مسئلہ۴۹ : ازریاست رامپور مرسلہ حاجی محمد علی خاں صاحب جج ۲۳جمادی الآخرہ ۱۳۲۹ھ
زید کی طرف سے وکیل نے جوخدام درگاہ غریب نواز سے ہے کمیٹی درگاہ شریف سے اجازت حاصل کرکے زید کے لئے احاطہ درگاہ معلی میں مسجد شاہجہانی کے جانب جنوب ایک حجرہ مع دو دالان کے اپنے صرف سے تیار کرائے بعد تیاری زید نے اس تعمیر پر قبضہ کرنے یا اس کے مصارف وکیل کو ادا کرنے سے قطعی انکار کیا اس پر عمرو نے وہ لاگت تعمیر دے کر حجرہ اور ہر دو دالان پرقبضہ کرلیا اور ایک حجرہ اور زمین وکیل خادم درگاہ کی معرفت اپنے ذاتی مصارف سے تیار کرواکر کل لاگت خادم موصوف کو باخذ رسید دے دیا اوربعد تیاری ان دو حجروں اور ہر دو دالان کو اس نیت سے وقف کردیا کہ جب کبھی بہ زمانہ عرس شریف یا غیر اوقات میں عمرو یا اس کی اولاد یا متعلقین یا احباب حاضر آستانہ ہواکریں توان میں قیام کیاکریں باقی زمانہ اور اوقات میں زائران صادر وارد، یا فقراء میں سے جو چاہے مقیم ہو کر شرف سعادت حاصل کیا کریں چنانچہ عمرو نے اپنی تعمیر کا کندہ تاریخی پتھر برپیشانی حجرہ میں نصب کردیا اور سالہاسال یوم تعمیر سے اب تک عمرو اور اس کے متعلقین وغیرہ زمانہ عرس شریف وغیرہ میں وہاں قیام کیا کرتے ہیں اگر کوئی فقیر وغیرہ ان میں رہتا ہے تو ان کے آنے پر وہ فوراً خالی کردیتا ہے اب وہی خادم درگاہ عمرو کے ان حجروں میں مقیم ہونے کے مانع ہیں اس عذر پر کہ یہ مال وقف ہے عمرو کی ملکیت نہیں، فقیر جوان حجروں میں رہتے ہیں ان سے یہ حجرے خالی نہیں ہوسکتے،عمرویا اس کے متعلقین یہاں ٹھہرنے کے مجاز نہیں ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین سے دریافت کیا جاتا ہے کہ عمرو کا ایسا وقف کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں، اور عمرو یا اس کے متعلقین بصورت متذکرہ بالاان حجروں میں مقیم ہوسکتے ہیں یانہیں اور منع کرنے والے کو خواہ وہ خدام درگاہ شریف میں سے ہو یا اور کوئی فقیر یا دیگر شخص جس نے حجروں میں سکونت اختیار کی ہو اس کو حق ممانعت ہے یانہیں اور شخص مانع ان حجروں میں متصرف اور قابض رہ سکتا ہے یانہیں اور وہ اس کے متعلق معاملات میں دخیل ہوسکتے ہیں یانہیں؟
الجواب
زمین احاطہ درگاہ معلی عامہ زائرین واردین صادرین کے لئے وقف یا ارصاد کالوقف بہر حال محکوم باحکام الوقف ہے
کما حققہ المحقق الشامی فی ردالمحتار
(جیسا کہ محقق شامی نے ردالمحتار میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) عمرو نے جو حجرہ اپنےزر خاص سے تعمیر کرایا اور جو حجرہ ودالان وکیل سے خریدے اور ان کو اسی مقصد کےلئے وقف کیا یہ وقف صحیح ہو اخاد م بائع اس عمارت سے بے تعلق ہوگیا، نہ اس کو ان معاملات میں مداخلت کا کوئی حق خاص رہا،
فی الدر المختار بنی علی ارض ثم وقف البناء قصدا بدونھا ان الارض مملوکۃ لایصح وان موقوفۃ علی ماعین البناء لہ جاز تبعااجماعاوان الارض لجہۃ اخری فمختلف فیہ والصحیح الصحۃ کما فی المنظومۃ المجیئۃ۔۱؎
درمختار میں ہے کہ کسی نے زمین پر عمارت بنائی پھر صرف عمارت بغیر اراضی وقف کردی اگر یہ زمین
مملوکہ ہے تو وقف صحیح نہیں، اگر زمین عمارت کے مقاصد کے لئے وقف ہوتو عمارت بھی تبعاً وقف ہوجائیگی اور اگر زمین کسی اور مقصد کیلئے وقف ہوتو پھر مختلف فیہ ہے اور صحیح یہی ہے کہ درست ہے جیسا کہ آئندہ منظوم میں ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۸۴)
عمرو اور اس کے متعلقین بھی ضرور ایام حاضری بارگاہ عالی میں ان میں مقیم ہوسکتے ہیں کوئی شخص ان کو بلاوجہ شرعی اس سے منع نہیں کرسکتا کہ یہ از قبیل مسجد ومقبرہ ورباط وقنطرہ وحوض وسقایہ ہے جن سے غنی وفقیر وواقف وغیر واقف سب حسب شرط وقف متمتع ہوسکتے ہیں۔
ہندیہ میں ہے:
لافرق فی الانتفاع فی مثل ھذہ الاشیاء بین الغنی والفقیر حتی جاز للکل النزول فی الخان والرباط والشرب من السقایۃ والدفن فی المقبرۃ کذافی التبیین۲؎۔
ان چیزوں سے انتفاع میں امیر غریب کاکوئی فرق نہیں، لہذا سرائے ورباط، سقایہ (سبیل)، تدفین(مقبرہ میں ہر ایک کو مساوی حق ہے۔
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۴۶۶)
اسی میں ہے:
ولاباس بان یشرب(ای البانی) من البئر والحوض ویسقی دابتہ وبعیرہ ویتوضأ منہ کما فی الظہیریۃ۳؎۔
بطور وقف تعمیر کرنیوالے کو کنویں، حوض سے پانی پینے، اپنے جانوروں کو پلانے، وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ ظہیریہ میں ہے۔(ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۴۶۵)
ہاں ان کو مسکن وموطن دوام بنانے کا نہ عمرو کو اختیار ہے نہ کسی فقیر وغیرہ کو کہ یہ زمین وعمارت دونوں کے مقصد کے خلاف ہے اور خدام درگاہ کو تو ان میں اقامت چند روزہ کی بھی صحیح نہیں کہ وہ باہر سے حاضرہونے والوں کے لئے بنے ہیں نہ کہ مجاوروں کے لئے۔
ہندیہ میں ہے:
قال الخصاف فی وقفہ اذاجعل دارہ سکنی للحاج فلیس للمجاورین ان یسکنوھا کذافی الظہیریۃ۱؎۔
امام خصاف نے وقف کے بیان میں فرمایا جب کسی نے اپناگھر حجاج کی رہائش کیلئے وقف کیا تو اس میں مجاورین کو رہائش کا حق نہیں، ظہیریہ میں یونہی ہے(ت)
( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الوقف الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۴۶۷ )
سوالاتِ سائل کا جواب تو ہوگیا مگر یہاں ایک ضروری امر غور طلب باقی رہا جس سے اگرچہ سائل نے تصریحاً سوال نہ کیا مگر بیان صورت میں اس سے تعرض موجود اور اس کی حاجت ضرور ہے وہ یہ کہ جس طرح غیر عمرو کو ممانعت عمرو متعلقین عمرو کا اختیار نہیں اس طرح آیا عمرو کو بھی دوسرے کے ممانعت کا اختیار ہے یا نہیں جبکہ وہ دوسرا نہ بطور سکونت بلکہ حسب شرط معلوم ایام موسم خواہ ان کے غیر میں پہلے سے مقیم ہواور اب عمرو یا اس کے متعلقین آجائیں تو آیا بدعوی عمارت اس سے خالی کراسکتے ہیں یانہیں، ظاہراً اس کا جواب نفی ہے، عمرو نے اگر یہ شرط وقف میں نہ لگائی ہو جب توظاہر، مجرد نیت نہ مفید شرط ہے نہ اس کا دعوٰی مسلم۔
اگر کہے میں نے یہ نیت کی تھی تو اس کی تصدیق نہ ہوگی تاتارخانیہ، جب وقف میں یہ معاملہ ہے توغیر وقف میں کیسے تصدیق نہ ہوگی اھ(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۹)
اور اگر شرط لگائی ہو اور شرط واقف واجب الاتباع ہے اور اس کے خلاف تصرف ناجائز، اور جب تاحیات صرف اپنے نفس پر وقف جائز ہے تو اوقاتِ خاصہ میں اپنی تقدیم کی شرط بدرجہ اولٰی، مگر یہ سب اس صورت میں ہوتا کہ زمین بھی ملک عمرو ہوتی، یہاں کہ زمین اول سے عام پر وقف ہے اسے کسی وقت اپنے نفس کےلئے اسے خاص کرلینے کا اختیار نہیں عمارت اس نے وقف کی اسے اپنے لئے خاص کرسکتا اگر یہ خصوص عمارت ہی تک محدود رہتا مگر ایسا نہیں بلکہ زمین بھی ان اوقات میں اس کےلئے محصور اور عام اہل حق سے ممنوع ومحجور رہے گی بلکہ زمین ہی قیام میں اصل ہے اور عمارت تابع۔ اور زمین پر اس کو اپنی تقدیم وترجیح کاکوئی حق نہیں، نہ دواماً نہ کسی وقت خاص کےلئے، مثلاً موقف عرفات میں کوئی شخص ایک حجرہ بنائے کہ جس سال یہ حج کو جائے دوسرا وہاں وقوف نہ کرسکے اس کی ہرگز اجازت نہیں ہوسکتی۔
امام طحاوی شرح معانی الآثار پھر علامہ اتقانی غایۃ البیان شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:
المسجد الحرام لایجوز لاحد ان یبتنی فیہ بناء ولاان یحتجرفیہ موضعا وکذٰلک حکم جمیع المواضع التی لایقع لاحد فیہا ملک وجمیع الناس فیہا سواء الاتری ان عرفات لو اراد رجل ان یبنی فی المکان الذی یقف فیہ الناس بناء لم یکن لہ ذٰلک وکذٰلک منٰی لواراد ان یبنی فیہا داراکان من ذٰلک ممنوعا، وکذٰلک جاء الاثر عن رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وحدث باسنادہ الٰی عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قال قلت یارسول اﷲ الانتخذلک بمنی شیئا تستظل فیہ فقال یاعائشۃ انھا مناخ لمن سبق فہذا حکم المواضع التی فیہا الناس سواء ولاملک لاحد علیہا۱؎۔
مسجد حرام میں کسی کو اپنے لئے تعمیر کی اجازت ہے نہ ہی اپنے لئے جگہ مخصوص کرنے کا حق ہے ، اور یہی حکم ان تمام مواضع کا ہے جن میں کسی کو ملکیت کاحق نہیں اور ان میں تمام لوگ مساوی حق رکھتے ہیں کیا آپ دیکھتے نہیں کہ عرفات میں کوئی شخص مکان بنانا چاہے جو کہ لوگوں کے ٹھہرنے کے لئے ہے تو اس کو یہ حق نہیں ہے، اور یونہی منٰی میں کوئی مکان حویلی بنانا چاہے تو ممنوع ہے، یہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ماثور ہے جس کی نسبت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے روایت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اﷲ !کیا ہم آپ کے لئے منٰی میں کوئی سایہ دار جگہ بنادیں، تو آپ نے فرمایا اے عائشہ!منٰی تمام لوگوں کےلئے ڈیرہ ہے جو بھی پہلے وہاں اتر جائے تو یہ ان مواضع کا حکم ہے جس میں تمام لوگوں کو برابر حق ہے اور کسی کی ملکیت نہیں ہے(ت)
(۱؎ شرح معانی الآثار کتاب البیوع باب بیع ارض مکہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۲۴۶)
تو یہ شرط خلافِ شرع ہوئی اور واقف کی جو شرط مخالف شرع مطہر ہو نامقبول و نامعتبر ہے۔ ردالمحتار میں ہے:
شرائط الواقف معتبرۃ اذالم تخالف الشرع۲؎۔
جب شرع کے مخالف نہ ہوتو وقف کی شرائط معتبر ہیں(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف مطلب شرائط الوقف معتبرۃ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۶۱)
