Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
14 - 112
مسئلہ۵۵تا۵۶: ازقصبہ گوپامؤضلع ہردوئی اورہ محلہ قنوجی مسئولہ یاور حسین صاحب یوم سہ شنبہ ۷ صفر المظفر۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حاجی نواب ناظر حسین خاں صاحب رئیس قصبہ گوپامؤ نے تقریباً دس بارہ سال سے ایک مسجد کے متعلق جو کہ ان کے مکان کے قریب محلہ قنوجی میں واقع ہے، یہ انتظام کیا کہ زیر مسجد کی دکانیں جن کو مسجد کے منتظموں نے رہن بھی کرلیا تھا اور جو رہن سے بچی ہوئی تھیں وہ بالکل مسمار ہوگئی تھیں، غرضکہ وہ دکانات مسجد مذکور جو کہ ایک دینی مدرسہ عربی کو بحیثیت وقف شامل تھیں ان کو تک رہن کرالیا اور مسمار شدہ کی تعمیر کرادی، ایک مدرسہ اسلامیہ کی آمدنی سے جس کے وہ صدرانجمن ہے سب ادا کردیا دکانوں کو تعمیر کرایا پھر رفتہ رفتہ انہیں دکانوں کوآمدنی سے وہ کل روپیہ بھی ادا کردیا جب انجمن کا روپیہ ادا ہوگیا تو ان دکانوں کو مع تحویل باقی کے اپنے چھوٹے بھائی کو جو کہ اسی مسجد میں طلبہ کو عربی پڑھاتے ہیں بطور انتظام جائداد وقف کے حوالہ کردیا حتی کہ اس آمدنی سے وقتاً فوقتاً مسجد کی درستی ہوتی رہتی ہے، اور اسی احاطہ مسجد میں بیرونی طلبہ کےلئے حجرے بھی حسب ضرورت تیار ہوتے رہے، سال گزشتہ میں ایک مولوی صاحب کو باہر سے عربی تعلیم کےلئے بلایا گیا تھا ان کی نصف تنخواہ چندہ سے اور نصف اسی آمدنی مسجد سے سال بھر تک دی جایا کی، نیز اب تک چونکہ درس وتدریس کےلئے سوائے مسجد کے اور کوئی جگہ نہ تھی، اور جو کتابیں طلباء کوحسب دستور دی جاتی ہیں ان کے رکھنے کے لئے بھی مکان کی ضرورت ہوئی تو ایک مکان جانب مسجد میں اس سال بھی تعمیر کرایا گیا جوان شاء اﷲمختصراً مدرسہ وکتب خانہ دونوں کاکام دے گا علاوہ ان دکان کے کچھ خانہائے رعایا خالی کراکے اس کی زمین مسجد کو وقف کردی اور دو ایک دکانیں جدید بھی بنوادیں ایک دکان منشی بقاء اﷲصاحب وکیل سرائے میران نے بھی وقف کیا،
 (۱) اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ علاوہ نیت کے عملدرآمد حسب مذکورہ بالا رہا ہے تو آیا اس آمدنی سے مسجد اور طلباء کےلئے حجرے نیز مدرس کی تنخواہ وغیرہ میں صرف کرنا شرعاً جائز ہوگا یانہیں؟

(۲) یہ کہ انہیں نواب صاحب موصوف نے جو اپنی ذاتی دکان اور تین خانہائے رعایا کو صحن بازار مسجد کی ضرورت سے برابر کراکے نیز گردو پیش کے اپنی افتادہ زمین کو اسی مد میں مدّت سے وقف کردیا ہے چنانچہ گھاس، بھوسہ، لکڑی، کنڈا اور دیگر پلہ داروں سے جواس زمین کا محصول آتا ہے وہ بھی برابر مسجد میں ایک بنئے کے ذریعہ سے یکمشت جمع ہوتا رہتا ہے اور جو مدّات مذکور میں صرف ہوتا ہے اسکے متعلق (ایک ہندورئیس جس کا نام لالہ بشمبر ناتھ ہے اور وہ گوپامؤ سے قریب ایک موضع تہمروان میں رہتے ہیں) کا یہ بیان سنا جاتا ہے کہ چُنگی قبضہ میں ہمارے ہے لہذا یہ متفرق آمدنی ہماری ہے اس کو ہم لیں گے حالانکہ وہ اس بازار میں کسی جزءِ اراضی کے بھی مالک نہیں ہیں اور چنگی ان کی ہونا قاعدہ کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ چنگی حقِ گورنمنٹ ہے، کاغذات سرکاری میں بھی چنگی کا کوئی وجود نہیں، دوسرے مالک زمین یعنی واقف کی طرف سے یہ زمین دراصل مسجد کی ہے، ایسی حالت میں آیا ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم دامے درمے،قلمے، سخنے غرض ہر مدافعانہ حیثیت سے ان کی اس ناجائز دست برد سے اگروہ کریں اس کو بچائیں یا نہیں؟نیزاس معاملہ جو شدائد ہمیں درپیش ہوں گے بصیغہ حفظ جائداد ووقف عنداﷲ ہیں اس کا اجر ملے گا یا نہیں؟اور اگر مسلمان کثرت رائے سے اس کی کل یا جزءِ آمدنی بطور فیصلہ باہمی کے لالہ صاحب کو دینا منظور کریں تو آیاان کا یہ فعل شرعاً صحیح اور قابل تسلیم ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

