Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
27 - 112
مسئلہ۸۸تا۹۱: مرسلہ حکیم محمد حیات خاں صاحب آگرہ کوچہ حکیماں حیات منزل ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اکثر اوقاف بشمول مسجد جامع وغیر ہ آگرہ میں ایک انجمن کے ماتحت و وزیر نگرانی ہیں جس کے  پانچ ممبر ہیں منجملہ ان پانچوں کے ایک ممبر صاحب انجمن ہلال احمر آگرہ کے بھی سکریٹری ہوگئے ہیں، تھوڑا عرصہ ہوا کہ کچھ ترک قسطنطنیہ سے بغرض اظہار شکریہ مسلمانان آگرہ میں تشریف لائے اوربایماء ان ممبر صاحب کے جو ہلال احمر کے سکریٹری ہیں بلادریافت دیگر ممبران کمیٹی ایک جلسہ مسجد جامع آگرہ میں منعقد ہو ا اس جلسہ کے متعلق جملہ انتظامات ممبر صاحب موصوف نے ملازمان مسجد سے کرائے اور جو کچھ روشنی میں خرچ ہوا وہ انجمن اوقاف متذکرہ صدر سے دلوایا اور یہ کہا کہ چونکہ مسجد جامع مسلمان آگرہ کی ہے اور یہ جلسہ مسلمانان آگرہ کا تھا اگر مسجد میں روشنی زائد نہ ہوتی تو باعث بدنامی مسلمانان تھا اس کارروائی پر دو  ممبر معترض ہوئے تو ایک چوتھے ممبر صاحب نے وہ جو روشنی میں خرچ کی گئی تھی اپنے پاس سے ادا کردی اور یہ کہا کہ میں رفع نزاع کئے دیتا ہوں
پس امورات قابل استفسار یہ ہیں:

(۱) آیا اول ممبر صاحب کا یہ فعل کہ ملازمان وقف سے انجمن ہلال احمر کا کام لیں درست تھا؟

(۲) آیا ایسے ملازم جوذی استعداد علم دین سے بہر ور کہے جاتے ہیں اور انہوں نے خود نیز اپنے ماتحت ملازموں سے بلا ایماء انجمن اوقاف متذکرہ بالاکرائے ان ملازموں کا یہ فعل جائز تھا ؟

(۳) جوصرفہ آمدنی وقف سے روشنی کادلوایا گیا وہ جائز تھا؟

(۴) اگردیگر ممبر نے اس خرچہ کو ادا کردیا تو آمدنی وقف میں شامل کرلئے جانے میں کوئی امر مانع شریعت تو نہیں ہے؟
الجواب

شرائط اوقاف پر نظرکی جائے اگر معاملہ مذکورہ ان کے تحت میں داخل ہوتا ہوتو حرج نہیں ورنہ اس ممبر کو ایسا کرنا جائز نہ تھا،کام کرنیوالوں نے اگر کار اوقاف کا حرج کرکے کام کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے، ممبر جس نے معاوضہ دے دیا اپنی حسن نیت پر اجر پائے گا اور اس معاوضہ کو قبول کرلینا جائز ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۹۲:ازسہسرام ضلع گیامرسلہ حکیم سراج الدین احمد صاحب ۳جمادی الآخر۱۳۳۶ھ
اکثر سجادہ نشینان ومتولیان ومینجران وممبران وملازمان وقف آمدنی ہائے جائداد وقف کو اپنی ہی ملک اور اس کی زیادہ تر آمدنی کو بھی اپنے ہی مصارف میں صرف کرنا درست وحق سمجھتے ہیں درانحالیکہ وقف جائداد منقولہ وغیر منقولہ کی آمدنی کا زیادہ ترحصہ مذہبی ثواب کے کاموں میں صرف ہونا چاہئے جیسا کہ کلکتہ، مدراس، بمبئی، الہ آباد کی کونسلوں میں بھی تسلیم کیا ہے، پس ان کا ایسا سمجھنا وکرنا برخلاف شرع کرنا ہے یانہیں؟اگر ہے تو مذکورین کےلئے کوئی وعیدبھی ہے یانہیں؟اگرہے تو عوام مسلمین کوان کے ساتھ کیا برتاؤکرنا چاہئے؟
الجواب

