Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
20 - 112
اقول: فھذا نص فی ان نفس العمارۃ خلو ولایمکن تاویلہ بماذکرنا فی کلام السید الازھری ان المراد ان یعمرھا للوقف لالنفسہ کیف وانہ فسربہ المنفعۃ الواقعۃ فی تفسیر العلامۃ الاجھوری وھو یقول اسم لما یملکہ دافع الدراہم من المنفعۃ ۲؎الخ الا ان یجعل من ھذہ للتعلیل والمنفعۃ المنفعۃ الآئلۃ الی الوقف وتنقسم الی عمارۃ وغیرہا فیکون مایملکہ ھو التمکن من استبقاء الاجارۃ لاجل تلک المنفعۃ التی اوصلھا الی الوقف لکن یکد رد قول الاجھوری فی مقابلتھا فان دفعہ الدراہم انما ھو بمقابلۃ ذٰلک التمکن لابدل تلک المنفعۃ الآئلۃ الی الوقف وانما ھی حاصلۃ للوقف لالہ بتلک الدراہم فلامخلص الاان یقال ان ھذاکلام متاخر من المالکیۃ فیکون الخلو عندھم شاملا للعین والمعنی وعند نالیس الا المعنی والعین تسمی باسم اٰخر کالسکنی کیف وقد قال ھذاالمالکی بعدہ اما کونہ اجارۃلازمۃ فھذالا نزاع فیہ(ای عندھم) و وجہہ ان الواقف لما یریدان یبنی محلا للوقف فیأتی لہ اناس یدفعون لہ دراہم علی ان یکون لکل شخص محل من تلک المواضع التی یرید الواقف بناء ھا فاذا قبل منھم تلک الدراہم فکانہ باعھم تلک الحصۃ بمادفعوہ لہ وکانہ لم یقف جزء من تلک الحصۃ التی لکل، وغایتہ انہ وظف علیہم کل شھر کذافلیس للواقف فیہ بعد ذٰلک تصرف الابقبض الحصۃ الموظفۃ فقط ولیس لہ ان یوجھہ لغیرہ وکان رب الخلو صار شریکاللواقف فی تلک الحصۃ۱؎اھ فقد جعل الخلوعقاراو جزء من تلک الارض مبیعا من ھٰؤلاء مستثنٰی من الوقف، ولذا قال وفائدۃ الخلو انہ کالملک فتجری علیہ احکامہ من بیع واجارۃ وھبۃ ورھن ووفاء دین وارث ووقف۱؎الخ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) یہ مذکورہ کلام اس بات میں صریح نص ہے کہ خلو صرف عمارت کا نام ہے، اس کی وہ تاویل جو ہم نے سید ازہری کے کلام میں کی ہے ممکن نہیں کہ وہ وقف کا اضافہ ہو، ذاتی ملکیت نہ ہو، یہ تاویل کیونکر ممکن ہوگی جبکہ وہ یہ بات علامہ اجہوری کی اس کلام کی تفسیر میں کہہ رہے ہیں جس میں اس نے کہا ہے کہ خلو اس منفعت کا نام ہے جس کا وہ دراہم کے عوض میں مالک بنتا ہے الخ الایہ کہ ہم"من المنفعۃ" کے "من" کو تعلیل کے لئے قرار دیں اور منفعت سے مراد وہ منفعت ہو جو وقف کے حق میں ہو، تو خلو عمارت اور غیر عمارت دونوں پر منقسم ہوجائے تو اجارہ کی بقا کے حق کا وہ مالک اس منفعت کے عوض ہوگا جس کو اس نے وقف میں شامل کیا ہے، لیکن اجہوری کا یہ قول کہ''دراہم منفعت کے مقابل ہیں'' رد ہوجائیگا کیونکہ اس کے دراہم اجارہ کے دوام کے مقابل ہیں نہ کہ وقف کےلئے منافع کے مقابل ہونگے وقف کے منافع تو صرف وقف کے لئے ہیں، دراہم دینے والے کےلئے دراہم کا بدل نہیں تو اس عبارت کا کوئی مخلص نہیں سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ مالکی حضرات کا آخری کلام ہے تو ان کے ہاں خلو، عین اور