(۱) اوقاف میں شرط واقف مثل نص شارع واجب الاتباع ہوتی ہے اور اس میں بلاشرط واقف یا اجازت خاصہ شرعیہ کوئی تغیر تبدل جائز نہیں، مدرسہ کے مال سے مسجد کا قرض ادا نہیں کیاجاسکتا جو اداکرے گا تاوان اس پر ہے مسجد کے مال سے نہیں لے سکتا مسجد پر جو جائداد واقف نے وقف کی اگر اس سے بنائے مدرسہ ومصارف مدرسہ کی اجازت دی تھی تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔

(۲) صورت مذکورہ میں ضرور مسلمانوں پر فرض ہے کہ حتی المقدور ہر جائز کو شش حفظ مال وقف ودفع ظلم ظالم میں صرف کریں اور اس میں جتنا وقت یا مال ان کا خرچ ہوگا یا جو کچھ محنت کرینگے مستحق اجر ہوں گے،
قال تعالٰی:لایصیبھم نصب ولامخمصۃ(الٰی قولہ تعالٰی) الاکتب لھم بہ عمل صالح۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
ان کو مشقت اور مشکل نہ پہنچے گی(الٰی قولہ تعالٰی) مگر ان کےلئے نیک عمل لکھے جائیں گے(ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ القرآن الکریم    ۹ /۱۲۰)
مسئلہ۵۷: ازضلع گیا، موضع پردہ چک، ڈاکخانہ شمشیر نگر، مسئولہ ابوالبرکات یوم شنبہ ۱۷صفر المظفر۱۳۳۴ھ
عام قبرستان میں اگر کسی نے درخت لگائے تو اسکی ملک ہے یانہیں؟ دوسروں کو بدون اجازت استعمال کرنا جائز ہے یانہیں؟فقط۔
الجواب

قبرستان اگرچہ وقف ہو مگر درخت جو اس میں لگائے جائیں اگر لگانے والا تصریحاً یہ کہ بھی دے کہ میں نے

ان کو قبرستان پر وقف کیا جب بھی وقف نہ ہوں گے اور لگانےوالے ہی کی ملک رہیں گے، اس کی اجازت کے بغیر دوسروں کو ان میں تصرف جائز نہیں، اور اس کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی کاٹے یا جو چاہے کرے بلکہ اگر ان کے سبب مقابر پر زمین تنگ کردے تو اسے مجبور کیا جائے گا کہ درخت کاٹ کر زمین خالی کردے
والمسئلۃ فی الھندیۃ وغیرہا
 (فتاوٰی ہندیہ وغیرہ میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ت) وھو تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۵۸: ازضلع سیتاپور قصبہ لہر پور مدرسہ اسلامیہ قاضی ابومحمد یوسف حسین صاحب بروز چہار شنبہ ۲۱صفر ۱۳۳۴ھ
وقف والے استفتاء میں ایک لفظ''ارصادات'' کا تحریر ہے جس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے، اگر آپ کو معلوم ہوں تحریر فرمائے، غیاث میں''رصد'' کے معنی نگاہ رکھنا نکلے اور لفظ''ارصادات'' نہیں نکلا،''رصد''کی اگر جمع''ارصادات'' لئے جائیں تو بھی اس موقع پر کام نہیں دیتے شاید لفظ تحریرات سلطانی میں کسی قسم کی تحریر کا نام ہو جیسے''سجل'' یا ''فرمان''وغیرہ اگر ایسا ہے تو یہ تحریرفرمائیے کہ یہ لفظ کس قسم کے اسناد کے واسطے مستعمل ہوتا ہے اصلِ موقع اس لفظ کا شاید آپ کے خیال میں نہ باقی ہو اس لئے میں ابتدائے مضمون استفتاء کا نقل کئے دیتا ہوں، ارصادات سلاطین حکم وقف میں ہیں نہ وہ موروث ہوں نہ ان کے بیع وانتقال کا کسی کو حق ہو۔
الجواب

مولٰنا اکرمکم اﷲ تعالٰی،ا لسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ''ارصاد'' کے معنی نگہداشتن ہی ہیں یعنی محفوظ کردینا، سلاطین اسلام مواضع سلطنت سے جو دیہات مصارف خیر کے لئے وقف کرتے ہیں انہیں ارصاد کہتے ہیں یعنی سلطان نے انہیں محفوظ وممنوع التملیک کردیا ان کا حکم بعینہ مثل وقف ہے،
وانما سمیت ارصادات لان الوقف شرطہ الملک والسلاطین لایملکون مافی ولایتھم ان الملک الاﷲ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
ان کو ارصادات اس لئے کہتے ہیں کہ وقف کی شرط ہے کہ پہلے کسی کی ملک میں ہو جبکہ سلاطین اپنی ولایت کے مالک نہیں ہوتے، ملک توصرف اﷲتعالٰی کی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ۵۹:تا۶۰: ازکانپور محلہ لکہنیا بازار متصل مدرسہ فیض عام مسئولہ شمس الدین محمود عرف میاں۲۲صفر۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین مبین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے وقت وفات اپنے چند قطعات زمین وقف کئے اپنی ملکیت ومتروکہ سے چھوڑے سند وقف میں یہ تحریر ہے کہ خرچ مساکین ومسافرین ومسجد کے واسطے یہ وقف کیا جاتا ہے پس مورثان متوفی جو متولی جائداد موقوفہ بھی ہیں،
 (۱) اگر منجملہ قطعات زمین متذکرہ صدر کے کوئی جزوجو خراب وبیکار پڑا ہو ا ور اس سے کسی قسم کی آمدنی بھی نہ ہومسجد میں شامل کردیں۔

(۲) یا کسی جز قطعات مذکور بالا میں کچھ عمارت اس غرض سے تعمیر کردیں کہ اس کی آمدنی واسطے اخراجات مسجد کے کام آئے یا کسی خاص کام متعلق مسجد کے مثلاً فرش وفروش وغیرہ متعلقہ ومملوکہ مسجد کے رکھنے یا پیش امام ومؤذن وغیرہ کسی خادم مسجد کی سکونت کے بکار ہوتو جائز ہے یانہیں اور متولی پر کوئی مواخذہ شرعی تو نہ ہوگا؟
الجواب

اگر مسجد تنگ ہو جماعت کی دقت ہوتی ہے جگہ کی حاجت ہے تو یہ زمین مسجد میں شامل کردی جائے ورنہ نہیں کہ وہ مسجد کے لئے وقف ہے نہ کہ مسجد کرلینے کے لئے۔
عالمگیری میں ہے:
لایجوز تغییر الوقف عن ھیأتہ۱؎۔
وقف کی ہیئت کو بدلنا جائز نہیں(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الوقف    الباب الرابع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۴۹۰)
ردالمحتار میں ہے:
فی الفتح ضاق المسجد وبجنبہ ارض وقف علیہ او حانوت جاز ان یوخذ ویدخل فیہ۲؎۔
فتح میں ہے کہ مسجد تنگ ہوجائے حالانکہ اسکے پہلومیں  وقف شدہ زمین یا دکان ہے جو اسی مسجد کے نام وقف ہے تو اس کو مسجد میں شامل کرنا جائز ہے(ت)
 (۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف  داراحیاء التراث العربی بیروت۳/۳۸۴)
صورت ثانیہ حسب پابندی شرائط واقف جائز ہے مثلاً اس کی آمدنی مسجد میں صرف کرنے کے لئے وقف کی ہو تو اس غرض کے لئے اس میں عمارت بنانی جائز اور سکونت امام وغیرہ کےلئے ناجائز
لان شرط الواقف کنص الشارع
 (کیونکہ واقف کی شرط، شارع کی نص کی طرح ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۱: ازخیر آباد ضلع سیتا پوراودھ محلہ میاں سرائے درگاہ حضرت حاجی حافظ سید محمد علی صاحب ۲۴صفر المظفر۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ چند موضعات کو شاہان دہلی نے واسطے مصارف امور مذہبی ومدد معاش ایک خاندان کے معاف کیا تا زمان سلطنت انگلشیہ موافق نیت عطا کنندہ اس پر عملدرآمد رہا عہد سلطنت انگلشیہ زمانہ بندوبست اول میں اس معافی کی نسبت تحقیقات ہوکر معافی قدیم ثابت ہوئی اس تحقیقات میں ورثا معافی داراول نے یہ بیان کیاہے کہ یہ مواضع قدیم سے وقف ہے لیکن اب بھی وقف نامہ یا ایسی تحریر یا حکم شاہان دہلی عطا کنندہ کی معافی کا کہ جس سے واقف کا نام یامضمون وقف اس سے

ثابت ہوسکے پیش نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ثبوت تحریری زبانی پیش ہوا اس سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مواضع شاہان دہلی نے بغرض مذکور بالا معافی عطا کئے تھے، اسی بنیاد پر جو سند سرکار انگلشیہ سے عطا ہوئی وہ معافی مشروط کی عطا ہوئی، اور منجملہ شرائط سند عطائے سرکار انگلشیہ ایک یہ بھی شرط ہے کہ درصورت عدم پابندی شرائط سند یہ معافی ضبط کرلی جائیگی اور مواضع مذکورہ کے متعلق سرکار انگلشیہ سے ڈگری حق اعلٰی بمقابلہ سرکار بحق معافی داران صادر ہوچکی ہے اور سرکار،انگلشیہ اپنے حقوق مثل رقم سوائی وفیس سڑکانہ وشفاخانہ وغیرہ مثل دیگر زمینداران کے سالانہ معافی دار سے لیتی ہے اس کے بعد سے تاحال ورثاء معافی داران شرائط مندرجہ عطیہ سرکار انگلشیہ پابند رہ کر بطور مناسب اغراض معافی میں محاصل مواضع میں سے خرچ کرکے بقیہ محاصل کو اپنے مدد معاش میں صرف کرتے رہے بندوبست اول سے اس خاندان معافی داران میں حصص قائم ہوئے اور برابر وراثت جاری رہے اور ہر معافی دار کانام کھیوٹ وکاغذات میں بطورمالک درج ہوتا رہا۔ اب تھوڑا عرصہ ہوا کہ شرکاء معافی میں سے چند شرکاء نے حسب ذیل انقلاب کئے ایک معافی دار نے منجملہ اپنے حصہ کے ایک جزء کا وقف نامہ بنام اﷲمیاں رجسٹری شدہ تحریر کیا ایک حصہ دار نے اپنا حصہ اپنے حقیقی بھائی کے نام ہبہ کردیا، ایک نے وقف علی الاولاد کیا،اس کے بعد واقف علی الاولاد نے عدالت مجاز میں ایک دعوٰی دائر کیا کہ ہبہ مواضع موقوفہ میں ان میں کارروائی منتقلات جائز نہیں ہے اور اپنے عرضی دعوٰی میں اپنے انتقال وقف علی الاولاد کو پوشیدہ رکھا اور ہر دو انتقالات کو ظاہر کیا اور عدم جواز کی حجت کی لہذا استصواب ہے کہ مواضع عطیہ شاہی وسرکار انگلشیہ وقف سمجھے جائیں گے یا از قبیل عطیات ومعاقبات وارصادات وغیرہ متصور ہوں گے اور کارروائی انتقالات متذکرہ بالا باطل وکالعدم سمجھی جائیں گی یا جائزمتصور ہوکر آئندہ کے لئے ایسی کارروائیاں جائز رہیں گی اور اس بیان معافی داران سے جو بندوبست میں نسبت وقف ہونے جائداد کے ہوا ہے جائداد مذکورہ وقف ہوگئے یا ان کا بیان بمقابلہ نیت عطا کنندہ کے باطل وہیچ ہے اور ہبہ جائداد بصورت عطیہ و معافی وارصاد کے قائم رہیں گے اور عطیہ و ارصاد کے کیا معنی ہیں اور ان پر کیا کیا احکام جاری ہوسکتے ہیں اور کیا کیااحکام جاری نہیں ہوسکتے ہیں فقط،
الجواب

ارصادات وعطایا سلاطین میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو مواضع سلاطین اپنی رعیت میں سے کسی کو جاگیر بخش دیں اسے اس کا مالک کردیں وہ عطا ہے عربی میں اسے اقطاع کہتے ہیں اور ہماری زبان میں معافی وجاگیر اور جو مواضع سلاطین اسلام مصارف خیر کےلئے تعین کردیں وہ ارصاد ہیں ان کا حکم بعینہ حکم وقف ہے اور بعد مصارف خیر جو کچھ بچے اس میں سے کسی قوم یا کسی شیخ کی اولاد یا کسی مزار کے خدام کی مدد معاش کرنا منافی وقف وارصاد نہیں، نہ اوقاف قدیمہ کے لئے واقف کا نام معلوم ہونا ضرور، نہ کوئی سند پیش کرنا لازم، ورنہ لاکھوں وقف خصوصاً مساجد باطل ہوجائیں، خود سائل کا بیان ہے کہ مواضع سلاطین دہلی نے مصارف امور مذہبی اور ایک خاندان کی مدد معاش کےلئے معاف کئے اور یہ کہ تا زمان سلطنت انگلشیہ موافق نیت عطا کنندہ اس پر عملدرآمد رہا اور یہ کہ اس کے بعد سے تاحال ورثاء معافی داران اغراض معافی میں محاصل مواضع میں سے خرچ کرکے بقیہ محاصل کو اپنی مدد معاش میں صرف کرتے رہے، یہ شان وقف ہی کی ہوتی ہے، اور اگر کسی خاص شخص کو جاگیر دینی ہوتی ہے تومصارف خیر کی قید نہ لگائی جاتی، نہ یہ کہ ان سے جو بچے وہ مدد معاش میں صرف ہو، نہ اس کے موافق قدیم سے اب تک عملدرآمد رہتا ہے تو ضرور یہ مواضع وقف ہی ہیں اور بندوبست حال میں اسمائے متولیان بخانہ ملکیت رکھنا وقف ثابت کو زائل نہ کرے گا اور یہ انتقالات جوا ن بعض متولیوں نے کئے اگر اس سے مقصود وہ محاصل ہیں جو بعد مصارف خیر ان کے حصہ میں آئیں جب تو ظاہر ہے کہ اس سے اصل وقف پر کوئی حملہ نہ ہوااگرچہ محاصل کا وقف یا قبل وصول ہبہ کرنا باطل ہے،اوراگران سے نفس رقبہ جائداد کا انتقال مقصود تھا تو غایت یہ کہ ان کا ظلم باطل ومردود تھا، اس سے وقف پر کیوں حرف آنے لگا، گورنمنٹ کا رقوم سوائی وغیرہ لینا بھی منافی وقف نہیں، یوں ہی بندوبست اول سے اجرائے وراثت اگرمحاصل میں ہے کیا بیجا ہے اور رقبہ میں ہے تو متولیوں کا ظلم ہے بلکہ بیان سائل کہ اب تک بعد مصارف خیر جو بچتا ہے تقسیم کرتے ہیں رقبہ میں اجرائے وراثت کی خود نفی کررہا ہے، اورنہ بھی سہی تو ان کے مورثوں کا سب سے پہلا بیان کہ یہ جائداد وقف ہے، ان کے ان تصرفات کے ابطال کو کافی ہے، جائداد ملک ہو کر وقف ہوسکتی ہے مگر وقف ٹھہرکر کبھی ملک نہیں ہوسکتی اور ان کے اس بیان اول میں نیت عطا کنندہ کا کچھ خلاف نہیں بلکہ عین موافقت ہے جیسا کہ اوپر ظاہر ہوا بالجملہ شک نہیں کہ مواضع مذکورہ وقف ہیں اور ان میں کسی کو تصرفات مالکانہ یا انتقالات کا کچھ حق نہیں
واتقواﷲ الذی الیہ تحشرون۱؎
(اور ڈرو اﷲ تعالٰی سے جس کی طرف تم اٹھائے جاؤگے۔ت)واﷲتعالٰی اعلم۔
(۱ ؎ القرآن الکریم۵ /۹۶)
Flag Counter