Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
19 - 112
رسالہ تحریر العبارۃ للعلامۃ الشامی میں ہے:
قال العلامہ الشلامی فی رسالتہ''تحریر العبارۃ فیمن ھواحق بالاجارہ'' (تنبیہ) قد یثبت حق القرار بغیر البناء والغرس بان تکون الارض معطلۃ فیستاجرھامن المتکلم علیہا لیصلحھا للزرعۃ ویحرثھا ویکسبھا وھوالمسمی بمشد المسکۃ فلاتنزع من یدہ مادام یدفع ماعلیہا من القسم المتعارف کالعشر ونحوہ واذامات عن ابن توجہ لابنہ فیقوم مقامہ فیہا، وقد رأیت بخط شیخ مشائخنا خاتمۃ الفقہاء الشیخ ابراہیم السائحانی الغزی المسکۃ عبارۃ من استحقاق الحراثۃ فی ارض الغیر وذکر فی الحامدیۃ انھا لاتورث وانما توجہ للابن القادر علیہا دون البنت اھ۱؎، ثم افاض فی بیان الکردار والسکنی والجدک وانھا اعیان قائمۃ فی الارض الٰی ان قال وھذا غیر الخلوالذی ذکرہ فی الاشباہ فانہ بمنزلۃ مشد المسکۃ المار وھو وصف لاعین قائمۃ فلایجوز بیعہ ولایورث وانما ینتقل الی الولد بطریق الاحقیۃ کمامر وما ذکرہ فی الاشباہ من جواز بیع الخلو  ردوہ علیہ، وقد الف فی ردہ العلامۃ الشرنبلالی رسالۃ خاصۃ۱؎اھ کلام الشامی ملتقطا۔
علامہ شامی نے اپنے رسالہ''تحریر العبارۃ فیمن ھواحق بالاجارۃ'' میں فرمایا(تنبیہ) کبھی تعمیر اور پودے لگائے بغیر حق استقرار ثابت ہوتا ہے مثلاً یوں کہ کوئی زمین خالی پڑی ہو تو کسی خواہشمند کو اجارہ پردی جائے تاکہ وہ اس کو زراعت کےلئے تیار کرے اوراس کو کاشت کرکے آباد کرے جس کو مشدالمسکہ کہا جاتا ہے تو یہ زمین اس کاشتکار سے اس وقت تک واپس نہ لی جائے گی جب تک وہ اس کا متعارف محصول مثلاً عشر وغیرہ دیتا رہے اور اگر وہ کاشت کار کوئی بیٹا چھوڑ کر فوت ہوجائے تو یہ کاشتکاری کا حق اس کو منتقل ہوجائے گا اور وہ بیٹا اپنے باپ کے قائم مقام قرار پائے گا،میں نے اپنے شیخ المشائخ خاتمہ الفقہاء الشیخ ابراہیم السائحانی الغزی کا لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ''مسکہ''غیر کی زمین میں کاشتکاری کے استحقاق کا نام ہے، اور حامدیہ میں ذکر کیا ہے کہ اس استحقاق میں وراثت نافذ نہ ہوگی بلکہ صرف کاشتکاری پر قادر بیٹے کو یہ حق منتقل ہوگا اور بیٹی کو استحقاق نہ ہوگا،اھ، پھر انہوں نے کرایہ داری، سکنٰی اور جدک کی وضاحت میں فرمایا کہ یہ زمین میں باقی رہنے والے امور ہیں، آگے

یہاں تک فرمایا کہ یہ امور اس خلو کا غیر ہیں جس کا ذکر الاشباہ میں کیا ہے کیونکہ یہ مشد المسکہ کی طرح ہے جس کابیان پہلے گزرا ہے اور وہ خلو ایک وصف ہے جو باقی رہنے والی عین چیز نہیں ہے تو مشدالمسکہ کی بیع ناجائز ہے اور وہ قابل وراثت نہیں ہے ارو صرف وہ بیٹے کو حقدار ہونے کی وجہ سے منتقل ہوتا ہے جیسا کہ گزر چکا ہے اور الاشباہ میں خلو کی بیع کاجوجواز مذکور ہوا فقہاء کرام نے اس کو رد کیا ہے اور علامہ شرنبلالی نے ایک خاص رسالہ اس کے رد میں تالیف کیا ہے۔ علامہ شامی کا کلام ملتقطا ختم ہوا۔
 (۱؎ تحریر العبارۃ فیمن ھواحق بالاجارۃ     رسالہ من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۵۳۔۱۵۲)

(۱؎ تحریر العبارۃ فیمن ھواحق بالاجارۃ    رسالہ من رسائل ابن عابدین     سہیل اکیڈمی لاہور     ص۱۵۵)
اقول: ومن الدلیل القاطع علی کون الخلو معنی لاعینا انہ لما استدل محمد بن ھلال الحنفی علی جواز الخلو بمافی جامع الفصولین وغیرہ عن الذخیرۃ والکبری والخانیۃ والخلاصۃ وواقعات الضریری اشتری سکنی وقف فقال المتولی مااذنت لہ بالسکنی فامرہ بالرفع فلو اشتراہ بشرط القرار فلہ الرجوع علی بائعہ والافلایرجع علیہ بثمنہ ولابنقصانہ۲؎اھ رموہ عن قوس واحدۃ انہ لم یفھم معنی السکنی لان المراد بھا عین مرکبۃ فی الحانوت وھی غیر الخلو ففی الخلاصۃ اشتری سکنی حانوت فی حانوت رجل مرکبا۱؎الخ کمافی ردالمحتار عن العلامۃ الشرنبلالی قال ثم نقل عن عدۃ کتب مایدل علی ان السکنی عین قائمۃ فی الحانوت۲؎۔
اقول: (میں کہتا ہوں) خلو کے ایک معنوی چیز ہونے اور عین شیئ نہ ہونے پر قاطع دلیل یہ ہے کہ جامع الفصولین وغیرہ میں ذخیرہ، کبرٰی، خانیہ،خلاصہ اور واقعات ضریری سے منقول ہے اس بیان سے، کہ کسی نے وقف سکنٰی خریدا تو متولی نے کہا کہ میں اس سکنٰی کی اجازت نہیں دیتا اور وہاں سے سکنٰی ختم کرنے کا اس نے حکم دیا تو اگر اس خریدا ر نے وہ سکنٰی برقرار رہنے کی شرط پر خریداتھا تو(متولی کے اس اقدام پر) وہ فروخت کرنے والے پر اپنے نقصان میں رجوع کرسکتاہے ورنہ وہ اپنی لاگت اور نقصان میں بائع پر رجوع نہیں کرسکتا اھ، جب محمد بن ہلال حنفی نے خلو کے جواز پر استدلال کیا، تو سب نے ایک ہی انداز سے اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ محمد بن ہلال کو سکنٰی معنٰی سمجھ نہیں آیا، کیونکہ سکنٰی سے مراد دکان میں لگائی ہوئی عین موجود چیز ہے اور وہ خلو کا مغایر ہے، توخلاصہ میں یوں ہے کہ ایک شخص کی دکان میں مرکب سکنٰی حانوت ہو الخ، جیسا کہ ردالمحتار میں علامہ شرنبلالی سے نقل کرتے ہوئے کہا، انہوں نے پھر متعدد کتب سے نقل کیا کہ سکنٰی، دکان میں قائم رہنے والی ایک موجود عین چیز ہوتی ہے۔
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل السادس عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۲۔۲۲۱)

(نزہۃ النواظرالاشباہ والنظاہر مع الاشباہ         ادارۃ القرآن کراچی    ۲ /۵۱۔۷۵۰)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب البیوع    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۱۶)

(۲؎ ردالمحتار   کتاب البیوع      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۱۶)
قلت وقد نقلہ فی العقود الدریۃ وفی رسالتہ المذکورۃ عن التجنیس ثم نفس العبارۃ المستدل بھا منادیۃ بذاک اعلٰی نداء کما اوضحہ السید الحموی مع غناہ عن الایضاح اذقال بعد نقل کلام العمادی اذا ادعی سکنی دار اوحانوت وبین حدودہ لایصح لان السکنی نقلیا فلایحدد وذکررشید الدین فی فتاواہ وان کان السکنی نقلی لکن لما اتصل بالارض اتصال تابید کان تعریفہ بمابہ تعریف الارض لان السکنی مرکب فی البناء ترکیب قرار فالتحق بمالایمکن نقلہ اصلااھ

مانصہ فظھرلک بھذاان السکنی ھو ما یکون مرکبا فی الحانوت متصلا بہ فھو اسم عین لااسم معنی کما فھمہ البعض ولیس فی کلامھم مایفید ماتوھمہ ھذاالبعض، الاتری تمام العبارۃ الذی نص فیہا علی حقیقۃ السکنی انہ شیئ مرکب یرفع فھل یستفاد من ھذاالمعنی المعبر عنہ بالخلو ایظن ان الخلو یرفع ثم یرد علی بائعہ ویقال لواشتراہ بشرط القرار یرجع علی بائعہ بثمنہ ویرد علیہ والافلایرجع علیہ بثمنہ ولانقصانہ الحاصل بالقلع من الدکان، سبحٰنک ھذابھتان عظیم۱؎اھ کلام الحموی فتبین ان الخلو وصف معنوی لاعین تقلع او ترفع وتنقل۔
قلت(میں کہتا ہوں) انہوں نے اس کو عقود دریہ میں اور اپنے مذکورہ رسالہ میں تجنیس سے نقل کیا، پھر استدلال کرنے والے کی نفس عبارت بھی واضح طور اس کا اعلان کررہی ہے جیسا کہ اسکو سید حموی نے واضح کیا حالانکہ وضاحت کی ضرورت نہ تھی، جہاں انہوں نے عمادی کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر کوئی شخص گھر یادکان کا سکنی کا دعوٰی کرکے اس کی حدود کو بیان کرے تو اس کا یہ دعوٰی درست نہ ہوگا کیونکہ سکنٰی ایک منتقل ہونے والی چیز ہے ا سلئے اس کی حد بندی نہیں ہوسکتی، رشید الدین نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کیا ہے کہ اگرچہ سکنٰی منتقل ہونے والی چیز ہے لیکن جب وہ کسی خطہ زمین سے بختہ اتصال کرے تو پھر ا سکی تعریف زمین کی تعریف کی طرح ہوگی کیونکہ سکنٰی عمارت کے ساتھ استقرار والی ترکیب حاصل کرلیتا ہے تو اس کا شمار بھی ان چیزوں میں ہوجاتاہے جو بالکل قابل انتقال نہیں ہوتیں، اس کی عبارت ختم ہوئی، تو اس بیان سے آپ پر واضح ہوگیا کہ سکنٰی کا دکان کے ساتھ ترکیبی اتصال ہوتا ہے لہذا وہ ایک موجود عین چیز ہے نہ کوئی معنوی وصف ہے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے جبکہ اس کے اس خیال کے لئے کسی کا کلام مفید نہیں ہے، سکنٰی کی حقیقت بیان کرنے والے کی پوری عبارت آپ دیکھ نہیں رہے کہ انہوں نے کہا ہے سکنٰی ایک ایسی چیز ہے جومرکب ہوتی ہے جسے ختم کیا جاسکتا ہے کیا اس سے یہ خلو کا معنی سمجھا جاسکتا ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ خلو کو ختم کیا جائے پھر وہ بائع پر واپس لوٹا دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اگر خلو کو استقرار کی شرط پر خریدا ہو تو بائع سے رجوع کرکے رقم واپس لی جائے اور خلو کو واپس کردے ورنہ رقم واپس نہ لے اور دکان کو اکھاڑنے سے جو نقصان ہوا وہ واپس نہ لے، سبحان اﷲ! یہ تو بہتان عظیم ہے، حموی کا کلام ختم ہوا، تو واضح ہوگیا کہ خلو ایک معنوی وصف ہے اور سکنی کی طرح باقی رہنے والی مستقل چیز نہیں جس کو اکھاڑا یا ہٹایا یا ختم کیا جاسکے۔
 (۱؎ غمزالعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الاول     ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۳۷۔۱۳۶)
اقول: لکن فی حاشیۃ السیدین العلامتین ط وش علی الدر عن حواشی الاشباہ للعلامۃ السید ابی السعود رحمھم اﷲ ان الخلو یصدق بالعین المتصل اتصال قرار وبغیرہ والمراد بالمتصل اتصال قرار ماوضع لالیفصل کالبناء، وبالمتصل لاعلی وجہ القرار کالخشب الذی یرکب بالحانوت لوضع عدۃ الحلاق مثلا فان الاتصال وجد لکن لاعلی وجہ القرار وکذایصدقان بمجرد المنفعۃ المقابلۃ بالدراھم  اھ۱؎ وزاد ط عنہ قبل ھذا اعلم ان الخلو یصدق بما اتصل بالعین قرار اتصال کالبناء بالارض المحتکرۃ ویصدق بالدراہم التی تدفع بمقابلۃ التمکن من استیفاء المنفعۃ اذماذکرہ المصنف یعنی صاحب الاشباہ من ان السلطان الغوری لما بنی حوانیت الجملون اسکنھا التجار بالخلو وجعل لکل حانوت قدرا اخذہ منھم الخ صریح فی ان الخلو فی حادثۃ السلطان الغوری عبارۃ عن المنفعۃ المقابلۃ للقدر الماخوذمن التجارفیرجع الٰی ماذکرہ العلامۃ الاجھوری من ان الخلو اسم لما یملکہ دافع الدراھم من المنفعۃ التی دفع الدراھم بمقابلتھا وعلی ھذافلایکون الخلو خاصا بالمتصل بالعین اتصال قرار بل یصدق بہ وبغیرہ ۱؎ الخ  فھذایفید ان من الخلو ماھو عین قائمۃ کالبناء والخشب المرکب الاان نقول السید الازھری لم یقل الخلو یصدق علی العین المتصل وانما قال یصدق بالعین وذٰلک ان یدفع صاحب الخلو دراہم للواقف مثلا لیبنی فی الوقف ویکون لہ بازائہ منفعۃ استبقاء الاجارۃ فالخلو ھو ھذاالمعنی لاالعین، نعم صدقہ بسبب العین وبھذا یفسر مافسر بہ الاجھوری الخلو فالمنفعۃ ھی حق الاستبقاء کما افادہ السید ابوالسعود بقولہ تدفع بمقابلۃ التمکن من استیفاء المنفعۃ فھذاالتمکن ھوالمراد بالمنفعۃ فی تفسیر الاجھوری لکن نقل السید الحموی فی الغمز عن فاضل متأخر مالکی انہ قال بعد نقل کلام العلامۃ نورالدین علی الاجھوری المذکور ظاھرہ سواء کانت تلک المنفعۃ عمارۃ کأن یکون فی الوقف اماکن آئلۃ الی الخراب فیکریھا ناظر الوقف لمن یعمرھا، ویکون ماصرفہ خلوالہ ویصیر شریکا للواقف بمازادتہ عمارتہ اوکانت المنفعۃ غیر عمارۃ کوقید مصباح مثلا ولوازمہ لاخصوص العمارۃ خلافا لمن خص المنفعۃ بھادون غیرھا اذ المعتبر انما ھو عود الدراہم لمنفعۃ فی الوقف عمارۃ کانت او غیرہا اھ۱؎۔
اقول: (میں کہتا ہوں) لیکن علامہ طحطاوی اور علامہ شامی دونوں قابل احترام حضرات نے در پر اپنے حواشی میں علامہ سید ابوسعود (رحمہم اﷲ تعالٰی) سے نقل کرتے ہوئے فرمایا، کہ، خلو کااطلاق متصل استقراری عین چیز اور غیر استقراری دونوں پر ہوتا ہے اور متصل استقراری سے مراد وہ چیز ہے جو عمارت میں باقی رکھنے کیلئے لگائی ہو اور متصل غیر استقراری سے مراد مثلاً لکڑی جیسی کوئی چیز جس کو دکان میں لگا کر حجام کے سامان رکھنے کیلئے خانے بنائے جائیں یہ بھی اتصال ہے لیکن یہ علٰی وجہ الاستقرار نہیں ہوگا اور یوں ہی قراری  اورغیر قراری کا مصداق وہ منفعت بھی بنتی ہے جو دراہم کے عوض حاصل کی جاتی ہے اھ، اور علامہ طحطاوی نے اس سے قبل علامہ ابوسعود سے یہ زائد نقل کیا ہے کہ واضح رہے کہ خلو کا اطلاق کسی عین چیز کے ساتھ متصل ہونے والی چیز پر ہوتا ہے جیسے عمارت کسی کرایہ کی زمین پر ہو، اور