جواب سوال دوم: تقریر سوال سے ظاہر کہ وہ تعمیر مزید سب شرکاء کی رائے سے سب کے لئے ہوئی تو حامدا پنا حصہ نکال کر باقی روپئے کا مطالبہ مطلقاً کرسکتا ہے کہ اگر یہ دینا قرضاً تھا جب تو ظاہر، اور اگر بطور ہبہ ہی تھا تاہم دو طرح کا شیوع رکھتا ہے:
اولاً چند شخصوں کو روپے ہبہ کرنا۔
ثانیاً اپنے حصے کے ما ورا کاہبہ کرنا کہ اگر بالفرض سب شرکاء نہیں ایک ہی شریک کو باقیوں کے لئے ہبہ کرنا ہوتا جب بھی اپنا حصہ سے ہبہ جدا رہنے کے باعث محتمل قسمت میں مشاع تھا اور اس قسم کا شیوع صدقہ میں بھی جائز نہیں اگرچہ قسم اول یعنی چند شخصوں پر تصدق جائز ہے بخلاف ہبہ کہ اس میں دونوں قسم کا مشاع مفسد و مبطل ہے جبکہ وہ شیئ صالح تقسیم ہو۔
درمختار میں ہے:
تصدق بعشرۃ دراہم اووھبھا لفقیرین صح لان الھبۃ للفقیر صدقۃ والصدقۃ یراد بھاوجہ اﷲتعالٰی وھو واحد فلاشیوع لالغنیین لان الصدقۃ علی الغنی ھبۃ فلاتصح للشیوع ای لاتملک حتی لوقسمھا وسلمھا صح۲؎۔
دو فقیروں کو دس درہم بطور صدقہ یا ہبہ اکٹھے دے دئے تو صحیح ہے کیونکہ فقیر کو ہبہ بھی صدقہ ہوتا ہے اورصدقہ میں اﷲ تعالٰی کی رضامقصود ہوتی ہے اور وہ واحد ہے اس لئے اس میں شیوع یعنی قابل تقسیم ہونا، نہ پایا گیا، لیکن یہ صورت دوغنی حضرات کو صدقہ کرنے میں صحیح نہیں کیونکہ غنی کے لئے صدقہ بھی ہبہ ہوتا ہے جب کہ ہبہ میں شیوع درست نہیں یعنی دونو ں غنیوں میں سے کوئی بھی غیر منقسم کا تقسیم اور قبضہ سے قبل مالک نہ بنے گا(ت)
(۲ ؎ درمختار باب الھبۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۶۱)
تنویر میں ہے:
الصدقۃ کالھبۃ لاتصح غیر مقبوضۃ ولافی مشاع یقسم۱؎۔
صدقہ ہبہ کی طرح ہے لہذا بغیر قبضہ اور غیر منقسم کو تقسیم کئے بغیر درست نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎درمختار شرح تنویر الابصار باب الہبہ فصل فی مسائل متفرقہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۶۵)
ردالمحتارمیں ہے:
فان قلت قدم ان الصدقۃ لفقیرین جائزۃ فیما یحتمل القسمۃ بقولہ وصح تصدق عشرۃ لفقیرین قلت المرادھنا من المشاع ان یھب بعضہ لواحد فقط (عہ) فحینئذ ھو مشاع یحتمل القسمۃ بخلاف الفقیرین فانہ لاشیوع کماتقدم بحر۲؎اھ، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم
اگر تیرا اعتراض ہو کہ قبل ازیں کہا ہے کہ دو فقیروں کو تقسیم سے قبل قابل تقسیم چیز کاصدقہ جائز ہے، میں کہتا ہوں کہ یہاں ۔۔۔۔۔۔کے معاملہ میں مشاع سے مراد یہ ہے کہ فقط اس کا کچھ ایک کو د یا ہوتو یہ مشاع(غیر منقسم جو قابل تقسیم تھا) ہوا،بخلاف فقیروں کے کیونکہ ان میں شیوع نہ پایاگیا، جیساکہ پہلے گزرا، بحر، اھ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب الہبہ فصل فی مسائل متفرقہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۵۲۲)
