مسئلہ۷۶: ازاحمد آباد گجرات محلہ کالوپور پنچ پولی دھنکوٹ مرسلہ شیخ محمد زین الحق عرف چھٹومیاں۴محرم ۲۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین مبین و مفتیان شرع متین اس بارہ میں کہ زید کے پاس ایک رقم زرِ نقد وقف یا ﷲ کسی کارِ خیر کے لئے موجود ہے مثلاً مسجد کی تعمیر وغیرہ مصارف کی یا کسی بزرگ کے روضہ یا مقبرہ یا عرس وغیرہ کی آمدنی اس کے مصارف پورے طور سے ہوکر اضافہ جمع رہتی ہے، یا مسجد یا مدرسہ یا یتیم خانہ تعمیر کرنے کو وہ چندہ جمع کیا گیا ہے اور اس کا خرچ پورے طور سے تمام ہوکر باقی رقم اضافہ رہی ہے وغیرہ وغیرہ، اس قسم کا پیسہ نقد یامِلک مانند مکان و زمین وغیرہ کے ایک کارِ خیر کےلئے فراہم ہوا ہے یا کیا گیا ہے اس کو دوسرے کارِخیر میں ﷲ یعنی مسجد کا چندہ کیا ہوا یا اس کی آمدنی میں سے بچتا رہا ہوا مقبرہ یا مدرسہ یا یتیم خانہ کے کام میں یا مقبرہ و مدرسہ ویتیم خانہ کا پیسہ مسجدکے کام میں لے سکتے ہیں یانہیں وہ ازروئے شرع شریف مع حوالہ کتب مذہب اہل سنت وجماعت کے خلاصہ بیان فرماکے اپنی مہر ودستخط فرمادیں۔بینواتوجروا۔
الجواب
وقف جس غرض کےلئے ہے اسکی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل ہو دوسری غرض میں صرف کرنی حرام ہے وقف مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی درکنار دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی، نہ ایک
مدرسہ کی آمدنی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں۔
درمختارمیں ہے:
اتحدالواقف والجہۃ وقل مرسوم بعض الموقوف علیہ، جاز للحاکم ان یصرف من فاضل الوقف الاٰخر الیہ لانھما حینئذکشیئ واحد وان اختلف احدھما بان بنی رجلان مسجدین او رجل مسجد او مدرسۃ ووقف علیہما اوقافا لایجوزلہ ذٰلک۱؎۔
جب واقف ایک ہواور جہت وقف بھی ایک ہو اور آمدن کی تقسیم بعض موقوف علیہ حضرات پر کم پڑجائے توحاکم کو اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے کیونکہ یہ دونوں وقف ایک جیسے ہیں، اور اگر واقف یا جہت وقف دونوں کی مختلف ہو مثلاً دو حضرات نے علیحدہ علیحدہ مسجد بنائی یا ایک نے مسجد اور دوسرے نے مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لئے علیحدہ وقف مقرر کئے تو پھر ایک کی آمدن سے دوسرے کے مصارف کے لئے خرچ کرنا جائزنہیں۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۰)
چندہ کا جوروپیہ کام ختم ہوکر بچے لازم ہے کہ چندہ دینے والوں کو حصہ رسد واپس دیاجائے یا وہ جس کام کے لئے اب اجازت دیں اس میں صرف ہو، بے ان کی اجازت کے صرف کرنا حرام ہے، ہاں جب ان کا پتا نہ چل سکے تو اب یہ چاہئے کہ جس طرح کے کام کےلئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں اٹھائیں، مثلاً تعمیر مسجد کا چندہ تھا مسجد تعمیر ہوچکی تو باقی بھی کسی مسجد کی تعمیر میں اٹھائیں،غیر کام مثلاً تعمیر مدرسہ میں صرف نہ کریں، اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ پائیں تو وہ باقی روپیہ فقیروں کو تقسیم کردیں۔
درمختار میں ہے:
ان فضل شیئ ردللمتصدق ان علم والاکفن بہ مثلہ والا تصدق بہ۲؎
اگر چندہ سے کچھ بچ جائے تو دینے والا اگر معلوم ہو تو اسے واپس کیا جائےگا ورنہ اس جیسے فقیر کے کفن پر صرف کیا جائے یا صدقہ کردیاجائے(ت)
(۲؎درمختار باب صلوٰۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۲۱)
اسی طرح فتاوٰی قاضی خاں وعالمگیری وغیرہما میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے ایک وقف نامہ غیر مستقل آمدنی کا بنام خدائے برتر لکھا اور وقف نامہ مذکور میں نسلاً بعد نسل تولیت کا تذکرہ نسبت ورثاء متولیان کے اور کسی
کمیٹی یا انجمن کادست انداز نہ ہونا تحریر ہے آمدنی مذکور بہ تعین تعداد واسطے نذرونیاز وکارخیر جاریہ کی مقرر کردی مگر جائداد موقوفہ کی آمدنی اخراجات معینہ واقف سے زائد ہو تو وہ زائد آمدنی کیا ہوگی اور وقف پر کیا اثر ہوگا اور اس پر وراثت جاری ہوسکتی ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
وقف پر وراثت جاری نہیں ہوسکتی زائد آمدنی امانۃً جمع رہے گی جیسے زیادت ممکن ہے اور برسوں میں کمی بھی محتمل ہے وہ کمی اس سرمایہ جمع شدہ سے وقتاً فوقتاً پوری کی جائے گی، متولیان وورثہ بحال تولیت اگر صالح تولیت رہے تو بہتر، ورنہ بحال جرم وخیانت وعدم لیاقت ضرور مسلمانوں کو دست اندازی پہنچے گی اور واقفہ کی اس شرط پر کچھ نظر نہ کی جائے گی
نص علیہ فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار
(درمختار وغیرہ معتمد کتب میں اس پر نص کی گئی ہے۔ت) درمختار جلد ۳صفحہ ۵۵۴پر ہے:
فیلزم فلا یجوز لہ ابطالہ ولا یورث عنہ وعلیہ الفتوی ابن الکمال وابن الشحنہ۱؎۔
تو وہ لازم ہوجائے گا اب اس کا ابطال یاوراثت بنانا جائز نہیں، اسی پر فتوی ہے، ابن کما ل وابن شحنہ۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۷)
وعلیہ الفتوی کے تحت میں علامہ شامی رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
ای علی قولھما بلزومہ قال فی الفتح والحق ترجح قول عامۃ العلماء بلزومہ لان الاحادیث والاثار متظافرۃ علٰی ذلک واستمر عمل الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم علی ذٰلک فلذا ترجح علی خلاف قولہ اھ۲؎ملخصا۔
یعنی صاحبین رحمہما اﷲتعالٰی کے لزوم والے قول پر فتوٰی ہے، فتح میں فرمایا حق یہی ہے کہ عام علماء کے لازم ہوجانیوالے قول کوترجیح ہوگی کیونکہ احادیث وآثار اس پر وارد ہیں، اور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں کا اس پر عمل چلاآرہا ہے اس لئے امام صاحب کے قول کے خلاف کو یہاں ترجیح ہے،اھ ملخصاً(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۵۸)
اشباہ والنظائر ص۱۹۲میں ہے:
وسئل ابوبکر عن رجل وقف دارا علی مسجد علی ان مافضل من عمارتہ فھوللفقراء فاجتمعت الغلۃ والمسجد لایحتاج الی العمارۃ ھل تصرف الی الفقراء قال لاتصرف الی الفقراء وان اجتمعت غلۃ کثیرۃ لانہ یجوز ان یحدث للمسجد حدث والدار بحال لاتغل۱؎۔
ابوبکر سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گی جس نے مسجد کے نام ایک حویلی وقف کی اور قرار دیا کہ اس حویلی کی آمدن اگر مسجد کے تعمیری اخراجات سے زائد ہوتو فقراء پر خرچ کی جائے گی، اب آمدن جمع ہوگئی اور مسجد کی عمارت کو ضرورت نہیں تو کیا وہ جمع شدہ آمدن فقراء پر صرف کردی جائے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ فقراء پر خرچ نہیں ہوگی اگرچہ کثیر آمدن جمع ہوچکی ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعد میں مسجد کی عمارت میں ضرورت پیش آئے اور حویلی کی آمدن باقی نہ رہے۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/ ۳۱۸)
درمختار ص۵۹۴میں فرمایا:
وینزع وجوبا ولو کان المتولی غیرمامون او عاجزااوظھربہ فسق وان شرط عدم نزعہ وان لاینزعہ قاضی ولاسلطان لمخالفتہ لحکم الشرع فیبطل کالموصی۲؎اھ ملخصا ومختصرا۔
لازمی علیحدہ کردیاجائے اگر متولی قابل اعتماد نہ ہو یا عاجز ہو یا اس میں فسق واضح ہوجائے اگرچہ واقف نے معزول نہ کرنے کی شرط لگارکھی ہو اور یہ کہ قاضی اور سلطان بھی معزول نہ کرسکے گا کیونکہ ایسی شرط شرع کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل قرار پائے گی جیسا کہ وصیت کرنیوالے کی ایسی شرائط باطل ہوجاتی ہیں اھ ملخصاً ومختصراً۔(ت)