فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف ) |
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کی ایک موضع میں ۴ /حقیت زمینداری ہے جس سے انتفاع تخمیناً مبلغ عہ۳۰/ روپیہ ماہوار کا ہے اور یہ اراضی ہندہ کو اپنے شوہر مرحوم سے دین مہر میں ملی ہے چونکہ ہندہ لاولد ہے اس وجہ سے اپنی جائداد مذکورہ اس طور سے وقف فی سبیل اﷲ کرنا چاہتی ہے کہ جب تک وہ زندہ ہے خود متولی رہ کر اس کی آمدنی سے بطریق مناسب خیرات کرتی رہے گی بعد اس کے مرنے کے چار شخص دیندار متدین جنکو کہ وہ نامزد کرے گی وہ لوگ متولی ہوں گے اور اس آمدنی سے ایصال ثواب جس طریقہ سے وقف نامہ میں لکھے گی کرتے رہیں گے، ہندہ کی تین حقیقی بہنیں ہیں سوائے ان کے کوئی عزیز قریب نہیں ہے اور یہ ہر سہ بہنیں صاحب اولاد ہیں اور ان کی ماہوار آمدنی ہندہ کے آمدنی سے زیادہ غرضکہ ہر سہ بہنیں محتاج نہیں ہیں، اکثر اشخاص یہ کہتے ہیں کہ یہ وقف ازروئے شرع شریف ناقص وناجائز ہوگا اس وجہ سے کہ حقیقی بہنیں موجود ہیں اور ہندہ پر حق العباد کا مواخذہ رہے گا اوراس کو اجر وثواب اس کا نہ ہوگا بلکہ گنہگار ہوگی کہ وہ حق تلفی کرتی ہے، چونکہ ہندہ جائداد مذکورہ بالاثواب وصدقہ جاریہ کے غرض سے وقف کرتی ہے پس اس صورت میں یہ وقف جائز ہوگا یا کہ ناجائز؟ اور ہندہ وقف کرنے سے ثواب پائے گی یاحق العباد کی حق تلفی سے گنہگار ہوگی؟ امید کہ جواب بحوالہ کتب تحریر فرمایا جائے۔ بینواتوجروا۔
الجواب اسے اپنی صحت میں وقف کا اختیار ہے جس طرح وقف کرے گی کل یا بعض وقف ہوجائے گی مگر نیت اگر یہ ہے کہ بہنوں کو ترکہ سے محروم کرے تو یہ اگرچہ حق العبد میں گرفتار نہیں کہ صحت مورث میں کسی وارث کا کوئی حق ا س کے مال سے متعلق نہیں ہوتا مگر ایسی نیت ضرور مذموم وسخت شنیعہ ہے،
حدیث میں ہے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من فرمن میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ۔۱؎
جو بلاوجہ شرعی اپنے وارث کی میراث سے بھاگے اﷲتعالٰی جنت سے اس کا حصہ قطع کردے۔(ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ باب الحیف فی الوصیۃ ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ سرگودھا ص۱۹۸)
بہنوں کا مالدار ہونا کوئی وجہ شرعی ان کے محروم کرنے کی نہیں۔ راہ یہ ہے کہ یا تو وارثوں سے رضامندی لے وہ سچے دل سے اجازت دے دیں کہ تم اپنی جائداد مصارف خیر کے لئے وقف کردو یا وقف اہلی کرے کہ وقف کا بھی ثواب پائے اور وارث بھی محروم نہ ہوں یعنی یوں وقف کرے کہ یہ جائداد میں نے اپنی زندگی بھر اپنے نفس پر وقف کی اور اپنے بعد اپنے ورثہ پر اور جب وہ اور اس کا وارث کوئی نہ رہے تو فلاں فلاں مصارف خیر پر اس میں یہ بھی جائز ہوگا کہ جائداد میں سے جتنا چاہے اپنی حیات اور اپنے وارثوں کے حیات میں بھی مصارف خیر کے لئے معین کردے اتنا ان میں صرف ہوگاباقی اپنی زندگی بھر یہ لے گی اور اس کے بعد اس کے وارث۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۲۸: ازمدرسہ نعمانیہ دہلی مرسلہ مولوی محمد ابراہیم صاحب احمد آبادی۲۳شوال ۱۳۳۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنے مکان کو وقف علی الاولاد کرنا چاہتا ہے کہ اس میں وراثت جاری نہ ہو، منشاء زید یہ ہے کہ مکان آبائی اسی طرح قائم رہے حصہ بخرہ ہوکر خراب