عہ: قولہ فقط ناظر الی بعضہ لا الی واحد حتی لو وھب بعضہ فقط لجماعۃ لم تجز ایضا ولو وھب کلہ لغیرہ واحد جاز فی الصدقۃ کما لایخفی۱۲منہ(م)
قولہ، فقط، کا تعلق لفظ''بعض''سے ہے نہ کہ ''واحد''سے،حتی کہ بعض حصہ اگر پوری جماعت کو بھی دیا تو جائز نہ ہوگا اور اگر سارا متعدد کودے دیا تو صدقہ میں جائز ہے، جیسا کہ مخفی نہیں۱۲منہ(ت)
جواب سوال سوم وبقیہ دوم: زید وحامد نے زمین مکان مشترک میں جو بنگلے اپنے لئے اپنے روپے سے بنائے وہ خاص انہیں کے ہیں دیگر شرکاء کا ان میں کوئی حق نہیں، اگر باقی شرکاء اب قائم رہنا نہیں چاہتے تومکان وزمیں موروث مشترک تقسیم کریں، اگر بنگلے کی کل زمین بنگلے ہی کے حصہ میں آکر پڑی جب تو نزاع ہی قطع ہوئی اور اگر وہ کل زمین یا اس کا بعض کسی دوسرے شریک کے حصے میں پڑے تو یا باہمی رضامندی سے زمیں والا اپنی زمین بنگلے والے کے ہاتھ بیع کر دے یا بنگلے والا اپنا بنگلہ کل یا بعض زمین والے کے ہاتھ اورکسی طرح تراضی نہ ہوتو زمین والے کو اختیار ہوگا کہ بنگلہ کل یا بعض جس قدر اس کی زمین میں واقع ہوا اکھڑوا دے اور اس کے سبب اگر زمین کو کچھ نقصان قلیل پہنچے اس کا تاوان بنگلہ والے سے لے لے اور اگر نقصان سخت کثیر پہنچے کہ زمین کو خراب وبیکار کردے تو اسے اختیار ہے کہ اس قدر عمارت بنگلہ جو اس کی زمین میں ہے اپنی ملک ٹھہرالے اگرچہ صاحب بنگلہ راضی نہ ہو اور اسے،اس تعمیر کی وہ قیمت دے دے جو روز واپسی زمین ایسی عمارت کا اس حال میں نرخ ہوجبکہ اسکے گرادینے کا حکم ہولیا ہو، اور اس کی معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ اگر یہ عمارت گرادی جائے تو جس قدر عملہ ٹوٹ پھوٹ کر بعد گرانے کے نکلے اس کا بھاؤ روز واپسی کیا ہوگا اور گروانے میں کیا مزدوری جائے گی یہ مزدور اس عملہ کے بھاؤ سے گھٹا کر جو بچے وہ اس دن اس عمارت کی قیمت ہے جس کے گرانے کا حکم ہولیا۔
درمختار کتاب القسمۃ میں ہے:
بنی احدالشریکین بغیر اذن الاخر(وکذالوباذنہ لنفسہ لانہ مستعیرلحصۃ الاٰخر وللمعیرالرجوع متی شاء رملی علی الاشباہ اھ ش) فی عقار مشترک بینھما فطلب شریکہ رفع بنائہ قسم العقار فان وقع البناء فی نصیب البانی فبہا ونعمت والاھدم البناء (اوارضاہ بدفع قیمۃ ط عن الھندیۃ) وحکم الغرس کذٰلک بزازیۃ۱؎اھ مزیدا من الشامی۔
مشترکہ جگہ پر ایک شریک نے دوسرے کی اجازت کے بغیرتعمیر کی دوسرے نے وہاں سے عمارت ہٹانے کا مطالبہ کیا تو زمین کو تقسیم کیا جائے، اگر عمارت بنانے والے کے حصہ میں وہ عمارت آئی تو بہتر ورنہ عمارت کو گرایا جائے گا(اس پر علامہ شامی نے یہ اضافہ فرمایا یونہی شریک کی اجازت سے اپنی ذات کے لئے بنائی تو حکم یہی ہے کیونکہ اس نے گویا وہ زمین عاریۃً عمارت کے لئے اپنے شریک سے حاصل کی اور عاریتاً دینے والے کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے واپس لے لے اھ رملی علی الاشباہ اور طحطاوی میں ہندیہ سے یوں ہے، یاشریک کو قیمت دے کر راضی کرلے)________اور پودے لگانے کا حکم بھی یہی ہے،بزازیہ،اھ۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۲۱)
