Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
13 - 112
مسئلہ۵۰: ازنجیب آباد ضلع بجنور متصل تحصیل مرسلہ جناب محمد ظفر اﷲ صاحب ۱۶ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مال وقف مسجد پر حجن کے نام سے موسوم ہے شرعاً کسی کا دعوٰی ہوسکتا ہے یانہیں؟ اگر اس کا کوئی شخص یا چند شخص مل کر اپنے آپ کو ولی قرار دیتے ہوں تو وہ مالک ہوسکتے ہیں یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

مال وقف پر دعوٰی ملک تو کسی کو نہیں ہوسکتا، ہاں دعوٰی تصرف متولی کو ہے، اگر متولی نہ ہوتو اہل محلہ کو اختیار ہے، اگر انہوں نے اس شخص یا اشخاص کو متولی کردیا ہے تو اس کو اختیار مل سکتا ہے، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۵۱: از مقام خاص مرزاپور محلہ چیت گنج مرسلہ حکیم احمد علی صاحب یکم ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

ایک قطعہ زمین سرکاری جو کہ جنازہ مسلمانان کےلئے وقف ہے اس میں باجازت تکیہ دار کے ایک مکان ایک دوسرے فقیر نے بنایا اور اسی میں بود وباش اختیار کرنے کے بعد چندے اس مکان کو براہ خدا وقف کردیا وہ وقف شدہ مکان بقیمت مبلغ بیس(ع۔۔ہ) روپیہ کو وارث تکیہ نے خرید کیا مکان وقف شدہ کا روپیہ ایک مسجد جو کہ مکان سے علیحدہ اسی زمین میں تعمیر کی گئی ہے وہ روپیہ اسی مسجد میں خرچ کیا گیا اب وہ مکان تکیہ دارکے قبضہ میں ہے پھر دوبارہ وہی فقیر جس نے مکان تعمیر کیا تھا خریدنا چاہتا ہے شرع شریف سے جائز ہے یانہیں؟
الجواب

اگر وہ تکیہ وقف ہے جیسا کہ سائل بیان کرتا ہے تو نہ اس میں اس فقیر کو اپنا مکان سکونت بنانے کی اجازت تھی نہ اسمیں مسجد بنانا جائز ہے لان الوقف لایوقف(کیونکہ وقف شدہ دوبارہ وقف نہیں ہوتا) نہ اس مکان کی زمین کا بیچنا صحیح تھا، نہ اب اس کے یا کسی اور کے ہاتھ بیع ہوسکتی ہےلان الوقف لایملک(کیونکہ وقف کسی کا مملوک نہیں ہوسکتا) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۲ تا ۵۳ :  بتاریخ یکم صفر روز پنجشنبہ ۱۳۳۴ھ
 (۱) قبرستان میں مدرسہ یا کوئی مکان یا مسجد بنانا جائز یانہ؟

(۲) ایک بزرگ نے ایک جگہ چند بزرگوں کوبیٹھے ہوئے دیکھا وہاں ایک چبوترہ بطور مسجد بنایا اور ایک مدت تک وہاں نماز پڑھی گئی اب ایک عرصہ سے وہ جگہ خراب پڑی ہے، وقف کی یانہیں کی اس کا کچھ حال معلوم نہیں،

اب وہ جگہ کسی کو دے دی جائے کہ مکان بنائے یا مسجد بنادی جائے۔
الجواب

(۱) قبرستان وقف میں کوئی تصرف خلاف وقف جائز نہیں، مدرسہ ہو خواہ مسجد یاکچھ اور۔ اور اگر کسی کی ملک ہے تو قبور سے الگ وہ جو چاہے بناسکتا ہے۔

(۲) اگرتصریحاً یا دلالۃً کسی طرح وقف کرنا ثابت نہیں تو وہ زمین مالک یا اس کے ورثہ کی ملک ہے وہ جو چاہیں کریں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۵۴: از ضلع سیتا پور مدرسہ اسلامیہ مرسلہ مولوی ابومحمدیوسف حسن صاحب طالب علم مدرسہ مذکور ۴صفر المظفر ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل کے جواب میں کہ زید نے اپنی اور اپنے شریک دار کے کہ جس کی جانب سے وہ کارکن اور خود بھی حصہ دار تھا اپنے مقبوضہ مواضعات معافی کی نسبت انگریزی ہونے پر محکمہ بندوبست میں درخواست دی کہ ہمارے مواضعات حسب عمل در آمد قدیم اب بھی معاف رہیں اور اس میں حسب ذیل الفاظ سے اقرار کیا:

یہ مواضعات صدہا سال سے واسطے مصارف عرس سید شاہ فلان واقع مقام فلان ومصارف واردین و صادرین وغرباو مساکین ومجالس محرم سلاطین ماضیہ نے بطور وقف مقررومعاف ومرفوع القلم کیا ہے۔ دوسرے مقام پر اپنی درخواست میں یہ الفاظ تحریر کئے ہیں امیدوار ہوں کہ دیہات،معافی بدستور بصیغہ وقف معاف و مرفوع القلم رہیں، اور اسی مقدمہ میں اجلاس پر حاکم کے روبرو بسوال حاکم بدیں الفاظ جواب تحریر کردیا۔
سوال حاکم:تمہاری معافی بعہد نواب سعادت علی خاں والی لکھنؤ کے کس سبب سے ضبط ہوئی؟

جواب: یہ معافی وقف اس واسطے ضبط نہیں ہوئی اور اسی مقدمہ تحقیقات معافی میں ایک حساب داخل کیا جس میں عبارت مسلم وقف حسب ذیل ہے، اس میں مصارف میرے اور میرے عزیزوں کے مناط قوت ان کا بھی یہی ہے اور یہ سب لوگ خدمت گزار درگاہ ہیں اور یہ معافی وقف ہے اس کارروائی پر حاکم ضلع نے مصارف کی تحقیقات کرکے سفارش معافی کی کردی اور اس سفارش پر حاکم اعلےٰ صاحب کمشنر نے یہ الفاظ تحریر کئے قابض اور ان کے موروثان سب مشہور لوگ ہیں اور مزار پیشتر بہت مشہور تھا یہ مجھ کو مذہبی وقف معلوم ہوتا ہے قبضہ سالہاسال سے ہے، مسجد وامام باڑہ وخانقاہ ومسافر خانہ سب بمقام فلاں ہے اس کوسرکار سے سند معافی عطا ہوئی جس میں لفظ وقف کا نہیں تحریر ہے اور سند مطبوعہ حسب نمونہ مقررہ ہے اور تمام ایسی معافیات میں اسی طور کے اسناد اس نواح میں سرکار نے دئے ہیں، اس کے بعد بندوبست پختہ میں حسب قاعدہ مقررہ سرکار دعوی حقیت اعلٰی مواضعات مذکور کا زید ہی نے دائر کیا اور اس درخواست میں بربنائے قبضہ سابقہ ڈگری چاہی مگر اس مقدمہ کے بیان میں بعد درخواست مذکور مالک کا لفظ استعمال کیا اورڈگری میں بھی لفظ مالکانہ تحریر ہوگیا اس کے بعد بمقدمہ حصہ داری وتعین حصہ ہر شریک دار میں پھر یہ ظاہر کیا کہ یہ جائداد واسطے مصارف درگاہ ہے کسی حصہ دار کو اختیار انتقال کسی قسم کا نہیں بعد مصارف عرس و فواتح واردین وصادرین کے جوبچتا ہے بحصہ مساوی تقسیم ہوجاتا ہے اور آئندہ ہم لوگوں نے اقرار کنندگان کے ورثہ پر اسی طور پر ہمارے حصہ سے تقسیم ہوتا رہے گا بعدہ واجب العرض میں بھی جو بعد کارراوئی حصہ داری کے مرتب ہوئی اس میں یہ تحریر کردیا کہ یہ موضع وقف ہے، ان حالات پر ازروئے شرع شریف اس جائداد پر اطلاق وقف کا ہوگا یا نہیں؟ اور زید کے وارثوں کو اختیار انتقال اس جائداد سے ہے یانہیں، واضح رہے، مقدمہ تعین حصہ داری و دیگر کاغذات سرکاری میں کل حصہ داران شریک دار آمدنی نے اس کو وقف تسلیم کیا ہے اور یہ اقرار کیا ہے کہ کسی کو اختیار انتقال حاصل نہیں ہے صرف درمیانی کارروائی ڈگری حقیت اعلٰی میں لفظ مالک کا استعمال ہوا ہے اس سے قبل وبعد کی کل کارروائیوں میں اقرار عدم اختیار انتقال وقف کا سب کی جانب سے ہے اور یہ خاندان اولاد حضرت پیران پیر دستگیر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے اپنے کو منسوب کرتا ہے اور ایسے ہی بعض ملفوظات خاندانی وشجرہ جات خاندانی سے مانا گیا ہے اس خاندان کے لوگ بلالحاظ مستطیع وغیرمستطیع حسب قرار داد بندوبست جو باتفاق خود تعین حصص کرچکے ہیں اس اعتبار سے مستحق گزارہ ہیں یا مورث اعلٰی کی نسل پر ازروئے فرائض ازسر نو تعین گزارہ کا حق رکھتے ہیں اگر مستطیع کو استحقاق گزارہ بوجہ اس کی استطاعت نہ ہوتو کسی وقت بحالت نہ رہنے استطاعت کے پھر کسی سبب سے گزارہ پاسکتے ہیں اور استطاعت کا معیار کیا ہے اور کسی اولاد پر بالخصوص سادات کے کسی خاندان پر جووقف ہو اس میں جب لوگ مستطیع ہوتے جائیں گے وہ خارج از گزارہ ہوتے جائیں گے اور پھر جب غیرمستطیع ہوجائینگے داخل ہوتے جائیں گے، اور اس کا سلسلہ کس طور سے جاری رہے گا تعین گزارہ کی نسبت کیا ہو اکرے گا۔ امید کہ جملہ امور کا جواب ازروئے فقہ حنفیہ مرحمت فرمایا جائے اور یہ اراضی عشری ہیں اور عشر ان پر واجب ہے یانہیں، اور فی الحال یہ مواضعات کا شت کاروں کے پاس نقدی جمع سر ہیں، جن مصارف کا ذکر اوپر تحریر کیا گیا ہےجیسے فواتح واعراس ومیلاد شریف ومحرم وخرچ واردین وصادرین تو جہاں تک مجالس واعراس وفواتح کو ذکر وتذکرہ قرآن خوانی وتقسیم طعام وغیرہ سے تعلق ہے وہ توظاہر ہی ہے صرف تعزیہ داری کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ایک رواجی مقامی طریقہ ہے تو اس قدر مصرف ناجائز کے شمول سے نفس وقف پر کیا اثر ہے اور یہ فعل قابل ترک ہے، اسی طور سے اعراس میں ایک صورت بعض وقت سماع کی ہے جو سب طریقہ موسیقی وراگ ومزامیر  نزد احناف حرام ہیں اور یہی سوادِ اعظم ہے البتہ محض قصیدہ خوانی یا نعت خوش الحانی سے سننا اور سنانے والے کو کچھ دینا جیسا کہ حضور انور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی ردائے مبارک حضرت حسان کو مرحمت فرمائی تھی اس کی بابت کیاحکم ہے یہ بھی قابل ترک ایسے اوقاف سے ہے یانہیں؟
الجواب

ارصادات سلاطین حکم وقف میں ہیں نہ وہ موروث ہوں نہ کسی کو ان کے بیع وانتقال کا کوئی حق ہو
کماحققہ فی ردالمحتار بما لامزید علیہ
(جیسا کہ اس کی تحقیق ردالمحتار میں کی ہے جس پر مزید اضافہ نہیں ہوسکتا۔ت) سندمعافی میں لفظ وقف نہ ہونا کچھ مضر نہیں، نہ کسی مقدمہ میں اپنے آپ کو مالک تعبیر کرنا یا گورنمنٹی ڈگری میں لفظ مالکانہ لکھا جانا کچھ اثر رکھتا ہے کہ متولی کی طرف نسبت ملک بوجہ ملک تصرف واختیار شائع ہے۔
فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
لوادعی المحدود لنفسہ ثم ادعی انہ وقف الصحیح فی الجواب ان کانت دعوی الوقفیۃ بسبب التولیۃ یحتمل التوفیق لان فی العادۃ یضاف الیہ باعتبار ولایۃ التصرف والخصومۃ۱؎۔
اگر حدود اربعہ کو اپنے لئے قرار دیا پھر یہ دعوٰی کیا کہ وقف ہے، تو جواب صحیح یہ ہے اگر وقف ہونے کا دعوی تولیت کی وجہ سے ہو تو دونو ں باتوں میں موافقت ممکن ہے کیونکہ وقف کو متولی متصرف اور فریق بحث ہونے کے اعتبار سے عادتاً اپنی طرف منسوب کرلیتا ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الوقف    الباب السادس    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۴۳۱)
موقوف علیہ کا فقیر یا غیر ہاشمی ہونا ضرور نہیں اغنیاء وسادات بھی اوقاف عامہ، رفاہ عام میں داخل ہوسکتے ہیں جیسے مسجد، مقبرہ، حوض، کنواں، سقایہ، سرائے پل وغیرہا، اور وہ ہر وقت میں بشرط واقف مثل استثناء فی المصروف بھی شامل ہوسکتے ہیں جس طرح خود اپنا نفس اور اپنی اولاد، بالجملہ وقف کا قربت موبد کے لئے ہوناضرورہے مگر تمام آمدنی قربت ہی کےلئے معین ہوناضرور نہیں استثناء بعض علی الدوام واستثناء کل الٰی زمان منقطع دونوں کی گنجائش ہے اور اس کا اختیار واقف کو ہے جیسی شرط کرے گا اتباع کی جائے گی تحت قول درمختار
والتصدق بالمنفعۃ ولوفی الجملۃ۲؎
 ( منفعت کوصدقہ قرار دینا اگرچہ کسی طرح ہو۔ت)
 (۲؎ درمختار  کتاب الوقف   مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۳۷۷)
ردالمحتار میں ہے فرمایا:
فیدخل فیہ الوقف علی نفسہ ثم علی الفقراء وکذا الوقف علی الاغنیاءثم الفقراء لما فی النھر  عن المحیط لو وقف علی الاغنیاء وحدھم لم یجز لانہ لیس بقربۃ، اما لوجعل اخرہ للفقراء فانہ یکون قربۃ فی الجملۃ۱؎اھ۔
اس میں اپنی ذات کےلئے وقف اور بعد میں فقراء کیلئے داخل ہوگا، اسی طرح اغنیاء کیلئے پھر فقراء کیلئے وقف کی صورت بھی داخل رہے گی جیسا کہ نہر میں محیط سے منقول ہے کہ اگر صرف اغنیاء کےلئے وقف ہوتوناجائز ہوگا کیونکہ یہ قربت نہیں ہے لیکن اگرآخر میں فقراء کیلئے وقف کیا تو جائز ہوجائیگا کیونکہ یہ قربت ہے اگرچہ فی الجملہ ہے اھ(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۵۷)
اسی میں ہے:
اذاجعل اولہ علی معینین صار کانہ استثنٰی ذٰلک من الدفع الی الفقراء کما صرحوا بہ(الی ان قال) فعلم انہ صدقۃ ابتداءً ولایخرجہ عن ذٰلک اشتراط صرفہ لمعین۲؎۔
جب اولاً دو معین شخصوں کےلئے کیا تو گویا یہ فقراء کو دینے سے استثناء ہوجائے گا جیسا کہ فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے (ان کا یہ بیان یہاں تک ہے کہ فرمایا) تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ ابتداءً صدقہ ہے، تو معین کے لئے صرف کرنے کی شرط اس کو اس سے خارج نہ کرے گی(ت)
 (۲؎ردالمحتار    کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۵۸۔۳۵۷)
اسی میں فتاوٰی امام قاضی خاں سے ہے:
لوقال ارضی صدقۃ موقوفۃ علی من یحدث لی من الولد ولیس لہ ولد یصح لان قولہ صدقۃ موقوفۃ وقف علی الفقراء وذکر الولد الحادث للاستثناء کانہ قال الاان حدث لی ولد فغلتھا لہ مابقی۳؎۔
