مسئلہ۱۰۳تا۱۰۵: ازشہر بمبئی کا مبیکر اسٹریٹ چھاج محلہ مرسلہ بدرالدین عبداﷲ ۹جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
(۱) شہر بمبئی کی جامع مسجد کے اکثر متولیوں نے یہ رائے قائم کی کہ ایک کرایہ کی زمین لے کر اس پر ایک مکان وقف کے سرمایہ سے بنایا جائے، جس مکان کی لاگت ایک لاکھ چودہ ہزار روپیہ تک ہو اس حالت میں کہ شہر میں سیکڑوں مکانات دوامی بیعنامہ پر مل سکتے ہیں وقف کی اس قدر بڑی رقم ایک کرایہ کی زمین پر صرف کردینا شرعاً جائز ہے یانہیں؟
(۲) مذکورہ بالا زمین کے مالک نے کرایہ زمین کی یہ صورت قائم کی ہے کہ زمین مذکور کی ایک خاص رقم قرار دی جائے اور قیمت پرسالانہ فیصدی للعہ ۸ روپیہ کے حساب سے جو سود ہے اس حساب سے زمین مذکور کا ماہواری کرایہ قرار دیا جائے، آیا کرایہ کا یہ طریقہ شرعاً جائز ہے یانہیں؟
(۳) چونکہ فی الحال بوجہ جنگ مزدوری لکڑی اور دیگر عمارتی اشیاء کی قیمت تین گنی بلکہ چار گنی ہوگئی ایسے وقت میں وقف مسجد کے سرمایہ کو کرایہ کی زمین پر عمارت بنانے میں صرف کرنا اور تیار شدہ عمارتیں جو کثرت سےملتی ہیں انہیں نہ خریدنا شرعاً جائز ہے یانہیں؟
فان الولایۃ مشروطۃ بالنظر ولانظر فی الضرر۔
ولایت مشروط بشفقت ہے اور ضرر میں شفقت نہیں ہے(ت)
سود ملحوظ کرکے مقدار کرایہ معین کرنا ایک ناپاک بات اور گندہ لحاظ ہے لیکن اگر معین ہوجائے تو اس کرایہ میں حرج نہیں، مثلاً ہزارروپیہ کی قیمت ہے تو وہ نجس حساب لگاکر پونے چار روپیہ مہینہ کرایہ قرار دیا تو وہ نجاست اس لحاظ ہی میں رہی کرایہ میں نہ آئی، یہ ایسا ہوا کہ ابتداء کہتا کہ یہ زمین اتنی مدت کو پونے چار روپیہ کرایہ پر کردی، تیسری بات کا جواب مضمون بالا میں آ گیا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۰۶: ازسہسوان ضلع بدایوں قاضی محلہ مرسلہ سید پرورش علی صاحب ۱۴رجب ۱۳۳۷ھ
حضور نے تنخواہ ماہوار متولی وقف کو اجیر مثل کا فتوی لکھا ہے، لہذا عرض ہے کہ مدرسہ اسلامیہ حنفیہ سہسوان کی زمین موقوفہ سہسوان سے تین کوس ہے متولی کو سواری وخوراک مع سپاہی فصل ہنگام تحصیل وقت سے ملے گی، نذر، بھیٹ روپیہ، پٹہ وقبولیت بھی حسب رواج ہنگام ماہوار اس کی تنخواہ کا روپیہ مناسب ہے کاشتکاروں سے وصول کرکے مدرسہ پر صرف کرنا، مدرسوں کو ماہوار دینا، تعمیر ومرمت وغیرہ میں خرچ کرنا مالگذاری گورنمنٹی ادا کرنا اس کا کام ہے اتنے کام کی کتنی اجرت ہوگی۔
الجواب
وقف سے سواری اور ایام کارگزاری کی تنخواہ ملے گی اور ضرورت ہوتو ان ایام میں سپاہی کی تنخواہ بھی، تنخواہ کا تعین کام کی کمی بیشی اور ہر جگہ کے عرف پر ہے، پٹہ اور قبولیت کانذرانہ اور اس قسم کے زائد اور بے اصل رقوم کہ رائج ہورہی ہیں شرعاً باطل ہیں، واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۰۷: ازشہر بریلی محلہ فراشی مسئولہ مولوی عبدالعزیز قدر ت اﷲ خاں صاحب ۲۱رجب المرجب ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ کسی نے دو یاتین مسجدوں کے واسطے نام بنام الگ الگ روپیہ وصیت نامہ سے وقف کیا کہ فلاں مسجد کو اتنا اور فلاں کو اتنا ماہوار دیا جائے، اب خود اس نے ایک مسجد کے نام کا روپیہ دوسری مسجد میں لگا دیا اور اس دوسری مسجد کے نام کا روپیہ بھی اسی دوسری مسجد میں لگادیا، دونوں مسجدوں کے نام ماہوار وقف کیاہے، سوال یہ ہے کہ دوسری مسجد کے ماہوار میں سے پہلی مسجد کا روپیہ اداکرنا چاہئے یانہیں؟ اور آئندہ بھی ایک مسجد کا ماہوار دوسری مسجد میں لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور جائز ہے تو اس کو ادا کرنا ضرور ہے یا نہیں ؟ یہ بھی واضح ہو کہ ہر ایک مسجد کے واسطے خاص خاص دکانوں کا کرایہ وقف ہے واقفہ زندہ ہے اور وصیت نامہ اسی کے قبضہ میں ہے جو رجسٹری شدہ ہے۔
الجواب
جب وقف کی وصیت کی ہے تو اس کانفاذ بعد موت واقف ہوگا، زندگی میں اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۰۸تا۱۱۳: ازفیض آباد چوک مسجد شاہ ٹاٹ مرسلہ حافظ عبدالرحمٰن صاحب پیش امام ۱۶شعبان ۱۳۳۷ھ
حضرات علمائے کرام سوالات ذیل میں ازروئے شرع شریف کیا حکم فرماتے ہیں:
(۱) مسجد کے متعلق مسجد کی ضرورت سے پاخانہ بناہوا تھا اور وہی استنجا خانہ بھی تھا، مسجد کے متعلق ایک تھوڑا ساصحن مسجد کے دکھن جانب تھا جس کاحلقہ پختہ دیوار سے تھا اور اسی حلقہ کے گوشہ میں مسجد کا استنجاخانہ تھا جس میں نمازیان مسجد اور مسافران طہارت اور رفع حاجت کرتے تھے۔ زید نے ایک مدرسہ بنانا چاہا جس کے واسطے عمرو نے اپنی ملک سے مدرسہ کےلئے مسجد کے خلف سے ملی ہوئی زمین دی تھی، زید کو وہ حلقہ جو مسجد کے متعلق تھا اور پاخانہ دونوں وہ بھی زید نے کھود ڈالا اورتخمیناً دو گز زمین چوڑان میں اورجتنی دور پاخانہ تھا اور اسی سیدھ اتنی ہی زمین پرچوڑان میں۵خواہ ۶ گز تک لمبان میں سب بغیر عام مسلمانوں کی اجازت کے غصب کرکے اپنا مدرسہ بڑھا کر بنالیا اور تخمیناً تین ہزار اینٹ اسی حلقہ کی جو کھود ڈالی تھی وہ بھی مدرسہ میں لگائی، عام مسلمانوں نے سکوت کیا بوجہ اس کے کہ چند مسلمان ہمخیال زید کے اس کے شریک رہے۔ مسلمانوں نے چندہ جمع کرکے یہ سب بنوایا تھا کچھ دخل نہ دیا۔ کیا شرعاً زید کے لئے یہ جائز ہےکہ وہ مسجد کا پاخانہ توڑڈالے اور معہ پاخانہ کی زمین کے بغیر اجازت عام مسلمانوں کے غصب کرکے مدرسہ بنالے، اینٹ پاخانہ اور حلقہ کی مدرسہ میں لگالے شرعاً جائز ہے یانہیں؟
(۲) ایسی حالت میں جبکہ وہ پاخانہ اور استنجا خانہ نماز یان مسجد اور مسافران مسجد کے لئے تھا جس کے کھودڈالنے سے نمازیوں کو برابر تکلیف رہی اور ہے، زید کا پاخانہ کھودڈالنا اور مسجد کی ضروریات کا خیال نہ کرنا اور ایسی زمین کو مدرسہ میں داخل کرنا یہ سب شرعاً جائز ہے یانہیں اور زید اس سے گنہگار ہوا یانہیں؟
