مسئلہ۱۲۴: مسئولہ حافظ محمد ایاز صاحب ازقصبہ نجیب آباد ضلع بجنور محلہ پٹھان ۲۵محرم الحرام۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو روپیہ بطور چندہ کانپور کے بیوگان ویتیمان وغیرہ وغیرہ کے واسطے جمع کیا ہو، اور اب بعد فیصلہ کانپور وہ روپیہ اکثر مرد مان کی رائے سے تعمیر مسجد میں لگا دیاجائے تو اس کے بابت کیاحکم ہے؟
الجواب
چندہ جس کام کے لئے کیاگیا ہوجب اسکے بعد بچے تو وہ انہیں کی ملک ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے،
کما حققناہ فی فتاوٰنا
(جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتاوٰی میں کی ہے۔ت) ا ن کو حصہ رصد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں صرف کیا جائے، اور اگر دینے والوں کا پتا نہ چل سکے کہ ان کی کوئی فہرست نہ بنائی تھی نہ یاد ہے کہ کس کس نے دیا اور کتنا کتنا دیا تو وہ مثل مال لقطہ ہے اسے مسجد میں صرف کرسکتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۲۵: ازشہر مرسلہ جناب حافظ میاں صاحب ۵جمادی الاخری ۱۳۳۷ھ یوم دو شنبہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک ملک اور ایک باغ واسطے نیازحضور جناب امام حسین علیہ السلام اور فاتحہ پیران عظام اور مرمت شکست ریخت زیارت بغرض بقائے نشان ونیز خیرات خالصاًﷲ وقف کی،آیا یہ وقف مذہب اہل سنت وجماعت میں جائز وصحیح ہے یانہیں؟بحوالہ کتب بادلیل مشرح فرمائے،بینواتوجروا۔
الجواب
خیرات خالصاً ﷲ کے لئے وقف جائز وصحیح ہے یونہی نیاز وفاتحہ حضرتِ امام واولیائے کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے لئے، جبکہ اسے مصرف خیر میں صرف کرنا ہو۔ رہی مرمت زیارت، اگر اس مراد وہ مکان ہے کہ مسافرین،زائرین، حاضرین عرس کے آرام کو بنایا گیا تو وہ مثل سرائے ومسافر خانہ قربت ہے اور اس کی مرمت مثل عمارت، تو اس پر بھی وقف جائز وصحیح ہے۔
فی الدرالمختار الوقف علی ثلٰثۃ اوجہ اما للفقراء اوللاغنیاء ثم للفقراء اویستوی فیہ الفریقان کرباط وخان ومقابر وسقایات وقناطر ونحوذٰلک کمساجد وطواحین وطست لاحتیاج الکل لذٰلک الخ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ وقف تین طرح ہوتا ہے:فقراء کےلئے یا پہلے اغنیاء اور پھر فقراء کےلئے یا دونوں کے لئے مساوی، جیسے سرائے، تکیہ، قبرستان، سبیلیں اور خیمے وغیرہ۔ مثلاً مساجد، چکیاں اور برتن کیونکہ یہ تمام لوگوں کی ضروریات ہیں(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۶)
اور اگر مراد عام قبر کی مرمت ہے تو وہ قربت نہیں اور وقف کے لئے قربت ہونا شرط ہے،
فی الدرالمختار شرطہ ان یکون قربۃ فی ذاتہ ملوما منجزا۱؎الخ۔
درمختار میں ہے کہ وقف ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ عمل ذاتی طور پر نیکی ہونا واضح طور پ معلوم ہوا الخ۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۵/ ۳۷۷)
فتاوٰی قاضی وفتاوٰی سراجیہ وتنویر الابصار وغیرہا میں ہے:
اوصی بان یطین قبر فھی باطلۃ۲؎اھ مختصراً
قبر کی لپائی کی وصیت کی تو باطل ہے اھ مختصراً(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوصایا باب الوصیۃ للاقارب مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۳۰)
ردالمحتار میں ہے:
الوصیۃ اماصلۃ او قربۃ ولیست ھذہ واحدۃ منھما فبطلت۳؎۔
وصیت،صلہ رحمی ہو یا پھر نیکی ہو،ا ور یہ دونوں میں سے نہیں ہے، لہذا باطل ہے(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الوصایا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۴۴۱)
ہاں قبور اولیاء کرام کے حفظ ونگہداشت کو جبکہ ان کی تعظیم وتکریم کے تحفظ اور توہین وپامالی سے بچانے اور مسلمانوں کے وہاں حاضرہوکر فیض ثواب وتبرکات پانے کے لئے ہو قربت کہنا اقرب بفقہ ہے۔
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
ذٰلک ادنی ان یعرفن فلایؤذین۴؎۔
یہ پہچان سے قریب تر ہے تاکہ ان کو اذیت سے بچایا جائے۔(ت)