کسی منفعت کودارہم کے بدلے حاصل کرنے کی قدرت پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے، اور مصنف یعنی صاحب اشباہ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ سلطان غوری نے جب جملون کی دکانیں تعمیر کرائیں تو انہوں نے وہاں تجار کو خلو کے طورپر سکنٰی دیا اور ہر دکان کا کچھ بدل مقرر کرکے ان سے وصول کیا الخ، سلطان غور ی کا یہ واقعہ صریح ہے کہ خلو اس منفعت کا نام ہے جو تجار حضرات سے وصول کردہ کا بدل ہے، تو یہ علامہ الاجہوری کے اس بیان کی طرف راجع ہے کہ خلواس منفعت کا نام ہے جس کا دراہم دینے والا دراہم کے  بدلے مالک بنتا ہے اور اس بناء پر خلو، استقراری اتصال والی عین چیز سے خاص نہیں ہے بلکہ اس پر اور غیر استقراری پر بھی صادق آتا ہے الخ، تو یہ بیان اس بات کو مفید ہے کہ خلو، قائم رہنے والی عین چیز مثلاً عمارت اور عمارت پر لگی ہوئی لکڑی دونوں کا نام ہے، الایہ کہ ہم سید ازہری کے متعلق یہ کہیں کہ انہوں نے خلو کا صدق متصل عین پر نہیں کیا بلکہ عین چیزکے عوض پر کیا ہے، یہ یوں کہ خلو والا شخص واقف کو کچھ دراہم دے کرکہے کہ ان سے وقف میں وقف کے اضافہ کے لئے کچھ تعمیر کرے  اور اس کے عوض اس کے لئے اجارہ کی منفعت کو باقی رکھنا ہوگا تو خلو اس معنی کا نام ہوگا خاص عین چیز کا نام نہ ہوگا، ہاں اس معنٰی پر اس کا صدق عین چیز کے سبب سے ہوا، خلو کی جو تفسیر علامہ اجہوری نے کی اس کو اسی تفسیر پر محمول کیا جائیگا تو منفعت سے مراد وہاں یہی اجارہ کے حق کی بقاء کا مطالبہ ہے جیسا کہ علامہ ابوسعود نے اپنے قول''دراہم ،منعت کو پوراکرنے کی قدرت کے مقابلہ میں دئے جائیں'' سے افادہ فرمایا، علامہ اجہوری کی تفسیر میں منفعت سے یہی تمکن مراد ہے، لیکن سید حموی نے غمز میں ایک مالکی متاخر فاضل سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے علامہ اجہوری کے مذکور کلام پر علامہ نورالدین کے حاشیہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اجہوری کے کلام سے ظاہر ہے کہ منفعت عمارت ہو کہ وقف کی عمارت کا کوئی حصہ خراب ہورہا ہو تو اسے وقف کا ناظم کسی ایسے شخص کو کرایہ پر دے دے جو اس کی تعمیر کرکے خرچہ کے بدلے اپنے لئے خلوبنالے اور زائد عمارت میں وہ حصہ دار بن جائے یا وہ منفعت غیر عمارت ہو مثلاً چراغ کےلئے کوئی خانہ اور اس کے لوازمات بنالے جو عمارت سے متعلق ہوں نہ کہ خاص وہ عمارت، یہ عام معنٰی اس شخص کے برخلاف ہے جو خلو کو صرف منفعت سے مختص کرتا ہے، یہ اس لئے کہ خلو دراہم کا بدل ہے خواہ وہ عمارت ہو یا کوئی اور چیز ہو۔
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب البیوع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۱۷)

(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب البیوع     دارالمعرفۃ بیروت    ۳ /۱۰)

(۱؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الاول    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۱۳۷)
Flag Counter