(۳) زید نے مسجد کی پشت پر کاپختہ پشتہ ایک ثلث جو حفاظت دیوار مسجد کےلئے بنایا جاتا ہے کھودڈالا اور پاخانہ غسل خانہ اور اس کے بدررو(نالی) کا حوض سب مسجد کے پشت دیوار سے بالکل ملا ہوا بلکہ ایک گز مٹی نکال کر بنایا جس سے مسجد میں بو بھی آئے گی، دیوار پشت مسجد میں نونا(شور) بھی لگے گا مسجد کی بیحرمتی بھی ہے کہ پشت مسجد پر پاخانہ بنا ہے، آیا یہ سب فعل زید کےلئے شرعاً جائز ہے یانہیں؟ شرع دیوار مسجد میں اجازت دیتی ہے کہ مسجد کا پشتہ وزمین پاخانہ کی ضرورت کوکھودڈالاجائے کہ پاخانہ کی جگہ کچھ کم تھی یا پاخانہ بن نہ سکتا۔ مسجد کی پشت پر سے مہتر آوے گا حوض کا پانی جو بالکل نجاست غلیظہ ہے جس سے مسجد دیوار پر ضرور چھینٹ پڑے گی۔
(۴) زید نے یہ سب کچھ کیا خود اور چند مسلمانوں کی مدد سے، مگر مسلمانان شہر جس میں ہر قسم کے لوگ ہیں زید کی ان تمام باتوں کے خلاف یہ سب زمین مسجد پاخانہ اور وہ زمین جو اس کے متصل مسجد کے متعلق ہے اور اس کی اینٹ سب اپنے تحت تصرف میں لانا بھی سخت خلاف اور رنجیدہ ہیں اس کو جائز نہیں سمجھتے لہذا شرعا ہم سب مسلمانوں کو سکوت کرنا چاہئے یا کہ دخل دینا چاہئے اور یہ سب زمین علیحدہ کرلینا چاہئے؟امید کہ تشفی بخش جواب ہم غریب مسلمانوں کو مرحمت ہووے مع دلیل کے کیونکہ زید بھی مولوی ہے بغیردلیل کے وہ ہم لوگوں کی کیوں مانے گا۔
(۵) کیا زمین متعلقہ مسجد یااستنجا خانہ وغیرہ وغیرہ مسلمانوں کی اجازت سے شرعاً منہدم ہوسکتا ہے ایسی حالت میں جبکہ وہ مسجد کے کام میں نہ آئے بلکہ دوسرے کام میں آئے وہ اجازت کے مجاز ہیں۔
(۶) مسجد میں پاخانہ یا پیشاب خانہ بنانے میں کچھ پورپ پچھم میں فرق ہے یانہیں؟ اور مسجد سے کتنے فاصلہ پر پیشاب خانہ بنانا چاہئے اس کی کوئی حد شرعاً جو ہو حکم فرمایا جائے اور نجاست کے پانی سے مسجد کی دیوار میں اگر اثر پہنچے تو شرعاً کچھ حرج ہے یانہیں؟
الجواب
(۱و۲) یہ فعل زید کا حرام قطعی ہے، ایک وقف جس غرض کے لئے وقف کیا گیا ہے اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہومگر ہیئت بدل دی جائے مثلاً دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان،یہ حرام ہے۔
عالمگیری میں ہے:
لاتجوز تغییر الوقف عن ھیئتہ۱؎۔
وقف جائداد کی ہیئت کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔(ت)
(۱ ؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الرابع فی المتفرقات نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۹۰)
نہ کہ سرے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کرلیا جائے یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے۔
(۳) یہ بھی زید کا ویسا ہی تصرف ہے، حرام وناجائز ہے۔ مسجد کا پشتہ کھودنا حرام، اور اسے ماورائے مسجد دوسرے کام خصوصاً ایسے ناپاک کام میں صرف کرنا صریح ظلم وغصب وبےحرمتی مسجد ہے۔
صحیح حدیث کا ارشاد ہے کہ جو ایک بالشت زمین غصب کرے گا زمین کے ساتوں طبقوں تک اتنا حصہ توڑکرروزِ قیامت اس کے گلے میں طوق ڈالاجائے گا۲؎۔
(۲؎ صحیح البخاری باب ماجاء فی سبع ارضین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۵۴)