وقف میں اتباع شرط واقف لازم ہے،
فقد قال علماؤنا ان شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۱؎۔
ہمارے علماء نے فرمایا کہ واقف کی شرط پر عمل شارع کی نص پر عمل کی طرح ضروری ہے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الوقف     ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/ ۳۰۵)
اگر واقف نے یہی شرط کردی ہے کہ اکثر حصہ اس کا سجادہ نشینوں متولیوں کے صرف میں آئے تو ان کا ایسا کرنا بجا ہے اور ان پر کچھ الزام نہیں، اور اگر شرائط واقف کے خلاف وہ براہ تعدی مال وقف کوظلماً اپنے مصارف میں لاتے ہیں تو ظالم ہیں غاصب ہیں واجب الاخراج ہیں، لازم ہے کہ وقف ان کے ہاتھ سے نکال لیا جائے۔
درمختارمیں ہے:
ینزع وجوبا، بزازیۃ، ولو الواقف، درر، فغیرہ بالاولی لو غیرمامون۲؎۔
لازمی طور پر معزول ہوگا، بزازیہ۔ اگرچہ واقف ہو، درر۔ توغیربطریق اولٰی اگر وہ ناقابل اعتماد ہو(ت)
(۲؎ درمختار         کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۳)
مال وقف مثل مال یتیم ہے جس کی نسبت ارشادہوا کہ جواسے ظلماً کھاتاہے اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے اور عنقریب جہنم میں جائے گا،
ان الذین یاکلون اموال الیتٰمٰی ظلماً انما یا کلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا؎۔
اگر وہ لوگ اس حرکت سے باز نہ آئیں ان سے میل جول چھوڑدیں،ا ن کے پاس بیٹھنا روا نہ رکھیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم    ۴/ ۱۰)
قال اﷲ تعالٰی واما ینسینک الشیطن فلاتقعد بعدالذکری مع القوم الظٰلمین۲؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
اﷲتعالٰی نے فرمایا: جب کبھی شیطان تجھے بھلادے تو پھر یاد آنے پر ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۲؎القرآن الکریم   ۶/ ۶۸)
مسئلہ۹۳تا۱۰۲:ازبہرائچ سید واڑہ بدولتکدہ حاجی احمد اﷲ شاہ صاحب مرسلہ نواب علی مورخہ ۹جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین مسائل مندرجہ ذیل میں:

کسی مقام پر ایک بزرگ کا مزارہے اور اس کے متعلق وقف کی معقول آمدنی ہے خادمان وقف کی بدنظمی سے عدالت نے اس وقف کو خادموں کے ہاتھ سے نکال کر ایک کمیٹی کے سپرد کیا جو وقف  کمیٹی کے نام سے موسوم ہے، عدالت نے اس کمیٹی کے ممبران کےلئے جو اس میں شریک ہوں سنی المذہب ہونا ضروری رکھا ہے اور عدالت نے اس وقف کی نگرانی کے لئے قواعد وقف بھی مرتب کئے اور ان قواعد میں اخراجات کے مدات قائم کئے اور یہ شرط کردی کہ بجز ان مدات کے جو قواعد میں درج ہیں کسی دوسرے مدات غیر مندرجہ قواعد میں یہ رقم نہ صرف کی جائے۔
(۱) ان اخراجات کے مدات میں ایک مدخیرات کی بھی ہے جن کے الفا ظ وقف قواعد میں یہ ہیں دو خیراتی (الاؤنس) یعنی وظائف وخیرات وتقسیم کھانا کپڑا بغرض پرورش غربا، اگر ایسے خیراتی (الاؤنس) یعنی وظائف سے ان مساجد میں مؤذنوں کو تنخواہ دینا جن کا کوئی تعلق اس وقف سے نہیں ہے یا ایسے ہی دوسرے مصارف مثلاً مدارس اردو انگریزی یا کسی انجمن کے اس مدرسہ کو جس کا کوئی تعلق وقف سے نہیں ہے ان کے مدرسین کو تنخواہ دینا شرعاً جائز ہے؟

(۲) اگرممبران کمیٹی آمدنی وقف سے ایک مد کی رقم کسی دوسرے مد مندرجہ یا غیر مندرجہ مدات میں صرف

کریں اس وقت مسلمانوں کو ان سے باز پرس کا حق ہے یانہیں؟ اور وہ لوگ اس رقم صرف شدہ کے اداکرنے پر شرع شریف سے مجبور ہیں یانہیں؟

(۳) ایسے ممبران جو ہر کارروائی وقف کمیٹی کو عام مسلمانوں سے پوشیدہ کریں یا پوشیدہ رکھنے کی کوشش کریں یا اپنی خود رائی سے اس وقف کا روپیہ کسی بیجاطورپر صرف کریں تو ایسے لوگوں کااس وقف کاممبر رہنا شرعاً جائز ہے یانہیں اور عام مسلمانوں کو اوقاف کی جانچ کا اختیار ہے یانہیں؟

(۴) اگر وقف کمیٹی کے اکثر ممبران صدر انجمن وقف کے ہمخیال ہوں اور بوجہ اپنی کثرت رائے کے احکام شرعیہ و نیز قواعد وقف کمیٹی کے خلاف عملدرآمد کریں یا کرتے ہوں اور اسی کمیٹی کا ایک ممبر زید جو ان کا ہمخیال نہیں ہے محض اپنی ذاتی معلومات و واقفیت واطمینان کے لئے متعلق وقف کاغذات وقف کو دیکھنا چاہے اور اس کی اصلاح کرنا چاہے اس وقت وہ ممبران جو ہمخیال صدر انجمن ہیں زید کو اس کے ارادہ سے باز رکھیں یا جس کاغذ کو وہ دیکھنا چاہتا ہے اس کو ان کاغذات کے دیکھنے کی اجازت نہ دیں یا اس کو اس کے فرض منصبی ادا کرنے سے باز رکھیں تو ان کا یہ فعل شرعاً جائز ہے ؟ (بحوالہ کتب فقہ) 

(۵) قواعد وقف مرتبہ عدالت نے کمیٹی وقف کو اختیار دیا ہے کہ کمیٹی حسب ضرورت دوسر ے قواعد علاوہ قواعد مرتبہ عدالت مرتب کرے۔ قواعد وقف مرتبہ عدالت میں کسی ممبر کمیٹی کو جانچ پڑتال کاغذات عام نگرانی کی ممانعت نہیں ہے ایسی صورت میں کیا ممبران وقف وصدر وقف کو یہ اختیار شرعاً حاصل ہے کہ وہ جدید قواعد وقف ایسے مرتب کرلے کہ جس سے زید مذکور کاغذات وقف دیکھنے سے مجبور ہوجائے یا یہ کہ ممبران جو ہمخیال صدر انجمن ہیں اپنی کثرت رائے سے یہ قاعدہ پاس کردیں کہ کوئی ممبر وقف کمیٹی بغیر اجازت صدر انجمن وقف کوئی کاغذ نہیں دیکھ سکتا ان کی یہ کارروائی شرعی اعتبار سے جائز ہے یانہیں؟(بحوالہ کتب فقہ)

(۶) سامان روشنی، فرش فروش، خیمہ وقنات ودیگر فرنچی مثلاً شامیانہ ومیز وکرسی وغیرہ جو وقف کی ملک ہیں اہالیان شہر کو ان کی مشروع وغیر مشروع جلسوں میں دینا یا کسی رئیس کی رہائش کے سامان اسی وقف سے دینا شرعاً جائز ہے یانہیں؟(بحوالہ کتب فقہ)

(۷) مذہبی تقریبات میں جو شیرینی بغرض تقسیم آتی ہے وہ اس محفل کے حاضرین کے لئے مخصوص ہے یامسلم اور غیر مسلم جو اس تقریب میں شریک نہیں ہے ان کے گھروں میں وہ شیرینی بطور تبرک بھیجنا یا اہالیان شہر کی اس اوقاف کے روپیہ سے دعوت کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں؟(بحوالہ کتب فقہ)

