Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
30 - 112
مسئلہ۱۲۰تا۱۲۱: ازبہاولپور ریاست سپر نٹنڈنٹ یتیم خانہ وسکریٹری اوقاف ۹محرم الحرام۱۳۳۴ھ پنجشنبہ
حضور ایک کمیٹی ریاست بہاولپور میں منتظم آمدنی وخرچ اوقاف مساجد کی ہے اس کودو مسئلہ کی اس وقت ضرورت ہے اس پر شرعی فتوے سے روشنی فرماکر باراحسان فرمائیں:

اول مسجد کی جائداد وقف کی آمدنی کسی دوسری مسجدکے مصارف میں خرچ ہوسکتی ہے یانہ؟

دوم اگر کوئی شخص سال تمام کے وعدہ پر دکان وقف کوکرایہ پر لے اوردرمیان سال میں بوجہ بیماری وغیرہ چھوڑدے توکیا ممبران اوقاف باقیماندہ کرایہ چھوڑ سکتے ہیں؟فقط۔
الجواب

(۱) ہرگز جائز نہیں یہاں تک کہ اگر ایک مسجد میں لوٹے حاجت سے زائد ہوں اور دوسری میں نہیں تو اس کے لوٹے اس میں بھیجنے کی اجازت نہیں۔

(۲) اگر اس نے عذر صحیح شرعی سے چھوڑا تو باقیماندہ کرایہ چھوڑا جائے گا ورنہ نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۲: ازانجمن اسلامیہ بریلی ۹جمادی الاولٰی۱۳۲۷ھ
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ یتیم خانہ اسلامیہ بریلی میں وہ یتیم جن کی عمر ۱۶ سال ۲ماہ کی ہے ان کی یہ دریافت طلب ہے کہ اس عمر والوں کوبموجب شرع شریف کے پرورش کرنے اور روٹی کپڑا دینے کا بار یتیم خانہ کے ذمہ ضروری ہے یانہیں؟ان لڑکوں کی حالت یہ ہے کہ سردست یہ اس قابل نہیں ہوئے کہ یتیم خانہ سے نکلتے ہی وہ خود اپنے قوت بازو سے معاش حاصل کرسکیں، اور اندیشہ ہے کہ ان لوگوں کو اگر اس طرح چھوڑ دیا جائےگا تو یہ آوارہ گردی اور بداطواری میں مبتلا ہو جائیں گے، اور امید ہے کہ چھ سات ماہ کوشش کرکے ان کو اس قابل کردیاجائے گا کہ وہ کوئی پیشہ یا صنعت سیکھ کر اپنی معاش وجہ حلال سے پید اکرسکیں گے اور اس عرصہ میں ان کے واسطے کوئی صورت معاش حاصل کرنے کی پیدا کردیجائے گی،پس اس صورت میں اگر ان لڑکوں کو اس عرصہ تک جب تک کہ وہ معاش پیداکرنے کے قابل ہوسکیں یتیم خانہ میں رکھاجائے اور ا ن کے ضروری مصارف خورد نوش کا تکفل یتیم خانہ سے کیاجائے تو عند الشرع یہ مصارف اسلامی چندہ کی امانت سے جو یتیموں ہی کے واسطے وصول کیا گیا ہے جائز ہوں گے یاناجائز ؟اور اس روپیہ کے اس مدت میں صرف کرنے کا مواخذہ عندالشرع مہتممان یتیم خانہ کے ذمہ ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

زر چندہ شرعاً ملک چندہ دہندہ پر باقی رہتا ہے
کما حققناہ فی فتاوٰنا
 (جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) اس میں اجازت چندہ دہند گان پر مدار ہے اگر قدیم سے معمول یتیم خانہ رہا ہو کہ جو یتیم حدیتیم شرعی سےنکل کر بالغ ہو جائیں اور وہ بھی اپنے لئے رزق حلال کسب کرنے کے قابل ہونے تک ان کو یتیم خانہ میں  رکھا جاتا اور زرچندہ سے ان کا خرچ کیا جاتا ہو، چندہ دہندگان اس پر آگاہ ہوا کئے اور اس پر راضی رہا کئے تو اب بھی جائز ہے
