Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
21 - 112
غمز العیون میں ہے:
شروط صحۃ الخلو ان یکون مابذل من الدراہم عائداعلی جھۃ الوقف بان ینتفع بھا فیہ فمایفعل الاٰن من اخذ الناظر الدراہم من ذی الخلو ویصرفھا فی مصالح نفسہ ھو فھذا الخلوغیر صحیح ویرجع الدافع بدراھمہ علی الناظروان لایکون للوقف ریع یعمرمنہ فان کان یفی لعمارتہ ومصاریفہ فلایصح فیہ حینئذ خلو، فلو وقع کان باطلا وللمستأجر الرجوع علی الناظر بما دفعہ من الدراہم، وان یثبت ذٰلک الصرف علی منافع الوقف بالوجہ الشرعی فلوصدقہ الناظر علی التصرف من غیر ثبوت ولاظہور عمارۃ ان کانت ھی المنفعۃ فلا عبرۃ بھذاالتصدیق لان الناظر لایقبل قولہ فی مصرف الوقف حیث کان لذٰلک الوقف شاہد۱؎اھ نقلہ عن ذٰلک الفاضل المالکی مقرابل معتمدا حیث قال ھذاخلاصۃ ماحررہ بعض فضلاء المالکیۃ فی تالیف مستقل فی ذٰلک واﷲ الھادی الٰی قوام المسالک وانما اطنبنا الکلام فی ھذا المقام لکثرۃ دوران الخلو بین الانام واحتیاج کثیر من القضاۃ الیہا وابتناء کثیر من الاحکام علیہا خصوصا قضاۃ الاوھام الذین لیس لھم شعور ولاالھام۲؎اھ،
خلو کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہے کہ دراہم کے خرچ کرنے سے وقف کو فائدہ ہوکہ ان کا نفع وقف میں شامل ہو، اور آج کل جو کچھ کیا جارہا ہے وہ یہ کہ وقف کا نگران خلووالے سے دراہم لے کر اپنے ذاتی مفاد میں خرچ کرتا ہے تو یہ باطل ہے لہذا دراہم دینے والے کو حق ہے کہ وہ نگران سے واپس وصول کرے اگرچہ وقف کی اتنی آمدن نہ ہو جس سے اس کی تعمیر ہو سکے اور اگر اتنی آمدن ہو جس سے وقف کی عمارت وغیرہ مصارف پورے ہوسکتے ہوں تو اب اس میں خلو صحیح نہ ہوگا اگر خلو کیا تو باطل ہوگا اور مستاجر کو دئے ہوئے اپنے دراہم واپس لینے کا حق ہوگا، اور اگر واقعی دراہم کے فوائد وقف کے لئے ہوں تو بھی محض نگران کی تصدیق ثبوت اور موقعہ پر عمارت کے وجود کے بغیر قابل تقسیم نہیں ہے جبکہ منافع کا تعلق عمارت سے ہو، کیونکہ جب وقف کے منافع قابل مشاہدہ ہوں تو مصرف کے متعلق محض نگران کا قول قابل قبول نہیں ہوتا اھ، اس کوغمزالعیون نے اس مالکی فاضل سے ثابت بلکہ معتمد قرار دیتے ہوئے نقل کیا جہاں انہوں نے کہا کہ بعض مالکی فضلاء نے اس بحث کو اپنے مستقل رسالہ میں جوتحریر کیا ہے یہ اس کاخلاصہ ہے، اﷲتعالٰی ہی مضبوط راستہ کی راہنمائی فرمانے والا ہے۔ ہم نے اس بحث کو اسلئے طول دیا کہ لوگوں میں خلو  رواج کثیر ہے اور بہت سے قاضی حضرات کو اس کی ضرورت درپیش ہے اور اس پر بہت سے احکام مبنی ہیں خصوصاً وہم پرست قاضیوں کے لئے جن کو فہم وشعور نہیں ہے اھ۔
 (۱؎ و ۲؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر         الفن الاول    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۹۔۱۳۸)
