مسئلہ ۷۹: ازسورت عید روس منزل خانقاہ عید روسیہ مرسلہ حضرت سید علی بن زین بن حسن عید روس سجادہ نشین خانقاہ مذکور ۲۳ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ
کیافر ماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین حسب ذیل مسئلہ میں کہ زید محض اس خیال سے کہ متولیان وقف کا مال غفلت وبے پرواہی سے خرد بر د کرجاتے ہیں گورنمنٹ کے سامنے بغیر مشورہ قرآن وحدیث کے اپنی ذاتی رائے پیش کرتا ہے کہ اوقاف رجسٹرڈ کرائے جائیں اور حساب کی جانچ پڑتال کی جائے حالانکہ گورنمنٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو اوقاف کے لئے محض اس غرض کے واسطے مقررکیا ہوا ہے کہ اگر متولی کے متعلق کسی شخص کو اس قسم کی کوئی خرابی معلوم ہو تو وہ ایڈوکیٹ جنرل کو اس کی اطلاع دے کر اس کی منظوری سے متولی پر دعوٰی کرسکتا ہے باوجود اس قاعدہ کے وہ یہ چاہتا ہے کہ اوقاف رجسٹرڈ ہوں اور محکمہ کے کثیر اخراجات مثل رجسٹرڈ کرانے کی فیس اور کلرکوں وغیرہ کی تنخواہ وغیرہ وغیرہ جس قدر اخراجات ہوں وہ تمام او قاف سے دئے جائیں حالانکہ واقف کی ان کے لئے وصیت نہیں کیا زید کا یہ بل ازروئے شریعت حقہ جائز ہے یاناجائز ؟بینواتوجروا(بیان کیجئے اجر حاصل کیجئے۔ت)
الجواب
زید کا وہ بل محض جائز و باطل ہے، وہ نئے خرچ کہ زید نے بے حکم شرع وبے شرط واقف اپنے دل سے ایجاد کرکے کسی وقف پر ڈلوانے چاہے ہرگز وقف پر نہ پڑیں گے، نہ کوئی وقف ان کا ذمہ دار ہوگا، زید تو زید حاکم وقاضی کو بھی وقف میں ایسے ایجاد کا شرعاً اختیار نہیں۔
عقودالدریہ مطبع مصر جلد اول صفحہ ۱۹۲:
اذا ثبت الاحداث لایعمل بتقریرہ لان القاضی لیس لہ الاحداث بدون مسوغ شرعی فکیف المتولی وقد صرح فی الذخیرۃ والولوالجیۃ وغیرہما بان القاضی اذا قررفراشاً للمسجد بغیر شرط الواقف لم یحل للقاضی ذٰلک ولم یحل للفراش تناول المعلوم۱؎۔
جب وقف میں نئے مصارف ثابت کئے جائیں تو ان کی تقرری پر عمل نہ کیا جائے گا کیونکہ قاضی کو شرعی جواز کے بغیر نئے امور نافذ کرنے کا اختیار نہیں تو متولی کیسے کرسکتا ہے، ذخیرہ،ولوالجیہ وغیرہما میں تصریح ہے کہ اگر قاضی نے واقف کی شرط کے بغیر مسجد کے لئے فرش کی صفائی کرنے والا مقرر کردیا تو قاضی کو یہ اختیار نہیں ہے اور اس مقرر شدہ کو بھی مقررہ وظیفہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کتاب الوقف ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۲۲۰)
ایضاً ص۱۸۸(ص۱۸۸پر بھی ہے۔ت):
واخذ القاضی واعوانہ المال کاخذ اللصوص۔۱؎
قاضی اور اس کے عملہ کا وقف مال کولینا ایسا ہی ہے جیسے چوروں کا لینا ہے۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کتاب الوقف ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۲۱۵)
بحرالرائق مطبع مصر جلد پنجم ص۲۶۰:
فی البزازیہ المتولی لو امیا فاستاجر الکاتب لحسابہ لایجوزلہ اعطاء الاجرۃ من مال الوقف۲؎۔
بزازیہ میں ہے کہ متولی اگر تعلیم والا نہ ہو اور حسابات کیلئے وہ کسی کو اجرت پر رکھ لے تو متولی کو اس کی اجرت وقف مال سے دینا جائز نہیں ہے۔(ت)
فان قلت فی تقریر الفراش مصلحۃ قلت یمکن خدمۃ المسجد بدون تقریرہ بان یستأجر المتولی فراشالہ والممنوع تقریرہ فی وظیفۃ تکون حقالہ ولذاصرح قاضیخان بان للمتولی ان یستأجر خادما للمسجد باجرۃ المثل واستفید منہ عدم صحۃ تقریر القاضی فی بقیۃ الوظائف بغیر شرط الواقف کشہادۃ ومباشرۃ وطلب بالاولی وحرمۃ المرتبات بالاوقاف بالاولٰی۳؎۔
اگر تیراسوال ہو کہ مسجد کے لئے صفائی والے میں وقف کی اصلاح ہے تو میں کہوں گا کہ مسجد کی خدمت مستقل تقرری کے بغیر بھی ممکن ہے کہ متولی اجرت پر کسی سے کرالے، مستقل وظیفہ پر تقرری ممنوع ہے، اور اسی لئے قاضی خاں نے تصریح کی ہے کہ متولی مسجد کیلئے مروجہ اجرت پر کسی خادم سے کام لے سکتا ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ قاضی وقف کے بقایا وظائف میں مستقل تقرری واقف کی شرط کے بغیر نہیں کرسکتا، مثلاً شہادت اور اس کی ادائیگی اور اس کا طلب کرنا بطریق اولٰی اور اوقاف کے حسابات کو مرتب کرنا بطریق اولٰی(مستقل تقرری ممنوع ہوگی۔(ت)
(۳؎بحرالرائق کتاب الوقف ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۲۲۷)
ایضاًص ۲۶۳:
فقد علمت ان مشروعیۃ المحاسبات للنظار انما ھی لیعرف القاضی الخائن من الامین لا لاخذ شیئ من النظار للقاضی واتباعہ والواقع بالقاہرۃ فی زماننا الثانی وقد شاھدنا فیھا من الفساد للاوقاف کثیرا بحیث تقدم کلفۃ المحاسبۃ علی العمارۃ والمستحقین وکل ذٰلک من علامات الساعۃ۱؎۔
تو معلوم کرچکا کہ نگران حضرات سے حساب یہ صرف اس لئے مشروع ہے کہ قاضی کو معلوم ہوسکے کہ کون خائن ہے یا امین ہے، اس لئے نہیں کہ قاضی اور اس کے عملہ کے لئے نگرانوں سے کچھ وصولی کی جائے جبکہ قاہرہ میں اس وقت دوسری صورت مروج ہے وار اس سلسلہ میں ہم نے اوقاف میں بہت سے فسادات کا مشاہدہ کیا ہے جہاں پر محاسبہ کے اخراجات کو اوقاف کی عمارت اور اس کے مستحقین پر تقدم حاصل ہوتا ہے جبکہ یہ تمام امور علامات قیامت سے ہیں(ت)
پھر زمانے کے حالت صدہا سال دگرگوں ہورہی ہے، دیانت امانت اورروپے کے معاملے میں حرام و حلال کی پروا نادر رہ گئی ہے، ابھی اسی عبارت بحرالرائق میں سن چکے کہ وہ اپنے زمانہ میں جسے چار سو برس ہونے آئے قاہرہ کے اوقاف کا کیاحال بتاتے ہیں کہ اہلکاروں کے حساب فہمیوں ہی نے وقف کے وقف تباہ کردئے ابھی تو متولی تنہا ہے اور اسے حساب کا خوف لگا ہے اور ہر مسلما ن کو اس کی شکایت کا حق پہنچتا ہے اور تغلب کرے تو اس کے ہاتھ میں اپنی برأت کی کوئی دستاویز نہیں، اور جب اوقاف رجسٹرڈ کرائے گئے اور حساب فہمی پر اہلکار مقرر ہوئے اور حساب رجسٹروں پر چڑھائے گئے متولیوں کو شکایت و مطالبہ سے تو اطمینان ہوگیا کہ ان کا جمع خرچ پاس ہولیا مگر ان میں جو خائن ہیں ان کا خیانت سے باز آنا معلوم، بلکہ وہ اپنی اغراض فاسدہ کیلئے حساب فہموں کو بھی راضی کرنا چاہیں گے اور انہیں بہت ایسے مل بھی سکیں گے اس وقت وقف میں ایک کی جگہ دس حصے ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کاصاف وہی نتیجہ ہے جو بحر میں فرمایا کہ
شاھدنا فیہا من الفساد للاوقاف کثیرا۲؎
(ہم نے قاہرہ میں اوقاف کا کثیر فساد دیکھا ہے۔ت) اور ان کا وہ اعتراض تو ضرور لازم ہے کہ وہ خلاف شرع فیسیں قاہرہ میں خواہی نخواہی لی گئیں، وقف کی عمارت اور اس کے مستحقوں کا حق پورا ہو یانہ ہو،
(۲؎بحرالرائق کتاب الوقف ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۲۴۳)
مسئلہ۸۰: از سہسوان مسئولہ مولوی فضل احمد بدایونی ۲۰ربیع الآخر ۱۳۳۰ھ
اگر جائداد موقوفہ سے رجوع شرعاً ناجائز ہوتو ایسے میں توسیع خرچ کی کرسکتاہے مثلاً پندرہ روپے ماہوار یادس روپے ماہوار متولی کو ملتا ہے بوجہ تنگی عیال اطفال گزر مشکل ہے، نوکری چاکری کی قوت یاہمت نہیں اور کام آپ ہی کرتا ہے اگر اپنے خرچ توسیع کرے جائزہے یانہیں؟
الجواب
اﷲ عزوجل فرماتا ہے :
من کان فقیرافلیأکل بالمعروف۱؎۔
جو حاجتمند ہے وہ موافق دستورکھائے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴ / ۶)
اور فرماتا ہے :
واﷲ یعلم المفسد من المصلح۲؎۔
خداخوب جانتا ہے کون بگاڑنے والا ہے اور کون سنوارنے والا۔
( ۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۲۰)
اور حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
رب متخوض فیما شاءت نفسہ من مال اﷲ ورسولہ لیس لہ یوم القٰیمۃ الا النار۳؎۔ رواہ احمد والترمذی وقال حسن صحیح عن خولۃ بنت قیس والبیھقی فی الشعب عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۔
بہت وہ کہ اﷲ و رسول کے مال میں اپنی خواہش نفس کے مطابق دھنستے ہیں ان کے لئے قیامت میں نہیں مگر آگ (اس کو احمد نے اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو خولہ بنت قیس سے صحیح اور حسن قرار دیا ہے اور بیہقی نے اس کو اپنی شعب میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)
(۳؎ جامع الترمذی ابواب الزہد باب ماجاء ان الغنی غنی النفس امین کمپنی دہلی ۲/ ۶۰)
اور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
لوکان لابن اٰدم واد من ذھب لابتغی الیہ ثانیا ولوکان لہ وادیان لابتغی الیہما ثالثا ولا یملأجوف ابن اٰدم الا التراب ویتوب اﷲ علی من تاب۴؎۔ رواہ احمد والشیخان عن ابن عباس والترمذی عن انس والبخاری عن ابن الزبیر وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ واحمد عن ابی واقد والبخاری فی التاریخ والبزار عن بریدۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
اگر ابن آدم کے لئے ایک جنگل بھر سونا ہوتو دوسرا جنگل اور مانگے اور دو جنگل ہوں تو تیسرا اور چاہے، اور ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرتی مگر خاک اور تائب کی توبہ اﷲ قبول کرتا ہے (اس کو شیخین نے ابن عباس اور ترمذی نے انس سے اور بخاری نے ابن زبیر سے اور ابن ماجہ نے ابوہریرہ سے اور احمد نے ابو واقد سے اور بخاری نے تاریخ میں اور بزار نے بریدہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ت)
(۴ ؎ الترغیب والترھیب بحوالہ البزاز الترغیب فی الاقتصاد حدیث۳۱ مصطفی البابی مصر ۲/ ۵۴۲)
(صحیح البخاری باب مایتقی من فتنۃ المال قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۵۳)
(مسند احمد بن حنبل حدیث ابی واقد اللیثی دارالفکر بیروت ۵/ ۲۱۹)
وقف سے رجوع ناممکن، پھر جو ماہوار مقرر ہوا اگر اس کے صدق سعی وحسن خدمت کے لحاظ سے بقدر اجر مثل کے نہیں تو ضرور اجر مثل کی تکمیل کردی جائے گی، اور اگر واقعی اجر مثل بھی اسکے واجبی صرف کو کفایت نہ کرے تو وقف کی فاضلات سے تاحد کفایت ماہوار میں اضافہ بھی ممکن، مگر نہ یوں کہ بطور خود کہ خود ہی مدعی اور خود ہی حاکم ہونا ٹھیک نہیں، بلکہ وہاں کے افقہ اہل بلد عالم سنی دیندار کی طرف رجوع کرے یا متعدد معزز متدین ذی رائے مسلمانان شہر کے سپردکردے وہ بعد تحقیقات کامل اجر مثل تک حکم دیں یا بشرط صدق حاجت وعدم کفایت تاقدر کفایت اضافہ کریں، اس تقدیر پر ان کو یہ بھی ملحوظ رہے کہ جب واقف خود ہی متولی ہوا اور خود ہی وقت وقف یہ ماہوار تجویز کیا تو اب کون سی بات حادث ہوئی کہ وہ ماہوار ناکافی ہوگیا،
ردالمحتار: الناظر بشرط الواقف فلہ ماعینہ لہ الواقف ولو اکثر من اجر المثل کمافی البحر ولوعین لہ اقل فللقاضی ان یکمل لہ اجر المثل بطلبہ کما بحثہ فی انفع الوسائل، ویأتی قریبا مایؤیدہ، وھذا مقید لقولہ الاٰتی لیس للمتولی اخذ زیادۃ علی ماقررلہ الواقف اصلا۱؎۔
نگران کو واقف کی شرط کے مطابق مقررہ وظیفہ ملے گا اگرچہ یہ مروج سے زائد ہو، اور اگر واقف کا مقرر کردہ مروج سے کم ہو تو اس کے مطالبہ پر مروج تک مکمل کرنے کا اختیار ہے جیسا کہ اس کو انفع الوسائل نے بحث کے طور پر ذکر کیا ہے، اور اس کی مزید تائید عنقریب آئے گی اور یہ اس کے آئندہ قول کے ''متولی کو مقررہ پر زیادتی کا ہرگز اختیار نہیں ہے'' سے مقید ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۱۷)
درمختار میں ہے :
تجوز الزیادۃ من القاضی علی معلوم الامام اذا کان لایکفیہ۱؎۔
جب امام کے لئے مقررہ وظیفہ کفایت نہ کرے تو قاضی کو زائد کرنے کا اختیار ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۱)
ردالمحتار میں ہے:
الظاھر انہ یلحق بہ کل من فی قطعہ ضرر اذا کان المعین لایکفیہ کالناظر والمؤذن ومدرس المدرسۃ والبواب ونحوھم اذا لم یعملوا بدون الزیادۃ، یؤیدہ مافی البزازیۃ اذا کان الامام والمؤذن لایستقرلقلۃ المرسوم للحاکم الدین ان یصرف الیہ من فاضل وقف المصالح والعمارۃ باستصواب اھل الصلاح من اھل المحلۃ لو اتحد الواقف والجھۃ۲؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
ظاہر ہے کہ جس کومعزول کرنے میں نقصان ہوکہ مقررہ اس کو کفایت نہ کرتا ہو تو اس کے معاملہ کو بھی اس سے لاحق کیاجائے گا، مثلاً نگران، مؤذن، مدرس، چوکیدار وغیرہ حضرات جب یہ لوگ وظیفہ زائد کئے بغیر کام نہ کریں، اس کی تائید بزازیہ کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے کہ جب امام اور مؤذن وظیفہ کی قلت کی وجہ سے استقرار نہ کریں تو حاکم دین کو محلہ کے اہل لوگوں کے مشورہ سے وقف کے مصالح اور عمارت سے فاضل آمدنی میں سے ان کےلئے صرف کرنے کااختیار ہے بشرطیکہ فاضل آمدنی والے اوقاف کا واقف اور ان کی جہت ایک ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۱۸)