مسئلہ۱۱۴تا۱۱۹:ازبمبئی کامبیکرات اسٹریٹ المعروف چھاج محلہ مرسلہ بدرالدین عبداﷲ صاحب مشاور جامع مسجد کمیٹی،۱۶رجب ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین وفقہائے شرع متین زادہم اﷲ تعالٰی شرفاً وتظیماً ان صور مسئولہ میں جوکہ ذیل حسب نمبر مندرج ہیں:
اول : یہ کہ شہر بمبئی میں ایک مسجد عظیم الشان رفیع البنیان جامع مسجد ہے اور اس کی بنا وسط شہر میں ایسی جگہ واقع ہے جس کے چو طرف کوئی مکان نہیں ہے اور اس میں ہوابکثرت آتی کیونکہ سب اطراف اس کے فارغ ہیں بلکہ بعض اوقات بسبب کثرت ہوا مصلی دریچہائے مسجد کو بند کرتے ہیں، اس مسجد کی بنا پہلے ہی سے نہایت عمدہ و شاندار تھی مگر قبل از چند سال حضرات مشاورین نے اپنی رائے سے اس میں کسی قدر تبدل وتغیر کیا اور تخمیناً اس ترمیم وتبدیل میں تخمیناً تین لاکھ روپیہ سے زیادہ صرف مال وقف سے کیاگیا اس
مسجد کی روشنی کے لئے قبل از چند سال بصرف مبلغ دس بارہ ہزار روپیہ ہانڈیاں وجھومر بلوری وغیرہ اسباب روشنی کا خرید کرکے نہایت اعلٰی پیمانہ پر مشاورین قدیم نے انتظام کیا تھا بعد از چند سال مشاورین جدید نے اس انتظام کو ناقابل وغیر مکتفی سمجھ کر تقریباً بیس ہزار روپیہ سے زیادہ صرف مال وقف سے گیس کی روشنی کی تجویز کی اور طبقہ زیریں اور بالاپر گیس کے نل وغیرہ سقف وجدار مسجد میں نصب کئے گئے تھے اور چند سال تک یہ گیس یعنی دخان کی روشنی کا مسجد میں انتظام رہا،مگر جبکہ مسجد بطریق بیان بالاترمیم وتغیر کرنے میں آئی اس وقت یہ سب گیس کی روشنی کے نل وغیرہ جو کہ سقف وجدار میں نصب کیے گئے تھے ضائع وخراب وبرباد ہوئے پھر تجدیداً حضرات مشاورین نے بکثرت رائے مشاورین نئے سرے سے گیس کی روشنی کا انتظام کیااور طبقہ زیریں میں سقف وجدار میں نل نصب کئے اس امر کو ایک سال کا عرصہ منقضی نہیں ہوا ہے کہ مشاورین مذکور چاہتے ہیں کہ مسجد میں برقی روشنی اور برقی پنکھوں کا انتظام واہتمام بصرف مال مسجد کیاجائے پس جملہ احوال سوال مذکورپر غور فرماکر بیان فرمادیں کہ یہ جو وقتاً فوقتاً دربارہ روشنی اخراجات کثیرہ کئے گئے ہیں یہ مال وقف میں تصرف بیجا ونازیبائے شرع ہیں یانہیں؟ بیان فرمائیں۔
ثانی : یہ کہ جب مسجد ایسی جگہ واقع ہے جس کے چاروں طرف کوئی مکان نہیں ہے اور مسجد مذکور کے دیواروں میں دریچہائے کلاں بکثرت بنائے گئے ہیں اور ہر وقت ہوا وہاں موجود ومتموج ہے بلکہ بعض وقت حسب بیان سوال اول کھڑکیاں بسبب کثرت ہوا کے بند کی جاتی ہیں، پس ایسی صورت میں مال وقف سے برقی پنکھے مسجدمیں نصب کرنا شرعاً درست ہے یانہیں؟
تیسرے : یہ کہ تجربتاً یہ امر ظاہر ہے کہ جب برقی پنکھا چلایا جاتاہے اس وقت اس سے ایک آواز آتی ہے جو ضرور مخل نماز ومبطل خشوع وخضوع، بناءً علیہ اس طرح کے پنکھے بلاضرورت بصرف مال مسجد بنانا شرعاً جائز ہیں یانہیں؟
(۴) یہ امر بتحقیق تمام ثبوت کو پہنچا ہے کہ پنکھا چلانے کے ڈبے میں جو گریس ڈالا جاتا ہے وہ اشیاء ناپاک ونجس سے مخلوط ہے اس صورت خاص میں بھی ان پنکھوں کے مسجد میں لگانے کا بصرف مال وقف شرعاً کیا حکم ہے؟
(۵) یہ کہ ماہرین فن ایلیکٹری سے یہ بات بخوبی معلوم ہوئی ہے کہ بہ نسبت گیس کی روشنی کے ایلیکٹری کی روشنی وبرقی پنکھوں میں زیادہ ترخوف آتشزدگی ہے، چنانچہ ایلیکٹری سے اس قسم کی آتشزدگی کے واقعات بہت ہوچکے ہیں جس سے بہت لوگ واقف ہیں، پس صورت مذکور میں ایسی خوفناک وحشت آمیز چیز کا نصب کرنا شرعاًدرست ہے یانہیں؟