اقول :  ماذکر من عدم تصدیق الناظر مسلم ان کان مسرقا مفسدااوکذبہ الظاھر کأن یدعی صرفھا الی العمارۃ ولاعمارۃ والا فلعلہ عندالمالکیۃ اما عندنا فالناظر امین والقول قول الامین مالم یکذبہ الظاھر قال فی الدرالمختارلوادعی المتولی الدفع قبل قولہ الخ۳؂ وفی ردالمحتار عن الاسعاف وعن شرح الملتقی عن شروط الظہیریۃ وعن البحر عن وقف الناصحی اذاآجر الواقف او قیمہ اووصیہ او امینہ ثم قال قبضت الغلۃ فضاعت اوفرقتھا علی الموقوف علیہم وانکروا فالقول لہ مع یمینہ ۱؎اھ
اقول: (میں کہتا ہوں) اس کا یہ ذکر کرنا کہ نگران کی تصدیق کافی نہیں ہے یہ وہاں درست ہے جہان نگران مفسد اور چور ہو یا ظاہر حال نگران کو جھوٹا قرار دے مثلاً یہ کہ وہ عمارت پرصرف کرنے کا دعوٰی کرتا ہو حالانکہ موقعہ پر عمارت کا وجود ہی نہیں ہے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ یہ مالکی حضرات کا موقف ہو، لیکن ہمارے ہاں جب تک ظاہر حال نگران کو نہ جھٹلائے اس وقت تک نگران کو امین قرار دیا جائیگا اور اس کی بات ہی معتبر ہوگی، درمختار میں فرمایا ہے کہ اگر متولی ادا کرنے کا دعوٰی کرتا ہوتو اس کی بات قابل تسلیم ہوگی الخ اور ردالمحتار میں اسعاف اور شرح ملتقی سے ظہیریہ کی شروط اور بحر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ناصحی کے وقف کے حوالہ سے کہا ہے کہ جب واقف یاناظم یا وصی یا امین نے وقف زمین کرایہ پردی اور پھر کہا میں نے غلہ(اجرت) وصول کرلی ہے جو ضائع ہوگئی  یا موقوف علیہ لوگوں میں تقسیم کردی ہے وہ لوگ انکار کریں تو قسم لے کر متولی وغیرہ کی بات تسلیم کرلیجائیگی اھ،
 (۳ ؎ درمختار     کتاب الوقف     فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۹۲)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۴۲۵)
وفیہ عن الحامدیۃ عن بیری زادہ عن احکام الاوصیاء، القول فی الامانۃ قول الامین مع یمینہ الاان یدعی امرایکذبہ الظاھر فحینئذ تزول الامانۃ وتظہر الخیانۃ فلایصدق۲؎اھ وفیہ عنہا عن المفتی ابی السعود انہ ان کان مفسدامبذرا لایقبل قولہ بصرف مال الوقف بیمینہ ۳؎ اھ بل استظھر السید الحموی نفسہ فی امانات الغمز قبول قولہ ولوبعد عزلہ مستندابمسائل، منھا ان الوصی لوادعی بعد موت الیتیم انہ انفق علیہ کذایقبل قولہ وعللوہ بانہ اسندہ الٰی حالۃ منافیۃ للضمان۱؎ اھ فکانہ سکت ھٰھنا معتمد اظہورہ واﷲتعالٰی اعلم۔
اور اسی ردالمحتار میں حامدیہ سے بیری زادہ کے حوالہ سے منقول ہے کہ وصی حضرات کے احکام کی بحث میں فرمایا کہ دیانت کے معاملہ میں قسم کے ساتھ ناظم کی بات تسلیم کرلی جائے گی ماسوائے ایسے معاملہ کے جس میں ظاہراً جھوٹ کا مدعی ہوتو ایسی صورت میں اس کی دیانت ختم اور خیانت واضح ہونے کی بناء پر تصدیق نہ کی جائے گی اھ اسی میں حامدیہ سے منقول ہے کہ انہوں نے مفتی ابوسعود سے نقل کیا ہے کہ اگر متولی وغیرہ مفسد اور فضول خرچ ہوتو وقف کے مال کوصرف کرنے کے متعلق اس کی قسم کے باوجود بات قبول نہ کیجائیگی اھ، بلکہ سید حموی نے ظاہر قرار دیتے ہوئے غمز کی امانات کی بحث میں فرمایا کہ اس کی بات قبول ہوگی اگرچہ اس کے معزول ہونے کے بعد اس کا قول ہو۔ اس بات کو حموی نے کئی مسائل سے ثابت کیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وصی شخص یتیم کی موت کے بعد دعوٰی کرے کہ میں نے یتیم پر اتنا مال صرف کیا ہے تو اس کی بات قبول کی جائے گی، اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ وصی کا یہ بیان ایسی حالت کی طرف منسوب ہے جو ضمان کے منافی ہے، اس پر ان کا سکوت ظاہر پر اعتماد کی دلیل ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۲ ؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت   ۳/ ۴۲۵)

