Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
26 - 112
مسئلہ۸۱ : از رام پور  محلہ چاہ شور ، محمود الظفر خان عرف چھمن خان    ۹ربیع الثانی۱۳۳۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی جائداد بایں الفاظ وقف کی کہ تاحیات اپنی آمدنی جائداد موقوفہ کی اپنے مصارف میں لاتا رہوں، بعد میرے اولاد اپنی ضروریات میں صرف کرتی رہے، جب میرے اولاد میں سے کوئی شخص باقی نہ رہے تو علمائے صالحین محل مشروع میں صرف کرتے رہیں، اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ عمرو دائن زید مدیون کی اس آمدنی پر جو  تاحیات اس کو جائداد موقوفہ سے اپنے مصارف میں لارہا ہے اجرائے ڈگری چاہتا ہے تو وہ شرعاً کراسکتا ہے یانہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب

ہاں جائداد پر نہیں کرسکتا آمدنی جو زید کو ملتی ہے اس پر کرسکتا ہے کہ جائداد وقف ہے اور آمدنی زید کی ملک۔
ردالمحتار میں ہے:
الموقوف علیہ یملک المنافع بلابدل۳؎۔وا ﷲتعالٰی اعلم۔
موقوف علیہ حضرات وقف کے منافع کے بلا عوض مالک ہوں گے۔ واﷲتعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ردالمحتار   کتاب الوقف     فصل یراعی شرط الوقف   داراحیاء التراث العربی بیروت   ۳/ ۳۹۹)
مسئلہ۸۲: ازضلع سیتا پور، لاہر پور مدرسہ اسلامیہ مسئولہ ابو محمد یوسف متعلم مدرسہ اسلامیہ ۱۲صفر المظفر ۱۳۳۴ھ سہ شنبہ
والا جناب مستطاب اعلٰیحضرت مجدد مائۃ حاضرہ لازال شموس افضالکم تسلیم مسنون کریم مشحون معظم مقرون گزارش ہے بصدور والا نامہ فیض شمامہ عزت افزائی ہوئی، جواب استفتاء بیحد تسکین بخش صادر ہوگیا، ا ﷲ تعالٰی جناب والا کی بزرگ ذات کو ہمیشہ  سلامت رکھے اور اس فیض عام سے مسلمانان عالم کو فیضیاب فرماتارہے آمین بحرمۃ النبی والہ الامجاد، جناب مولانا خلیل الرحمٰن صاحب مرحوم مغفور کی خبر رحلت دریافت ہوکر بہت رنج ہوا، صرف ایک بات اور دریافت طلب ہے جو گزارش کی جاتی ہے ازراہ شفقت بزرگانہ ا سکے جواب سے بھی مطلع کیا جاؤں، بجواب استفتاء مزامیر پر صرف ناجائز فرمایا بہت درست وبجا ارشاد ہے عین حکم شریعت ہے صرف اس قدر عرض ہے کہ صرف کسی قوال سے کوئی قصیدہ یا غزل نعتیہ یا توحید وغیرہ یا سلام وغیرہ سن کر عین حالت سماع میں یابوقت رخصت حسب شدائد قوانین سابق اوقات اوقاف سے بطور زاد راہ قلیل یا کثیر دینا جائز ہے یانہیں؟ جیسا کہ مشائخ علیہم الرحمۃ کی مجالس عرس میں بزرگوں کا دستو رہے، درا نحالیکہ وہ مزامیر سے خالی ہوں اور اس پر حضور انور حیات رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس فعل سے سند لینا جو حضرت حسان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ثابت ہے کہ حضور نے حسان رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو قصیدہ سن کر ردائے مبارک عنایت فرمائی تھی ٹھیک ہے یانہیں؟امید وار ہوں کہ اسی عریضہ پر یہ جواب بھی مرحمت ہوجائے، عین ذرہ نوازی ہوگی فقط۔
الجواب

قوال اگر نہ امرد ہو نہ عورت، اور اشعار صحیحہ حمد ونعت ومنقبت بلا مزامیر خوش الحانی سے پڑھے یا خاص مجمع صالحین میں ان کے ساتھ تغنی کرے بالجملہ نہ کسی فتنہ پر فی الحال اشتمال نہ آئندہ اس کا صحیح احتمال، تو صحیح یہ ہے کہ بلاشبہ جائز ہے اور اس پر لینادینا بھی روا اور واقعہ کعب بن زہیر رضی اﷲتعالٰی عنہ سے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے قصیدہ نعتیہ استماع فرماکر ردائے مبارک عطا فرمائی اس پر استناد صحیح ہے، اور جبکہ شدائد قدیم میں اس صورت جائزہ پر دینا چلاآیا ہے تو اب بھی دیا جائے گا بلکہ وہ صادرین وواردین میں داخل ہے، اور قلیل وکثیر بھی معہود قدیم پر دائر رہے گا، واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۸۳تا۸۷:مسئولہ بدرالدین صاحب ۳۰محرم الحرام ۱۳۳۵ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس صورت میں کہ جامع مسجد بمبئی کے احاطہ میں ایک دفتر خانہ ہے اور جس کے انتظام کے متعلق گیارہ اشخاص کو کنی جماعت المسلمین بمبئی کی جانب سے مشاور مقرر ہیں ان میں سے اکثرین کی رائے سے یہ قرار داد طے ہوئی ہے کہ دفتر خانہ مذکور میں ٹیلیفون لیا جائے باوجودیکہ نہ مسجد کے ساتھ کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ کوئی دوسرے اسباب ٹیلیفون کے، بلکہ اس سے فقط تضییع مال وقف ہے، پس ایسے ٹیلیفون کا لینا مال وقف سے شرعاً درست ہے یانہیں؟
دوسرا اسی کے ساتھ یہ قرار داد بھی طے ہوئی کہ دفتر خانہ مذکور میں جہاں مجلس منتظمہ مشاورین منعقد ہوتی ہے وہاں ایک برقی پنکھا اپنے آرام وتعیش کے واسطے لیا جائے، آیا ایسا خرچ مال وقف میں سے کرنا جائز ہے یانہیں؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ دفتر خانہ مذکور میں باوجودیکہ گیاس کی روشنی موجود ہے اس کو رد کرکے اس کی جگہ برقی روشنی کے خرچ کا مال وقف کو زیر بار کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے ؟ اطلاعا یہ بھی گزارش ہے کہ مجلس منتظمہ کے اجلاس علی الدوام زمانہ قدیم سے دن کے وقف طے ہوتے ہیں اور اگر احیاناً رات کوضرورت پڑی تو گیاس کی روشنی موجود ہے برقی روشنی کی بالکل ضرورت نہیں۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ ایسے مشاورین جو مال وقف سے ایسے فضول اور اسراف بیجا کریں ان کے متعلق شریعت غراکا کیا حکم ہے؟
پس ان مسائل مذکورہ کے جوابات کتب شرعیہ سے مدلل بیان فرمائیں جزاکم اﷲ خیرا، بینواتوجروا۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ مانعین متولیوں سے ایک نے کہا کہ اس باب میں یعنی مال اوقاف سے ان کاموں میں صرف کرنے سے علماء سے رائے لینا شرعاً ضرور ہے، پس متولیان مجوزین سے ایک نے کہا کہ یہاں شریعت کی کچھ ضرورت نہیں۔ اوردوسرے نے کہا میں تو عالموں کے منہ میں پیشاب کرتا ہوں، اس وقت اس سے کہا گیا کہ یہ کیا کلمہ کہتا ہے، خدا سے ڈر۔ تو اس نے کہا کہ خدا تو اوپر ہے اور ہم زمین پر، اگر خدایہاں آئے توہم اس کو درست کردیں گے۔ پس ایسے کلمات ناشائستہ کہنے والوں کا شرعاً کیاحکم ہے؟مفصل ومدلل مع سند ہائے کتب شرعیہ بیان فرمائیں۔جزاکم اﷲ۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں یہ نئی بدعتیں کہ مشاورین وقف میں حادث کیا چاہتے ہیں ٹیلیفون اور برقی پنکھا اور برقی روشنی مال وقف پر بار ڈالنا محض حرام ہے،
فتح القدیر میں ہے:
امرنا بابقاء الوقف علی ماکان۱؂۔
ہمیں حکم ہے کہ وقف کو گزشتہ حال پر قائم رکھیں۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر     کتاب الوقف     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۴۰)
یہ وہاں فرمایا ہے کہ جہاں منافع وقف کے لئے مصارف مشروطہ  پر زیادت کی جائے نہ کہ بے حاجت نہ کہ اپنا تعیش و ترفع یہ حرام در حرام ہے، مال وقف حکم مال یتیم میں ہے
اور رب عزوجل فرماتا ہے:
ان الذین یاکلون اموال الیتٰمٰی ظلماً انما یاکلون فی بطونھم نارا۱؎۔
جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔(ت)
(۱؂القرآن الکریم    ۴/ ۱۰)
یہ اسراف ہے اور اﷲ مسرفوں کو دوست نہیں رکھتا
انہ لایحب المسرفین۲؎
 (اﷲ تعالٰی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ت)
   ( ۲؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۴۱)
اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
ان المبذرین کانوااخوان الشیطین وکان الشیطٰن لربہ کفورا۳؎۔
بیشک مال بیجااڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑاناشکرا ہے۔
 (۳؎القرآن الکریم       ۱۷/ ۲۷)
یہ ان کو فرمایا جو اپنا مال بیجا اڑائیں نہ کہ وقف کا۔ ایسے مشاوروں کو معزول کرنا واجب ہے،
درمختار میں ہے:
ینزع وجوبا ولو الواقف درر فغیرہ بالاولٰی غیرمأمون۴؎۔
لازمی طور پر معزول کیا جائے اگرچہ واقف ہو، درر۔ تو دوسرے اگر قابل اعتماد نہ ہوں تو وہ بطریق اولٰی معزول ہوں گے۔(ت)
 (۴؎ درمختار     کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۸۳)
یعنی اگر خود واقف کی طرف سے مال وقف پر کوئی اندیشہ ہوتو واجب ہے کہ اسے بھی نکال دیاجائےاور وقف اس کے ہاتھ سے لے لیاجائے تو غیر واقف بدرجہ اولٰی واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲) ایسے اقوال ملعونہ بکنے والا کافر مرتد ہے اس کی عورت اس کے نکاح سے نکل گئی، مسلمانوں پر اس سے میل جول حرام ہے، وقف مسلماناں میں اسے دخل دینا حرام ہے، اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے، اس کا جنازہ اٹھانا حرام ہے، جنازہ کے ساتھ جانا حرام ہے، اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام ہے، اسکی قبر پر کھڑا ہونا حرام ہے، اسے کسی قسم کا ایصال ثواب کرنا کفر ہے۔
قال اﷲتعالٰی ولاتصل علٰی احد منھم مات ابداولاتقم علٰی قبرہ۵؎۔
ا ﷲ تعالٰی نے فرمایا: ان میں سے فوت ہونیوالے پر نماز جنازہ ہرگز نہ پڑھو اور نہ آپ ان کی قبر پرقیام فرمائیں(ت)
(۵؎ القرآن الکریم ۹/ ۸۴)
جو اسے اب بھی مسلمان جانے یا اس کے کافر مرتد ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اس کے لئے بھی یہی احکام ہیں۔
شفائے امام قاضی عیاض وبزازیہ وبحرالرائق ومجمع الانہر ودرمختار وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقدکفر۱؎۔
جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے تو وہ کافرہے(ت)
 (۱؎ درمختار     باب المرتد    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۵۶ )
نسأل اﷲ العفو و العافیۃ ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔
ہم اﷲ تعالٰی سے معافی اور در گزر کرنے کی درخواست کرتے ہیں، لاحول ولاقوۃ ولاباﷲ العلی العظیم۔(ت)
ربنا لاتزغ قلوبنا بعداذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۲؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم۔
اے ہمارے رب!ہدایت فرمانے کے بعد ہمارے دلوں کو نہ پھیر اور ا پنے فضل سے ہمیں رحمت عطاکر، بیشک تو بہت عطا کرنے والا ہے۔(ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔(
(۲؎ القرآن الکریم     ۳/ ۸)
Flag Counter