(۸) اگر کوئی شے یا کتاب جو وقف کی ملک ہے کسی ملازم وقف یا ممبر وقف کمیٹی سے یا کسی غیر شخص سے

تلف ہوجائے تواس وقت اس کا معاوضہ لینا شرعاً جائزہے یانہیں؟اور معاوضہ کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

(۹) اگر ممبران وقف کمیٹی یا صدر انجمن وقف کمیٹی ملک وقف شدہ سے کوئی چیز کسی انجمن یا کسی مسجد میں جو غیر متعلق اوقاف ہے ہمیشہ کے لئے دے دیں تو ان کا یہ فعل شرعاًجائز ہ یانہیں؟(بحوالہ کتب فقہ)

(۱۰) اگرجدید قواعد وقف مرتب کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت احکام شرعیہ کا لحاظ کرکے قواعد وقف مرتب ہوسکتے ہیں یا ممبران وقف کمیٹی کی کثرت رائے پر، شرع شریف کس کے حق میں فیصلہ کرتی ہے؟(بحوالہ کتب فقہ)
الجواب

(۱) وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے:
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۱؎۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی کتاب الوقف    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۰۵)
اگران مواقع میں صرف کرنا شرط واقف سے جدا ہے جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو یہ صرف محض ناجائز ہے اور اگر واقف نے ہی ان مواقع میں صرف کی اجازت دی ہے جو ان میں مصرف خیر ہو اس میں صرف کرنا جائز ہے اور اگر شرائط واقف معلوم نہ ہوں تو متولیوں کے عملدرآمد قدیم پرنظر ہوگی
کما فی الخیریۃ وغیرہا
 (جیسا کہ خیریہ وغیرہ میں ہے۔ت)
 (۲) اس کا وہی جواب ہے جو اوپر گزرا جہاں انہوں نے صرف کیا اگر وہ موافق شرط واقف یا اس کے معلوم نہ ہونے کی حالت میں موافق عملدرآمد قدیم متولیان ہے تو وہ صرف جائز ہوا اور ان سے مطالبہ و باز پرس کی کوئی وجہ نہیں ورنہ ناجائز ہوا اور ضرور باز پرس ہے اور ان پر لازم ہوگا کہ اس کا تاوان وقف کےلئے ادا کریں۔

(۳) اگر روپیہ بیجا صرف کریں تو ضرور ان کا معزول کرنا واجب ہے،
درمختار میں ہے:
ینزع وجوبا ولوالواقف، بزازیہ، فغیرہ بالاولٰی، درر، لوغیر مامون۲؎۔
لازمی طور پر معزول کیا جائے اگرچہ واقف ہو، بزازیہ تو غیر کو بطریق اولٰی، درر، اگر وہ قابل اعتماد نہ ہو۔(ت)
(۲؎ درمختار         کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۳)
اور متولیوں کا وقف کی کارروائی پوشیدہ کرنا کوئی جرم نہیں، نہ ہر شخص ان سے حساب کا مطالبہ کرسکتا ہے جب تک خیانت ظاہر نہ ہو کہ وہ منجانب امین ہیں اور امین پر اعتراض نہیں، واﷲ تعالٰی اعلم، یونہی جن کی تولیت بشروط واقف نہ ہو، نہ شرط واقف کے خلاف  ہو، اور عام مسلمانوں نے ان کو متولی کیا ہو یا ان کی تولیت پر راضی ہوئے ہوں۔
 (۴) ان کا یہ فعل شرعاً جائز نہیں اور ان پرصریح الزام ہے جبکہ وہ دربارہ وقف مخالفت شرع کریں اور دوسرے کو اس کی جانچ سے بھی باز رکھیں۔
حدیث میں ہے:
من استرعی الذئب فقد ظلم ۔
جس نے بھیڑئیے کو راعی بنایا تو اس نے ظلم کیا(ت)
 (۵) یہ کارروائی محض ناجائز ہے کہ اس سے دفع ظلم کا سد باب مقصود ہے۔ متعلق وقف نئے قوانین احداث کرنے کا کسی کواختیار نہیں جبکہ وہ شرع مطہر یا شرط واقف کے خلاف ہو نہ کہ ایسی صورت کہ مخالفت احکام شرعیہ کی جائےاور اس کی ممانعت کا دروازہ بند کرنے کو یہ قوانین وضع ہوں ایسا قانون اگر خود شرط واقف میں ہوتا مردود ہوتا وہ ہرگز نہ مانا جاتا، علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مثلاً واقف نے کسی کو متولی مقرر کیا اور یہ شرط لگادی کہ اسے کوئی معزول نہ کرسکے اور جو اسے معزول کرے اس پر اﷲ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی لعنت ہو اور حالت یہ ہو کہ متولی شرعا رکھنے کے قابل نہیں تو فوراً نکال دیاجائے گا اور واقف کی ایک نہ سنی جائے گی اور اس کی وہ لعنت اسی پر واپس جائیگی
کما فی الدرالمختار۔
 (۶) حرام ہے، یہاں تک کہ ایک مسجد کا سامان دوسری مسجد کو عاریۃً بھی دینا جائز نہیں
کما فی العلمگیریۃ عن القنیۃ
(جیساکہ قنیہ سے عالمگیریہ میں ہے۔ت) نہ کہ زید وعمرو کو نہ کہ نامشروع جلسوں کو۔ یہ سراسر وقف پرظلم ہے جو ایسا کریں وقف سے ان کا اخراج واجب ہے،
کمامر عن الوجیز والدرر والدر
(جیسا کہ وجیز، درر اور در سے گزرا۔ت)
 (۷) غیر مسلم کو مال وقف سے بھیجنا تو کسی طرح جائز نہیں کہ وقف کارخیر کے لئے ہوتا ہے اور غیر مسلم کو دینا کچھ ثواب نہیں
کما فی البحرائق وغیرہ
 (جیسا کہ بحرالرائق وغیرہ میں ہے۔ت)، رہا غیرحاضرین مسلمانوں کے گھروں پر بھیجنا، اس میں وہی شرط واقف یا عملدرآمد قدیم کا لحاظ ہو گا بعض مسلمانوں کی دعوت اگرکسی مصلحت وقف کے لیے ہے تو جائز ہے جبکہ شرط واقف یا عملدرآمد کے موافق ہو یاکسی ضرورتِ خاصہ کےلئے ہو
کما ذکرواللوصی فی مال الیتیم
 (جیسا کہ علماء نے یتیم کے مال میں وصی کیلئے فرمایا۔ت) اور اگر بعض مہتمم اپنی بارات میں کسی کو کھلانا چاہیں جوان صورتوں سے جدا ہو تو کھانا بھی حرام ہے اور کھلانا بھی حرام اور کھلانے والوں پر اس کا تاوان واجب۔
 (۸) متولی وقف امین وقف ہے جبکہ اس طرح کا متولی ہو جو اوپر مذکور ہوا اگر اس سے اتفاقیہ طور پر بے اپنے تقصیر وبے احتیاطی کے وقف کی کتاب یا کوئی مال تلف ہوجائے اس کا معاوضہ نہیں، اور اگر قصداً تلف کردے یا اگر اپنی بےاحتیاطی سے ضائع کرے تو ضرورمعاوضہ ہے، یہی حکم ملازمان وقف کا ہے جبکہ وہ تصرف جو اس نے کتاب میں کیا اس کی ملازمت میں داخل، اور اسے جائز تھا، ورنہ اگر وقف کے کسی اور صیغہ کا ملازم ہے کتب خانہ پر اس کو اختیار نہیں، اور اس نے مثلاً کتاب کسی کو عاریۃً دے دی اور ضائع ہوگئی توضرور اس پرمعاوضہ ہے، غیر شخص نے اگر وہ تصرف کیا تو منجانب وقف جس کی اسے اجازت تھی اور بے اس کی تقصیر کے کتاب ضائع ہو گئی مثلا کتب خانہ وقف میں جا کر کتابیں دیکھنے کی اجازت ہو اور عام طور پر معمول ہو کہ کتابیں دیکھ کر اسی مکان میں رکھ آتے ہیں یا فلاں ملازم کو سپرد کردیتے ہیں اور یہ اس قاعدہ کو بجالایا اور کتاب گم ہوگئی تو اس پر بھی معاوضہ نہیں، ورنہ اگر وہ تصرف کیا جس کی اسے اجازت نہ تھی یا تھی مگر اس کی تقصیر وبے احتیاطی سے کتاب گئی تو ضرور تاوان دے گا، اور بہر حال معاوضہ اس کتاب کی قیمت یعنی بازار کے بھاؤ سے جو اس کے دام ہوں، کتاب کو علماء نے قیمتی ٹھہرایا ہے نہ مثلی مگر اس وقت تک چھاپے نہ تھے، اور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسی چھاپے کی ہویعنی اسی بار کی چھپی ہواور کاغذ بھی ایک ہو اور جلد نہ بندھی ہو تو عجب نہیں کہ مثلی ہو سکے، یعنی کتاب کے معاوضہ میں ایسی ہی کتاب دینی آئے مگرتحقیق یہ ہے کہ چھاپے اور کاغذ کی وحدت بھی مستلزم  مثلیت نہیں، ایک کاپی ایک پتھر پر جمی ہوئی اس کے ہزار کاغذ اٹھائے جاتے ہیں، کوئی ہلکا ہے کوئی بھرا ہوا، کوئی بہا ہوا ہے کوئی صاف ہے، تو بات وہی ہے جو علماء نے فرمائی کہ کتاب قیمتی ہے۔
 (۹) حرام ہے، اور  وہ چیز وہاں سے لی جائے گی اور نہ مل سکے تو ان سے تاوان لیاجائے گا ہم بحوالہ عالمگیری کہہ آئے کہ ایک مسجد کی چیز دوسری مسجد کو عاریۃً دینا بھی ناجائز، نہ کہ غیر جگہ دے ڈالنا، جو ایسا کرے واجب العزل ہے۔
 (۱۰) وقف کے لئے قوانین کے وضع کرنے کا حال اوپر گزرا کہ خلاف شرط واقف ہرگز جائز نہیں، اور جہاں جواز ہو وہاں قطعاً احکام شرعیہ ہی کا لحاظ فرض ہوگا، ان کے خلاف جس کسی کا بھی کہنا ہو مردود ہوگا، یہاں نہ کثرت رائے دیکھی جاتی ہے نہ اتفاق رائے۔اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
ان الحکم الاﷲ ۱؎
 (حکم صرف اﷲ تعالٰی کا ہے۔ت)
 (۱؎ القرآن الکریم۱۲/ ۴۰)
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لاطاعۃ لاحدفی معصیۃ اﷲ تعالٰی۱؎۔
اﷲ تعالٰی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائزنہیں۔(ت)
 (۱؎ المستدرک للحاکم    کتاب معرفۃ الصحابہ     دارالفکر بیروت    ۳/ ۱۲۳)
واقف جس کے لئے تصریح ہے کہ دربارہ وقف اس کی شرط مثل نص شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام واجب العمل ہے اس کا تو یہ حال ہے کہ اگر خلاف شرع شرط کرے مردود ہے ہرگز نہ مانی جائے گی، پھر زید وعمرووکمیٹی کیا چیز ہے،
نبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مابال اقوام یشترطون  شروطا لیست فی کتاب اﷲ فھو رد وان کانت مائۃ شرط شرط اﷲ احق واوثق۔۲؎واﷲ تعالٰی اعلم۔
ایسی قوموں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اﷲ میں (جائز)نہیں، اور جو کتاب اﷲکے خلاف شرطیں لگائے تو وہ مردود ہونگی اگرچہ ایسی سو شرطیں ہوں صرف اﷲ تعالٰی کی (مقبول) شرطیں ہی حق ہیں اور ثقہ ہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
 (۲؎ صحیح البخاری     کتاب الشروط     باب الشروط فی الولاء    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۳۷۷)

(صحیح مسلم     کتاب العتق        باب بیان ان الولاء من اعتق   قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۹۴)
Flag Counter