امام حلوانی نے اس پر فتوی دیاہے اور ان دونوں اماموں کا مقتدا ہونا کافی ہے خصوصاً ہمارے زمانے میں، کیونکہ اگر مسجد کو منتقل نہ کیاجائے تو چوراور جبری قبضہ کرنے والے لوگ اسباب مسجد لے لیں گے جیسا کہ دیکھا جارہا ہے اھ التقاط
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۹)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۱)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۲)
قلت وللعبد الضعیف ھھنا تحقیق شریف حقق فیہ بتوفیق اﷲ تعالٰی ان الروایۃ النادرۃ عن الثانی مفرعۃ علی قولہ المفتی بہ کما افادہ فی الدرر والدر خلافا لما فھمہ العلامۃ الشامی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ وانہ یفتی بھا فی مواضع الضرورۃ کما قررہ الشامی ومن سبقہ ممن سمی وممن لم یسم وانہ یجوز نقل الساحۃ ایضا کما نقل النقض وھو ما مر من قولہ منھم من افتی بنقلہ ونقل مالہ وان قول الدر''ینقل الٰی مسجد اٰخر''۲؎ محمول علی ظاھرہ وان ذکر النقض والمال والبناء فی کلام غیرہ غیر قید وان حاصل تلک الروایۃ زوال المسجدیۃ مع بقاء الوقفیۃ فلا یعود الی ملک البانی اوورثتہ ویجوز النقل والاستبدال واﷲتعالٰی اعلم بحقائق الاحوال۔
قلت (میں کہتا ہوں) اس عبد ضعیف کی یہاں پر ایک نہایت شاندار تحقیق ہے جس میں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے ثابت کیا گیا ہے کہ امام ابویوسف کی روایت نادرہ ان کے مفتی بہ قول پر متفرع ہے جیسا کہ اس کا فائدہ درر اور در نے دیا ہے بخلاف اس کے جو علامہ شامی نے سمجھا اور مواضع ضرورت میں اس پر فتوٰی دیا جتا ہے جیسا کہ علامہ شامی اور ان کے پیش روائمہ نے اس کی تقریر فرمائی ان میں سے بعض کانام علامہ شامی نے ذکر کیا اور بعض کا نام ذکر نہیں کیا، اور اس بات کو بھی ثابت کیا گیا کہ مسجد کے ملبہ کی طرح اس کی میدان کو بھی نقل کرنا جائز ہے،اور علامہ شامی کا یہ قول گزرچکاہے کہ ان میں سے بعض نے مسجد کو نقل کرنے اور اس کے مال کو نقل کرنے کا فتوی دیاہے اور اس بات کو بھی ثابت کیا گیا کہ در کایہ قول ''اس مسجد کو دوسری مسجد کی طرف نقل کیاجائے گا'' اپنے ظاہر پر محمول ہے اور یہ کہ در کے غیر کے کلام میں ملبہ، مال اور عمارت کاذکر بطور قید نہیں اور یہ کہ اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ وقفیت کے باقی رہنے کے باوجود مسجدیت کازوال ہے لہذا بانی یا اس کے وارثوں کی طرف ملک عود نہیں کرے گی اور اس کا نقل کرنا اور تبدیل کرنا جائز ہے اور احوال کی حقیقتوں کو اﷲتعالٰی خوب جانتا ہے(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۹)
ہاں اگر معاذ اﷲ مسجد کی کچھ بنا منہدم ہوجانے یا اس میں ضعف آجانے کے سبب خود منہدم کرکے از سر نوتجدید عمارت کریں اب جو اینٹوں کڑیوں تختوں کے ٹکڑے حاجت مسجد سے زائد بچیں کہ عمارت مسجد کے کام نہ آئیں اور دوسرے وقت حاجت عمارت کے لئے اٹھارکھنے میں ضائع ہونے کا خوف ہوتو ان دو شرطوں سے ان کی بیع میں مضائقہ نہیں مگر اذن قاضی درکار ہے اور اس کی قیمت جو کچھ ہو وہ محفوظ رکھی جائے کہ عمارت ہی کے کام آئے،
فی ش عن ط عن الھندیۃ مسجد مبنی اراد رجل ان ینقضہ ویبنیہ احکم، لیس لہ ذٰلک لانہ لاولا یۃ لہ، مضمرات، الاان یخاف ان ینھدم ان لم یھدم تاتارخانیۃ، وتاویلہ ان لم یکن البانی من اھل تلک المحلۃ واما اھلھافلھم ان یھدموہ ویجددوا بناءہ ویفرشوا الحصیر ویعلقو القنادیل لکن من مالھم لامن مال المسجد الابامر القاضی خلاصۃ۱؎ اھ
شامی میں ط سے بحوالہ ہندیہ مذکور ہے کہ تعمیر شدہ مسجد کو گراکر اگر کوئی شخص پہلے سے مضبوط تر بنانا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کیونکہ اس کو ولایت حاصل نہیں، مضمرات۔ مگر اس وقت ایساکرنا جائز ہے جب یہ ڈر ہوکہ اگر وہ نہیں کرائیگا تو از خود گرجائے گی، تاتارخانیہ۔ تاویل اس کی یہ ہے کہ جب نئی مسجد بنانے والا اس محلہ کا باشندہ نہ ہو لیکن اہل محلہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پرانی مسجد کو گراکر اس کو نئے سرے سے تعمیر کریں، اس میں چٹائیاں بچھائیں اور قند یلیں لٹکائیں لیکن یہ سب کچھ وہ اپنے مال سے کریں مسجد کے مال سے بلااجازت قاضی وہ ایسا نہیں کرسکتے، خلاصہ۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۰)
وفی العقود الدریۃ عن البحر عن عمدۃ الفتاوٰی لایجوز بیع بناء الوقف قبل ھدمہ۲؎ وفی الھندیۃ عن السراجیۃ لوباعواغلۃ المسجد اونقض المسجد بغیراذن القاضی الاصح انہ لایجوزاھ۳؎
اورعقود الدریہ میں بحر سے بحوالہ عمدۃ الفتاوٰی منقول ہے کہ گرانے سے قبل وقف کی عمارت کو فروخت کرنا جائز نہیں اھ ہندیہ میں سراجیہ کے حوالے سے مذکور ہے کہ اگر لوگوں نے قاضی کی اجازت کے بغیر مسجد کاغلہ یا اس کاملبہ فروخت کردیا تو اصح قول کے مطابق یہ جائز نہیں اھ۔
(۲؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الحامدیۃ کتاب الوقف حاجی عبدالغفار ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۱۱۵)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۶۳)
درمختار میں ہے حاکم یا متولی وقف کے ملبہ یا اس کی قیمت کوصرف کرے اگر وقف کا اعادہ بعینہ اس کی عمارت کی طرف متعذر ہواگر حاجت ہو مرمت کی، ورنہ قضائے حاجت کے لئے محفوظ رکھے، مگر جب اس کے ضائع ہونے کاڈر ہوتواس کو فروخت کرکے ثمن وقف حاجت کےلئے رکھ چھوڑے۔(ت)