قبروں کی لپائی مکروہ نہیں ہے،مختار قول میں بعض نے کہا مکروہ ہے۔ بزدوی نے فرمایا اگر کتابت کےلئے ضرورت ہو تاکہ قبر کے آثار ختم نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے(ت)
(۵؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۵۲)
عقود الدریہ میں ہے:
ان کان القصد بذلک التعظیم فی اعین العامۃ حتی لایحتقر واصاحب ھذا القبر الذی وضعت علیہ الثیاب ولجلب الخشوع والادب لقلوب الزائرین الغافلین کما ذکرنا من حضور روحانیتھم المبارکۃ عندقبورھم فھو امر جائز الخ۱؎۔
اگر مقصد یہ ہو کہ اس سے لوگوں کی نظروں میں تعظیم ہوگی اور قبر والے کی تحقیر سے حفاظت ہوگی تو اس کی قبر پر کپڑا ڈالنا اور غافل لوگوں کو وہاں خشوع کی طرف اور ادب کی طرف راغب کرنا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ قبروں پر اصحاب قبور کی روحیں حاضر ہوتی ہیں، اس لئے ہوتو یہ جائز ہے الخ(ت)
(۱؎ العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ مسائل وفوائد شتی من الحظر والاباحۃ ارگ بازار قندھار افغانستان ۲/ ۳۵۷)
اور شک نہیں کہ ہر مباح بہ نیت محمودہ محمود وقربت ہوجاتا ہے،
رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انما الاعمال بالنیات ولکل امرئ مانوی۲؎۔
اعمال نیات کے ساتھ ہیں، ہر شخص کو وہی حاصل ہوگا جس کی وہ نیت کرے(ت)
(۲؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدء الوحی قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲)
ا س صورت میں اس مرمت کے لئے تنہا بھی وقف صحیح ہوسکتا ہے لیکن یہاں جبکہ صرف مرمت قبر پر وقف نہیں بلکہ اس میں مصارف قبر صراحۃً مذکور ہیں تو ایک مصرف جائز اگرچہ خود قربت نہیں، ان میں شامل کرنا وقف کو ناجائز نہیں کرسکتا غایت یہ کہ گویا اتنا روپیہ جس قدر کی حاجت کبھی مرمت قبر کےلئے واقع ہو مصارف خیر سے ایک مصرف جائز کےلئے مستثنے ہواور اس میں کچھ حرج نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:
اذاجعل اولہ علی معنیین صار کانہ استثنی ذلک من الدفع الی الفقراء کما صرحوابہ۳؎۔
جب وقف کرتے ہوئے دوچیزوں کوذکر کیاگیا توگویا یہ فقراء کو دینے سے مستثنی ہوگا جیسا کہ فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۵۷)
فتاوٰی قاضی خان ردالمحتار میں ہے:
لوقال ارضی صدقۃ موقوفۃ علی من یحدث لی من الولد ولیس لہ ولد یصح لان قولہ صدقۃ موقوفۃ وقف علی الفقراء وذکر الولد الحادث للاستثناء۱؎۔
اگر کسی نے یوں کہا کہ میری یہ زمین آئندہ پیدا ہونیوالے میرے بچے کے لئے صدقہ ہے فی الحال اگرچہ بچہ نہ ہوتو بھی یہ صحیح ہے کیونکہ اس کاصدقہ کہنا اس کو فقراء کےلئے وقف قرار دے گا اور آئندہ ہونیوالے بچے کاذکر فقراء کے مصرف سے مستثنٰی ہوگا۔(ت)
( ۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الوقف فصل فی الوقف علی الاولاد نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۳۱)
بالجملہ صورت مذکورہ میں وہ وقف ضرورصحیح وجائز ولازم ہے۔واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۶: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وقف علی الاولاد وقف علی النفس جائز ہیں یا نہیں؟اور ان کے کیا معنٰی ہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
شرع مطہر میں وقف علی الاولاد ووقف علی النفس سب جائز ہے یعنی اپنی جائدادیوں وقف کرے کہ تاحیات کلیۃً خود اس سے متمتع رہوں تمام آمدنی اپنے مصارف ذاتی پر صرف کروں میرے بعد میری اولاد واولادِ اولاد اس سے بدیں تفصیل یا حصہ مساوی(جس طرح چاہے کہے) متمتع ہوتی رہے جب نسل میں کوئی نہ رہے تو فلاں مدرسہ یا مسجد یا فقراء یاکارِ خیر کےلئے ہو جس طرح کہے گا اسی طرح پابندی ہوگی اور جائداد بیع وہبہ وغیرہ انتقال کے اصلاً قابل نہ رہے گی تولیت کا بھی اختیار ہے کہ اپنی حیات تک چاہے اپنے ہی نام رکھے یا اپنی اولاد کے نام اور بعدکو بھی جس طرح کی جائز شرطیں چاہے تولیت میں لگائے سب کی پابندی اسی طرح ہوگی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