اور یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ ایسی زمینیں اس کے لئے ہیں جس کا قبضہ پہلے ہوجائے او ریہاں عمرو کا قبضہ سابق ہے کہ اس کی عمارت موجود ہے جیسے کوئی شخص مسجد میں آیا ایک جگہ بیٹھا پھر وضو کےلئے گیا اور اپنا کپڑا وہاں چھوڑ گیا دوسرا شخص اس کپڑے کو ہٹا کر وہاں نہ بیٹھے کہ کپڑے والے کا قبضہ سابق ہولیا ہے، یہاں اس کا محل نہیں، جب عمارت وقف ہوچکی عمارت کا ہونا اس کا قبضہ سابقہ نہیں ٹھہر سکتا کہ نفس عمارت میں بھی یہ اور سب مسلمان برابر ہوگئے معہذا ایسا قبضہ تھوڑی دیر کےلئے مسلم ہوتا ہے جیسا کپڑا رکھ کر وضو کوجانے میں، نہ یہ کہ مسجد میں اپنی کوئی چیز رکھ دیجئے اور وہ جگہ ہمیشہ آپ کےلئے مخصوص ہوجائے کہ جب آئیے دوسروں پر تقدیم پائیے، یہ ہرگز نہ جائز نہ مقبول۔
درمختار، مسجد میں ممنوعات کے بیان میں ہے کہ اپنے لئے جگہ کو مخصوص کرنا اور وہاں سے کسی کو ہٹانا اگرچہ مدرس ہو منع ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۴)
ردالمحتار میں ہے:
فی القنیۃ لہ فی المسجد موضع معین یواظب علیہ وقد شغلہ غیرہ قال الاوزاعی لہ ان یزعجہ ولیس لہ ذٰلک عندنا اھ ای لان المسجد لیس ملکا لاحد بحر عن النہایۃ قلت وینبغی تقیید بمااذا لم یقم عنہ علی نیۃ العود بلامھلۃ کما لوقام للوضوء مثلا ولاسیما اذا وضع فیہ ثوبہ لتحقق سبق یدہ تأمل وفی شرح السیر الکبیر للسرخسی وکذاکل مایکون المسلمون فیہ سواء کالنزول فی الرباطات والجلوس فی المساجد للصلٰوۃ، والنزول بمنٰی او عرفات للحج حتی لوضرب فسطاطہ فی مکان کان ینزل فیہ غیرہ فھواحق ولیس للاٰخران یحولہ۲؎۔
قنیہ میں ہے کہ مسجد میں کسی کی مخصوص جگہ جہاں وہ روزانہ بیٹھتا ہو وہاں کوئی دوسرا شخص مشغول ہوجائے، تو امام اوزاعی نے فرمایا اگر وہ اس کو وہاں سے ہٹانا چاہے تو جائز ہے اور اس کو ایسا کرنے کا حق نہیں ہے ہمارے نزدیک اھ یعنی کیونکہ مسجد کسی کی ملکیت نہیں بحر میں نہایہ سے منقول، قلت(میں کہتا ہوں)اس بیان کو اس بات سے مقید کرنا مناسب ہے کہ جب پہلا شخص وہاں پر فوراً واپس آنیکی نیت سے نہ اٹھا ہو جیساکہ کوئی وضو کےلئے مثلاً اٹھے خصوصاً جب وہاں اپنا کپڑا رکھ جائےیہ اس لئے کہ وہ پہلے قبضہ کرچکا ہے، غور کرو۔ اور امام سرخسی کی سیر کبیر میں ہے اور ایسے ہی ہر وہ مقام جس میں تمام مسلمان مساوی حق رکھتے ہوں، جیسا کہ سراؤں میں ٹھہرنا، نماز کےلئے مساجد میں بیٹھنا اور منٰی اور عرفات میں حج کے لئے اترنا، حتی کہ اگر کسی نے ایک جگہ وہاں خیمہ لگایا اور دوسرا شخص وہاں پہلے ٹھہرگیا تو پہلے کو یہ حق نہیں کہ اسے وہاں سے منتقل کرے الخ(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ مطلب فیمن سبقت یدہ الی مباح داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۴۵)
اور یہیں سے ظاہر ہوگیاکہ جس نے سبقت کی اور عمرو کے لئےاپنی حاجت جائزہ کے وقت خالی نہیں کرتا اس پر یہ اعتراض بھی نہیں ہوسکتا کہ حق غیر میں تصرف کررہا ہے یعنی عام حق توزمین میں تھا اور یہ حجروں دالا نوں میں ٹھہرکر عمارت کو بھی اپنے تصرف میں لایا اور وہ عمارت اصل مالک نے اس کے لئے جائز کی تھی جو خود اس کی حاجت کے سوا دوسرے وقت میں آئے اس کا جواب وہی ہے کہ عمارت اس کی ملک نہ رہی اور
وہ شرط کہ اس نے کی تھی خلاف شرع ہوکر نامعتبر ہوئی تو اب جس کا ہاتھ سبقت کرے وہی مقدم ہےھذاماظہر لی والعلم بالحق عندربی(مجھے یہ معلوم ہوا جبکہ حقیقی علم میرے رب کو ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