(۴) مسلمانون کو زید کی ایسی بیجادست برد وظلم پر سکوت حرام ہے اور چارہ جوئی فرض۔ لازم ہے کہ بذریعہ حکومت مسجد کی وہ پہلی زمین اور پشتہ کی زمین سب اس کے قبضہ سے نکلوائی جائے اور پہلے جس حالت پر تھی اسی حالت پر جبراً اس سے کرائی جائے اور جتنی اینٹیں اس نے تصرف میں کرلی ہیں وہ متمیز ہوں تو واپس لی جائیں ورنہ ان کی قیمت لی جائے اور جتنے دنوں یہ استنجا خانہ وپشتہ وغیرہ کی زمین اس کے قبضہ میں رہی یا تا انفصال رہے اس سب کا کرایہ اس سے مسجد کے لئے لیا جائے
کما قد نصوا علیہ قاطبۃ فی الکتب المعتمدۃ
(جیسا کہ تمام معتبر کتب میں اس پر نص موجود ہے۔ت)
(۵) مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں تصرف آدمی اپنی ملک میں کرسکتا ہے وقف مالک حقیقی جل وعلا کی ملک خاص ہے اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔
(۶) مسجد کوبو سے بچانا واجب ہے، ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا:
وان یمرفیہ بلحم نیئ۳؎۔
یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا جائز نہیں،
(۳؎ سنن ابن ماجہ ابواب المساجد باب مایکرہ فی المساجد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۵)
حالانکہ کچے گوشت کی بوبہت خفیف ہے تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی، مسجد عام جماعت کیلئے بنائی جاتی ہے اور جماعت ہر مسلمان پر واجب ہے یہاں تک کہ ترک جماعت پر صحیح حدیث میں فرمایا: ظلم ہے اور کفر ہے۔اور نفاق یہ کہ آدمی اﷲ کے منادی کو پکارتا سنے اور حاضر نہ ہو۔
صحیح مسلم شریف میں عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی حدیث ہے:
یعنی اگر مسجد میں جماعت کو حاضر نہ ہوگے اور گھروں میں نماز پڑھو گے تو گمراہ ہوجاؤگے ایمان سے نکل جاؤگے(اورابوداؤد کی روایت میں ہے تم کافر ہوجاؤگے۔ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل صلوٰۃ والجماعۃ وبیان التشدید الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۳۲)
(۲؎ سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب التشدید فی ترک الجماعۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۸۱)
بایں ہمہ صحیحین کی حدیث میں ارشاد ہوا :
من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلایقربن مصلانا۳؎۔
جو اس گندے پیڑ میں سے کھالے یعنی کچا پیاز یا کچا لہسن وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے۔
اور فرمایا:
فان الملٰئکۃ تتأذی ممایتأذی منہ بنواٰدم۴؎۔
یعنی یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے تو اس میں کسی بو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہو کہ کوئی آدمی نہیں جواس سے ایذا پائے گا ایسا نہیں بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں اس سے جس سے ایذاپاتا ہے انسان۔مسجد کو نجاست سے پچانا فرض ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب نہی من اکل ثوما الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۰۹)
(۴؎صحیح مسلم کتاب المساجد باب نہی من اکل ثوما الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۰۹)