فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف ) |
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص مسجد میں عرصہ پانچ سال سے واسطے حفاظت مسجد اور کل انتظام مسجد کے مقرر ہے اور مسجد کے وقف مال سے وظیفہ پاتا ہے اگر یہ شخص ایک سال یا کم وبیش کی رخصت لے کر اپنے مکان کو چلاجائے تو اس مدت میں وظیفہ لینے کامستحق ہے یانہیں، اگر بعلت بیماری جاوے تو بھی مستحق ہے یانہیں؟فقط۔
الجواب اصل کلی شرعی یہ ہے کہ اجیر خاص پر حاضر رہنا اور اپنے نفس کو کار مقرر کے لئے سپرد کرنا لازم ہے جس دن غیر حاضر ہوگا اگرچہ مرض سے اگرچہ اور کسی ضرورت سے اس دن کے اجر کا مستحق نہیں مگر معمولی قلیل تعطیل جس قدر اس صیغہ میں معروف ومروج ہو عادۃً معاف رکھی گئی ہے اور یہ امر باختلاف حاجت مختلف ہوتا ہے درس تدریس کی حاجت روزانہ نہیں بلکہ طلبہ بلا تعطیل ہمیشہ پڑھے جائیں تو قلب اس محنت کا متحمل نہ ہو لہذا ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعہ اور کہیں دو دن منگل جمعہ تعطیل ٹھہری،اور رمضان المبارک میں مطالعہ کرنا سبق پڑھنا یاد کرنا دشوار ہے،
وقد قال سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان القلب اذااکرہ عمی۔
اور ہمارے آقا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہے کہ جبر کی صورت میں دل بینا نہیں رہتا۔(ت)
لہذا اسی صیغہ میں رمضان مبارک کی چھٹی بھی معمول ہوئی بخلاف خدمتگاری کہ اس کی حاجت روزانہ ہے اگر خدمتگار رمضان مبارک کا عذر کرکے گھر بیٹھ رہے ہرگز ایک حبہ تنخواہ کا مستحق نہیں انتظام وحفاظت مسجد بھی اسی قبیل سے ہے جس کی حاجت روزانہ ہے تو اس میں اتنی رخصت بھی نہیں ہو سکتی جتنی صیغہ تعلیم وتعلم میں ہے ولہذا ہمارے ائمہ نے تصریح فرمائی کہ متولی کو اگر فالج وغیرہ عارض ہوتو جتنے دن اس کے باعث اہتمام مسجد سے معذور رہے گا اجرت نہ پائے گا بلکہ صیغہ تعلیم میں بھی تصریح فرمائی کہ مدرس معمول کے علاوہ غیر حاضری پر تنخواہ کا مستحق نہیں اگرچہ وہ غیر حاضری حج فرض ادا کرنے کے لئے ہو یونہی تصریح فرمائی کہ طالب علم جو وظیفہ پاتا ہو اگرچہ بضرورت حج فرض یا صلہ رحم اسے سفر کی اجازت ہے یا شہر کے آس پاس دیہات میں کہ مدت سفر سے کم ہوں بضرورت طلب معاش دو ہفتہ یا زیادہ انتہاتین مہینے تک غیر حاضری کی رخصت ہے مگر اس رخصت کے یہ معنی کہ ان ضرورتوں کے سبب اتنی غیر حاضری کے باعث اس کا نام نہ کاٹا جائیگا معزول نہ کیا جائیگا نہ کہ ایام سفر یا دو ہفتہ خواہ زیادہ کی غیر حاضری بلا سفر پروظیفہ بھی پائے وظیفہ ان سب صورتوں میں اصلاً نہ مل سکے گا اور اگر تین مہینے سے زیادہ غیر حاضر رہا اگرچہ حوالی شہر میں اگرچہ بضرورت وناچاری معزول بھی کر دیا جائے گا جب صیغہ تعلیم میں یہ احکام ہیں تو صیغہ خدمت وحفاظت واہتمام وانتظام مسجد میں کسی غیر حاضری کی تنخواہ کیونکر پاسکتا ہے، ہاں غایت درجہ حرج مرض کو سال میں ایک ہفتہ کی اجازت ہوسکتی ہے یازیادہ چاہے تو اپنا عوض یعنی نائب دے جائے بغیر اس کے نہ غیر حاضری کی اجازت نہ مہتممان وقف کو روا کہ اسے ایسی طویل رخصت دیں اگر دی تو تنخواہ حلال نہیں نہ اسے لینا جائز، نہ ان کو دینے کا اختیار اگر دیں گے تو یہ خود مال وقف میں خائن ہوں گے اور اس کے ساتھ یہ بھی معزول کئے جائیں گے، اس بیان سے جواب سوال واضح ہوگیا، اب مطالب مذکورہ پر علماء سنئے،
درمختار میں ہے:
نظم ابن الشحنۃ الغیبۃ المسقطۃ للمعلوم المقتضیۃ للعزل ومنہ۲؎
ابن شحنہ نے اپنی نظم میں مقررہ وظیفہ کو ساقط اور استحقاق معزولیت والی غیر حاضری کو بیان فرمایا ہے،
(۲؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۸)
ومالیس بدمنہ ان لم یزد علی ثلاث شہور فھو یعفی ویغفر وقد اطبقو ا لایاخذ السھم مطلقا لماقد مضی والحکم فی الشرع یسفر قلت وھذاکلہ فی سکان المدرسۃ وفی غیر فرض الحج وصلۃ الرحم، امافیھما فلایستحق العزل والمعلوم کما فی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی۱؎۔
ضروری عذر کی وجہ سے غیر حاضری اگر تین ماہ سے زائد نہ ہوتو معاف ہوگی، اور علماء کا اتفاق ہے کہ گزشتہ غیر حاضری کا وظیفہ مطلقاً نہ لے گا اورشرع میں حکم واضح ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تمام بیان مدرسہ کےرہائشیوں کےلئے ہے اور فرض حج اور صلہ رحمی کے عذر کے علاوہ کے لئے ہے اگر دو مذکور عذر ہوں معزولی اور وظیفہ کا مستحق نہ ہوگا جیسا کہ شرنبلالی کی شرح وہبانیہ میں ہے(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۸)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ نظم ابن الشحنۃ، حاصل مافی شرحہ تبعا للبزازیۃ انہ لایسقط معلومہ ولایعزل اذاکان فی المصر مشتغلا بعلم شرعی اوخرج لغیر سفر واقام دون خمسۃ عشر یوما بلا عذر علی احد قولین(ای والقول الاخر انہ یسقط معلومہ اذا خرج لرستاق بلاعذر ولواقل من اسبوعین) او خمسۃ عشرفاکثر لعذر شرعی کطلب المعاش ولم یزد علٰی ثلٰثۃ اشھر وانہ یسقط ولایعزل لوسافر لحج ونحوہ اوخرج للرستاق لغیرعذر مالم یزد علی ثلثۃ اشھر وانہ یسقط ویعزل لوخرج واقام اکثر من ثلثۃ اشھر ولو لعذر قال الخیر الرملی وکل ھذااذا لم ینصب نائبا عنہ والا فلیس لغیرہ اخذ وٖظیفتہ اھ وفی القنیۃ من باب الامامۃ امام یترک الامامۃ لزیادۃ اقربائہ فی الرساتیق اسبوعا او نحوہ او لمصیبۃ او لاستراحۃ لاباس بہ ومثلہ عفو فی العادۃ والشرع، وقد ذکر فی الاشباہ عبارۃ القنیۃ ھذہ وحملھا علی انہ یسامح اسبوعا والاظہر مافی اٰخر شرح منیۃ المصلی للحلبی ان الظاہر ان المراد فی کل سنۃ ذکر الخصاف انہ لو اصاب القیم فالج او نحوہ فان امکنہ الکلام والاخذ والاعطاء فلہ اخذ الاجر، والّافلاقال الطرطوسی ومقتضاہ ان المدرس ونحوہ اذااصابہ عذرمن مرض او حج بحیث لایمکنہ المباشرۃ لایستحق المعلوم لانہ ادارالحکم فی المعلوم علی نفس المباشرۃ فان وجدت استحق المعلوم والافلاوھذا ھو الفقہ اھ، ولاینافی مامر من المسامحۃ باسبوع ونحوہ لان القلیل مغتفر کما سومح بالبطالۃ المعتادۃ ۱؎اھ ملخصا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
قولہ ابن شحنہ کی نظم، اس کی شرح کا ماحاصل یہ ہے جو بزازیہ کی اتباع میں بیان کیاکہ اگر غیر حاضر ہونے والاشہر میں ہی شرعی علم یا حد سفر سے کم مسافت کےلئے شہر سے باہر گیااور بلاعذر پندرہ دن سے زیادہ باہر قیام کیا تو ایک قول کے مطابق معزول نہ کیا جائے گا اور نہ ہی مقررہ وظیفہ ساقط ہوگا یعنی دوسرا قول یہ ہے کہ جب وہ بلاعذر شہر سے متعلقہ سراؤں میں پندرہ دن سے کم غائب رہا ہو، یاکسی شرعی عذر کی بناء پر مثلاً طلبِ معاش کے لئے پندرہ دن سے زائد اور تین ماہ سے کم غائب رہا ہو، تو وظیفہ ساقط ہوگا اور معزول نہ ہوگا یونہی اگر فرض حج کیلئے سفر پر رہا ہو یا بغیر عذر تین ماہ سے زائد شہری سراؤں میں غائب رہا ہو، اور اگرشہر سے باہر تین ماہ سے زائد اگرچہ عذر کی بناء پر غائب ہوکر وہاں مقیم رہا ہو تو وظیفہ ساقط اور معزول بھی ہوگا،ا ور خیررملی نے فرمایا یہ تمام صورتیں تب ہوں گی جب وہ اپنا نائب مقرر نہ کرگیا ہو ورنہ اس کا وظیفہ کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا اھ، اور قنیہ کے امامت کے باب میں ہے کہ اگر امام نے ہفتہ بھر امامت کا ترک سراؤں میں رہائش پذیر اپنے اقرباء کی زیارت یا کسی مصیبت کی بناء پر یا آرام کرنے کےلئے کیا تو کوئی حرج نہیں شرعاً اور عادۃً یہ معاف ہے، اور اشباہ میں قنیہ کی مذکورہ عبارت ذکر کرکے فرمایا کہ ہفتہ کی مقدار میں چشم پوشی سے کام لیاجائے،ا ورزیادہ ظاہر وہ قول ہے جو منیۃالمصلی کی شرح حلبی کے آخر میں مذکور ہے کہ ہفتہ بھر پورے ایک سال میں مراد ہے، خصاف نے ذکر فرمایا کہ اگر منتظم کو فالج یا کوئی مرض لاحق ہوگیا تو اس میں گفتگو اور لین دین کرنا ممکن ہو تو وہ اپنے اجر کامستحق ہوگا ورنہ نہیں، اس پر طرطوسی نے فرمایا کہ اس عبارت کا تقاضا یہ ہے کہ مدرس وغیرہ کو جب کوئی عذر مثلاً مرض یا فرض حج پیش آئے جس کی وجہ سے وہ فرض منصبی ادا نہ کرسکے تو مقررہ وظیفہ کا مستحق نہ ہوگا کیونکہ معاملہ فرض منصبی کی ادائیگی پر طے ہوا ہے اگر یہ پایا گیا تووظیفہ کا استحقاق ہوگا ورنہ نہیں، فقہ یہی ہے اھ، یہ بیان ہفتہ تک کی چشم پوشی کے مذکور حکم کے منافی نہیں ہے کیونکہ قلیل معاف ہوتا ہے جیسا کہ عادت میں مقررہ تعطیلات میں چشم پوشی ہوتی ہے اھ ملخصاً، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ رالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۸۔۴۰۷)