Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
33 - 112
باب المسجد

(احکام مسجد کا بیان)
مسئلہ ۱۳۱: میمن محمد عبداﷲ ابوبکر سوداگر زور نگل بازار انتصار گنج ریاست حیدر آباد دکن ۱۲شوال ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک چبوترہ پر عرصہ تیس سال سے اذان ونماز باجماعت وجمعہ ہواکرتی ہے، اس پر محراب ومنبر بھی ہے، زید کہتا ہے کہ محض چبوترہ پر نماز وغیرہ قائم ہونے سے حرمت مسجد نہیں ہوتی کیونکہ اس پر نہ چھت ہے نہ منارہ جولوازمات مسجد ہیں، بکرکہتا ہے یہ لوازمات مسجد نہیں اذان ونماز پنجگانہ باجماعت وجمعہ کا قیام کافی ہے، اب ازروئے شرع کیاحکم ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

زید کاقول محض باطل وخلاف شرع ہے مسجد کے لئے چھت،منارہ، دیواریں کوئی چیزلازم نہیں، اس میں تو منبر محراب موجود ہے، یہ بھی نہ ہوتا تو بھی مسجدیت میں خلل نہیں۔مسجد صرف اس زمین کا نام ہے جو نماز کیلئے وقف ہو یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنی نری خالی زمین مسجد کو دے مسجد ہوجائے گی، مسجد کا احترام اس کےلئے فرض ہوجائے گا۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ ابدا او امرھم بالصلٰوۃ مطلقا ونوی الابد صارت الساحۃ مسجد اکذافی الذخیرۃ وھکذا فی فتاوٰی قاضی خان۔(ملخصاً)
کسی شخص کی خالی زمین ہے جس میں عمارت نہیں اس نے لوگوں کو کہا کہ اس میں ہمیشہ نماز باجماعت پڑھاکرو، یایوں کہا کہ اس میں نماز پڑھو، اور نیت ہمیشگی کی کی تھی تو دونوں صورتوں میں وہ خالی زمین مسجد ہوگئی جیسا کہ ذخیرہ اور فتاوٰی قاضی خان میں ہے(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف     الباب الحادی عشر فی المسجد     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۵)
جبکہ اس چبوترہ کا کوئی مالک ومدعی نہیں اور اس میں مدتوں سے نماز باجماعت ہوتی ہے، جمعہ ہوتا ہے، منبر ہے، محراب ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو مسجد نہ سمجھا جائے۔واﷲتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ۱۳۲: ازشملہ مسجدقطب خانساماں کوہ شملہ خورد مرسلہ عالم خاں ممبر وسکریٹری مسجد مذکورہ ملازم کوٹھی آرناڈیل۶شوال ۱۳۳۵ھ
ایک شخص قطب خانساماں نے تین مسجدیں مقام کوہ شملہ تین بازار وں میں بنوائی تھیں،بازار کلاں وبازار بابوگنج وبازار چھوٹا شملہ، خانساماں مرحوم نے خاص اپنی سعی وکوشش سے انگریز سے زمین بھی لی اور بنیاد بھی مسجد کی خود ہی ڈالی، اوراپنے زرِ خاص سے مسجد کو بنوایا،اور تیار ہونے پر بھی خانساماں مغفور نے اپنی حین حیات مسجد کی خدمت وخبرگیری کی اور مسجد کے ہمیشہ خرچ کے لئے کچھ جائداد بھی مسجد کے متعلق کی جو مسجد کے خرچ کو کافی ہے، اب بعد گزرجانے خانساماں مرحوم کے بے انتظامی متولیان ومنتظمانِ وقت کے سبب مسجد کے شہید ہوجانے پر اور پیشہ کے چند لوگوں نے چندہ جمعہ کرکے مسجد مذکور کو تعمیر کرایا اور انتظام دست بدست دیگراں رہا، سواب حق زیادہ مسجد پر پہلے بنانے والے اور اسکے گروہ کا ہے یا بعد کے بنانے والوں کا اور اس کے گروہ کا؟ اور نام روشن ہونا مسجد پہ اور مسجد کی تمام چیزوں پہ کس کا ہونا چاہئے یا کسی کا بھی نہیں؟