ان قال اشتریت منک ھذاالعین لاجل فلان فقال بعت او قال المالک بعت منک ھذاالعین لاجل فلان فقال اشتریت لایتوقف علی اجازۃ فلان لانہ وجد نفاذاعلی المشتری حیث اضیف الیہ ظاھرافلاحاجۃ الی الایقاف علی رضاالغیر وقولہ لاجل فلان یحتمل لاجل رضاہ وشفاعتہ وغیر ذٰلک۳؎۔
اگر فضولی کہے میں نے تجھ سے یہ چیز فلاں کے لئے خریدی اور بائع نے کہا میں نے فروخت کی، یا یوں کہ مالک کہے میں نے یہ چیز تجھے فلاں کے لئے فروخت کی تو یہ جواب میں کہے میں نے خریدی، تو بیع موقوف نہ ہوگی، کیونکہ جب صراحتاً خریدار پر بیع کا نفاذ کیا جارہا ہے تو اب اس کی اجازت اور رضا پر موقوف رکھنے کی ضرورت نہیں، اور بیع میں، فلاں کے لئے، کو فلاں کو سفارش پر محمول کیا جائیگا۔(ت)
(۳؎ العنایۃ مع فتح القدیر کتاب البیوع فصل فی بیع الفضولی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶ /۱۹۱)
(فتح القدیر کتاب البیوع فصل فی بیع الفضولی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶/ ۱۹۰ )
اس مسئلہ کی تحقیق بازغ وتنقیح بالغ ہمارے اسی رسالہ "عطیۃ النبی فی الشراء للاجنبی۱۳۳۶ھ" میں ہے اس تقدیر پر قاضی کے دل میں وقت شراء جماعت کےلئے خرید نے کی نیت ہونی یا قیمت مال جماعت سے ادا کرنی کچھ مانع نفاذ علی المشتری نہ ہوگا۔
درمختار میں ہے:
لواشتری لغیرہ نفذ علیہ اذا لم یضفہ الی غیرہ۱؎۔
اگرغیر کےلئے خریدی تو اس پر نافذ ہوجائیگی جب بائع نے فروخت کرنے کی غیر کی طرف نسبت نہ کی ہو(ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۱)
فتاوٰی اما م قاضی خان وخزانۃ المفتین ووجیز امام کردری میں ہے:
یقول المالک بعت ھذا منک بکذافقال الفضولی قبلت اواشتریت ونوٰی الشراء لفلان فان الشراء ینفذ علیہ ولا یتوقف۲؎۔
مالک کہے میں نے تجھے یہ چیز فلاں رقم پر فروخت کی اور جواب میں فضولی کہے میں نے قبول کی یاخریدی اور نیت فلاں غیرشخص کےلئے خریداری کی کی، تو یہ خریداری اس فلاں کیلئے نافذ ہوجائیگی اورموقوف نہ ہوگی(ت)
(۲؎فتاوٰی قاضی خان کتاب البیوع فصل فی البیع الموقوف نولکشور لکھنؤ ۲ /۳۵۱)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
لایلزم من الشراء من مال الاب ان یکون المبیع للاب۳؎۔
والد کے مال سے خریداری ہو تو یہ لازم نہیں کہ خریدی ہوئی چیز والد کی ہوگی(ت)
(۳؎ فتاوٰی خیریہ کتاب البیوع دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۱۹)
اس صورت میں اگر کتب خانہ وقف ہے تو قاضی کا کتاب خرید کر اس میں داخل کردینا وقف کرنا ہی سمجھا جائیگا کہ اس کےلئے دلالت کافی ہے تصریحاً زبان سے لفظ وقف کہنا ضرور نہیں جس طرح لوگ مسجد میں لوٹے چٹائیاں رکھ جاتے ہیں اور اگر وقف نہیں اور یہ کتابیں قاضی نے خرید کر جماعت کودے دیں تو اب ملک جماعت ہوگئیں کہ یہ دینا نہ عاریۃً تھا،نہ بالمعاوضہ، تو ہبہ قرارپائے گا اور بعد قبضہ مفید ملک ہوگا،
قال فی ردالمحتار نفذ علی المشتری فان دفع المشتری الیہ واخذ الثمن کان بیعا بالتعاطی بینھما۴؎اھ وکتبت علیہ اقول : یعنی اذا کان الدفع علی جھۃ البیع کما قید بہ فی الھدایۃ والدر المختار من الوکالۃ اما اذا دفع الیہ مجانا یکون ھبۃ کمن اشتری ثوباوقطعہ قمیصا لتلمیذہ وسلمہ الیہ ملکہ التلمیذ کما سیأتی فی الھبۃ۱؎۔
ردالمحتار میں فرمایا خریدار پر بیع نافذ ہوجائے گی تو اگر خریدار نے اس کو دے کر قیمت وصول کرلی تو یہ دونوں میں بیع بالتعاطی(عملی لین دین) ہوگی اھاقول : (میں کہتا ہوں) یہ جب ہے کہ دینا بیع کے طور پر ہو جیسا کہ اس قید کاذکر، ہدایہ اور درمختار کے وکالت کے باب میں ہے، لیکن اگر یہ دستی دینا بطور مفت ہوتو ہبہ قرار پائے گا جیسا کہ کوئی کپڑا خریدکر شاگرد کے لئے قمیص بنائے اور پھر شاگرد کے ہاتھ سونپ دے تو شاگرد مالک ہوجائیگا جیسا کہ ہبہ کے باب میں آئے گا۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب البیوع فصل فی الفضولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۳۷)
(۱؎ جدالممتار حاشیۃ ردالمحتار )
اقول: مگر یہ اس وقت ہے کہ قاضی جانے کہ یہ شراء مجھ پر نافذ اور کتاب کا مالک میں ہواہوں ورنہ غلط فہمی کی حالت میں اس کا اپنی ملک سے اخراج کا قصد متحقق نہیں ہوسکتا کہ اپنے آپ کو مالک ہی نہ سمجھا تھا،
ولاعبرۃ بالظن البین خطؤہ ۲؎اشباہ ومن رفع شیئا ظانا انہ علیہ ثم بان انہ لم یکن علیہ یستردہ۳؎کما افادہ فی الخیریۃ والعقود الدریۃ۔
گمان کاغلط ہونا واضح ہوتو اس کا اعتبار نہیں، اشباہ، اور کسی نے کوئی چیز اس گمان سے دی کہ اس کے ذمہ ادائیگی ضرور تھی، پھر معلوم ہوا کہ ایسا نہیں تھا تواس کو واپس لینے کا حق ہے جیسا کہ خیریہ اورعقوددریہ نے یہ فائدہ بیان کیا۔(ت)
( ۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۱۹۳)
(۳؎ العقودالدریۃ کتاب الشرکۃ ۱/ ۱۹ وکتاب المداینات ۲ /۳۴۹)
قنیہ وہندیہ میں ہے:
ینبغی ان یحفظ ھذافقد ابتلی بہ العامۃ والخاصۃ یستعینون بالناس فی الاحتطاب والاحتشاش فیثبت الملک للاعوان فیہا ولایعلم الکل بھا فینفقونھا قبل الاستیہاب بطریقہ او الاذن فیجب علیہم مثلھا اوقیمتھا وھم لایشعرون۳؎اھ وعدم الاذن فیما ذکر وان کان لنا فیہ کلام بیناہ فی رسالتنا''عطاء النبی لافاضۃ احکام ماء الصبی۱۳۳۴ھ'' لکنہ لایجدی ھھنا لان الاذن یطلق التصرف ویسقط الضمان لکن لایسقط ملک المالک وفیہ الکلام ھنا۔
ا س فائدہ کو یادرکھنا چاہئے،لوگ عام وخاص اس میں مبتلا ہیں کہ لوگوں سے لکڑی اور گھاس وغیرہ کاٹنے میں مددلیتے ہیں حالانکہ مدد کرنے والوں کی ان چیزوں میں ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور لوگوں کو علم نہ ہونے کی بناپر وہ مدد گار کی ان چیزوں کا ہبہ اور اجازت حاصل کئے بغیر صرف کرلیتے ہیں تو ان پر ان چیزوں یا ان کی قیمت کا واپس کرنا لازم ہوتا ہے حالانکہ ان کو اس کا علم تک نہیں ہوتا اھ، متذکرہ صورت میں اجازت نہ ہونا، اگرچہ ہمیں اس میں کلام ہے جس کو ہم نے اپنے رسالہ''عطاء النبی لافاضۃ احکام ماء الصبی'' میں بیان کیا ہے لیکن یہاں اس کا فائدہ نہیں، کیونکہ اجازت تصرف کو جائز اور ضمان کو ساقط کرتا ہے لیکن مالک کی ملکیت کو ختم نہیں کرتی جبکہ یہاں کلام اسی میں ہے(ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیۃ ،کتاب الاجارۃ ،الباب السادس ،نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۴۵۱)
اسی طرح اگر قاضی نے جماعت کو نہ دیں بلکہ کتب خانہ غیر وقفی میں آپ داخل کردیں اگرچہ اپنی ملک بھی جانتا ہو جب بھی اس کی ملک سے خارج نہ ہوں گی پرائے مال میں اپنا مال رکھ دینا ملک زائل نہیں کرتا، بالجملہ صرف یہ دو صورتیں ایسی نکلیں گی جن میں بعض کتب خریدہ قاضی ملک قاضی میں رہیں مگر ازانجا کہ ثمن دوسرے کے مال سے دیا ہے اس کا تاوان ذمہ قاضی رہا جن کتابوں کی نسبت یہ صورت ثابت ہو وارثان قاضی انہیں لیں اور جو قیمت ان کی قاضی نے قومی پیسے یادار القضا کی آمد سے ادا کی وہ واپس دیں
ھذا ماظہرلی والعلم بالحق عندربی
(مجھے یہ معلوم ہوا ہے جبکہ حقیقی علم میرے رب کے ہاں ہے۔ت)