نہ ہو کہ ورثہ اپنے اپنے حصے بیع کردیں گے، اولاد نرینہ اس میں رہا کرے اولاد اناث کو اگر ضرورت ہویعنی ان کی سسرال سے کسی ناچاقی کی وجہ سے یہاں آنا ہوتو وہ بھی رہے اور خرید وفروخت ہبہ وغیرہ کا کسی کو اختیار نہ رہے البتہ شکست وریخت یا تعمیر جدید یا تغییر مکانیت مناسب کا ہمیشہ اختیار ہے زید کی ایک ہمشیرہ بھی سہیم ہے وہ اس وجہ سے کہ اس کے لڑکے شاید ناراض ہوں تحریر نہیں دیتی زبانی خاص لوگوں کے روبرو اپنا معاف کرنا بیان کرتی ہے، اس صورت میں زید کا وقف کرنا صحیح ہوگا یانہیں؟
الجواب زید کو ایسے وقف کا اختیار ہے اور یہ وقف صحیح ہے اولاد نرینہ کے سامنے ہمشیرہ کا کوئی حق نہیں ہوتا تو وقف پر کہ غیرمرض موت میں کیا جائے کسی وارث کو حق اعتراض نہیں، نہ حصہ معاف کرنے کی ضرورت، نہ کسی تحریر دینے کی۔ وہ یہ مضمون لکھ دے کہ میں نے اپنا مکان محدود بحدود چنیں وچناں اپنی زندگی بھر اپنے نفس پھر اپنی اولاد پھر فقرائے مسلمین اہل سنت وجماعت پر بایں شروط وقف صحیح شرعی لازم کیا۔
(۱) اپنی حیات بھر خود اس میں رہوں گا۔ (۲) میرے بعد میری اولاد نرینہ واولاد نرینہ واولاد نرینہ تابقائے نسل اس میں رہیں۔ (۳) اولاد اولاد اولاد میں جو اناث ہوں جب تک شادی نہ ہو یا جو بیوہ ہوجائے اور وہاں ٹھکانہ نہ رہے یا بوجہ ناچاقی وہاں نہ رہ سکے وہ بھی تابقائے ضرورت اس میں سکونت رکھے گی۔ (۴) جب نسل میں اولاد ذکور نہ رہیں اولاد اناث کو حق ہوگا۔ (۵) جب وہ بھی نہ رہیں مکان کرائے پر دیاجایا کرے گا اور کرایہ فقرائے مسلمین اہل سنت وجماعت مطابق عقائد علمائے حرمین شریفین پر صرف ہواکرے گا۔ (۶) شکست ریخت کا صرف میری زندگی میں میرے ذمہ پھر اولاد ساکنین پھر کرایہ مکان سے ہوا کرے گا۔ (۷)کسی وقت کسی کو اس کی بیع وہبہ وانتقال وغیرہ کا اختیار نہ ہوگا،اور یہ جو مناسب ہوں شرائط لکھ کر وقف نامہ مکمل کردے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۲۹ تا۱۳۰: ازآگرہ کڑہ مسئولہ محمد نواب حسین کارخانہ دار کامدانی ۲۰محرم ۱۳۳۹ھ
(۱) زید اپنی جائداد کو وقف علی الاولاد کرناچاہتا ہے اور ایک ثلث آمدنی جائداد کا کارخیر میں دینا منظور ہے بعد منہائی دیگر اخراجات ضروری مرمت وغیرہ میں جو رقم باقی رہے اس میں سے ایک ثلث کارخیر میں صرف کرنا یاکل آمدنی میں سے۔ (۲) جو رقم ثلث آمدنی کارِ خیر کے واسطے نکالی جائے اس میں سے نیاز بزرگان دین کی ومحفل میلاد شریف میں خرچ کرنا وکسی مدرسہ وغیرہ میں دینا مقصود ہے یہ جائز ہوگا اس حالت میں جداگانہ زکوٰۃ کی توضرورت نہ رہے گی۔
الجواب (۱) یہ اسکی زبان پر ہےاگر وقف میں یہ شرط لگائے گا کہ کل آمدنی بلااخراج خرچ کا ثلث تو یہی واجب ہوگا اور منافع خالص کاثلث کہے گا تو خرچ نکال کر جو بچا اس کی تہائی اور اگر مطلق کہے گا تو حسب عرف منافع خالص کا ثلث سمجھاجائے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔ (۲)کارخیرمیں جو کام متعین کردے گا مثلاً مسجد یا مدرسہ یا مساکین وہ ثلث اس میں صرف ہوسکے گا اور اگر نیاز بزرگان دین ومحفل میلاد شریف بھی اسی میں شامل کرے گا تو یہ بھی ہوسکے گا یہ ثلث کارخیر میں صرف کردینا بقیہ دو ثلث پر سے زکوٰۃ ساقط نہ کردے گا جبکہ اس کے پاس حاجات اصلیہ سے فارغ بقدر نصاب بچے اور سال گزرے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