معنٰی دونوں کو شامل ہے اور ہمارے ہاں خلو صرف معنٰی کا نام ہے اور عین چیز کاہمارے ہاں کوئی اور نام ہے مثلاً اسے سکنٰی کہا جائے گا اس حقیقت کا انکار کیسے ہوسکتا ہے جبکہ خود اس مالکی فاضل نے اس کے بعد کہا اس خلو کا اجارہ لازمہ ہونے میں نزاع نہیں (یعنی مالکیوں کے ہاں) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب واقف نے کوئی تعمیر وقف میں کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے پاس لوگ آکر دراہم پیش کریں اور کہیں کہ ہم اس حصہ میں اپنے اپنے لئے مخصوص خطہ تعمیر کرینگے توجب واقف ان سے دراہم اس شرط پر قبول کرلے گا تو گویا اس نے یہ حصہ ان لوگوں کو معاوضہ پر فروخت کردیا اور گویا اس نے ہر ایک کا مخصوص خطہ وقف سے مستثنٰی کردیا اور نتیجتاً اس نے ہر ایک پر ماہانہ شرح سے کچھ وظیفہ مقرر کردیا تو ا سکے بعد اب واقف کو اس حصہ میں کسی تصرف کا حق نہ رہا ماسوائے اس کے کہ وہ فقط مقررہ وظیفہ وصول کرتا رہے اور اب وہ حصہ کسی دوسرے کو دینے کا،مجاز نہ ہوگا گویا کہ خلو والا ہر شخص اس حصہ میں واقف کے ساتھ شریک قرار پائے گا اھ، تو یوں اس فاضل نے خلو کو مکانیت سے تعبیر کیا اور وقف شدہ زمین کا ایک حصہ ان لوگوں کے ہاتھ فروخت کرکے وقف سے خارج قرار دیا اور اس لئے اس نے کہا کہ خلو کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ مملوکہ جگہ کی طرح ہوگا اور اس میں ملکیت کے احکام، بیع، اجارہ،ہبہ، رہن، قرض میں منہا کرنا، وراثت اور وقف جاری ہوں گے الخ،
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب البیوع     دارالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۱۰)

(۱؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر    الفن الاول    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۸، ۱۳۷)

(۱؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الاول     ادارۃ القرآن کراچی     ۱/ ۱۳۸)
اقول:  ثم فی کلام ذٰلک الفاضل المالکی خدشۃ اخری فانہ جعل العمارۃ خلوا وقال فی بیانہ یکون ماصرفہ خلوا لہ وانماالمصروف الدراہم ھذاوبقی مااسلفناہ عن اٰفندی زیرک زادہ من بیع الخلو اذالم یکن ملاصقا بالحانوت وان وضعہ فی الحانوت بالاجارۃ مشروع۔
اقو ل: (میں کہتا ہوں) اس مالکی فاضل کے کلام میں ایک اور خرابی ہے کہ یہاں اس نے عمارت کو خلو کہا ہے جبکہ پہلے وہ اپنے بیان میں کہہ چکا ہے کہ مال صرف کیا ہے وہ خلو ہوگا، حالانکہ جو صرف کیا ہے وہ دراہم ہیں عمارت نہیں ہے، یہ قابل توجہ ہے۔ زیر ک زادہ آفندی سے جو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اس میں ایک امرباقی ہے کہ انہوں نے کہا ہے جب خلو دکان سے ملصق نہ ہواور ویسے کرایہ کی دکان میں رکھا ہو تو اس کی بیع جائز ہے۔
اقول: احسن مایعتذرعنہ انہ اطلق علیہ اسم الخلو تجوزاوان الخلو یطلق علیہما وان ماکان منہ عینا مملوکۃ لصاحب الخلو فلا کلام فی جواز بیعہ بل ووقفہ ان تعورف وکانت الارض موقوفۃ او محتکرۃ والذی حدث وانکرہ المحققون ھوالخلو بمعنی المعنی واﷲ تعالٰی اعلم
اقول: (میں کہتاہوں) ان کی طرف سے بہترین تاویل یہ ہوگی کہ انہوں نے اس علیحدہ چیز کو مجازاً خلو کہا ہے یا یہ کہ خلو کا اطلاق دونوں صورتوں پر کیا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ خلو والے کی کوئی مملوک عین چیز ہوتو اس کے فروخت کرنے بلکہ عرف میں وقف کی صورت ہوتو وقف کرنے کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے جبکہ زمین وقف یا کرایہ کی رہے گی وہ چیز جو نئی ہے اور محققین نے اس کاانکار کیا ہے وہ خلو معنوی ہے،
وبہ یحصل التوفیق بین کلامی ابن ہلال والرادین علیہ بان کلامہ فی العین القائمۃ ولاشک ان الاستشہاد علیہ بفرع السکنی صحیح اذن لایرد علیہ شیئ مماذکروا و کلامھم فی المعنی المعروف فلاخلف ان ساعدہ کلام ابن ہلال فی رسالتہ والعلم بالحق عند علام الغیوب،
اس تاویل سے ابن ہلال اور اس کا رد کرنے والوں کے کلاموں میں موافقت ہوجائیگی کہ ابن بلال کی گفتگو قائم رہنے والی عین چیز کے متعلق ہے اور اب اس پر سکنٰی کے طور پر تفریع بلا شک درست ہوگی اور کوئی اعتراض نہ رہے گا، ور معترضین کا کلام خلو کے معروف معنی کے متعلق ہے لہذا کوئی مخالفت نہ رہی بشرطیکہ ابن بلال کی اپنے رسالہ میں گفتگو اس تاویل کا ساتھ دے، حقیقت کا علم تو اﷲ تعالٰی علام الغیوب کے ہاں ہے،
ثم من العجب قول العلامۃ المنقح فی العقود الدریۃ الخلو عبارۃ عن القدیمۃ ووضع الید۱؎اھ اقول:  سبحٰن اﷲ مجرد کونہ واضع یدہ منذزمان وھو المعبر عنہ فی المبتدعات قانون النصاری بحق موروثی کیف یصیر حقا وکیف یسوغ ان یقول بہ وبجواز بیعہ احد وقد قدم المنقح نفسہ قبیل ھذامانصہ، وامامافی القنیۃ یثبت حق القرار فی ثلاثین سنۃ فی الارض السلطانیۃ والملک وفی الوقف فی ثلاث سنین ولو باع حق قرارہ فیہا جاز، وفی الھبۃ اختلاف، ولو ترکھا بالاختیار تسقط قد میتہ، حاوی الزاھدی اھ فالمراد بہ الاعیان المتقومۃ لامجرد الامر المعنوی لما علمت من عدم صحۃ بیعہ ویدل علی ذٰلک قولہ فی البزازیۃ ولاشفعۃ فی الکردار ای البناء ویسمی بخوار زم حق القرار لانہ نقلی اھ۱؎ ثم ستسمع الآن نصہ الصریح علی انکارہ فسبحٰن من لاینسی ھذا،
پھر عقود الدریہ تنقیح کرنے والے علامہ کا یہ قول عجیب ہے کہ خلو قدیم دخل اور قبضے کا نام ہے اھ اقول : (میں کہتا ہوں) سبحٰن اﷲ کچھ زمانہ سے محض قابض ہونے جس کو نصارٰی کے قانون میں موروثی حق کہتے ہیں جو کہ ایک نئی بدعت ہے، سے کیسے حق ثابت ہوسکتا ہے اس حق کے ثبوت اور اس کے بیع کے جواز کی بات کوئی کیسے کرسکتاہے جبکہ خودیہ صاحب تنقیح اس بیان سے تھوڑا پہلے کہہ چکے ہیں، وہ یہ عبارت ہے کہ، لیکن قنیہ میں جو یہ کہا ہے کہ سلطانی زمین پر تیس سالہ قبضہ سے حق القرار اور ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور اگر قابض اس زمین کے حق قرار کو فروخت کرنا چاہے تو جائز ہے جبکہ ہبہ کرنے میں اختلاف ہے، اور اگر قابض خود اس حق سے دستبردار ہوجائے تو قدیمی حق(حق القرار) ساقط ہوجائے گا، حاوی الزاہدی،اھ، تو اس حق سے اعیان قیمتی مراد ہیں نہ کہ صرف معنوی امر ہے  کیونکہ تو معلوم کرچکا ہے کہ امر معنوی کی بیع جائز نہیں ہے اس پر بزازیہ کا قول، کہ کردار یعنی عمارت جس کوخوارزم میں حق القرار کہتے ہیں میں شفعہ کا حق نہیں ہے، کیونکہ یہ حق منتقل ہونے والی چیز ہے اھ، اس کے اس بیان کے باوجود اب تم ان سے صریح طور پر اس بیان کا انکار سن رہے ہو، پس وہی ذات پاک ہے جو بھولتی نہیں ہے، یہ قابل غور ہے۔
 (۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ     باب مشد المسکۃ     ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۲۱۸)

 (۱؎ العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ     باب مشد المسکۃ     ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۲۱۸)
وقال فی ردالمحتار قد یقال ان الدراہم التی دفعھا صاحب الخلو للواقف واستعان (ای الواقف) بھا علی بناء الوقف شبیہۃ بکبس الارض بالتراب فیصیرلہ حق القرار فلایخرج من یدہ اذاکان یدفع اجرالمثل ومثلہ مالوکان یرم دکان الوقف ویقوم بلوازمھا من مالہ باذن الناظر، امامجرد وضع الید علی الدکان ونحوھا وکونہ یستاجرھا عدۃ سنین بدون شیئ مماذکر فھو غیر معتبر(الٰی ان قال) وممن افتی بلزوم الخلو الذی یکون بمقابلۃ دراہم یدفعھاللمتولی او المالک العلامۃ المحقق عبدالرحمٰن افندی العمادی صاحب ھدیۃ ابن العماد وقال فلایملک صاحب الحانوت اخراجہ ولااجارتھالغیرہ مالم یدفع لہ المبلغ المرقوم فیفتی بجواز ذٰلک للضرورۃ قیاسا علی بیع الوفاء الذی تعارفہ المتأخرون احتیالا علی الربا الخ، قلت وھو مقید ایضا بماقلنا بما اذاکان یدفع اجر المثل والا کانت سکناہ بمقابلۃ مادفعہ من الدراہم عین الرباکما قالوافیمن دفع للمقرض دارالیسکنھا اوحمارالیرکبہ الی ان یستوفی قرضہ انہ یلزمہ اجرۃ مثل الداراو الحمار علی ان مایأخذہ المتولی من الدراہم ینتفع بہ لنفسہ فلو لم یلزم صاحب الخلواجرۃ المثل للمستحقین یلزم ضیاع حقھم، اللھم الاان یکون ماقبضہ المتولی صرفہ فی عمارۃ الوقف حیث تعین ذٰلک طریقا الٰی عمارتہ ولم یوجد من یستأجر باجرۃ المثل مع دفع ذٰلک المبلغ اللازم للعمارۃ، فحینئذقد یقال بجواز سکناہ بدون اجرۃ المثل الضرورۃ ومثل ذٰلک یسمی فی زماننا مرصدا کما قد مناہ فی الوقف واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۱؎اھ۔
ردالمحتار میں فرمایا: خلو والا جو دراہم واقف کو دیتا ہے اور واقف بطور امداد ان دراہم کو وقف کی تعمیر پر خرچ کرتاہے اس کے متعلق کہا جائےگاکہ یہ زمین میں مٹی ڈالنے کے مشابہ ہے جس کے ذریعہ اس کو حق استقرار حاصل ہوجاتا ہے تو جب تک مثلی اجرت دیتا رہے گا اس کے قبضہ کو ختم نہیں کیا جاسکے گا، اسی کی مثل ہے جب وقف دکان بوسیدہ ہوجائے تو وقف کے نگران کی اجازت سے کوئی شخص اس کو اپنے مال سے مرمت کرلے تو مروج کرایہ ادا کرنے کی شرط پر استقرار حق ہوجائے ، لیکن دکان وغیرہ پر محض قبضہ ہونا کہ چند سالوں سے کرایہ دار ہے اور دراہم دینے کی مذکورہ صورت نہ ہوتو استقرار حق معتبرنہ ہوگا (آگے یہاں تک فرمایا) متولی یا مالک کو دئے گئے دراہم کے عوض خلو کے لزوم کا فتوٰی دینے والوں میں علامہ محقق عبدالرحمٰن آفندی عمادی صاحب ہدیہ ابن عماد ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ دکان کامالک خلو والے کاقبضہ ختم نہ کرسکے گا اور نہ کسی اور کو کرایہ پر دے سکے گا جب تک خرچ شدہ رقم اس کو واپس نہ کردے، تو اس خلو کے جواز کا ضرورت کی بنا پر فتوٰی دیا جائے گا، یہ قیاس ہوگا اس بیع وفاپر جس کو متاخرین نے سود سے بچنے کے لئے متعارف کرایا ہے الخ قلت(میں کہتاہوں) یہ جواز بھی ہمارے مذکور بیان کہ جب تک مروج کرایہ دیتا رہے گا، کی قید سے مقید ہے، ورنہ یہ سکنٰی ان دراہم کے مقابلہ میں قرار پائے گا جو اس نے مالک کو دئے ہیں جو کہ عین سود ہے جیساکہ فقہاء نے فرمایا کہ کسی نے قرض دینے والے کو رہائش کے لئے مکان دیا یا سواری کےلئے گدھا دیا تھا کہ جب تک قرض واپس نہ ہو اس کے استعمال میں رہے، تو اس صورت میں قرض دینے والے پرمکان یا گدھے کا مروج کرایہ ادا کرنا لازم ہوگا(ورنہ سود ہوگا) علاوہ ازیں متولی نے جو دراہم وصول کئے وہ ان کو ذاتی مفاد میں صرف کرے گا تو خلو والے پر اگر مروج کرایہ لازم نہ کیا جائے تو مستحقین وقف کا حق ضائع ہوگا، ہاں اگر متولی وصول کردہ دراہم کو وقف کی عمارت میں خرچ کرے جہاں وقف عمارت میں خرچ کرنے کی ضرورت واضح ہو، اور اس مرمت شدہ عمارت کو مروج کرایہ بمع صرف شدہ رقم، دینے والا کوئی نہیں تو ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ متولی کو رقم دینے والا اس میں ضرورت کے پیش نظر بغیر کرایہ رہائش کرسکتا ہے، ایسی صورت کو ہمارے زمانہ میں ''مرصد'' کہا جاتا ہےجیسا کہ ہم نے وقف کے بیان میں اس کو بیان کردیا ہے، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم
 (۱؎ ردالمحتار   کتاب البیوع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۱۶و۱۷)
اقول:  قد قدم الکلام علی الوقف وانہ لابد ان یدفع اجر المثل فعودہ الیہ ثانیا وقولہ وھو مقید ایضا بما قلنا ان ارادبہ مسألۃ الواقف کما حط علیہ اٰخر کلامہ کان تکراراولم یکن محل لایضاد وان ارادبہ مسألۃ الملک لان کلام العمادی کان فیھما فلاحامل علی ایجاب اجر المثل الا ان یکون مال الیتیم بل لونقص من اجر المثل فی الوقف لم یجز من جہۃ النقص لالانہ عین الربا لان تلک الدراہم لاتدفع قرضا بل اعانۃ للوقف والصرف فی مایؤل نفعہ الیہ ولاتسترد ابدا الاان یخرجہ الناظر فح یستردھا کما ذکرالمحقق العمادی وعن ھذا کانت کبیع الوفاء فالدراہم فیہ لیست قرضا عند مجوزیہ والاکان الانتفاع بہ عین الربا کما ھو المتعمد فیہ اما الدفع لیصرفہ المتولی الی نفسہ فحاش ﷲ لیس من الخلو فی شیئ بل عین رشوۃ ولیس لاحد من المسلمین ان یقول بجواز مثلہ فضلا عن لزومہ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اقول : (میں کہتا ہوں) ردالمحتار میں انہوں نے پہلے وقف کی بحث میں کلام کیا اور فرمایا کہ مثلی اجرت اور کرایہ ضروری ہے، پھر ان کا دوبارہ اس کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ عمادی کا یہ بیان بھی ہمارے سابقہ قول کے ساتھ مقید ہے، اگر اس سے وقف کا مسئلہ مراد ہے جیسا کہ انہوں نے اس پر بات ختم کی ہے، تو یہ تکرار ہے، اور عمادی کی مخالفت کا محل نہ ہوااگرچہ ذاتی ملکیت کا مسئلہ مراد ہو کیونکہ عمادی کا کلام دونوں صورتوں کے بیان میں ہے بہر حال مثلی اجرت کے بیان کی ضرورت نہیں، ہاں اگر وہ ملکیت کسی یتیم کی ہو تو مثلی اور مروج اجرت ضروری ہوگی بلکہ وقف والی صورت میں تو مروج کرایہ سے کم بھی ہوتو کمی کی وجہ سے ناجائز ہوگا نہ کہ سود ہونے کی وجہ سے، کیونکہ یہ دی گئی رقم بطور قرض نہیں بلکہ وقف کے لئے اعانت کے طور پر دی گئی ہے جس کے منافع بالآخر وقف کی طرف راجع ہیں اور یہ رقم بیدخلی کے بغیر ناقابل واپسی ہے صرف بے دخلی پر واپس ہوگی جیسا کہ علامہ عمادی نے ذکر کیا، اسی وجہ سے یہ صورت بیع الوفاء کی مانند قرار پاتی ہے کیونکہ اس کے مجوزین حضرات کے ہاں وہ دراہم بطور قرض نہیں ہیں، ورنہ تو مکان دکان سے انتفاع عین سود ہے جیسا کہ یہی معتمد علیہ بات ہے، لیکن یہ صورت کہ وقف کا متولی اپنی ذات کےلئے دراہم کو صرف کرے، اس غرض سے دینا تو ہر گز خلو نہیں بلکہ یہ تو رشوت ہے جس کے جواز کے متعلق کوئی بھی مسلمان قول نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس رشوت کو لازم قرار دیا جائے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
پھر اگر خلو وقف میں ہوتو شرط ہے کہ یہ عقد خود واقف یا متولی کرے دوسرے کو اختیار نہیں، نیز لازم کہ وہ روپیہ خاص وقف کی منفعت صحیحہ میں صرف ہونہ کہ واقف یا متولی یاکسی اور کے کام میں، نیز ضروری کہ وقف کو اس امداد کی حاجت ہواگر وقف خود اپنی منفعت کو پورا کرسکتاہے تو خلو باطل ہے۔
تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:
الموقوف علیہ الغلۃ اوالسکنی لایملک الاجارۃ الابتولیۃ او اذن قاض لان حقہ فی الغلۃ لافی العین۱؎۔
کسی کے لئے غلہ یا سکنٰی وقف ہوتو وہ زمین کو اجارہ پر دینے کامالک صرف تولیت یا قاضی کی اجازت سے ہوسکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس کاحق صرف غلہ ہے عین چیز یعنی زمین نہیں ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار  کتاب الوقف  مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۷)
Flag Counter