(۶) یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بقول اطباء روشنی برقی مضر بصارت ہے اور برقی پنکھوں کی ہوا
بھی نقصان رسان صحت ہے، چنانچہ اس قبیل کا ایک مضمون اخبار طبیب مورخہ یکن جون سہہ رواں مطبوع ہے جو اخبار کہ بسر پرستی جناب حاذق الملک مولوی حکیم اجمل خاں صاحب بہادر رئیس اعظم دہلی نکلا کرتا ہے، پس ایسی مضرت رساں صحت کا مسجد میں آویزاں کرنا شرعاً درست ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
(۱) یہ تصرفات محض ظلم واسراف وتضییع مال اوقاف ہیں علماء نے ایک چراغ وقف کے صبح تک روشن رکھنے کو ناجائز بتایا جب تک واقف سے نصاً یا عرفاً اس کی اجازت ثابت نہ ہو نہ کہ بار بار یہ ہزارہا روپوں کاصرف بیکار، متولیوں کو کسی صرف جدید کے احداث کی اجازت نہیں ہوسکتی، اگر بلا مسوغ شرعی اس میں مال وقف صرف کرینگے وہ صرف ان کی ذات پر پڑے گا اور جتنا مال مسجد اس میں خرچ کیا اس کا تاوان ان پر لازم ہوگا، واقف نے اگرمسجد میں کنگرے نہ بنائے تھے اور متولی مال وقف سے بنائے گا گنہگار ہوگا اور تاوان دے گا، نمازیوں کو اگر بے منارہ کے اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے تو متولی مال مسجد سے منارہ نہیں بناسکتا، بنائے گا تو اس پر تاوان آئے گا، واقف نے فراش مسجد کا کوئی وظیفہ نہ رکھا تھا، متولی تو متولی حاکم کو حلال نہیں کہ اس میں فراش کا وظیفہ حادث کرے، نہ فراش کو وہ وظیفہ لینا حلال۔ بنائے مسجد بسکہ عمدہ ومحکم تھی تو متولیوں کو اس کا شہیدکرنا اور نقشہ بدلنا اوراس میں مسجد کے تین لاکھ روپے اڑادینا اور اس کے سبب بیس ہزار کے نل برباد کرنا اور پھر گیاس کی روشنی میں بیس ہزاراور اڑانا، اور اب اسے بھی تباہ کرکے برقی روشنی کی کوشش کرنا اور اس میں مال مسجد برباد کرنا، یہ تمام افعال حرام تھے اور ہیں، متولیوں پر ان لاکھوں روپوں کاتاوان لازم ہے کہ اپنی گرہ سے ادا کریں، اور واجب ہے کہ ایسے مسرف متولی معزول کئے جائیں اور ان کی جگہ مسلمان متدین ہوشیار کار گزار خداترس دیانتدار مقرر کئے جائیں۔
عالمگیریہ میں ہے:
لووقف علی دھن السراج للمسجد لایجوز وضعہ جمیع اللیل بل بقدر حاجۃ المصلین ویجوز الی ثلث اللیل ونصفہ اذااحتیج الیہ للصلٰوۃ فیہ کذا فی السراج الوھاج ولایجوز ان یترک فیہ کل اللیل الافی موضع جرت العادۃ فیہ بذٰلک کمسجد بیت المقدس ومسجد النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم والمسجد الحرام اوشرط الواقف ترکہ فیہ کل اللیل کماجرت بہ العادۃ فی زماننا کذافی البحرالرائق۱؎۔
اگر مسجد کے چراغ کے تیل کے لئے کوئی وقف کیا توتمام رات چراغ روشن رکھنا جائز نہ ہوگا بلکہ صرف نمازیوں کی ضرورت کے مطابق اور تہائی رات تک، اگر ضرورت ہوتو نصف رات تک روشن رکھاجائے، تاکہ نمازی عبادت کرسکیں، یونہی السراج الوہاج میں ہے۔ اور تمام رات چراغ روشن رکھنا جائز نہیں، ہاں ایسے مقامات جہاں ایسی عادت جاری چلی آرہی ہے، جیسا کہ مسجد بیت المقدس او مسجد نبوی اور مسجد حرام میں ہے، یاواقف نے تمام
رات روشن رکھنے کی شرط لگار کھی ہو جیسا کہ ہمارے زمانہ میں یہ عادت بن چکی ہے، بحرالرائق میں یونہی ہے(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۹)
فتاوٰی قاضیخاں میں ہے:
لیس للقیم ان یتخذ من الوقف علی عمارۃ المسجد شرفا من ذٰلک ولو فعل یکون ضامنا۲؎۔
منتظم کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مسجدکی عمارت پر وقف مال سے کوئی بالاخانہ بنائے، اگر اس نے ایساکیا تو وہ اس مال کا ضامن ہوگا۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الوقف باب جعل دارہ مسجداً نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۱۲)
خزانۃ المفتین میں ہے:
یجوز ان یبنی منارۃ من غلۃ وقف المسجدان احتاج الیھا لیکون اسمع للجیران وان کانوایسمعون الاذان بدون المنارۃ فلا۳؎۔
ارد گرد کے لوگوں کو آواز پہنچانے کے لئے مسجد کے وقف کی آمدنی سے مینار بنانا جائز ہے بشرط ضرورت، اور اگر منارہ کے بغیر اذان کی آواز لوگ سن لیتے ہوں تو پھر جائز نہیں(ت)
(۳؎ خزانۃ المفتین کتاب الوقف قلمی نسخہ ۱/ ۲۱۴)
عقودا لدریہ میں ہے:
القاضی لیس لہ الاحداث بدون مسوغ شرعی فکیف المتولی وقد صرح فی الذخیرۃ والولوالجیۃ وغیرھما بان القاضی اذا قرر فراشا للمسجد بغیر شرط الواقف لم یحل للقاضی ذلک ولم یحل للفراش تناول المعلوم قال فی البحر فان قلت فی تقریر الفراش مصلحۃ قلت یمکن خدمۃ المسجد بدون تقریرہ بان یستاجر المتولی فراشا لہ والممنوع تقریرہ فی وظیفۃ تکون حقالہ۱؎۔
قاضی کو وقف میں نئی عمارت بنانا ضرورت شرعی کے بغیر جائز نہیں تو متولی کیسے کرسکتا ہے جبکہ ذخیرہ اور ولوالجیہ وغیرہما میں تصریح ہے کہ اگر قاضی نے واقف کی شرط کے بغیر مسجد کے لئے صفائی والا مقرر کیا تو اسے جائز نہیں اور اس صفائی والے کو مقرر وظیفہ لینا جائزنہیں ہے اور بحر میں فرمایا اگر تیرااعتراض ہو کہ صفائی والے کی تقرری میں اصلاح کی صورت ہے ، تومیں کہتا ہوں کہ اس تقرری کے بغیر بھی مسجدکی خدمت ممکن ہے کہ متولی کسی کو اجرت دے کر کرالے جبکہ مستقل تقرری جس پروظیفہ مقرر ہو منع ہے۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کتاب الوقف الباب الثانی ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۲۲۰)
ہندیہ پھر طحطاوی پھر شامی میں ہے:
مسجد مبنی اراد رجل ان ینقضہ ویبنیہ ثانیا احکم من البناء الاول لیس لہ ذلک لانہ لاولایۃ لہ، مضمرات، الاان یخاف ان ینھدم، تاتارخانیۃ، وتاویلہ ان لم یکن البانی من اھل تلک المحلۃ اما اھلھا فلھم ان یھد موا ویجددوا بنائہ لکن من مالھم لامن مال المسجد الابامر القاضی۲؎۔
تعمیر شدہ مسجد کو گراکر کوئی شخص نئی مضبوط عمارت بنانا چاہے تو اسے یہ اختیارات نہیں کیونکہ اس کو یہ ولایت حاصل نہیں ہے،مضمرات۔ مگر اس صور ت میں جب عمارت منہدم ہونے کا خطرہ ہو،تاتارخانیہ۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ تعمیر کرنے والا محلہ دارنہ ہو، اگر وہاں کا محلہ دار ہوتو محلے والوں کو اختیار ہے گراکر دوبارہ تعمیر کریں لیکن اپنے مال سے، نہ کہ مسجد کے مال سے، ہاں اگر قاضی کی اجازت ہوتو مسجد کا مال خرچ کرسکتے ہیں۔(ت)
(۲؎ فتاوی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۵۷)
جص اور سونے کے پانی سے مسجد میں نقش ونگار محراب کو چھوڑ کر کرنا جائز ہے بشرطیکہ کوئی ذاتی مال سے کرے، وقف کے مال سے جائز نہیں، اگر متولی نے ایسا کیا تو ضامن ہوگا۔(ت)
(۳ ؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۳)
لیکن وقف مال سے ایسا کرنا بلاشبہ متولی کو مطلقاً جائز نہیں کیونکہ اس میں وقف کا کوئی فائدہ نہیں ہے(ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۴۳)
درمختار میں ہے:
الااذاکان الواقف فعل مثلہ لقولھم انہ یعمر الوقف کما کان۱؎۔
ہاں اگر واقف ایسا کرتا رہا ہوتو پھر وقف مال سے جائز ہے کیونکہ فقہاء نے فرمایاہے کہ متولی اسی طرح تعمیر کرے جس طرح پہلے تھی(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۳)
فتح القدیر پھر شرح علامہ بیری پھر ابن عابدین میں ہے:
الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ دون زیادۃ ولاموجب لتجویزہ لان الموجب الشرط والضرورۃ ولاضرورۃ فی ھذا اذلا تجب الزیادۃ بل تبقیہ کما کان۲؎۔
وقف کو اپنی اصلی حالت پر رکھنا واجب ہے کوئی زیادتی نہ کی جائے کیونکہ اس کے جواز کاکوئی موجب نہیں ہے کیونکہ موجب صرف وقف کی شرط یا ضرورت ہے اور اس میں کسی زیادتی کی ضرورت نہیں بلکہ جیسے تھا ویسے باقی رکھے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الوقف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵/ ۴۴۰)
(۲) اولاً ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیا ہے کہ مسجد میں فرشی پنکھا لگانا مطلقاً ناپسندیدہ ہے،
مدخل الی الشریعۃ میں ہے:
قد منع علماؤ نارحمھم اﷲ تعالٰی المراوح، اذ ان اتخاذھا فی المسجد بدعۃ۳؎۔
ہمارے علماء رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرشی پنکھا مسجد میں لگانا ناجائز کہا ہے کیونکہ مسجد میں ایسا کرنا بدعت ہے۔(ت)
(۳؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر البدع التی الخ دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۲۲)
ثانیاً جب یہ حالت ہے کہ حاجت اصلاً نہیں تو اپنے مال سے بھی جائز نہیں، نہ کہ مال وقف سے۔
قال اﷲ تعالٰی:
ولاتسرفواان اﷲ لایحب المسرفین۴؎۔
اسراف نہ کرو اﷲتعالٰی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(ت)
(۴؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۴۱)
وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
ان اﷲ تعالٰی کرہ لکم ثلثا قیل وقال وکثرہ السؤال واضاعۃ المال۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے تمہارے لئے تین چیزوں کوناپسند فرمایا ہے قیل وقال، بغیر ضرورت سوالات کی کثرت اور مال کا ضیاع۔(ت)
ثالثاً یہ وقف میں صرف جدید کااحداث ہے جس کی اجازت متولی کو نہیں ہوسکتی کمابینا۔
رابعاً جب طبّاً اس پنکھے کی ہوا مضر صحت ہوتو اس کا کسی مسلمان کے گھر میں بھی اپنے یا اس کے مال خاص سے بھی لگانا جائز نہ ہوگا نہ کہ مسجدمیں نہ کہ مال وقف سے، کمایأتی۔
(۳) بیشک مسجد میں ایسی چیزکا احداث ممنوع بلکہ ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
تنویر الابصار ودرمختار میں ہے :
کرہ وقت حضور طعام تاقت نفسہ الیہ وکذاکل مایشغل بالہ عن افعالھا ویخل بخشوعھا کائنا ماکان۲؎۔
نفس کی خواہش ہوتو کھانے کے وقت نماز مکروہ ہے اور یونہی ہر وہ چیز جس سے نماز میں دل مصروف رہے اور خشوع میں خلل انداز ہو، جو بھی ہو۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۶۲)
نیز شرح تنویر میں ہے :
ولذاتکرہ فی طاحون۳؎
(اسی لئے چکی خانہ میں نماز مکروہ ہے۔ت)
(۳؎درمختار کتاب الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۶۲)
ردالمحتار میں ہے:
لعل وجہہ شغل البال بصوتھا۴؎۔