اگر یوں کہا میری زمین بعد میں پیدا ہونے والے میرے بچے کیلئے صدقہ ہے جبکہ اسکی اولاد نہ ہوتو وقف صحیح ہوگا کیونکہ وقف شدہ صدقہ کہنے سے فقراء کیلئے وقف ہوگیا او ربیٹے کے ذکر سے اسمیں استثناء ہوگیا، گویا یوں کہا یہ صدقہ ہے مگر اگر میرا بچہ پیدا ہوتو اس کی موجودگی تک اس کے لئے وقف کرتا ہوں۔(ت)
 (۳؎ردالمحتار    کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت   ۳ /۴۱۴)
سلطان واقف کی شرط اگر معلوم ہے کہ بعد مصارف خیر مذکورہ جو بچے اولاد شیخ فلاں تقسیم کرلیں تو ان کے فقراء واغنیاء سب اسے بحصہ مساوی لیں گے اور اگر شرط کردی ہے کہ مابقی نسل شیخ پر حسب فرائض تقسیم ہوتو حسب فرائض ہی تقسیم ہوگی اقرب ابعد کو محجوب کرے گا اور لحاظ فقر وغنانہ ہوگا اور اگر شرط یہ کی کہ باقیماندہ خاندان شیخ کے فقراء پر تقسیم ہو تو اب ان کے اغنیاء کو کچھ نہ ملے گا اور جوغنی فقیر ہوجائے اب سے وہ بھی مستحق ہو گا سنین ماضیہ کا حصہ نہ طلب کرے گا اور جو فقیر غنی ہوجائے اب سے وہ مستحق نہ رہے گا اور سالہائے گزشتہ کالیا ہوا واپس نہ دے گا
لان العبرۃ الحال دون الماضی والاستقبال
(کیونکہ اعتبار حال کا ہے ماضی یا مستقبل کا نہیں۔ت)
اور اگر شرائط اصل واقف پر اطلاع نہ ہوتو عملدرآمد قدیم پر نظر ہوگی زید نے جوواجب العرض میں لکھا، یا اگر اس کے مطابق ہے فبہا ورنہ اس پر اصلاً لحاظ نہ ہوگا اور قدیم پر عمل رہے گا۔
لانہ لیس بواقف ولاالیہ تغییرہ
(کیونکہ وہ نہ واقف ہے نہ اس کو تبدیلی کا حق ہے۔ت)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
اذاعلم حالہ فیما سبق من الزمان من ان قوّامہ کیف یعملون فیہ والی من یصرفونہ، فیبنی علی ذٰلک، لان الظاھر انھم کانوایفعلون ذٰلک علی موافقۃ شرط الواقف وھو المظنون بحال المسلمین فیعمل علی ذٰلک، وفی انفع الوسائل ذکر فی الذخیرۃ قال سئل شیخ الاسلام عن وقف مشہور اشتبھت مصارفہ وقد رمایصرف الی مستحقیہ قال ینظر الی المعہودمن حالہ فیما سبق من الزمان من ان قوّامہ کیف یعملون ۱؎۔
جب ماضی میں اس کا حال معلوم ہے کہ منتظم اس میں کیا کرتے رہے اور کہاں خرچ کرتے ہیں تو اسی حال کو وقف کی بنیاد قرار دیا جائے گا کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ منتظم یہ عمل واقف کی شرط کے مطابق کرتے رہے ہیں مسلمانوں کے متعلق یہی گمان کیا جاسکتا ہے تو اسی عمل کو جاری رکھاجائے گا، انفع الوسائل میں ذکر ہے کہ ذخیرہ میں ہے کہ شیخ الاسلام سے ایک مشہور وقف جس کے مصارف اور مقدار کے متعلق اشتباہ ہے، کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ گزشتہ زمانہ کا حال معلوم کیا جائے گا کہ اس کے منتظم کیسے عمل کرتے رہے ہیں۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب والوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۶۱)
استطاعت کی معیار ملک نصاب زائد ازحاجت اصلیہ ہےتعزیہ ومزامیر دونوں معصیت ہیں اور معصیت میں مال وقف کاصرف دوہرا حرام ہے بلکہ تین حراموں کا مجموعہ، ایک وہ معصیت دوسرے مال وقف پر تعدی تیسرے مستحق کی محرومی مگر ان مور حادثہ سے نفس وقف پر کوئی ضرر نہیں، جو متولی ان میں صرف کرے گا اس قدر کا تاوان اس پر لازم ہوگا
لانہ امین وکل امین بالتعدی ضمین
 (کیونکہ وہ امین ہے اور ہر امین ناجائز تصرف پر ضامن بنتا ہے۔ت) بلکہ اگر خود سلطان واقف منجملہ مصارف مذکورہ تصریحاً تعزیہ ومزامیر کو بھی ایک مصرف مقرر کرتا کہ وقف پر جب بھی ضرر نہ تھا یہ مصرف باطل رد وساقط کرکے وہ حصہ بھی مصارف خیر ہی کیطرف مصروف ہوتا،
فتح القدیر پھر ردالمحتار میں ہے:
لووقف الذمی علٰی بیعۃ فاذا خربت یکون للفقراء کان للفقراء ابتداءً۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر ذمی نے مثلاً بیعہ( یہودی عبادت گاہ) کیلئے وقف کیا اور کہا جب یہ خرابہ ہوجائے تو یہ فقراء کیلئے ہی

ہوگا تو ابتداًء ہی یہ فقراء کےلئے وقف قرار پائے گا۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۶۱)
Flag Counter