(۳؎ردالمحتار     کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت   ۳/ ۴۲۵)

(۱؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     کتاب الامانات    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۷۳)
ظاہر ہے کہ زرمذکور فی السوال نہ ضرورت وقف کے لئے لیا گیا نہ وقف میں صرف ہوا بلکہ ایک شخص کی اپنی ذاتی غرض میں اگرچہ وہ متولی بھی ہے نہ وہ روپیہ حق استبقائے اجارہ کے بدلے ہے، نہ اجرت مثل اس سے جدا ہے بلکہ اسی میں محسوب ہوا کرے گا تو کسی طر ح خلو سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا بلکہ یقیناً وہ ایک قرض ہےکہ اس موقوف علیہ نے لیا اور اس کے بدلے وقف کو رہن کیا اور منافع حرام کو مقرض پر مباح کردیا وقف کا رہن خود ہی باطل ہے،
تنویر الابصار میں ہے:
فاذاتم ولزم لایملک ولایملک ولایعار ولایرھن۲؎۔
جب وقف لازم وتام ہوجائے تو وہ کسی کا مملوکہ نہ کسی کو تملیک نہ عاریۃً اور نہ ہی بطور رہن دیا جاسکتاہے۔(ت)
 (۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار     کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹)
نہ کہ رہن دخلی کہ ملک کا بھی حرام ہے، تو یہ عقد حرام درحرام، ظلم درظلم، ظلمات بر ظلمات ہے، واجب الرد ہے گیرندہ پر جب تک نہ چھوڑے وقف کے لئے اجر مثل تو خود ہی لازم ہوگا
فان منافع الوقف مضمونۃ مطلقا
 (کیونکہ وقف کے منافع مطلقاً قابل ضمان ہوتے ہیں۔ت) اور جو کچھ اس سے زائد حاصل کرے گا وہ بھی اسے حلال نہیں وقف کردے یا تصدق کرے، اور اول اولٰی ہے
کمافی الخیریۃ والعقود الدریۃ وغیرہما
 (جیسا کہ خیریہ اور عقود الدریہ وغیرہ میں ہے۔ت) یہاں تک چار سوالوں کا جواب شافی ہوگیا اور پنجم کا بھی کہ اس معاملہ کو خلو سے علاقہ نہیں اگرچہ روپیہ ضروریات وقف ہی کےلئے لیا اور انہیں میں صرف کیا کہ یہ روپیہ بمقابلہ استبقائے اجارہ علاوہ اجر مثل نہیں بلکہ اتنا زر اجر پیشگی لیا ہے وقتاً فوقتاً اجرت میں محسوب ہوگا اس سے عدم وقف خواہ اب انعدام وقف پر استدلال صریح جہل وضلال، وقف ثابت کسی کی ناجائز کارروائی سے نہ غیر ثابت ہوسکتاہے نہ زائل ورنہ ابطال اوقاف ظالموں کے اختیار میں ہوجائے جب چاہیں کوئی ناجائز کام کردیں اور وقف باطل وزائل ہوجائے۔ ہاں تفتیش طلب اس کارروائی کا جواز وعدم جواز ہے اس میں مسئلہ شرعیہ یہ ہے کہ دیہات کاٹھیکہ جس طرح ہندوستان میں رائج ہے کہ زمین مزار عوں کے اجارہ میں رہے اور توفیر ٹھیکے میں دی جائے بلا شبہہ حرام ومردود وباطل ہے
کما حققناہ لامزید علیہ فی کتاب الاجارۃ من فتاوٰنا
 (جیسا کہ ہم نے اس کی آخری تحقیق اپنے فتاوٰی کی کتاب الاجارہ میں کردی ہے۔ت)
Flag Counter