او مسجد مذکور قطب خانساماں کے نام سے پکاری جاتی ہے، بعد گزرجانے خانساماں مذکور کے انتظام مسجد دست بدست دیگراں رہا جو کہ منتظم یا متولی مانے جاتے رہے ہیں، بایں صورت ایک شخص بابوپندرہ بیس سال سے متولی یا منتظم قرار دیا ہوا تھا اور انتظام مسجد وآمدنی وخرچ سب اسی کے سپرد تھا سوا سکے انتظام وتولیت سے مسجد کو سراسر نقصان ہوا، یہاں تک کہ مسجد مقروض بھی ہوئی اگرچہ اب نہیں ہے، لیکن مسجد پر خستگی اب بھی ظاہرہے اور نمازیوں کو تکلیف سامان نماز سے ہمیشہ پہنچتی رہی، لہذا متولی ہذاکو معزول کرکے بجائے اس کے چند اشخاص معقول ممبر مقرر کرکے جو ایک پیشہ اور اسی بازار کے تھے، انتظام مسجد وآمدنی وخرچ ان کے متعلق کیاگیا، اب آئندہ انتظام دستور سابق کے موافق ہونا چاہئے جو متولی معزول کے وقف میں تھا اور اسی روش پہ چلنا چاہئے یا نئے طریق سے جو مسجد کی آسودگی و نمازیوں کے آرام کی صورت ہو، جو کتابیں کہ اب انتظام مسجد کے حساب وکتاب کے واسطے نئی تیار ہوئی ہیں ان پر نام قطب خانساماں کا لکھا گیا ہے، گروہ دوم کہتا ہے کہ ان پہ قطب خانساماں کا نام لکھنا شرک وبدعت ہے چونکہ پہلے نہ تھا اب کیوں لکھا گیا؟گروہ خانساماں کہتا ہے کہ کتابوں پہ نام کا ہونا شرک وبدعت نہیں ہے، پہلے کا دستور قاعدہ جب لیں جو قواعد وطریق سابق سے مسجد کو آسودگی اور نمازیوں کو آرام پہنچا ہو، مسجد کی آمدنی کا روپیہ خانساماں کے گروہ کے پاس رہنا چاہئے یا گروہ دوم کے پاس؟ اور زرِ مذکور زیادہ مالدار کے پاس رہے یا تھوڑے مالدار کے پاس؟
الجواب

مسجد قیامت تک اصل بانی کے نام سے رہے گی اگرچہ اس کی شکست ریخت یا شہید ہوجانے کے بعد دوبارہ تعمیر اور لوگ کریں، ثواب ان کےلئے بھی ہے مگر اصل بنا بانی وقف کے واسطے خاص ہے،
فان اصل المسجد الارض والعمارۃ وصف ولایکون من اعاد الوصف کمن احدث الاصل۔
کیونکہ اصل مسجد تو زمین ہے اور عمارت وصف ہے چنانچہ جس نے وصف کا اعادہ کیاوہ موجد اصل کی مانند نہیں ہوسکتا۔(ت)
کتابوں پر خانساماں کانام لکھا جانا نامناسب نہیں بلکہ بہتر ہے اور اسے شرک وبدعت کہنا بدعت ہے۔
اسعاف پھر ردالمحتار میں ہے:
من قصد الواقف نسبۃ الوقف الیہ وذٰلک فیماذکرنا۱؎۔
واقف کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وقف اس کی طرف منسوب رہے، اور یہ ہماری مذکورہ صورت میں ہی ہوسکتا ہے(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ   داراحیاء التراث العربی بیروت  ۳/ ۴۱۱)
متولی مسجد بھی جب تک خانساماں کی اولاد یا کنبہ والوں میں کوئی شخص اس کا اہل پایا جائےاورلوگوں میں سے نہ کیا جائے گا،
درمختار میں ہے:
مادام احد یصلح التولیۃ من اقارب الواقف لایجعل المتولی من الاجانب لانہ اشفق ومن قصدہ نسبۃ الوقف الیہم۲؎۔
جب تک واقف کے اقارب میں سے کوئی متولی وقف بنانے کی اہلیت رکھتا ہو بیگانوں میں سے کسی کو متولی نہ بنایا جائے کیونکہ واقف کا قریبی رشتہ دار وقف کازیادہ خیال رکھنے والا ہوگا اس لئے کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وقف اس کے خاندان کی طرف منسوب رہے(ت)
(۲؎ درمختار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۹)
