مسئلہ ۶۲:ازضلع بجنور موضع چاند پور مسئولہ محمد قطب الدین ۹ربیع الاول شریف ۱۳۳۴ھ
مخدوم مکرم ومعظم دام ظلکم السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ۔
آبادی قصبہ چاند پور میں موازی ۶بسوائے یعنی( للعہ مہ) گز کل اراضی نمبری خسرہ ۲۴۸۲واقع محلہ کوئلہ موقوفہ تھی اس پر ایک دکان بنی ہوئی تھی اس کی آمدنی صرف مسجد میں آتی تھی چنانچہ بندوبست دہم یعنی ۱۸۶۷ء یا ۱۲۷۴ف میں دکان مذکورہ بخانہ مالک زمین ومالک مکان (موقوفہ) تحریر ہے اس کے کیفیت میں(دکان تصرف مسجد) تحریر ہے اس کے منتظم مولوی مجتبٰی حسن صاحب دیوبندی ساکن چاند پور تھے دکان منہدم ہوگئی اس پر ایک سہ دری بنائی گئی جو قیام مسافران اور درس گاہ کے کام آتی رہی اور مہتمم بدستور مولوی صاحب موصوف رہے اب اس سال سے مولوی صاحب مذکورنے اس کے اوپر ایک بالاخانہ تعمیر کرلیا اس کو زنانہ مکان کرلیا بیچ کا سابقہ حصہ یعنی سہ دری اپنی نشست گاہ خاص بنالی، اﷲ اﷲخیرصلّا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں ہم مکان کے مالک ہیں ہمارا تعمیر کردہ ہے تمادی بارہ سال عارضی ہے وغیرہ وغیرہ اور سب چیزیں خداکی ملکیت میں اور ہم اس کے بندے ہیں، رضامندی سے وہ چھوڑنے پر رضامند نہیں ہوتے، مجبوراً عدالتانہ کارروائی کرنا ہوگی چونکہ مولوی صاحب موصوف اور ان کے بھائی مولوی مرتضٰی حسن صاحب سب مولوی ہیں(مولوی عالم فاضل ہیں) سب لوگ ان کا ادب کرتے ہیں بچتے ہیں کوئی دعوٰی کرنے یا مدعی بننے پر رضامند نہیں ہوتا، یہاں ہم صرف دو آدمی حق کی حمایت کرسکتے ہیں، البتہ واقعات کے بابت شہادت دے سکتے ہیں، اگر ان کومدعی بنالیا جائے تو گواہ کون رہے سوائے اس کے نالش ہونے پر لوگوں سے توقع ہوسکتی ہے، بالفعل یہ خیال ہے کہ مولوی پر ہاتھ ڈالنا گناہ کبیرہ ہے، حتی کہ مولوی عبدالواسع صاحب ومیر سجاد حسین صاحب وکلا بجنور وکیل بننے سے گریز کرتے ہیں اس قحط الرجال میں آپ پر نظر دوڑتی ہے اور گزارش کیا جاتا ہے کہ ہم کو کیا کارروائی کرنا چاہئے اوراس صورت میں شرع شریف کا کیا حکم ہے اور اگر آپ کانام نامی بھی زمرہ مدعیان میں شامل کردیا جائے تو نامناسب تو نہیں ہے؟یا کسی اور شخص کالکھا جائے؟جیسی رائے عالی ہو کیا جائے، جواب بواپسی ڈاک مرحمت ہو، فقط۔
الجواب
بحمد اﷲتعالٰی میں حکم شرعی جانتا ہوں اور وہی بتاسکتا ہوں قانون سے نہ مجھے واقفیت نہ اس کا مشورہ دے سکتا ہوں، وقف میں تصرف مالکانہ حرام ہے اور متولی جب ایسا کرے تو فرض ہے کہ اسے نکال دیں اگرچہ خود واقف ہوچہ جائے دیگر۔
لازماً معزول کیا جائے اگرچہ واقف ہی ہو،درر۔تو بطریق اولٰی غیر کو اگر وہ معتمد علیہ نہیں، بزازیہ۔(ت)
(۱؎ درمختارکتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی۱ /۳۸۳)
اور وقف کا مدعی ہر مسلمان ہوسکتا ہے او جو مدعی ہو وہی شاہد ہوسکتا ہے
لانہ لایحتاج الی الدعوی
(کیونکہ دعوی کی ضرورت نہیں۔ت) وہاں کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وقف کو ظلم سے نجات دلائیں۔ دیوبندی عالم دین نہیں ان کے اقوال پر مطلع ہو کر انہیں عالم دین سمجھنا خود کفر ہے، علمائے حرمین شریفین نے انہیں لوگوں کے لئے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر۲؎۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تووہ کافرہوا۔(ت)
(۲؎ حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص۱۳)
اور بالفرض کوئی عالم بھی ہوتو اس کا ادب اس کامقتضی نہیں ہوسکتا ہے کہ وقف اس کے دستبردظالمانہ میں چھوڑ دیاجائے اگرچہ عالم ہے مگروقف پرظالم ہے اوراس کی تخلیص فرض۔ یہ بہت اچھا عذر ہے کہ سب ملک خدا ہے اور ہم اس کے بندہ، کیا ایسا کہنے والا اپنے املاک اور اپنے ابل میں بھی ان کے لئے یہی گمان کرے گا کہ یہ سب ملک خدا ہیں اور وہ خدا کے بندے، یہ خاصہ اباحیہ کا مذہب ہے، فقیر کچہری کی لیاقت نہیں رکھتا اس سے معاف فرمایا جائے اور ہزاروں مسلمان مدعی ہوسکتے ہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۳:مسئولہ مرد مان عامہ موضع باجری تحصیل کہڑ واڑ ضلع انبالہ بتوسط الہ بخش درزی ساکن باجری ۲۳جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت بیوہ نے اپنی تمام اشیاء جس میں منجملہ دیگر اشیاء کے ایک سکنی مکان بھی ہے مسجد کے نام پر خدا کے واسطے وقف کردیا اور سند کے لئے ایک کاغذ پر چند معززبرادران رشتہ کے دستخط کرو اکر ایک کاغذ بنالیا اور یہ کام کرکے وہ عورت ایک دوسرے موضع میں اپنی لڑکی کے گھر پر جارہی اور اس کے چلے جانے کے بعد میں اس عورت کے قریبی رشتہ والوں نے اس وقف شدہ مکان کی بابت فساد شروع کردیا کہ ہم یہ مکان مسجد کے نام نہیں دیں گے حالانکہ بیوہ کے کوئی اولاد ذکور میں سے صاحب حق نہیں ہے اور وہ اپنے مال وجائداد کی بلااشتراک غیرے خاوند کے مرنے کے بعد خود مختار مالک تھی، لہذا اب دریافت امر خاص یہ ہے کہ آیا کوئی شخص بیوہ کی مرضی کے خلاف کچھ کاروائی کرسکتا ہے؟اور اگر کرسکتا ہے تو کس صورت سے؟ورنہ ایسے بددیانت اشخاص کی کیا شرعی تعزیز ہے؟فقط
الجواب
جوشے اﷲعزوجل کےلئے وقف ہوگئی اس میں کسی کو دعوی نہیں پہنچتا، یہاں سوال سے ظاہر یہ ہے کہ عورت نے اپنی حالت صحت میں یہ وقف کیا تو اب کسی رشتہ دار کا اس میں مزاحمت کرنا محض ظلم ونامسموع ہے اور یہاں کوئی کسی کو تعزیر نہیں دے سکتا، بڑی تعزیر یہ ہے کہ جس سے بات واقع ہومسلمان اسے چھوڑدیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۴: ازشہر جیت پور ملک کاٹھیاوار چھوٹی چوک مسئولہ حاجی امداداحمد حامد متولی جمعہ مسجد
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں کا طریقہ ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے یا فوت ہوتا ہے تو اس کی جانب سے اس کے عزیز ایک یا چند قرآن پاک مسجد میں بھیجتے ہیں اس نیت سے کہ لوگ پڑھیں تاکہ ہم کو ثواب ملے،اب چونکہ جامع مسجد میں وہ بکثرت جمع ہوگئے اور بیکار رکھے ہیں جن کا انجام سوائے گلنے اور بوسیدہ ہونے کے کچھ نہیں ہے کیونکہ پڑھنے والے چند اور قرآن بکثرت جمع، تو ان کو ہدیہ کرکے وہ پیسہ مسجد کے صرف میں لاسکتے ہیں یانہیں، مسجد سے ملحق ایک مدرسہ قرآن ہے اور نیز شہر میں بھی قرآن کے مدرسے ہیں ان میں ان قرآنوں کو متولی بھیج سکتاہے یانہیں نیز اگر اس شہر کے مدارس سے بچ رہیں تو دوسرے شہر کے مدارس میں بھیجے جاسکتے ہیں یانہیں؟
الجواب
اگر اس بھیجنے سے مصحف شریف اس مسجد پر وقف کرنا مقصود نہیں ہوتا جب تو بھیجنے والوں کو اختیار ہے وہ مصاحف ان کی ملک میں باقی ہیں جو وہ چاہیں کریں اور اگر مسجد پر وقف مقصود ہے تو اس میں اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں اسے دوسری مسجد بھیج سکتے ہیں یانہیں، جب حالت وہ ہو جوسوال مذکور میں ہے اور تقسیم کی ضرورت سمجھی جائے تو قولِ جواز پرعمل کرکے دوسری مساجد ومدارس پر تقسیم کرسکتے ہیں اس شہر کی حاجت سے زائد ہو تودوسرے شہر کو بھی بھیج سکتے ہیں مگر انہیں ہدیہ کرکے، ان کی قیمت مسجد میں نہیں صرف کرسکتے۔
درمختار میں ہے:
وقف مصحفا علی المسجد جاز ویقرأ فیہ ولایکون محصورا علی ھذاالمسجد۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسجد کے نام قرآن کاوقف جائز ہے وہاں اس کی تلاوت کی جائے لیکن وہ اس مسجد کے لئے پابند نہیں ہوگا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۱۔۳۸۰)
مسئلہ۶۵: مسئولہ عبداﷲلوہار مقام چندوسی ضلع مراد آباد محلہ سنبھل دروازہ ۱۹جمادی الآخر ۱۳۳۹ھ
چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ،
ایک باغ( اعگہ) کے دو بھائی مسمیان خواجہ بخش وعظیم مالک تھے اور دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی، عظیم بخش نے ایک بھتیجا لے لیا تھا مسمی حسین، اور اس نے نصف باغ کا داخل خارج کاغذات سرکاری میں کرادیا عرصہ تیس سال کا ہوااور اب تک اسی کے نام داخل خارج چلاآتا ہے اب دوسرے بھائی خواجہ بخش نے بھی باغ بیت اﷲ شریف کے جاتے وقت فی سبیل اﷲ وقف کردیاتھا جبکہ عظیم بخش کا انتقال ہوگیا تھا ایسی صورت میں حصہ بھتیجا حسین کو پہنچ سکتا ہے یا بھائی مالک ہے؟بینواتوجروا
الجواب
بیان سائل سے معلوم ہوا کہ وہ نصف باغ بلاتقسیم عظیم بخش نے بھتیجے کے نام ہبہ کردیا تھا اور عظیم بخش نے اپنے انتقال کے بعد بھائی کے سوا کوئی وارث نہ چھوڑا تو وہ ہبہ جو بھتیجے کے نام تھا عظیم بخش کی موت سے باطل ہوگیا ۔
درمختار موانع رجوع میں ہے:
المیم موت احد المتعاقدین بعد التسلیم فلوقبلہ بطل۲؎۔
قبضہ دے دینے کے بعد عاقدین میں سے کسی کا فوت ہوجانا، تو اگر قبضہ دینے سے پہلے فوت ہوتو عقد باطل ہوگا۔(ت)
(۲؎درمختار کتاب الھبۃ باب الرجوع عن الہبہ مطبع مجتبائی دہلی ۳/ ۱۶۱)
تو کل باغ کا مالک خواجہ بخش ہوا جب اس نے وقف کردیا وقف ہوگیا اب نہ اس کا ہے نہ بھتیجے کا، خالص مِلکِ الٰہی ہے عزوجل۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۶: از علی گڑھ محلہ دہلی دروازہ تکیہ بخشی کریم اﷲصاحب مسئولہ عبدالکریم وعبدالعزیز وغیرہ ۲۱رجب ۱۳۳۹ھ
کیافرماتے ہیں عالمان دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک تکیہ اور کچھ اراضی باڑہ کے نام سے کہ جو قدیم الایام سے واسطے فاتحہ حضرت فیض اﷲ شاہ صاحب اور حضرت بانام شاہ صاحب کے وقف چلی آتی ہے اور اس کے متولی اور متصرف ہمارے اجداد سے تھے اور اس کی آمدنی سے فاتحہ اور عرس ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اس میں پہلے یہ تصرف ہوا کہ اس زمین میں کچھ دکانیں بنوادیں گئیں اور پھر تکیہ کی زمین سے کچھ حصہ اشخاص کے ہاتھ بیع کردیا گیا اور باڑہ کی زمین میں ایک گنج آباد کراکے اس کو رہن کردیا اب استفسار طلب یہ امر ہے کہ آیایہ بیع اور رہن اس اراضی موقوفہ کا شرعاًجائز ہے یانہیں؟اور یہ تصرف کیا حکم رکھتا ہے؟اس کا جواب بحوالہ کتب بیان فرمایا جائے۔بینواتوجروا(بیان کیجئے اجرپائیے۔ت)
الجواب
وقف کے رہن وبیع ناجائز ہیں،
درمختار میں ہے:
فاذا تم ولزم لایملک ولایملک ولایعار ولایرھن۱؎۔
جب وقف تام اور لازم ہوجائے تو کوئی نہ اس کا مالک بنے نہ کسی کو مالک بناسکے، نہ عاریۃً دیاجائے اورنہ رہن رکھاجاسکے گا(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۹)
دکانیں اگر تکیہ میں بنائی گئیں تو قطعاًناجائز ہیں اور باڑے میں متولی نے منفعت وقف کےلئے بنوائیں اور ان میں کوئی مخالفت شرط وواقف وتغییر ہیئات وقف نہ تھی تو حرج نہیں ورنہ وہ بھی ناجائز ہیں
کمانص علیہ فی فتح القدیر والفتاوی الھندیۃ وغیرھما
(جیسا کہ اس پر فتح القدیر اور فتاوی ہندیہ وغیرہما میں تصریح کردی ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