ہوسکتا ہے اس کی وجہ چکی کی آواز سے دل کی مشغولیت ہو(ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ دارحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۲۵۵)
(۴) اس صور ت میں وہ پنکھا مطلقاً خود ہی ناجائز ہے اگرچہ پہلی چار وجہ نہ بھی ہوتیں۔
مسجد میں نجاست کا داخل کرنا منع ہے اس لئے ناپاک تیل سے مسجدمیں چراغ روشن کرنا جائز نہیں۔(ت)
(۵؎ درمختار شرح تنویر الابصار باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۳)
(۵) یہ بھی کافی وجہ اس روشنی اور پنکھے کی ممانعت کی ہے،
رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا مراحدکم فی مسجدنا اوفی سوقنا ومعہ نبل فلیمسک علی نصالھا بکفہ لایعقر مسلما۱؎۔ رواہ البخاری ومسلم وابوداؤدو ابن ماجۃ عن ابی موسی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جب تم ہماری مساجد وبازار سے گزرو تو اپنے نیزوں کے پھالوں کو قابو رکھو اگر پاس نیزے ہوں تا کہ کسی مسلمان کو نہ لگے۔ اس کوبخاری،مسلم، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے ابوموسی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلممن حمل السلاح فلیس منا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۴۷)
(مسند احمد بن حنبل حدیث ابوموسٰی الاشعری دارالفکر بیروت ۴/ ۳۹۷)
اور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
اذا نمتم فاطفؤ االسراج فان الفارۃ تاخذ الفتیلۃ فتحرق اھل البیت ۲؎۔ رواہ احمد والطبرانی والحاکم بسند صحیح عن عبداﷲ بن سرجس والحدیث فی الصحیحین من وجوہ۔
جب سونے کا ارادہ ہو تو چراغ کو بجھادو،ممکن ہے کہ چوہیا چراغ کے فتیلہ کو کھینچ کر گھروالوں کو جلادے، اس کو احمد، طبرانی اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ عبداﷲبن سرجس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اور صحیحین میں یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے۔(ت)
(۲؎مسند احمد بن حنبل عبداﷲ بن سرجس دارالفکر بیروت ۵/ ۸۲)
(۶) جب ازروئے طب ان کا مضر ہونا ثابت ہوتو یہ ایک اعلٰی وجہ عدم جواز ہے کہ اس میں مسلمانوں کو ضرر رسانی ہے، اور یہ حرام ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لاضرر ولاضرار۳؎۔رواہ احمد و ابن ماجۃ عن ابن عباس وابن ماجۃ عن عبادۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
ضرر رسانی ناجائز ہے۔ اس کو احمد اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے اور ابن ماجہ نے عبادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔(ت)
(۳؎ مسند احمد بن حنبل اخبارعبادۃ بن الصامت دارالفکر بیروت ۵/ ۳۲۷)
اس میں مسلمانوں کی بدخواہی ہوئی اور یہ خلاف دین ہے۔ رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان الدین النصیحۃ ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم۱؎۔ رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی عن تمیم الداری رضی اﷲ تعالٰی عنہ، واﷲتعالٰی اعلم۔
بلا شبہ دین اﷲ تعالٰی، اسکی کتاب، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ائمہ اورعوام الناس کے لئے خلوص کانام ہے۔ اس کو مسلم، ابوداؤد، نسائی نے تمیم داری رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب ان الدین النصیحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۴)