مسجد کا روپیہ اسی متولی کے اختیار میں رہے گا اسکے لئے دیانتداری کارگزار ہونا شرط ہے مالدار ہو نا ضرور نہیں، مالداروں کی سپردگی میں جبکہ مسجد کی بے انتظامی اور نمازیوں کو تکلیف رہی تو اس انتظام کا بدلنا اور ہوشیار دیانت دار پرہیز گار مسلمانوں کی نگرانی میں دینا فرض تھا،
درمختار میں ہے:
ینزع وجوبا بزازیۃ، لوالواقف درر، فغیرہ بالاولی غیر مأمون اوعاجزاً اوظھر بہ فسق کشرب خمرونحوہ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
وقف متولی کی تولیت سے نکال لینا واجب ہے(بزازیہ) اگرچہ خود واقف ہی متولی ہو(درر) جبکہ وہ غیر امین یا عاجز ہو یا اس کا فسق جیسے شراب نوشی وغیرہ ظاہر ہوجائے[جب خود واقف کا یہ حکم ہے تو]غیر واقف سے اس صورت میں وقف کا واپس لے لینا بدرجہ اولٰی واجب ہوگا۔(ت)واﷲتعالٰی اعلم
 (۱؎ درمختار     کتاب الوقف     فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۳)
مسئلہ۱۳۳ : ازرام پور پیلا تالاب مسجد شاہ درگاہی صاحب مرسلہ مولوی عبدالقادر صاحب بنگالی ۵صفر۱۳۲۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک جگہ ایک مسجد چھپر کی تھی اب ایک شخص نے ا سکو توڑ کر اپنے پاس سے روپیہ دے کے اسی جگہ میں ٹین کردیا، اب توڑا ہوا چھپر فروخت کرنا برائے خرچ مسجد کے یا بیٹھک خانہ بنانا درست ہے یانہیں؟اور اگر بیٹھک خانہ درست ہے تو ازروئے شرع شریف کے کس صورت پر جائز ہوگا فقط،بینواتوجروا۔
الجواب

حاکم اسلام اور جہاں وہ نہ ہوتو متولی مسجد واہل محلہ کو جائز ہے کہ وہ چھپر کہ اب حاجت مسجد سے فارغ ہے کسی مسلمان کےہاتھ مناسب داموں بیچ ڈالیں اورخریدنے والا مسلمان اسے اپنے مکان نشست یا باورچی خانے یا ایسے ہی کسی مکان پر جہاں بے تعظیمی نہ ہو ڈال سکتا ہے، پاخانہ وغیرہ مواضع بیحرمتی پر نہ ڈالنا چاہئے کہ علمانے اس کوڑے کی بھی تعظیم کا حکم دیاہے جو مسجدسے جھاڑ کر پھینکا جاتا ہے۔
جواہرالاخلاطی وفتاوٰی ہندیہ میں ہے:
حشیش المسجد اذاکان لہ قیمۃ فلاھل المسجدان یبیعوہ وان رفعواالی الحاکم فھواحب ثم یبیعوہ بامرہ ھو المختار۱؎۔
مسجد کی گھاس کی اگر کوئی قیمت ہوتو اہل مسجد کو اختیار ہے کہ اس کو فروخت کردیں۔ اگرحاکم کے پاس اس کامرافعہ کریں تویہ زیادہ پسندیدہ ہے پھر اس کے اذن سے فروخت کریں،یہی مختار ہے(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۴۵۹)
فتاوٰی خانیہ میں ہے:
قد ذکرنا ان الصحیح من الجواب ان بیعھم بغیر امرالقاضی لایصح ان یکون فی موضع لاقاضی ھناک۲؎۔
ہم ذکر کرچکے کہ حکم صحیح یہ ہے کہ بغیر امر قاضی کے ان لوگوں کا مسجد کی گھاس کو فروخت کرنا صحیح نہیں سوائے اس جگہ کے جہاں قاضی نہ ہو۔(ت)
 ( ۲؎ فتاوی قاضیخان     کتاب الوقف    فصل فی المقابر والرباطات    نولکشور لکھنؤ    ۴/ ۷۲۶)
درمختار میں قبیل باب المیاہ ہے : حشیش المسجد وکناستہ لایلقی فی موضع یخل بالتعظیم۳؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسجد کی گھاس اور کوڑا کرکٹ ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جہاں اس کی بیحرمتی ہوتی ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ درمختار         کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۴)
Flag Counter