رسالہ
جوالُ العلوّ لتبیّن الخلو (۱۳۳۶ھ)
(مسئلہ خلو کی وضاحت کے لئے بلندی کی گردش)
مسئلہ۶۹تا۷۳: ازقصبہ لاہر پور ضلع سیتاپور بمکان سید شاہ ولایت احمد صاحب مرسلہ وجد الحسن صاحب ۲۰ذی الحجہ ۱۳۳۶ھ
(۱) اوقاف میں کسی شخص کو کچھ اراضی بطور خلو جس کا ذکر شامی ج ۴کتاب البیوع بحث خلوالحوانیت میں ہے زرپیشگی لے کر اس شرط پر دینا کہ وہ اجر مثل سال بسال اپنے زر پیشگی میں محسوب کرتارہے جائز ہے یاناجائز، اور واضح رہے کہ اس حصہ اراضی موقوفہ کا لگان سالانہ جس موقوف علیہ کے واسطے مخصوص ہے اس نےا پنی ضرورت کے واسطے زر پیشگی لیا ہے اور اسی نے زر پیشگی لینے والے سے معاملت خلو کی ہے اور اس موقوف علیہ کو اس حصہ موقوفہ پر حق متولیانہ بھی حاصل ہے۔
(۲) صاحب خلو کو یعنی جس کو ایسی اراضی دی گئی ہو اراضی کالگان یعنی اجر مثل ادا کرکے جو منافع اس اجر مثل سے زائد ہو، لینا درست ہے یانہیں؟
(۳) اگرصاحب خلو خود اپنی کاشت کرکے یا اپنی کوشش سے اجر مثل کی آمدنی سے زائد آمدنی اراضی مذکور کے
اپنے مقابضت خلو کے زمانہ میں بڑھادے تو اس اضافہ کا صاحب خلو مستحق ہے یانہیں؟
(۴) نمبر۲ونمبر۳کی صورت بظاہر رہن دخلی کی سی ہے اور رہن دخلی کا منافع سود ہے، پس خلو اور رہن دخلی میں کیافرق ہوا اور جواز خلو کی کیاصورت ہے اور نفس خلوکون سامعاملہ ہے اور اس کی کیا تعریف ہے؟
(۵) ایک وقف قدیمہ مشہور ہ خاندانی میں اہل خاندان موقوف علیہم ومتولیان نے ضرورت مصارف ضروریہ وقفی پر آمدنی وقف موجود نہ ہونے کی حالت میں اور مہاجنان سے بوجہ وقف قرضہ نہ ملنے کی وجہ سے اکثر اوقات یہ کیا کہ بعض حصص اراضیا ت وقف کو زر پیشگی لے کر زر مذکو ر دینے و الے کے قبضہ میں دے دی اور دستا ویز ٹھیکہ نامہ لکھ دی کہ اس قدر سالانہ لگان اس اراضی کاٹھیکہ دار اپنے زر پیشگی میں مجرا اور بعد وصول کل زر پیشگی مذکور ایک حصہ میعاد پر وہ اراضی صاحب خلو سے واپس ہوکر متولیان وموقوف علیہم کے قبضہ میں آگئی، اس کارروائی سے منکرین وقف عدم وقف کا استدلال کرتے ہیں، یہ استدلال صحیح ہے یانہیں اور معاملت ٹھیکہ داری مذکور معاملت خلو سے سمجھی جائے گی یا اس کے علاوہ ناجائز سمجھی جائے گی اور ان واقعات اور ارتکاب سے وقف کالعدم ہوجائےگا یا باقی رہے گا اور ایسے فعل کا مرتکب قابل تولیت رہے گا یا نہیں، اگرکسی کے مورث نے یہ فعل کیا ہو تو اس کا وارث تولیت پائے گایانہیں؟
الجواب
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم، الحمد ﷲ الذی لاخلو لشیئ من کرمہ، والصلٰوۃ والسلام علی من وقف علی الکون موائد کرمہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ المتولین اجراء حکمہ وحکمہ۔
اولاً خلوخود باطل و بے اصل ہے،مذہب حنفی بلکہ نوسوبرس تک مذاہب اربعہ میں کہیں اس کا پتا نہیں، دسویں صدی میں ایک عالم مالکی المذہب امام ناصر الدین لقانی قدس سرہ نے اسے جائز کیا، اسی صدی کے نصف آخرمیں صاحب اشباہ رحمہ اﷲ تعالٰی نے اسے برخلاف مذہب اعتبار عرف خاص پر مبنی قرار دیا، اسی صدی اور اس کے بعد کے محققین مثل شیخ الاسلام علی مقدسی وعلامہ حسن شرنبلالی وعلامہ محمد آفندی زیرک زادہ وعلامہ خیرالملۃ والدین رملی وعلامہ سید احمد حموی وغیرہم رحمہم اﷲ تعالٰی نے اسے رد فرمادیا۔
حاشیۃ الرملی علی الاشباہ میں ہے:
قولہ ویصیر الخلوفی الحانوت حقالہ الخاقول : والفتوی علی خلاف ذٰلک، مقدسی۱؎۔
اس کا قول کہ اور دکانوں میں خلو اس کا حق بن جاتا ہے الخاقول : (میں کہتا ہوں) فتوٰی اس کے خلاف ہے، مقدسی۔(ت)
(۱؎ نزہۃ النواظر علی الاشباہ والنظائر مع الاشباہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲ /۱۴)
اسی میں ہے:
قدعلمت ان الصحیح خلافہ بقولہ ان المذھب عدم اعتبار العرف الخاص۱؎۔
تو معلوم کرچکا ہے کہ صحیح اس کے خلاف ہے اس کے قول سے کہ عرف خاص کا اعتبار نہ ہونا مذہب ہے(ت)
(۱؎ نزہۃ النواظر علی الاشباہ والنظائر مع الاشباہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی(۲) ۲ /۱۵)
شرح الاشباہ لزیرک زادہ میں ہے:
العرف لایجوز ماکان محظورافی الشرع واما بیع الخلواذالم یکن ملاصقا بالحانوت فجائز شرعا فانہ حق لمالکہ وما وضعہ فی الحانوت بالاجارۃ مشروع لکن الحانوت اذاکان ملکا یملک صاحبھا خراجہ منہ اذاانقضی مدتہ المعروف وان لم تکن لہ مدۃ معلومۃ تکون الاجارۃ فاسدۃ وکذااذاکان الحانوت وقفا قد نص الفقہاء علی انہ لاتجوز الاجارۃ فیہ فوق ثلاث سنین کما فی الوقایۃ فلااعتبار للعرف سواء کان خاصا او عاما حین وجد النص فی الشرع علٰی خلافہ وقد مرمنا تحقیقہ فتذکر۲؎۔
عرف جب شرعاً ممنوع ہوتو معتبر نہیں، لیکن خلو کی بیع اگر دکانوں سے متعلق نہ ہوتو شرعاً جائز ہے کیونکہ یہ خلو مالک کا حق ہے لیکن یہ دکانوں کے اجارہ میں مشروع ہے مگر دکان اگر کسی کی ملکیت ہو تو معینہ مدت ختم ہوجانے پر مالک ہی آمدن کا حقدار ہوگا اور اگر مدت معین نہ ہوتو یہ اجارہ فاسد ہوگا اور یونہی اگر دکان وقف ہوتو بھی وہ اجارہ فاسد ہوگا کیونکہ فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ وقف کا اجارہ تین سال سے زائد جائز نہیں جیسا کہ وقایہ میں ہے، لہذا جب کوئی عرف شرعی نص کے خلاف ہو خواہ عرف عام ہو یا خاص، تو اس کا اعتبار نہ ہوگا، اس میں ہماری تحقیق گزرچکی ہے، اسے یاد کرو۔(ت)
(۲؎ شرح الاشباہ لزیرک زادہ )
اس میں اس سے ایک ورق قبل ہے:
انمایعتبر العرف والعادۃ فیما لم یرد نص الشرع علی خلافہ وسینقل فی السطر الثالث بعدھا ان الودیعۃ والعین المؤجرۃ غیر مضمونتین بحال فلایعتبر فیہ العرف بعد النص علی خلافہ من الفقہاء۳؎اھ وھذا ما اشار الیہ بقولہ وقد مرمنا تحقیقہ۔
وہی عر ف اورعادت معتبر ہے جس کے خلاف شرعی نص نہ ہو، اس کے بعد تیسری سطر میں نقل کرینگے کہ امانت اور کرایہ پر دی ہوئی عین چیز کسی حال میں مضمون نہیں ہوتی لہذا اس کے ضمان پر عرف ہوتو اس کے خلاف فقہاء کی نص ہونے کی وجہ سے یہ عرف معتبر نہیں ہوگا اھ،یہ وہ عبارت ہے جس کے متعلق انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا''اور ہماری تحقیق اس میں گزری ہے۔(ت)
(۳شرح الاشباہ لزیرک زادہ)
غمز العیون میں ہے:
(قولہ علی اعتبارہ(ای العرف الخاص) ینبغی ان یفتی بان مایقع فی بعض اسواق القاھرۃ من خلوالحوانیت لازما ویصیر الخلوحقالہ قیل علیہ کیف ینبغی ان یفتی بہ مع کونہ مخالفا لقواعد الشرع الشریفۃ انتہی وقال شیخنا (یرید العلامۃ الشرنبلالی رحمھما اﷲ تعالٰی فی رسالتہٖ ''مفیدۃ الحسنی'' بعد نقل کلام المصنف رحمہ اﷲ تعالٰی قولہ ینبغی الخ ممالاینبغی فانہ لامماثلۃ بین مااعتبرمن المسائل المبینۃ علی العرف الخاص وبین الخلو لان اعتبار العر ف الخاص علی ماقیل بہ فی جمیع تلک المسائل ضررھا التزم بہ فاعلھا مختارالنفسہ او مقتصرا فی استیفاء شرط یمنع عنہ الضرر، واماالوقف فناظرہ لایملک اتلافہ ولاتعطیلہ وقد ثبت ان المذہب عدم اعتبار العرف الخاص۱؎۔
"قولہ علی اعتبارہ" یعنی عرف خاص کے اعتبار پر، یہ فتوٰی مناسب ہوگا کہ قاہرہ کے بازاروں میں جو دکانوں کا خلو ہے وہ لا زم ہو اور خلو اس کا حق بن جائے، اس پر اعتراض ہے کہ یہ فتوٰی کیسے مناسب ہوگا جبکہ یہ شرع شریف کے قواعد کے خلاف ہے اھ، اور ہمارے شیخ( ان سے مراد علامہ شرنبلالی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ ہیں) نے اپنے رسالہ مفیدۃ الحسنٰی میں مصنف رحمہ اﷲتعالٰی کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا "قولہ ینبغی" مناسب ہے الخ، یہ غیر مناسب ہے کیونکہ عرف خاص میں معتبر مسائل جو بیان ہوئے ان میں اور خلو میں کوئی مماثلت نہیں ہے کیو نکہ عرف خاص والے تمام مسائل میں یہ اعتبار ہے کہ ان میں ضرر والی چیز کو خود فاعل نے اپنے لئے پسند کیا ہے یاضرر سے مانع شرط کو پورا کرنے میں اقتصار کیاہے لیکن وقف کا ناظم تو اس میں کسی چیز کے تلف یا معطل کرنے کا ما لک نہیں ہے اور جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عرف خاص کا اعتبار نہ کرنا مذہب ہے۔(ت)
(۱؎ غمر العیون البصائر شرح الاشباہ والنظائرمع الاشباہ الفن الاول ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۱۳۵)
اسی میں ہے:
قداشتھر نسبۃ مسئلۃ الخلؤ الٰی مذھب عالم المدینۃ مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ والحال ان لیس فیہا نص عنہ ولاعن احد من اصحابہ، حتی قال البدرالعراقی(مالکی) انہ لم یقع فی کلام الفقہاء التعرض بمسئلۃ الخلوفیما اعلم وانما فیہا فتیا للعلامۃ ناصر الدین اللقانی بناھا علی العرف۱؎الخ۔
مسئلہ خلو کی نسبت عالم مدینہ حضرت مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف مشہور ہے حالانکہ ان کی اور ان کے کسی شاگرد کی اس میں تصریح نہیں، ہے، بدر العراقی مالکی نے فرمایا ہے کہ میرے علم کے مطابق خلو کامسئلہ فقہاء کے کلام میں مذکور نہیں، اس میں صرف علا مہ ناصر الدین لقانی کا فتوٰی ہے جس کو انہوں نے عرف پر مبنی قرار دیا ہے الخ(ت)
(۱؎ غمز العیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر مع الاشباہ الفن الاول ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۱۳۷)
ردالمحتار میں ہے:
للعلامۃ الشرنبلالی رسالۃ ردفیہا علی الاشباہ بان الخلولم یقل بہ الامتأخرمن المالکیۃ (حتی افتی بصحۃ وقفہ ولزم منہ ان اوقاف المسلمین صارت للکافرین بسبب وقف خلوھا علی کنائسھم وبان عدم اخراج صاحب الحانوت لصاحب الخلویلزم منہ حجرالحر المکلف عن ملکہ واتلاف مالہ، بل لایجوز ھذا فی الوقف وفی منع الناظرمن اخراجہ تفویت نفع الوقف وتعطیل ماشرطہ الواقف اھ ملخصاقلت وماذکرہ حق خصوصا فی زماننا ھذا۲؎۔
علامہ شرنبلالی کا ایک رسالہ ہے جس میں الاشباہ کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ خلو کا قول ایک مالکی متاخر عالم کے سوا کسی نے نہیں کیا اس نے یہ فتوٰی تک دے دیا کہ اس کا وقف صحیح ہے حالانکہ اس فتوٰی سے لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کے وقف کافروں کو منتقل ہوجائیں اس سبب سے کہ وہ خلو کو اپنے گرجوں کے لئے وقف کردینگے اور دکان کا مالک جب خلووالے کو اپنی دکان سے بیدخل نہ کرسکے گا تو لازم آئے گا کہ آزاد مکلف شخص اپنی ملکیت سے ممنوع ہوجائے اور اس کا مال تلف ہوکر رہ جائے، بلکہ یہ سب کچھ وقف میں جائز نہیں ہے اور وقف کے نگران کو خلو والے کی بے دخلی سے منع کرنا وقف کے منافع کو ضائع کرنا اور واقف کی لگائی ہوئی شرط کو معطل کرنا ہے اھ ملخصاً،اقول: (میں کہتا ہوں) انہوں نے جو فرمایا ہے وہ حق ہے خصوصاً ہمارے زمانے میں۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۶)
ثانیاً صورت سوال کو خلو سے بھی کچھ علاقہ نہیں۔ خلوا س تحقیق وتنقیح پر جو بتوفیق اﷲ تعالٰی ہم نے اپنی تعلیقات ردالمحتار میں کی یہ ہے کہ مکان یا دکان یا زمین کامستاجر اپنا اجارہ ہمیشہ باقی رکھنے کو اس میں اپنے
مال سے نہ اپنے لئے بلکہ اسی شیئ مستاجر سے الحاق اور اس کی حیثیت بڑھاتے اس کے فوائد کی تکمیل کے واسطے کچھ زیادت کرے خواہ متصل باتصال قرار، یا بے اس کے جیسے عمارت یا کنواں یا روشنی کا سامان یا پانی کے نل، وامثال ذٰلک، یا خود نہ کرے مؤاجر کو اس کے روپے دے دے جو اجرت کے علاوہ ہوں اس مال کے مقابل جو اسے ابقائے اجارہ کاحق ملتا ہے اس کا نام خلو ہے۔