(ردالمحتار کتاب القسمۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۷۰)
ردالمحتار میں ہے:
اقول : وفی فتاوٰی قارئ الھدایۃ وان وقع البناء فی نصیب الشریک قلع وضمن مانقصت الارض بذٰلک اھ وقد تقدم فی کتاب الغصب متنا ان من بنی او غرس فی ارض غیرہ امر بالقلع وللمالک ان یضمن لہ قیمۃ بناء او غرس امر بقلعہ ان نقصت الارض بہ والظاھر جریان التفصیل ھنا کذٰلک تأمل۱؎اھ
میں کہتا ہوں اور فتاوٰی قارئ الھدایہ میں ہے اور اگر عمارت شریک کے حصہ میں بنائی تو ہٹائے اور بنانے والے سے زمین کے نقصان کا ضمان لے اھ، متن کے کتاب الغصب میں پہلے گزر چکا ہے کہ جس نے عمارت یا پودے غیر کی زمین میں لگائے تو اسے ہٹانے کاحکم دیاجائے گا اور مالک کو اختیار ہوگا کہ اگر عمارت گرانے یا پودے اکھاڑنے سے زمین کا جو نقصان ہوا ہوتواس کاضمان لے اور ظاہرہے کہ یہاں وہی تفصیل ہوگی، غورکرواھ
(۱؎ ردالمحتار کتاب القسمۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۷۰)
اقول: وکذٰلک تقدم فی کتاب العاریۃ متنا وشرحا حیث قال لو اعار ارضا للبناء والغرس صح ولہ ان یرجع متی شاء ویکلفہ قلعھما الا اذا کان فیہ مضرۃ بالارض فیترکان بالقیمۃ مقلوعین لئلا تتلف ارضہ۲؎اھ
اقول: (میں کہتا ہوں) اور یونہی متن اور شرح کی کتاب العاریۃ میں گزرا ہے جہاں فرمایاکہ اگر زمیں عمارت یا پودے لگانے کے لئے عاریۃً دی تو جائز ہے اور اس کو اختیار ہوگا کہ جب چاہے واپس لے لے اور بنانے والے کو ہٹانے پرمجبورکرے، ہاں اگر عمارت گرانے اور پودے اکھاڑنے سے زمین کو نقصان ہو تو دونوں چیزوں کو ان کی اکھاڑی ہوئی صورت کی قیمت کے بدلے بحال رکھا جائے تاکہ مالک کی زمین تلف نہ ہو اھ،
(۲؎ درمختار کتاب العاریۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۵۶)
وھذااعنی بناء احدالشریکین لایخلو عن احدھما اذلوبنی بغیر اذن شریکہ کان غاصبا او بہ لنفسہ کان مستعیرافلاشک فی جریان الحکم المذکور فیھما ھنا ثم ماذکرہ قاری الھدایۃ محلہ مااذاکان النقصان قلیلاغیربالغ حد افساد الارض والتملک محمول علی النقصان الفاحش کما یفیدہ تعلیل الدر بقولہ لئلا تتلف ارضہ وقد نقل المحشی عن السائحانی عن المقدسی فی الغصب تحت قول الدر من بنی اوغرس فی ارض غیربغیر اذنہ امر بالقلع والرد وللمالک ان یضمن لہ قیمۃ بناء او شجر امر بقلعہ ای مستحق القلع ان نقصت الارض بہ۱؎اھ مانصہ ای نقصانا فاحشا بحیث یفسدھا امالونقصھا قلیلا فیأخذارضہ ویقلع الاشجار ویضمن النقصان۲؎اھ فبذا التوفیق یتضح المرام وتزول الاوھام والجدلہ ولی الانعام۔
اور شریکین میں سے ایک کا تعمیر کرنا دو حال سے خالی نہیں کہ بغیر اجازت تعمیر کرے گا تو غاصب ہوگا یا اجازت سے اپنی ذات کے لئے تعمیر کرے گا تو عاریۃً حاصل کرنے والا قرار پائے گا تو بلاشک دونوں صورتوں میں وہاں مذکور حکم ہی جاری ہوگا، پھر قاری الھدایہ نے جو ذکر فرمایا تو اس کا محل وہ صورت ہے جب اکھاڑنے میں نقصان کم ہو جس سے زمین میں فساد پیدا نہ ہو، اور قیمت دے کر مالک بننے کی صورت وہ ہے جب زمین کا نقصان زیادہ ہو جیسا کہ درمختار کا یہ علت بیان کرنا''تاکہ زمین تلف نہ ہو''سے بطور فائدہ معلوم ہورہا ہے، اور غصب کے باب میں محشی نے سائحانی اس نے مقدسی سے درمختار کے قول''جس نے غیر کی زمین میں بغیر اجازت عمارت بنائی یا پودے لگائے تو اسے وہاں سے اکھاڑنے اور زمین واپس کرنے کا حکم دیا جائے گااور مالک کو اختیار ہوگا کہ وہ اکھاڑے ہوئے مکان یا درختوں کی قیمت کا ضامن بن جائے اگر زمین کو نقصان کاخطرہ ہو یعنی اگر نقصان ہوتو اکھاڑنے کا استحقاق ہوگا اھ محشی کی عبارت یہ ہے یعنی ایسا فحش نقصان جو زمین کے فساد کا باعث ہو، لیکن اگر نقصان قلیل ہوتو مالک اپنی زمین واپس لے اور درخت وغیرہ اکھاڑدے اور نقصان کا ضمان لے اھ تو اس بیان سے مذکورہ عبارات میں موافقت ہوگئی، مقصود واضح ہوگیا اور اوہام ختم ہوگئے اور بزرگی نعمت کے مالک کے لئے ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الغصب مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۰۷)
(۲ ؎ ردالمحتار کتاب الغصب داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۲۴)
نیز شامی میں ہے:
ای قیمۃ بناء اوشجر امر بقلعہ اقل من قیمتہ مقلوعا مقداراجرۃ القلع فان کانت قیمۃ المقلوع عشرۃ واجرۃ القلع دراھم بقیت تسعۃ۳؎(ملخصاً)
یعنی مکان یا درخت جن کو اکھاڑنے کا حق ہے ان کھاڑے ہوئے کی قیمت سے اکھاڑنے کی مزدوری برابر منہا کرکے بقیہ قیمت دی جائے، مثلاً اگر اکھاڑے ہوئے کی قیمت دس درہم ہو اور مزدوری ایک درہم ہوتو نو درہم قیمت دے گا(ملخصاً)۔(ت)
(۳؎ردالمحتار کتاب الغصب داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۲۴)
خیریہ میں ہے:
ان وقع بعضہ فی حصتہ وبعضہ فی حصۃ الاٰخر فما وقع فی حصتہ فامرہ الیہ وما وقع فی حصۃ الاٰخرفلہ ان یکلفہ قلعہ۴؎۔
اگر مکان کا کچھ حصہ اپنی زمین اور کچھ حصہ دوسرے کی زمین میں ہو تو اپنی زمین والا حصہ اس کی صوابدید پر ہے، اور جو حصہ دوسرے کی زمین پر واقع ہے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ اسے گرانے پر مجبور کرے(ت)
(۴؎ الفتاوٰی الخیریہ کتاب القسمۃ دارالمعرفۃ بیروت ۲/۱۶۱)
یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ مکان صالح تقسیم ،اور شرکاء تقسیم پر راضی ہوں ورنہ اگر بقیہ شرکاء اس عمارت کو رکھنا نہ چاہیں تو ڈھادینے سے چارہ نہیں۔