مسئلہ۶۷: مرسلہ چودھری رشید الدین صاحب اشرف صاحب تعلقدار وآنریری مجسٹریٹ ازبیار ضلع بارہ بنکی
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ قاضی امیر اشرف صاحب مرحوم نے وفات پائی ان کے کاغذات سے ایک تحریر برآمد ہوئی جس کی نقل مطابق اصل شامل استفتاء ہذا ہے جو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی نہیں ہے مگر جا بجا اس کے حواشی وغیرہ پر عبارت ان کے قلم کی لکھی ہوئی ہے آیا اس تحریر پر عملدرآمد شرعاًہوسکتا ہے یانہیں؟یہ وقف سمجھاجائے گا یا وصیت؟اور اس کی پابندی ہر دو طریق سے کسی طریق پرورثاء کے ذمہ لازم ہے یانہیں؟بینواتوجروا
الجواب
یہ نہ وقف ہے نہ وصیت، نہ کوئی شئے، نہ اسکی پابندی اصلاً کسی طرح وارث خواہ غیر پر کچھ لازم، یہ ایک وقفنامہ نامکمل کاخاکہ ہے جو نہ قلم مورث سے ہے نہ دستاویزوں کے عنوان معروف(میں کہ فلاں بن فلاں الخ) سے اس کی ابتدا، نہ اس پر کوئی شہادت، ایسا کاغذ ایک ردی پرچے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا، خصوصاً اس کا ختم اس پر ہے کہ لہذا وقفنامہ ہذا کو تکمیل ورجسٹری کرائے دیتا ہوں تاکہ سند رہے اور وقت پر کام آئے، فقط۔ زیادہ سے زیادہ یہ گمان ہوسکتا ہے کہ مورث نے وقف کا قصد کیا اور کسی شخص سے اس کا مسودہ کرایا اور اس میں خودترمیم کی پھر، رائے نہ ہوئی اور اسے موقوف رکھا ولہذا تکمیل نہ کی، نہ رجسٹری کرائی۔ یہ اگر ہو بھی تو اس قدر سے کچھ نہیں ہوتا کہ ایک ارادہ تھا جو ہوکر رہ گیا، یہ بھی بفرض تسلیم ہے ورنہ ثابت اس قدر بھی نہیں کہ یہ کاغذ مورث نے لکھوایا یا مورث کی رائے سے لکھا گیا، حواشی پر قلم مورث سے کچھ لکھا معلوم ہونا کوئی دلیل نہیں خط خط کے مشابہ ہوتا ہے، بہرحال وہ ایک مہمل کاغذ ہے جس کا کچھ اثر نہیں،
اشباہ والنظائر میں ہے:
لایعتمدعلی الخط ولایعمل بمکتوب الوقف الذی علیہ خطوط القضاۃ الماضین۱؎۔
خط پر اعتماد نہ کیاجائے اور وقف نامہ جو گزشتہ قاضی حضرات کے اس پر خطوط لکھے ہوئے ہیں ان پر عمل نہ کیا جائے گا۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر کتاب القضاء والشہادات الخ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱ /۳۳۸)
عقودالدریہ میں ہے:
کتاب الوقف انما ھو کاغذبہ خط وھو لایعتمد علیہ ولایعمل بہ کما صرح بہ کثیر من علمائنا۲؎۔
وقف کی کتاب، وہ ایک کاغذ ہے اس پر خط ہے جو قابل اعتماد نہیں اور نہ اس پر عمل جائز ہے جیسا کہ ہمارے اکثرعلماء نے اس پر تصریح کی ہے(ت)
(۲؎ العقودالدریۃ فی تنقیح الحامدیۃ، کتاب الوقف ۱ /۱۱۰ وکتاب الدعوٰی ارگ بازار قندھار ۲ /۲۰)
ردالمحتار میں ہے:
اذاکان مصدرامعنونًا فکالنطق اذااعترف ان الخط خطہ بخلاف مااذا لم یکن مصدرا معنونا وھذا ذکروہ فی الاخرس وذکر فی الکفایۃ اٰخر الکتاب عن الشامی ان الصحیح مثل الاخرس فاذاکان مستبینا مرسوما وثبت ذٰلک باقرارہ او ببینۃ فھو کالخطاب اھ والمعنون لحاضراذاکتب علی وجہ الصکوک یقول فلان الفلانی۱؎الخ اھ ملتقطا واﷲتعالٰی اعلم۔
جب ابتداء میں عنوان قائم کیا گیا ہوتو پھر زبانی گفتگو کی طرح ہوگا جب یہ اعتراف بھی ہو کہ یہ میر اخط ہے
بخلاف اس کے کہ وہ عنوان سے شروع نہ کیا ہو، اس کو انہوں نے گونگے کے متعلق ذکرکیا ہے، اور کفایہ میں کتاب الوقف کے آخر میں علامہ شامی سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا کہ صحیح بھی گونگے کی طرح ہے کہ جب اس کی تحریر واضح ہواور معنون لکھی گئی ہو اور اسکے اقرار یا گواہی سے ثابت ہوتو وہ خطاب کی طرح ہے اھ، معنون کسی مخاطب کے نام ہو اور چیک کی لکھائی ہو اور یوں لکھے فلاں جوفلاں ہے،الخ اھ ملتقطا، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب کتاب القاضی الٰی القاضی وغیرہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۵۳)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم حامد اومصلیا
ماقولکم ایھا العلماء الکرام
(اے علمائے کرام! آپ کا کیافرمان ہے کہ۔ت) قاضی شریف عبداللطیف صاحب مرحوم مغفور ۱۸۵۰ء میں بمقام شولاپور منجانب حکومت مفتی مقرر کئے گئے ۱۸۵۶ء میں بمقام رتنا گری اسی عہدہ پر منتقل ہوگئے اسی عرصہ میں محکمہ افتا ءکے لئے کتابوں کا ذخیرہ جماعت المسلمین کی جانب سے مہیا کردیا گیا من بعد ۱۸۶۴ء میں گورنمنٹ نے عہدہ مفتی موقوف کرکے صاحب موصوف کی پنشن مقرر کردی جوان کے حین حیات تک جاری رہی۱۸۶۶ء میں بمبئی کے جماعت المسلمین کے اہل حل وعقد ورؤسا نے بالاتفاق ان ذات ستو دہ صفات کو عہدہ قضا سپردکیا، کتب خانہ محکمہ افتاء رتنا گری بھی وہاں کے اکابر واصاغر مسلمین کی اجازت سے بمبئی منتقل ہوگیا بلکہ یہاں کے بزرگان اسلام نے اس کی مزید تکمیل فرمائی، آج تک وہ کتب خانہ عطیہ قوم دار القضا کے متعلق سمجھا جاتا ہے اس صورت سے کہ جو شخص مسند قضا پر متمکن ہوتا ہے اس کے قبض وتصرف اور نگرانی میں بطور امانت رہتا ہے، قاضی کو اس میں کسی قسم کی کمی کرنے یا کسی کتاب کے فروخت کرنے کا اختیار نہیں ہے، البتہ حسب ضرورت قومی پیسہ سے یا محکمہ قضاء کی آمد سے اضافہ کرسکتے بلکہ کرتے رہتے ہیں، قاضی شریف عبداللطیف مرحوم ومغفور کے رحلت فرمانے کے بعد ان کا تمام ترکہ ورثہ میں تقسیم ہوا مگر کتب خانہ منجملہ عطا یائے قوم مخصوص برائے مسند قضا ناقابل التقسیم قرار دیا گیا قاضی صاحب مرحوم کے بعد ان کے چھوٹے صاحبزادے جناب شریف محمد صالح صاحب حسب استرضائے ارباب حل وعقد جماعت المسلمین بمبئی قضاء پر متمکن ہوئے اور کتب خانہ ان کی نگرانی میں رہا، ۱۳۳۶ھ میں انہوں نے بھی رحلت فرمائی اور بجائے ان کے جناب شریف عبداللطیف صاحب(ان کے فرزنداکبر) کے سپرد محکمہ قضا اور اس کے متعلق کتب خانہ کیا گیا، پس دریافت طلب صرف یہ امر ہے کہ یہ کتب خانہ جو دارالقضاکے متعلق ہے اور عطیہ قوم وہ بھی مثل دیگر مال متروکہ کے ورثہ میں تقسیم ہوگا یا حسب دستور سابق محفوظ ومامون ان قاضی صاحب کے پاس رہے گا جو فی الحال خدمت قضاانجام دے رہے ہیں۔
الجواب
جبکہ وہ کتابیں جماعت مسلمین محکمہ افتاء یا دارالقضا کے لئے جمع کیں قاضی کو ان کا مالک نہ کیا جیسا کہ تعامل مذکور سوال سے واضح ہے تو ورثہ قاضی کے ان میں کوئی حق وراثت نہیں اگر جماعت نے وقف کیں توظاہراور نہ کیں تو ملک جماعت ہیں یا نفاذ شراء علی المشتری کی صورت میں ملک مشتری اور وہ زرجماعت کاضامن ہے بہر حال ملک قاضی نہیں، غیر قاضی نے جو کتابیں جماعت کے لئے خریدیں ان میں نفاذ علی المشتری کی صورت یہاں نادر ہے ہم نے اپنے فتاوٰی کتاب الوقف میں مبین کیا ہے کہ زرِ چندہ چندہ دہندوں کی ملک پر رہتا ہے اور ان کی اجازت سے صرف ہوتا ہے خریداری کتب اگر اہل جماعت نے خود نہ کی تو معہودیہ ہے کہ دوسرا ان کے امر سے کرتا ہے ثمن ان کے روپے سے ادا کیاجا تا ہے جو انہوں نے خریداری کے لئے پہلے دے دیا بعد خریداری اداکیااس صورت میں اس مشتری کے مالک کتب ہونے کےلئے یہ درکار کہ:
اولاً جماعت نے اسے کسی کتاب معین مشخص کے شراء کاوکیل نہ کیا ہو، یعنی کسی جلد خاص کی نسبت کہ بعینہ یہ جلد خرید دے(یہ کہنا کہ ہدایہ یا فلاں مطبع کی ہدایہ یا فلان دکان سے مصری چھاپے کی ہدایہ یہ شے معین کے لئے توکیل نہیں جبکہ اس دکان پر مصری طبع کے متعدد نسخے ہدایہ ہوں) کہ اس صورت میں وہ غیبت جماعت میں اسے اپنے لئے خرید ہی نہیں سکتا،
حیث لم یکن مخالفا دفعا للغرر درمختار۱؎، وبین المخالفۃ فی البحر، ولان فیہ عزل نفسہ فلایملکہ علی ماقیل الابمحضرمن الموکل۲؎ردالمحتار عن الباقانی عن الھدایۃ۔
جب مخالف نہ ہو، تاکہ دھوکا کا احتمال نہ ہو، درمختار، اور مخالفت کو بحر میں بیان کیا، اور اس لئے کہ اس میں اپنے آپ کو معزول ہونا ہے جس کا وہ اپنے موکل کی حاضری کے بغیر مالک نہیں، ردالمحتار نے باقانی سے بحوالہ ہدایہ نقل کیا۔
(۱؎ درمختار باب الوکالۃ بالبیع والشراء مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۰۵)
(۲؎ ردالمحتار باب الوکالۃ بالبیع والشراء داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۰۴)
ثانیاً عقد ایجاب میں جماعت کی طرف مضاف نہ ہو مثلاً اس نے بائع سے کہا یہ کتاب میں نے تجھ سے جماعت
کی طرف سے خریدی اس نے کہا میں نے بیچی یا اس نے کہا میں نے یہ کتاب جماعت کے ہاتھ بیع کی اس نے کہا میں نے خریدی کہ اس صورت میں نفس عقد جماعت ہی کے لئے ہوگا اور مشتری پر نافذ نہیں ہوسکتا۔
علی ماحققنا صورۃ بتفا صیلھا فی کتاب البیوع من فتاوٰنا فی تحریر حافل کامل سمیناہ "عطیۃ النبی فی الاشتراء للاجنبی" بمالایوجد فی غیرہ وباﷲ التوفیق۔
جو ہم نے اپنے فتاوٰی کی کتاب البیوع میں اس کی تفصیلی صورتوں کی تحقیق کی ہے وہ جامع کامل تحریر ہے ہم نے اس کا نام''عطیۃ النبی فی الاشتراء للاجنبی''رکھا ہے، یہ تحقیق اس کے غیر میں نہیں ملے گی، اور توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے(ت)
ثالثاً :عقد کو مال جماعت کی طرف بھی مضاف نہ کرے فقط جماعت کا روپیہ دکھا کر کہا اس روپے کی فلاں فلاں کتاب تجھ سے خریدی۔
رابعاً : خریداری میں جماعت کےلئے خرید نے کی نیت نہ کرے ورنہ وہ دیانۃً علی الاطلاق جماعت ہی کےلئے ہے۔
خامساً : قیمت میں مال جماعت نہ دے ورنہ وہ جماعت ہی کےلئے ٹھہریں گی اگرچہ اپنے لئے خریداری کی نیت بتائے،
وتفصیلہ ذٰلک فی البحر ولخصناہ فی جدالممتار بقولی وبالجملۃ اذاکان وکیلاً بشراء شیئ لابعینہ فالاضافۃ قاضیۃ فان لم توجد فالنیۃ فان لم توجد فللعاقد عند محمد ان سلم الاٰمر ایضا عدم النیۃ وان قابل بل نوی لی حکّم النفقد کما لوتخالفا فیہا وعند ابی یوسف یحکم النقد فی الوجھین وھو الراجح قدمہ قاضیخان واٰخر دلیلہ فی الھدایۃ فتحصل ان الحکم للاضافۃ فان لم توجد فللنیۃ فان لم توجد اوتکاذبا فیہا فللنقد۱؎،واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس کی تفصیل بحر میں ہے، ہم نے جدالممتار میں اپنے اس قول کے ساتھ اس کی تلخیص کی ہے کہ خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی غیر معین چیز کی خریداری کا وکیل ہوتو وہاں نسبت فیصل بنے گی اگر نسبت نہ ہوتوپھر نیت پر فیصلہ ہو گا اگر نیت بھی نہ ہو تو پھر خریدار کی نیت معتبر ہے جب آمر تسلیم کرلے کہ میرے لئے نیت نہ تھی اور اگر کہے خریدا ر وکیل نے میرے لئے نیت کرکے خریدا ہے تو صرف ایسی صورت میں امام محمد کے ہاں مروج سکے پر فیصلہ ہوگااور امام ابویوسف رحمہمااﷲتعالٰی کے ہاں دونوں صورتوں میں سکے کو فیصل قرار دیا جائے گا اور یہی راجح ہے، قاضی خاں نے اسے پہلے ذکر کیا اور ہدایہ میں اسکی دلیل کو بعدمیں ذکر فرمایا۔ تو حاصل یہ ہوا کہ اضافت پر حکم ہوگا ورنہ نیت پر، اگر نیت نہ ہو یا دونوں اختلاف کریں تو پھرنقد پر فیصلہ ہوگا۔واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ جدالممتار حاشیہ ردالمحتار)
یہاں اگرچہ نفاذعلی المشتری سے تین مانع اول کثیر الوقوع نہیں مگر خامس ہی غالب ہے اور کتابیں لاکر سپردجماعت یا داخل کتب خانہ افتاء وقضاء کرنا رابع پر شاہد۔ یونہی وہ کتابیں کہ قاضی نے قومی پیسے یاآمدنی دار القضاء سے خریدیں یہاں بھی ظاہر عبارت سوال یہ ہے کہ قاضی نے اپنے مال سے نہ خریدیں اگرچہ اس کی تنخواہ بھی اسی پیسے یا آمدنی سے ہوتی ہومگر عبارت اس سے ساکت ہے کہ قاضی کا شراء بھی بامرجماعت تھایا بطور خود۔ اگر صورت اولٰی ہے کہ قاضی نے اس مال سے کتابیں بامرجماعت خرید کر داخل کتب خانہ مذکورہ کیں تو ان کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ وقف یا ملک جماعت ہوئیں کہ اب قاضی وہ مشتری ہے جس میں وجہ رابع وخامس مانع تملک ہیں، اور اگر صورت ثانیہ ہے تو اب مانع نفاذ صرف وقت ایجاب بیع میں اضافت بجماعت ہونا ہے وبس۔ اگر یہ اضافت نہ ہو تو ایجاب میں مشتری کی طرف اضافت صراحۃً دلالۃً سے چارہ نہیں ورنہ بیع ہی نہ ہوگی،
تجنیس ناصری وتاتارخانیہ وہندیہ میں ہے:
لوقال من فر وختم ایں بندہ بہزاردرم توخریدی فقال مجیبا لہ خریدم تم البیع، اما لوقال من فروختم ایں بندہ را بہز ار درم فقال المشتری خریدم ولم یزد علی ھذا لایکون بیعا لعدم الاضافۃ۱؎اھاقول : ای اذا لم تجربینہما المساومۃ والاکفی بھادلالۃ کقولہ ھٰھنا توخریدی فانہ ایضالیس باضافۃ فی الایجاب انما فیہ دلالۃ علیہا وذٰلک اعنی الاکتفاء بدلالۃ الاستیام کما فی تجنیس الامام صاحب الھدایۃ ثم الفتح لو قال لاٰخر بعد ماجری بینھما مقدمات البیع بعت ھذا بالف ولم یقل منک وقال الاٰخر اشتریت صح ولزم اھ۱؎۔
اگر کہا میں یہ غلام ہزار درم میں فروخت کرتا ہوں تو خرید یگا تو دوسرے نے جواب میں کہا میں نے خریدا تو بیع تام ہوجائے گی۔ لیکن اگر یوں کہا میں یہ غلام ہزار درم میں فروخت کرتا ہوں تو دوسرے نے کہا میں نے خرید ا، اور اس پر کوئی زائد بات نہ کی تو بیع نہ ہو گی کیونکہ اس صورت میں خرید نے کی نسبت اس غلام کی طرف نہ ہوئی اھاقول : (میں کہتا ہوں) یہ اس صورت میں ہے کہ جب پہلے اس غلام کے متعلق سودے کا ذکر نہ ہو، ورنہ یہی نسبت کافی ہے جو دلالۃً موجود ہے جیسا کہ یہاں بھی ایجاب یعنی''توخریدی'' میں نسبت مذکور نہیں اس میں صرف دلالۃً نسبت ہے، اور یہ یعنی بھاؤلگانا نسبت کےلئے کافی ہے جیساکہ صاحب ہدایہ سے تجنیس میں پھر فتح میں ہے کہ ایک نے دوسرے کو کہا میں نے یہ ہزار میں فروخت کیا اور''تجھ سے'' نہ کہا، اور دوسرے نے کہا میں نے خریدا، جبکہ دونوں میں پہلے بیع کے مقدمات (بھاؤ وغیرہ) ہوچکے ہوں تو بیع صحیح اور لازم ہوجائے گی اھ(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب البیوع الباب الثانی نورانی کتب خانہ کراچی ۳ /۵)
(۱؎ فتح القدیر کتاب البیوع مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵ /۴۵۹)
او رجب ایجاب میں مشتری غیر مامور کی طرف اضافت ہے اگرچہ اسی قدرکہ اول قول اسی نےکیا تو بیع اسی کے حق میں نافذ ہوگئی
لان الشراء متی وجد نفاذ اًعلی المشتری نفذ
(کیونکہ جب خریداری شیئ پر نافذ کرتے پائی جائے تو وہ مشتری پر نافذ ہوجاتی ہے۔ت) عام ازیں کہ قبول میں بھی اسی مشتری کی طرف اضافت ہو مثلاً بائع کہے میں نے تیرے ہاتھ بیع کیں یا یہ کہے میں نے اپنے لئے خریدیں یا پہلے یہ کہے پھر وہ خواہ قبول میں کسی طرف اضافت نہ ہو، مثلاً بائع کہے میں نے تیرے ہاتھ بیچیں یہ کہے میں نے لیں یا قبول کیں، یا کہے میں نے اپنے لئے خریدیں وہ کہے میں نے دیں یا بیچیں خواہ قبول میں جماعت کی طرف اضافت محتملہ قابل تاویل ہو جوعقد کو جماعت کے حق میں متعین نہ کردے کہ اس صورت میں بوجہ اختلاف ایجاب وقبول بیع ہی باطل ہوگی جیسے وہ کہے میں نے تیرے ہاتھ بیع کیں یہ کہے میں نے جماعت کی طرف سے قبول کیں،
اگر فضولی نے کہا یہ میں نے فلاں کے لئے خریدا، اوربائع نے کہا میں نے تجھے فروخت کیا، تو صحیح یہ ہے کہ بیع باطل ہوگی۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیوع فصل فی البیع الموقوف نولکشور لکھنؤ ۲ /۳۵۱)
بلکہ صورت یہ ہو کہ مثلاً وہ کہے میں نے تیرے ہاتھ بیچیں، یہ اس نے ایجاباً کہا، اب یہ قبول میں کہے میں نے جماعت کے واسطے خریدیں کہ واسطہ لحاظ وخاطر وتمتع بہت معانی کو محتمل ہے۔