لان المعروف کالمشروط والاجازۃ دلالۃ کالاذن الصریح
(کیونکہ معروف چیز مشروط چیز کی طرح ہوتی ہے اور دلالۃً اجازت بھی صریح اجازت کی طرح ہے۔ت) اور اگر پہلے سے یہ معہود اور معروف نہ رہا اور اب تمام چندہ دہندوں سے اجازت لینی ممکن ہوتو اجازت لے کر کرسکتے ہیں،
لان المال لھم فیصرف باذنھم ولیس ھذاخلاف سبیل البرحتی یکرہ لھم الرجوع عنہ بل ربما یؤیدہ ویرغب الیتامٰی فی دخول ھذہ الجمیعۃ۔
کیونکہ مال ان کا ہے اس لئے ان کی اجازت سے خرچ کیاجائے اور یہ راہ نیکی کے خلاف نہیں ہے حتی کہ واپس لینا مکرو ہ ہے بلکہ اس میں نیکی کےلئے رغبت ہے اور یتیموں کو اس اجتماعیت میں شرکت کی رغبت ہوسکتی ہے(ت)  اور اگرسب سے اجازت نہ لے کر تو آئندہ مہینے کے چندے میں بقدر کفایت چند اشخاص سے اجازت لے لیجائے کہ تمہارا یہ چندہ جس حالت کے انقضا تک اس کام میں صرف ہوگا جو اجازت دیں ان کا چندہ باقی زرچندہ سے جدا رکھ کر خاص اس کام میں صرف کریں یہاں تک کہ پورا ہواور اگر کوئی اجازت نہ دے یا جس قدر پر اجازت پائی اس سے زیادہ اس کام میں اٹھایا جائے تو ضرور حرام ہوگا اور اس کا مواخذہ مہتمموں پر رہیگا اور جن جن کا وہ چندہ تھا ان سب کا تاوان ان پر لازم آئے گا
 لانھم تعدوا علی اموالھم والمتعدی غاصب والغصب مضمون
(کیونکہ انہوں نے دوسرے کے مال پر تعدی کی ہے اور تعدی غصب ہے اور غاصب سے ضمان لیاجاتا ہے۔ت) اوراگر وہ یتیم حالت یتم سے یتیم خانہ میں تھے اور بعد ظہور بلوغ یا پندرہ سال کی عمر پوری ہونے کے یتیم خانہ سے ان پر صرف کیاگیا اور اجازت مذکورہ نصاً یاعرفاً ثابت نہ تھی تو سال بھر سے زائد یہ مواخذہ ذمہ مہتممان لازم اور تاوان ادا کرنا واجب ہوچکا صرف آئندہ سے سوال کیوں واﷲ الھادی بر دران اسلام کو احکام اسلام سے اطلاع دینی خیر خواہی ہے اورمسلمانوں کی خیرخواہی ہرمسلمان کا حق ہے
والدین النصح لکل مسلم۱؎
 (دین تمام مسلمانوں کیلئے خلوص اوربھلائی کانام ہے۔ت) واﷲسبحانہ وتعالٰی اعلم۔
 (۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدین النصیحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۵۵)
مسئلہ۱۲۳: ازاکبر آباد جامع مسجد مسئولہ جناب مولوی محمد رمضان صاحب ۲۴صفر المظفر ۱۳۳۱ھ                 حضرت مولانا بالفضل والمعرفۃ اولانامجدد مائۃ حاضرہ دام مجدکم،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
ایک استفتا ارسال خدمت اقدس ہے، امید ہے کہ جواب باصواب سے جلد سرفراز فرمایا جاؤں، یہاں یہ مسئلہ درپیش ہے اور میری نظر سے ابھی کوئی نظیر ایسی نہیں گزری جس سے تشفی بخش جواب دیاجاسکتا، خیال ہوتا ہے کہ زید وکیل بالقبض ہے مگر ساراباب وکالت کا دیکھ ڈالا یہ صورت ایسی انوکھی ہے کہ صاف جواب نہیں ملتا، لہذا تصدیعہ وہ خدمت اقدس عالیہ ہو ا زیادہ والتسلیم بہزارتفخیم، عاجز محمد رمضان عفی عنہ واعظ جامع مسجد آگرہ۔
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کیا گیا عمرو نے پانچسو روپے کا ایک چک دیا جو نوٹ نہیں تھا بلکہ کتاب کا ورق تھا جس کے ذریعہ سے بنک سے روپیہ وصول کیا جاسکتا ہے کہ بنک سے روپیہ وصول کرکے اس رقم میں شامل کرلی جائے وہ چندہ زید کے پاس جمع ہوا جو اس مسجد کے متولیوں میں سے ایک متولی تھا اس نے چک کا روپیہ وصول نہیں کیا خواہ غفلت سے خواہ اس چک میں بنک کی جانب سے کوئی اعتراض ہو ازاں بعد زید کا انتقال ہوگیا اور ورثائے زیدنے بھی روپیہ وصول نہیں کیا ازاں بعد عمرو کا بھی انتقال ہوگیا باقی متولیان مسجد مذکورہ نے ورثائے زید پر اس جمع شدہ چندہ کی نالش کرکے ڈگری بھی حاصل کرلی ورثائے زید سے اس چک کا روپیہ وصول کرنا کہ ان کے مورث کی غفلت یا بنک کے کسی اعتراض کی وجہ سے وصول نہیں ہوا تھا شرعاً جائز ہے یانہیں؟اور ایسا روپیہ مسجد کی تعمیر میں لگانا درست ہے یانا درست؟یہ ملحوظ رہے کہ وہ چک اب کسی کام کا نہیں رہا، بینوابالکتاب تؤجروا عنداﷲ احسن ثواب(کتاب سے بیان کرو اور اﷲتعالٰی سے اجر وثواب پاؤ۔ت) فقط۔
الجواب

صورت مسئولہ میں متولیان مسجد کی وہ نالش محض باطل تھی اور ڈگری سراسر خلاف شرع ہوئی، وہ روپیہ مسجد میں لینا نرا حرام ہے، اور اگر لے لیا ہے تو ورثائے زید کو واپس دینا فرض ہے،ظاہر ہے کہ روپیہ جو کوئی شخص بنک میں جمع کرتا ہے وہ بنک پر دین ہوتا ہے، عمرو نے جو وہ روپیہ تعمیر مسجد کو دیا اگرمسجد موجود تھی اور اس کی تعمیر کو دیا تو یہ مسجد کے لئے ہبہ ہوا،
عالمگیریہ میں ہے:
رجل اعطی درھما فی عمارۃ المسجد او نفقۃ المسجد اومصالح المسجد صح لانہ ان کان لایمکن تصحیحہ وقفا یمکن تصحیحہ تملیکا بالھبۃ للمسجد فاثبات الملک للمسجد علٰی ھذاالوجہ صحیح ویتم بالقبض کذافی الواقعات الحسامیۃ۱؎۔
اگر کسی شخص نے مسجد کی عمارت یا اس کے اخراجات یا مصالح کے لئے بطور چندہ ایک درہم دیا تو جائز ہے کیونکہ اگر وقف کے طور پر صحیح نہ ہوتو ہبہ کے طور پر اس کی صحت ہوسکتی ہے کہ مسجد کے لئے یہ تملیک ہوجائیگی جبکہ اس طرح مسجد کے لئے تملیک صحیح ہے اور قبضہ ہوجانے پر ہبہ تمام ہوجائے گا۔ حسامیہ کے واقعات میں یونہی ہے(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ  کتاب الوقف  الباب الحادی عشر  فصل ثانی  نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۶۰)
اسی طرح خزانۃ المفتین وغیرہا میں ہے اس تقدیر پر یہ
ہبۃ الدین عمن غیر من علیہ الدین مع تسلیطہ علی القبض
 (غیر مدیون کو قبضہ پر اختیار دے کر دین کا ہبہ کیا گیا ہے۔ت) ہوا، متولیان مسجد موہوب لہ کے نائب اور عمرو کی طرف سے وکیل بقبض الدین ہوئے اور اگر ہنوز مسجد موجود نہ تھی بلکہ بنانا چاہتے تھے اسکے چندہ میں دیا تو ہبہ نہیں ٹھہراسکتے کہ معدوم کےلئے ہبہ ممکن نہیں متولی صرف وکیل بالقبض ہوئے، دونوں صورتوں میں جب تک قبضہ نہ ہوا روپیہ ملک عمروپر تھا، صورت ثانیہ میں توظاہر ہے کہ سرے سے ہبہ ہی نہ ہوا تو ملک مالک سے خروج کیا معنی،
وقد حققنا فی فتاوٰنا ان مایجمع من الناس لمصرف خیر بقی علی ملک المعطیین۔
ہم نے اپنے فتاوٰی میں یہ تحقیق کردی ہے کہ لوگوں سے کسی اچھے مصرف کےلئے جو چندہ جمع کیاجاتاہے وہ چندہ دینے والے لوگوں کی ملکیت ہی رہتا ہے۔(ت)
عالمگیری میں ذخیرہ سے ہے:
رجل جمع مالامن الناس لینفقہ فی بناء المسجد فانفق من تلک الدراہم فی حاجتہ ثم ردبدلہا فی نفقۃ المسجد لایسعہ ان یفعل ذٰلک فان فعل فان عرف صاحب ذٰلک المال رد علیہ اوسألہ تجدید الاذن فیہ۱؎الخ۔
کسی شخص نے لوگوں سے مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ  جمع کیا اور ان دراہم کو اس نے اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ کرلیا پھر اس کے بدلے مسجد کی ضرورت میں اپنامال خرچ کیا تو ایسا کرنے کا اس کو اختیار نہیں ہے اگر کرلیا تو چندہ دینے والوں کوچندہ واپس کرے یا ان سے نئی اجازت طلب کرے اگر چندہ دینے والوں کا علم ہو۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الوقف     الباب الثانی عشر فی الاوقاف التی یستغنی عنہا  نورانی کتب خانہ پشاور  ۲/ ۲۸۰)
او رصورت اولٰی میں اس لئے کہ ہبہ بے قبضہ تمام ومفید ملک موہوب لہ نہیں ہوتا، ابھی واقعات حسامیہ وہندیہ سے ہبہ مسجد میں گزرا کہ
یتم بالقبض
 (قبضہ ہوجانے سے ہبہ تام ہوجاتا ہے۔ت)
 اسعاف پھر بحرالرائق پھر عالمگیریہ میں ہے :
لوان قومابنوامسجدا وفضل من خشبھم شیئ قالوایصرف الفاضل فی بنائہ ولایصرف الی الدھن والحصیر ھذا اذاسلموہ الی المتولی لیبنی بہ المسجد والایکون الفاضل لھم یصنعون بہ ماشاؤا۲؎۔
اگر قوم نے مل کر مسجد تعمیر کی اور کچھ تعمیراتی سامان لکڑی وغیرہ بچ جائے تو فقہاء نے فرمایا کہ بچے ہوئے کو اسی عمارت میں خرچ کرے اور اس کو دوسرے مصارف مثلاًمسجد کی چٹائی اور تیل وغیرہ میں نہ خرچ کرے،یہ اس صورت میں ہے جبکہ قوم نے متولی کویہ کہہ کر سونپا ہو کہ اس کو تعمیر میں خرچ کردو، ورنہ فالتوسامان ان دینے والوں کی ملکیت رہے گا وہ جہاں چاہیں صرف کریں۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد فصل ثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۲۶۴)
اشباہ میں ہے :
لایصح تملیکہ ای الدین من غیر من ھو علیہ الا اذاسلطہ علی قبضہ فیکون وکیلا قابضا للموکل ثم لنفسہ۳؎۔
اس کی یعنی قرض کی مقروض کے غیر کو تملیک جائز نہیں تاوقتیکہ اس غیر کو قرض کی وصولی پر مقرر نہ کردے تاکہ یہ اس مالک کی طرف سے وصولی کا وکیل بن کر پھر اپنے لئے وصولی کا مالک بن جائے(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الدین فائدہ نمبر۵    ادارۃ القرآن کراچی        ۲/ ۲۱۳)
جامع الفصولین میں ہے:
ھبۃ الدین ممن لیس علیہ لم تجز الااذا سلطہ علٰی قبضہ فیصیر کانہ وھبہ حین قبضہ ولایصح الابقبضہ ۱؎(ملتقطاً)۔
قرض کا ہبہ غیر مقروض کو صرف اسی صورت میں جائز ہوگاجب وہ اس کو اپنی طرف سے قبضہ کیلئے مقرر کرے، تو یوں قبضہ کرلینے کے بعد ہبہ قرار پائے گا اورپھر اس کاقبضہ ہوجانے پر صحیح ہوجائے گا(ملتقطا(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل الرابع والثلاثون فی الاحکامات ہبۃ الدین    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۱۶)
یہاں اگر موت عمرو سے پہلے چک بیکار ہوگا تو ہبہ بوجہ ہلاک موہوب قبل القبض باطل ہوگیا اور اگر موت عمرو کے بعد بیکار ہوا تو بوجہ موت واہب قبل تسلیم
کما فی الدرالمختار وعامۃ الاسفار
(جیسا کہ درمختار اور عام کتب میں ہے۔ت)
بہر حال مسجد کے لئے ملک اصلا نہ ہوئی تو متولیان مسجد کو اس کا مطالبہ کس بناء پر پہنچ سکتا تھا، نہ کسی طرح ان کی ڈگری ہوسکتی تھی نہ ہرگز انہیں اس کا لینا حلال، نہ مسجد میں خرچ کرناحلال، معہذا غفلت اگرجرم ہے تو نہ صرف زید بلکہ سب متولیوں کا کہ جب عمرو نے وہ چک مسجد کو دیا تھا ہر متولی کو مسجد کے لئے اس کاحاصل کرنا تھا فقط زید کے پاس جمع کردینے سے کیا باقی سب تولیت مسجد سے خارج ہوگئے اگر خارج ہوگئے تو انہوں نے دعوٰی کس بنا پر کیا اور اگر خارج نہ ہوئے تو انہوں نے کیوں نہ وصول کیا یا کرایا، کیوں مال ضائع ہونے دیا، جرم ہے تو سبھی پر ہے، بلکہ اگر چک بعد موت زید بیکار ہوا تو تنہاباقیوں پر الزام ہے کہ ورثاء متولی متولی نہیں، ان متولیوں نے کیوں تلف ہونے دیا، علاوہ بریں اگر یہ جرم تھا تو اتنا کہ ایک مال جو مسجد کی ملک ہوجاتا وصول نہ کیا نہ یہ کہ ایک مال جو مسجد کی ملک تھا تلف کردیا تو یہاں تملک سے امتناع ہے نہ کہ مملوک کا ضیاع، تو ضمان کیا معنی، اور جب ضمان نہیں تو زید ہی کے مال پر مطالبہ نہ آیا تو ورثاء سے مطالبہ کیسا،
قال اﷲ تعالٰی لاتزر وازرۃ وزر اخری۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی(ت)
(۲؎ القرآن الکریم    ۶ /۱۶۴)
یہ سب اس صورت میں ہے کہ بوجہ غفلت چک بیکار ہواہو، اور اگر بنک والوں نے اس میں کوئی نقص نکال کر روپیہ نہ دیا جب توظاہر ہے کہ زید بے قصور ہے بالجملہ دعوٰی بہر حال باطل وبے معنی ہے،
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter