Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
22 - 112
فتاوٰی خیریہ لنفع البریہ میں ہے:
قریۃ وقف آجر المتکلم علیہا ثلثھا لرجل سنۃ بمال لیتناول مایتحصل من الثلث المذکور من الغلال صیفیھا وشتویھا ھذہ الاجارۃ باطلۃ غیرمنعقدۃ لما صرح بہ علماؤنا قاطبۃ من ان الاجرۃ اذا وقعت علی اتلاف الاعیان قصدا لاتنعقد ولاتفید شیئا من احکام الاجارۃ فلیس للمستأجر ان یتناول شیئا من الغلال بل ذٰلک للوقف یصرف فی وجوھہ المعینۃ۱؎۔(ملتقطاً)
وقف گاؤں ہو اور موقوف علیہ شخص گاؤں کے تہائی حصہ کی آمدنی کو ایک سال کے لئے کسی مال کے بدلے اجارہ پر دے دے تاکہ اجارہ پر لینے والا شخص اس مال کے بدلے موسم گرما اور سرماکی آمدن کا تہائی حصہ حاصل کرلیا کرے تو یہ اجارہ باطل ہوگا اور منعقد ہی نہ ہوگا کیونکہ تمام علماء نے تصریح کی ہے کہ وہ اجارہ جوعین چیز کوقصدا  تلف کرنے پر ہو وہ منعقد نہ ہوگا اور اجارہ کے احکام کے لئے مفید نہ ہوگا، اس لئے مذکورہ صورت میں اجارہ پر لینے والے کو اس آمدن کو لینے کا حق نہ ہوگا بلکہ یہ تمام آمدن وقف کے معینہ مصارف پر خرچ ہوگی(ملتقطا) ۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ         دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۱۷)
اسی میں ہے:
الاجارۃ اذا وقعت علی اتلاف الاعیان قصداکانت باطلۃ فلایملک المستأجر ماوجد من تلک الاعیان بل ھی علی ماکانت علیہ قبل الاجارۃ فتؤخذ من یدہ اذاتناولھا ویضمنھا بالا ستھلاک لان الباطل لایؤثر شیئا فیحرم علیہ التصرف فیہا لعدم ملکہ وذٰلک کاستئجار بقرۃ لیشرب لبنھا وبستان لیاکل ثمرتہ ومثلہ استئجارمافی یدالمزارعین لاکل خراجہ۱؎۔
جب اعیان کو تلف کرنے پر قصداً اجارہ کیا جائے تو باطل ہوگا لہذا اجارہ پر لینے والے کو ان اعیان کو حاصل کرنے کا حق نہ ہوگا بلکہ یہ اعیان یعنی غلہ وغیرہ وہیں خرچ ہوگا جہاں وہ اجارہ سے قبل خرچ ہوتے تھے اس لئے مستاجر(اجارہ لینے والے) کے قبضہ سے واپس لے لئے جائیں گے اگر اس نے وصول کرکے خرچ کرلئے اس سے ضمان وصول کیا جائے گا کیونکہ باطل معاملہ کوئی اثر نہیں رکھتا لہذا ان میں اس کا تصرف حرام ہوگا اس لئے کہ وہ اس چیز کا مالک نہ تھا، اس کی مثال جیسے کہ گائے وبھینس کو دودھ کے لئے اجارہ پر لے اور مثلاً باغ کو پھل کھانے کیلئے اور وقف کے مزار عین کے زیر قبضہ زمین کو غلہ کرنے کے لئے اجارہ پر لے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۱۹)
اسی میں ہے:
الالتزام والمقاطعۃ علی ما یتحصل من قریۃ الوقف من خراج بمال معلوم من احد النقدین یدفعہ الملتزم ویکون لہ مایتحصل منہا قلیلا کان اوکثیرا لاتجوز اذلاوجہ لہا شرعالکونہا لاتتصور شرعاً ان تکون بیعا اذبعض المقاطع علیہ معدوم وبعضہ مجہول ولاان تکون اجارۃ لانھا بیع المنافع والواقع علیہ فی المقاطعۃ المشروحۃ اعیان لامنافع فھی باطلۃ بالاجماع۲؎(ملتقطا)۔
کسی گاؤں کی آمدنی (حصہ بٹائی) حاصل کرنے کے لئے مقررہ نقد مال پر اجارہ کا فیصلہ اور التزام کرنا کہ جو قلیل یا کثیر حصہ بٹائی گاؤں سے حاصل ہواس کو مستاجر حاصل کرے گا، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ شرعاً اس کے جوازکی کوئی صورت نہیں، بیع اس لئے متصور نہیں ہوسکتی کہ معقود علیہ ابھی معدوم ہے اور کچھ حصہ مجہول ہے، اور اجارہ اس لئے متصور نہیں ہوسکتا کہ اجارہ منافع کی بیع کا نام ہے جبکہ مذکورہ صورت میں منافع کی بجائے اعیان(غلہ) پرسوداہوا ہے، لہذا یہ بالاجماع باطل ہے۔(ملتقطاً)۔(ت)
(۲؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ     دارالمعرفۃ بیروت        ۲/ ۱۲۶)
اسی میں ہے:
 اذا استأجر القری والمزارع لتناول خراج المقاسمۃ اوخراج الوظیفۃ فالاجارۃ باطلۃ باجماع علمائنا۳؎(ملتقطا)
جب گاؤں یا زراعت جن پر سرکاری وظیفہ یا حصہ بٹائی حاصل ہوتاہے کو اجارہ پر لینا تاکہ ان سے حاصل وظیفہ یا حصہ کو بدلے میں وصول کیا کرے تو ہمارے علماء کے ہاں بالاجماع یہ اجارہ باطل ہے۔(ملتقطا)(ت)
 (۳؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ     دارالمعرفۃ بیروت   ۲/ ۱۲۷)
اسی میں ہے:
 قریۃ ضمنھا من لہ ولایتھا لرجل بمال معلوم لیکون لہ خراجہا فالتضمین باطل اذلایصح اجارۃ لوقوعہ علی اتلاف الاعیان قصدا ولابیعالانہ معدوم۱؎(ملتقطا)
کوئی شخص مقررہ مال کے بدلے گاؤں کی آمدن کو کسی شخص کیلئے حاصل کرے تاکہ آمدن اس کے لئے ہوجائے تو یہ باطل ہے کیونکہ یہ اجارہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ یہ سودا منافع پر نہیں بلکہ اعیان (غلہ) کے تلف کرنے پر قصداً ہوا ہے اور بیع بھی نہیں کیونکہ یہ معدوم چیز پر سودا ہے(ملتقطا)۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریۃ    کتاب الاجارۃ    دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۲۷)
اسی میں ہے:
یتماری آجر المتحصل من تیمارہ لاٰخر بمبلغ معلوم لاتصح وعلٰی کل منھما رد ما تنا ولہ۔۲؎
کھجور کے باغ والا اپنے باغ سے حاصل ہونیوالے پھل کو مقررہ نقد پر کسی دوسرے کو اجارہ پردے دے تو صحیح نہیں ہے اور دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کو واپس کردیں۔(ت)
 (۲؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۲۸)
اسی میں ہے:
 قد اتفقت علماؤنا علی ان الاجارۃ اذاوقعت علی تناول الاعیان اواتلافہا فھی باطلۃ فاجارۃ القری لتناول الخراج مقاسمۃ کان او وظیفۃ باطل وقد افتیت بذٰلک مرارا۔۳؎(ملتقطا)
ہمارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب اجارہ اعیان چیزوں کے حصول یا ان کے تلف کرنے پر کیا جائے تو باطل ہوگا لہذا وظیفہ یا حصہ بٹائی والا گاؤں اجارہ پر اس لئے دینا کہ مستاجر اس کاوظیفہ اور حصہ عوض میں وصول کرلیا کرے تو یہ باطل ہے جبکہ میں نے بارہایہ فتوٰی دیا ہے(ملتقطا)۔(ت)
 (۳؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ     دارالمعرفۃ بیروت     ۲/ ۱۲۹)
اسی میں ہے:
المقرر فی کلام مشایخنا باجمعھم ان الاجارۃ علی استھلاک الاعیان باطلۃ وجعل العین منفعۃ غیر متصور فالاجارۃ حیث لم یقع علی الانتفاع بالارض بالزرع ونحوہ بل علی اخذ الخراج والدراھم المضروبۃ فھو باطل باجماع ائمتنا۱؎(ملتقطا)
ہمارے مشائخ نے بالاتفاق یہ طے کیا ہے کہ اعیان چیزوں کو بطور ہلاکت قبضہ میں لینے پر اجارہ باطل ہے اور

عین چیز کو نفع قرار دینا متصور نہیں ہوسکتا، تو جہاں زمین کا اجارہ زراعت وغیرہ سے انتفاع کے لئے نہ ہو بلکہ اس سے حاصل ہونے والے خراج اوروظیفہ مقررہ کو حاصل کرنے کے لئے ہوتو یہ بالاجماع باطل ہے(ملتقطا) (ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الاجارۃ    دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۳۵)
اسی کی کتاب الوقف میں ہے:
لاقائل من فقہاء الاسلام بصحۃ الالتزام فی اوقاف الانام لانک مھما اعتبرتہ کان باطلا، وکیف ماقومتہ کان مائلافان قدرتہ بیعا فھو بیع المعدوم اوالمجہول، وان قدرتہ اجارۃ فھی واقعۃ علی استھلاک الاعیان المعدومۃ الاٰتیۃ فیما یؤل ، وھی فی الموجودۃ لاتجوز فکیف یستأجر منھا ماسیجوز وان اعتبرتہ واھبالما سیصرف ومتھبا لما سیقبض فالھبۃ فی مال الوقف لاتجوز ولو بعوض۲؎اھاقول :  خص الکلام بالوقف لان السوال عنہ فاستدل بدلیل یخصہ والافھبۃ المعدوم بطلانہ معلوم ولو فی الملک، قال فی الخیریۃ من الھبۃ وبھذاعلم عدم صحۃ ھبۃ ماسیتحصل من محصول القریتین بالاولی لان الواھب نفسہ لم یقبضہ بعد فکیف یملکہ اھ۳؎۔
فقہاء اسلام میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ سرکاری اوقاف کے وظائف کو حاصل کرنے کی ذمہ داری مقررہ نقد کے عوض حاصل کرلے کیونکہ آپ اسے جس معنی میں اعتبار کریں غلط ہوگا، اگر آپ بیع فرض کریں تو یہ مجہول یا معدوم چیز کی بیع قرار پائے گی ا ور اگر اجارہ فرض کریں تو یہ معدوم آئندہ پائے جانے والے اعیان کو حاصل کرنے پر اجارہ ہوگا جبکہ یہ موجودہ اعیان میں بھی جائز نہیں تو معدوم میں کیسے جائز ہوگا، اور اگر آئندہ موجود ہونے اور مہیا ہونے والی چیز کا ہبہ فرض کرو تو یہ وقف چیز کا ہبہ قرار پائے گا جبکہ وقف چیز کا ہبہ معاوضہ کے طور پر بھی جائز نہیں،اقول: (میں کہتا ہوں) انہوں نے خاص وقف کے متعلق بات کی ہے کیونکہ سوال یہی تھا ا س لئے انہوں نے وقف سے متعلق دلیل ذکر کی ہے ورنہ تو معدوم چیز کا ہبہ معلوم البطلان ہے اگرچہ ذاتی ملکیت ہو، خیریہ میں ہبہ کی بحث میں فرمایا کہ مذکورہ  بحث میں معلوم ہوا کہ گاؤں کے بعدمیں حاصل ہونیوالے محصول کا ہبہ بطریق اولٰی صحیح نہیں کیونکہ ابھی خود مالک کو ان پر قبضہ نہیں ہے تو وہ آگے کسی کو کیا قبضہ دے گا اھ(ت)
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ        کتاب الوقف     دارالمعرفۃ بیروت  ۱/ ۱۸۵)

(۳ ؎ فتاوٰی خیریہ       کتاب الہبۃ         دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۱۱)
فتاوٰی علامہ تاجی بعلی تلمیذ صاحب درمختار میں ہے:
ھذا اذا لم تکن الاجارۃ واردۃ علی استھلاک الاعیان قصدا، امااذاکانت کذٰلک بان کانت اراضی القریۃ فی ایدی مزارعین وانما استأجرھا المستأجر المرقوم لیأخذ مایخصہا من خراج فھی باطلۃ کما صرح بذٰلک علماؤنا قاطبۃ۱؎۔
یہ وہ صورت ہے جبکہ اعیان کو بطور ملکیت ہلاک کرنے پر اجارہ قصداًوارد نہ ہوا، اور اگر ایسا ہوکہ کسی گاؤں کی زمین مزارعین کے پاس ہوتو ان سے مقررہ محاصل وصول کرنے پر اجارہ کیا کہ مستاجر وصول کرلیا کرے تویہ باطل ہے جیسا کہ ہمارے تمام علماء نے تصریح کی ہے۔(ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ     بحوالہ فتاوی علامہ التاجی البعلی     کتاب الاجارۃ    ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۱۲۱)
عقود الدریہ میں ہے:
وانظر مافی فتاوی الشیخ خیر الدین من الاجارات فقد افتی مراراببطلان ھذہ الاجارۃ المسماۃ بالمقاطعۃ والالتزام۲؎۔
ہمارے شیخ خیرالدین کے اجارات کی بابت فتاوٰی پر غور کرو انہوں نے بارہا یہ فتوٰی دیا ہے کہ مقاطعہ اور التزام (ذمہ داری اور فیصلہ) کے عنوان سے جواجارے کئے جاتے ہیں وہ باطل ہیں (ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ       کتاب الاجارۃ    ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۱۲۱)
ردالمحتار کتاب السیر میں قبیل فصل جزیہ ہے:
الواقع فی زماننا ان المستاجر یستاجر ھا لاجل اخذخراجھا لاللزراعۃ ویسمی ذٰلک التزاما وھو غیر صحیح۳؎۔
ہمارے زمانہ میں مستاجر حضرات خراج اور وظیفہ وصول کرنے کے لئے جواجارہ طے کرتے ہیں وہ مزارعت کیلئے نہیں ہے اس لئے وہ باطل ہیں جس کا نام انہوں نے التزام بنارکھا ہے(ت)
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الجہاد        باب العشروالخراج     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۲۶۶)
تویہ کارروائی قطعاً اجماعاً حرام وباطل واقع ہوئی جس کے مورث نے یہ فعل کیا اس کے وارث پر تو کوئی الزام نہیں آتا، نہ وہ اس وجہ سے قابلیت تولیت سے عاری ہو جبکہ فی نفسہٖ وبرعایت شرائط واقف لائق تولیت ہو،
قال تعالٰی لاتزر وازرۃ وزراخری۴؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔(ت)
 (۴؎ القرآن الکریم     ۶۰/ ۱۶۴)
محل نظر خود وہ متولی ہیں جو اس حرام کے مرتکب ہوئے یہاں ضرور فقیر ان وقائع کا اظہار کرے جو ۳۴برس سے آج تک کسی تحریر میں ذکر نہ کئے یہ مسئلہ کہ دیہات کا رائج ٹھیکہ حرام قطعی ہے جو کچھ محاصل ہو سب مالک قریہ کا ہے اگر گاؤں مملوک ہو یا وقف کا، اگر موقوف ہو ٹھیکیدار کو اس میں سے ایک حبہ لینا حرام ہے اور جس سال نشست کم ہو تو ٹھیکیدار کو جتنا وصول ہوا اسی قدر مالک یا متولی کولینا حلال ہے پوری رقم قرار یافتہ لینا حرام ہے مثلاً ہزار روپے سال کو ٹھیکہ تھا اور بارہ سو تحصیل ہوئے تو یہ دو سو ٹھیکے دار کو حرام ہیں مالک یاواقف کا حق ہیں اور آٹھ سو ملے تو مالک وواقف کو اسی قدر حلال، دو سوزیادہ حرام ہیں، باوصف کمال وضاحت اس دارالفتن ہندوستان میں ایساخفی مسئلہ ہے جس سے یہاں کے اکابر علماء غافل محض، اور خود اس میں اور اس کی تحلیل میں مبتلا ہیں چودھویں صدی کے علماء میں باعتبار حمایت دین ونصرت سنت نیز بلحاظ تفقہ حضرت مولانا مولوی محمد عبدالقادر صاحب بدایونی رحمہ اﷲتعالٰی کا پایہ اکثر معاصرین سے ارفع تھا ایام ندوہ میں اور اس کے بعد جب فقیر نے سرگرم حامیان دین کے خطاب تجویز کئے ہیں حضرت مولانا مولوی محمد وصی احمد صاحب کو الاسد الاسد الاشد، مولوی قاضی عبدالوحید صاحب فردوسی کو ندوہ شکن ندوی فگن، مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی کو شیربیشہ سنت رحمہم اﷲتعالٰی، حاجی محمد لعل خان صاحب قادری برکاتی مدراسی سلمہ اﷲتعالٰی کو حامی سنت ماحی بدعت، اسی زمانے میں حضرت فاضل بدایونی قدس سرہ کو تاج الفحول سے تعبیر کیا جو آج تک ان کے اخلاف میں مقول و مقبول ہے اور وہ بیشک باعتبارات مذکورہ اس کے اہل تھے رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ رحمۃ واسعۃ، ایسے فاضل جلیل کے پاس ۱۳۰۲ھ میں جب فقیرکافتوٰی اس ٹھیکے کی حرمت میں گیا جس میں اس وجہ سے کہ فقیر اس وقت اپنے دیہات میں تھا اور سوا خیریہ وردالمحتارکے کوئی کتاب ساتھ نہ لے گیا تھا فقط فتاوٰی خیریہ کی بعض عبارات تھیں، حضرت موصوف نے بعد تامل بسیار اس پر صرف اس مضمون سے تصدیق تحریر فرمائی کہ نظر حاضر میں ان عبارات سے عدم جواز ہی معلوم ہوتا ہے، جب فقیر شہر کو واپس آیا مفصل فتوٰی عبارات کثیرہ کتب عدیدہ پر مشتمل لکھ کر بھیجا، اب حضرت نے پورے وثوق سے تسلیم کیا اور یہ فرمابھیجا کہ اسکے جواز کے حیلہ سے اطلاع دو یہی حال اور علمائے اطراف کا ہے بعد سماع دلائل ووضوح تحریم یہی فرماتے پایا کہ حیلہ جواز نکالو یعنی عادتیں مستحکم ہوگئیں خود بھی ابتلا ہوچکا اور اس میں آرام بھی ہے لہذا حیلہ جواز کی تلاش ضرور ہوئی۔ مبارک ہیں وہ بندے کہ حکم پر مطلع ہوکر حق کی طرف رجوع لائیں اور اذانیان زمان کی طرح اپنے اور اپنے آباء واساتذہ کی عادت کو شرع مطہر کے رد کے لئے حجت نہ بنائیں۔
ردالمحتار کتاب الاجارہ میں ہے:
اذا تکلم احدبین الناس بذٰلک یعدون کلامہ منکر امن القول وھذہ بلیۃ قدیمۃ، فقد ذکر العلامۃ قنالی زادہ ان المسألۃ کثیرۃ الوقوع فی البلد ان واذا طلب رفع اجارتھا یتظلم المستأجرون ویزعمون انہ ظلم وھم ظالمون، وبعض الصدور والا کابریعاونونھم ویزعمون ان ھذا تحرک فتنۃ علی الناس وان الصواب ابقاء الامور علی ماھی علیہ وان شر الامور محدثا تھاولایعلمون ان الشرفی اغضاء العین عن الشرع وان احیاء السنۃ عند فساد الامۃ من افضل الجہاد واجزل القرب۱؎۔(ملتقطا)
لوگوں میں جب یہ بات کی جاتی ہے تو اس کی بات کو لوگ غلط قول قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ مصیبت قدیم سے چلی آرہی ہے، چنانچہ علامہ قنالی زادہ نے ذکر کیا ہےکہ بہت سے علاقوں میں یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور جب ایسے اجارہ کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مستاجر حضرات اپنے آپ کو مظلوم قرار دیتے ہیں اور اس کارروائی کو ظلم کہتے ہیں حالانکہ وہ خود ظالم ہیں، اور بعض معتبر حضرات اور اکابرین ان کی مدد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ کارروائی فتنہ کو ہوا دینا ہے حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ امور کو اپنی اصلی حالت پر رکھاجائے اور نئی بدعات کو شرقرار دیا جائے، وہ لوگ نہیں جانتے کہ شرع سے چشم پوشی میں شرہے اور امت کے فساد کے وقت کسی سنت کو زندہ کرنا بہترین جہاد اور بڑی عبادت ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الاجارۃ     باب مایجوز من الاجارۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۰)
ردالمحتار وعقود الدریہ میں ہے:
وھذاعلم فی ورق۲؎
 (یہ ایک ورق میں عظیم علم ہے۔ت)
تحریر العبارۃ للعلامۃ الشامی میں ہے:
فعلم بھذاان ھذہ علۃ قدیمۃ ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۳؎۔
تو معلوم ہو اکہ یہ پرانی بیماری ہے، لاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔(ت)
(۲؎ردالمحتار     کتاب الاجارۃ     باب مایجوز من الاجارۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۰)

(۳؎ تحریر العبارۃ فیمن ھو احق بالاجارۃ     رسالہ من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈمی لاہور     ص۱۵۷)
ایسا غامض مسئلہ کہ یہاں کے فحول علماء پر مخفی ہواور عوام کی دوڑ انہیں تک ہے اگر عوام قبل اطلاع حکم اس میں مبتلا ہوں تویہ نہ کہنا چاہئے کہ انہوں نے قصداً ارتکاب حرام یا وقف کی بدخواہی کی جس سے قابل تولیت نہ رہیں، واﷲ یعلم المفسد من المصلح واﷲ غفور رحیم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۷۴تا۷۵:مرسلہ محمد ابرہیم کنکشیر ہائی اسکول ضلع فرید پور رجب ۱۳۳۴ھ
 (۱) اگر کسی ہندو نے چند جگہ مسلمان کو فقط نماز جمعہ کے واسطے وقف کردئے کہ تم لوگ اس میں قربانی مت کرنا۔اگر قربانی کے واسطے اجازت بھی دیوے تو ہندو کی وقف کردہ زمین میں مسجد بناناجائز ہے یانہیں؟

(۲) اگرہندو کی وقف کردہ زمین میں۲۰یا۲۵برس تک نماز جمعہ پڑھی، بعدمیں معلوم کیا، تو

اس مسجد کودوسری جگہ مسلمان کے لئے جاکر بناسکتا ہے یانہیں؟
الجواب

(۱) مسجد کے لئے ہندو کا وقف ناممکن نامقبول ہے، وہ مسجد نہ ہوگی۔واﷲ تعالٰی اعلم۔

(۲) وہ مسجد ہی نہیں، مسلمان دوسری جگہ اپنی مسجد بنائیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter