مسئلہ۴۲ : کریم الدین واقف نے بحیثیت متولی کام نہیں کیا بلکہ مالکانہ جب سے وقف کیا جس کو عرصہ پندرہ سال کا ہوا کرتے رہے سیر اس میں کی (مہ معہ /)بیگھ زمین خود کاشت میں رکھی جو اعلٰی درجہ کی ہے اور کبھی اس کا لگان درج نہیں ہوا، اخراجات جو لکھے ہیں چند نشان میں کبھی نہیں کی متولی بدلنے کی کہیں شرط نہیں، جس صورت میں خود واقف جو متولی ہوا وہ حسب شرائط کار بندنہ ہوا پھر وقف کب ہوا، مکرر یہ کہ اس نے اندراج وقف کاکاغذات پٹواری میں نہیں کرایا یہ ایک شرط اس نے اپنے ذمے لازم رکھی تھی۔
الجواب
وقف میں کریم الدین کے لفظ صاف و بے تقیید مطلق ہیں کہ وقف دائمی کیا میں نے اور خود اپنے آپ کو متولی کیا وقف صحیح وتام ولازم ہوگیا جس کی تبدیل ناممکن ہے بعد کواگر اس نے قبضہ مالکانہ کیا ہو اور جتنی باتیں سائل نے ظاہر کیں سب سچ ہوں بلکہ بالفرض اس نے صراحۃً دعوٰی دائر کردیا ہو کہ میں مالک ہوں یہ وقف نہیں ہے جب بھی وقف کو آنچ نہیں پہنچ سکتی بلکہ خود اس کی خیانت ظاہر ہوتی اور واجب ہوتا کہ وقف اس سے نکال کر دوسرے کے سپرد کیا جائے نہ یہ کہ اس سے وقف باطل ہوجائے یہ نری جہالت و ضلالت ہے۔
جبراً معزول کرنا واجب ہے، بزازیہ، اگرچہ واقف ہی ہو، درر۔تو غیر شخص جو قابل اعتماد نہ ہو اس کو بطریق اولٰی معزول کیا جائے گا۔(ت)
(۱؎درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۳)
شرائط کی پابندی اس پر لازم تھی کہ اگر نہ کی گنہگار ہوانہ کہ وقف ہی جاتا رہا وقف کے بعد واقف صرف ایک متولی کی حیثیت میں رہتا ہے نہ کہ مالک یا ابطال وقف پر قادر۔ کیا متولی اگر خلافِ شرائط کرے تو شیئ وقف سے نکل جائے گی، ایسا خیال نرے احمق بے ادراک کا خیال ہے، دربارہ متولی واقف کو ایسی صورت میں ضرور تبدیل کا اختیار ہوتا ہے اگرچہ وقت وقف یا وقف نامہ میں بدلنے کی کوئی شرط نہ کی ہو۔
بحرالرائق میں ہے:
التولیۃ من الواقف خارجۃ عن حکم سائر الشرائط لان لہ فیہا التغییر والتبدیل کلما بدالہ من غیرشرط۔۲؎
متولی بنانا واقف کی تمام شرائط سے الگ معاملہ ہے کیونکہ واقف جب چاہے بغیر شرط بیان کئے بھی متولی کو تبدیل کرسکتا ہے۔(ت)
(۲ ؎بحرالرائق کتاب الوقف ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵ /۲۳۱)
تو بعد کو جوا قرار نامہ اس نے دربارہ تولیت لکھا اسی پر عمل درآمد واجب ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۴۳تا۴۵: ازبہار شریف ضلع پٹنہ ڈاکخانہ سوہ سرائے محلہ مغل کنواں مکان شیخ بہادر مہتو مرسلہ مولوی امیر حسن صاحب ۲۱ذی الحجہ ۱۳۲۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے اہل سنت وجماعت اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنے وفات سے تیرہ برس پہلے اپنی جائداد کو وقف کرکے بشہادت معززین شہر ایک وثیقہ لکھوا کر حاکم وقت کی کچہری میں باضابطہ تعمیل کرادیا، بعدتیرہ سال کے مرض موت میں دوسرا وثیقہ مخالف شروط وثیقہ اول لکھوایا اور دو چار پہر کے بعد قضا کرگئی چونکہ ہندہ سنیہ حنفیہ تھی لہذا فقہ حنفیہ کی معتبرہ ومشہور کتابوں سے قول مفتی بہ وصحیح کے ساتھ میرے سوالات مفصلہ ذیل کا جواب مرحمت ہو:
(۱) وثیقہ اول کی ترمیم وشروط بدلنے کا ہندہ کا اختیار تھا یانہیں؟
(۲) مرض موت کے وقف کا کیا حکم ہے؟
(۳) وثیقہ ثانی صحیح ہے یا باطل ؟بینواتوجروا المستفتی عبداﷲ
الجواب
عامہ(عہ۱) شرائط معتبرہ(عہ۲) کا اختیار شرع مطہر نے واقف کو صرف انشائے وقف کے وقت دیا ہے مثلاً جسے چاہے اس کا مصرف بنائے جسے چاہے اس سے جدا رکھے، جسے جتنا چاہے دینا بتائے، جس وقت یا حالت یا صفت کے ساتھ چاہے مقیدکردے، جو ترتیب چاہے مقرر کرے، جب تک اس انشاء میں ہے مختار ہے، وقف تمام ہوتے ہی وہ تمام شروط مثل وقف لازم ہوجاتی ہیں کہ جس طرح وقف سے پھرنے یا اس کے بدلنے کا اسے اختیار نہیں رہتا یونہی ان میں سے کسی شرط سے رجوع یا اس کی تبدیل یا اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتا ہاں اگر انشاہی کے وقت شرط لگادی تھی کہ مجھے ان تمام شروط یا خاص فلاں شرط میں تبدیل کا اختیار ہوگا تو جس شرط کے لئے بالتصریح یہ شرط کرلی تھی اسی کو بدل سکے گا پھر اسے بھی ایک ہی بار بدل سکتا ہے،جب تبدیل ہولی اب دوبارہ تغیرکا اختیار نہ ہوگا کہ اسی قدر شرط کا مفادتھا، وہ پورا ہوگیا اب دوبارہ تبدیل شرط شے زائد ہے لہذامقبول نہ ہوگی البتہ اگر کسی شرط پر انشائے وقف میں یہ شرط لگادی کہ میں اسے جب کبھی چاہوں ہر بار بدل سکوں گا تو اس شرط کی نسبت اختیار مستمر رہے گا کہ اب اس کا استمرار ہی مقتضائے شرط ہے غرض واقف خود اس کا قطعی پابند ہوتا ہے جو ان شرائط میں وقف کرتے وقت زبان یا قلم سے نکال چکا اس سے باہر ان میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا،
عہ۱: انما قال عامۃ لان التولیۃ خارجۃ عن ھذا الحکم فلہ التغییر فیہا کلما شاء ولولم یشرط شیئا کما فی البحر وقد تقدم فی فتاوٰنا غیرمرۃ۱۲منہ(م)
''عا مہ'' کا لفظ اس لئے کہا کیونکہ تولیت کا معاملہ اس حکم سے خارج ہے لہذا واقف کو جب چاہے متولی میں تبدیلی کا حق ہے اگرچہ اس کی شرط نہ لگائی ہو جیسا کہ بحرمیں ہے اور متعدد بار ہمارے فتاوی میں گزرچکا ہے ۱۲منہ(ت)
معتبر شرائط سے کہا، کیونکہ باطل شرط ہو تو مطلقاً باطل ہے وقف کرتے وقت لگائی گئی ہو یا بعد میں لگائی گئی ہو ۱۲منہ(ت)
امام طرابلسی اسعاف میں فرماتے ہیں:
لایجوز لہ ان یفعل الاماشرط وقت العقد۱؎۔
یعنی واقف کو اسی قدر کرنے کی اجازت ہے جتنا وقف کرتے وقت شرط کرچکا تھا۔
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ الاسعاف کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۴۳۱)
اسی میں ہے:
لو شرط فی وقفہ ان یزید فی وظیفۃ من یری زیادتہ اوینقص من وظیفۃ من یری نقصانہ اویدخل معھم من یری ادخالہ اویخرج من یری اخراجہ جاز، ثم اذا فعل ذٰلک لیس لہ ان یغیرہ لان شرطہ وقع علی فعل یراہ فاذا راٰہ مضاہ فقد انتہی ماراٰہ۲؎۔
یعنی اگر واقف نے وقف میں شرط کرلی کہ میری رائے میں جس کا وظیفہ بڑھانا مناسب ہوگا بڑھادوں گا یا جس کا کم کرنا مناسب ہوگا کردوں گا جسے داخل کرنا آئے گا داخل کروں گا جسے خارج کردینا منظور ہوگا خارج کردوں گا تو یہ شرط جائزہے پھر جب ایک بار کرچکا اب اسے نہیں بدل سکتا کہ شرط جتنی تھی ختم ہوچکی۔
(۲؎ردالمحتار بحوالہ الاسعاف کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۴۳۱)
علامہ سید احمد حموی غمز العیون والبصائر شرح الاشباہ والنظائر میں فرماتے ہیں:
الوقف اذالزم لزم مافی ضمنہ من الشروط۳؎۔
وقف جہاں لازم ہوا ساتھ ہی اس کے ضمن میں جتنی شرطیں ہیں سب لازم ہوجاتی ہیں۔
(۳؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱ /۳۰۹)
فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے:
وقف ضیعۃ فی صحتہ علی الفقراء واخرجھا من یدہ الی المتولی ثم قال لوصیہ عندالموت اعط من غلتھا لفلان کذاولفلان کذا فجعلہ لاولئک باطل لانھا صارت للفقراء اولا فلا یملک ابطال حقھم الا اذاشرط فی الوقف ان یصرف غلتہا الٰی من شاء۱؎۔
یعنی ایک جائداد اپنی صحت میں فقیروں پر وقف کرکے متولی کو سپرد کردی پھر مرتے وقت وصی سے کہا اس کی آمدنی سے اتنا فلاں کو دینا اتنا فلاں کو تو اس کا یہ کہنا باطل ہے کہ وقف ابتداءً فقراء کےلئے ہوچکا تو ان کا حق مٹانے کا اختیار نہیں رکھتا مگریہ کہ وقف ہی میں شرط کرلی ہو کہ اس کی آمدنی سے جسے چاہوں گا دوں۔
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الوقف نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۱۵)
درمختار میں ہے:
جازشرط الاستبدال بہ ثم لایستبدلھا بثانیۃ لانہ حکم ثبت بالشرط والشرط وجد فی الاولٰی لاالثانیۃاھ۲؎مختصرا۔
یعنی تبدیل وقف کی شرط جائز ہے پھر جب ایک بار تبدیل کرچکا دوبارہ نہیں کرسکتا کہ یہ اجازت تو اس شرط لگانے سے حاصل ہوئی تھی اور شرط پہلی میں پائی گئی نہ کہ دوسری میں اھ مختصراً۔
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۸۳)
ردالمحتار میں فتح القدیر سے ہے:
الاان یذکر عبارۃ تفید لہ ذٰلک دائما۳؎۔
یعنی ہاں اگر ہمیشہ اختیار تبدیل کی شرط کرلی تو ہمیشہ مختار رہے گا۔
(۳؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۸۸)
اس قدر سے سوال اول وسوم کا جواب واضح ہوگیا کہ شروط لازمہ کی ترمیم کا ہندہ کو کوئی اختیارنہ تھا اور دوسرا وثیقہ جہاں تک ان کی تبدیل کرتا ہو محض لغو و مہمل کہ وقف اس کی ملک سے خارج ہوچکا اور شرائط لازمہ لازم ہولیں اب ان کے متعلق نیا وثیقہ ایسا ہے جیسا ایک اجنبی راہ چلتا کچھ لکھ جائے۔ سوال دوم کو اس مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں اور اس کا جواب یہ کہ مرض الموت میں وقف مثل وصیت بے اجازت ورثہ صرف ثلث مال میں نافذ ہوتا ہے
کما فی التنویر وغیرہ عامۃ کتب المذہب
(جیسا کہ تنویر وغیرہ عامہ کتب المذہب میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۴۶ تا۴۸ : ازبدایوں مرسلہ جناب نبی بخش صاحب مہتمم مدرسہ محمدیہ ۲محرم الحرام ۱۳۲۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جائداد مسجد و مدرسہ دینی پر وقف ہے آیا (۱) متولی کو اختیار ہے کہ اس کا کوئی جز بیع کر دے یا(۲) کسی کی حاجت وکار کے لیے وہ جائداد یا جزو جائداد اسے دے دے کہ وہ اپنے تصرف میں لائے اور اس کے عوض اس سے دوسری جائداد ویسی ہی یا اس سے بہتر بدل لے یا (۳) اس جائداد کا کوئی ہمیشہ کےلئے کسی کو اجارہ دے دے یا چالیس سال کا پٹہ لکھ دے حالانکہ وقف آباد ہےاور اسے حاجت نہیں، نہ واقف نے وقف نامہ میں اس کی اجازت دی بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ ضرورت اتفاقیہ تعمیر درصورت وقوع خرابی مسجد ومدرسہ اختیار اجارہ دینے جزوجائداد کا چند روز عارضی تا ادائے قرضہ ہوگا۔ بینواتوجروا۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ وہ جائداد جسے لوگ اپنی ضرورت کے لئے مانگتے ہیں باغ ہے وہ اس کے پیڑ کاٹ کر عمارت بنانا چاہتے ہیں فقط۔
الجواب
یہ چاروں صورتیں حرام قطعی ہیں متولی خواہ غیر کسی کو اصلاً ان کا اختیار نہیں متولی اگر ان میں سے کوئی صورت کرے گا تو خائن ہوگا اور واجب ہوگا کہ فوراً نکال دیا جائے اور وقف اس کے قبضہ سے نکال کرکسی متدین خدا ترس کو حسب شرائط واقفہ سپرد کیا جائے دوسرے جو اس باغ کو لے کر اس کے پیڑ کاٹ کر کوئی عمارت بنائیں گے وقف کے غاصب ہوں گے ،فرض ہوگا کہ فوراً وقف ان کے قبضہ ظالمانہ سے خلاص کیاجائے اور ان کی عمارت مسمار کردی جائے اور ان سے پیڑوں کا تاوان بسختی تمام بلارعایت وصول کرلیا جائے۔
رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لیس لعرق ظالم حق۱؎۔ ظالم کو دخل کا حق نہیں۔(ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الاحکام باب ماذکر فی احیاء الموات امین کمپنی دہلی ۱ /۱۶۶)
پہلی صورت کی حرمت تو ظاہر، ہر شخص جانتا ہے کہ:
الوقف لایملک لایباع ولایورث
وقف ملکیت نہیں بن سکتا، نہ فروخت ہو اور نہ وراثت بن سکتا ہے۔(ت)
دوسری صورت یوں حرام ہے کہ واقفہ نے استبدال کی اجازت نہ دی بلکہ صراحۃً لکھ دیا کہ کسی متولی خواہ مہتمم خواہ اصحاب انجمن اسلامیہ کو اختیار انتقال دائمی جائداد کا نہ ہوگا اور وقف جب تک کچھ بھی انتفاع کے قابل رہے حاکم اسلام کو بھی اسکی تبدیل حرام و باطل ومردود محض ہے،
درمختار میں ہے:
شرط فی البحر خروجہ عن الانتفاع بالکلیۃ و کون البدل عقاراوالمستبدل قاضی الجنۃ المفسر بذی العلم والعمل۲؎۔
بحر میں شرط ہے کہ وہ وقف کلیۃً انتفاع کے قابل نہ رہے اور اس کابدل زمین ہو اور بدلنے والا قاضی محکمانہ ہو جس کا مطلب ہے کہ عالم باعمل ہو۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۸۳)
ردالمحتار میں ہے:
یجوز للقاضی بشرط ان یخرج عن الانتفاع بالکلیۃ وان لایکون ھناک ریع للوقف یعمربہ الخ۱؎۔
قاضی کو تبدیلی جائز ہے بشرطیکہ وقف کلیۃً ناقابل انتفاع ہوجائے اور وقف کو آباد کرنے کے لئے آمدن بھی نہ ہو الخ(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۸۸)
اور بدلے کی چیز کا اس سے بہتر ہونا وجہ جواز نہیں ہوسکتا۔ فتح القدیر میں ہے:
الواجب ابقاء الوقف علی ماکان دون زیادۃ اخری ولانہ لاموجب لتجویزہ لان الموجب فی الاول الشرط وفی الثانی الضرورۃ ولاضرورۃ فی ھذا اذلاتجب الزیادۃ فیہ بل تبقیہ کما کان۲؎۔
وقف کو اپنی اصلی حالت میں بحال رکھنا ضروری ہے اس میں کوئی زیادتی نہ کی جائے کیونکہ اس کے جواز کا کوئی موجب نہیں ہے موجب اول میں شرط ہے اور ثانی میں ضرورت ہے جبکہ یہاں کوئی ضروری نہیں، اس لئے اس میں زیادتی ضروری نہیں بلکہ جیسے تھا ویسے باقی رکھے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الوقف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵ /۴۴۰)
شرح الاشباہ للمحقق البیری میں یہ کلام فتح سے نقل کرکے فرمایا:
ماقالہ ھذا المحقق ھوالحق والصواب۳؎۔
جوا اس محقق نے فرمایا وہ حق وصواب ہے(ت)
(۳؎ شرح الاشباہ للعلامۃ البیری)
تیسری صورت کی حرمت یہ کہ ہمیشہ کے لئے اجارہ میں دینا کسی مملوک شے کا بھی جائز نہیں، نہ کہ وقف ظاہر ہے کہ ہمیشگی کسی شیئ کو نہیں تو معنی یہ ہوں گے کہ جب تک باقی ہے اور مدت بقامجہول ہے اور جہالت مدت سے اجارہ فاسد ہوتا ہے اور عقد فاسد حرام ہے، لہذا علماء نے تصریح فرمائی کہ جب تک مدت معین نہ کی جائے اجارہ جائز نہیں کہ تعیین مدت سے مقدار منفعت معلوم ہوتی ہے، پر ظاہر ہے کہ ہمیشہ کے لئے کہنا نہ کوئی تعیین مدت ہے نہ اس سے مقدار منفعت معلوم ہوسکے۔
ہدایہ میں ہے:
المنافع تارۃ تصیر معلومۃ بالمدۃ کاستیجار الدور للسکنی والارضین للزراعۃ فیصح العقد علی مدۃ معلومۃ ای مدۃ کانت لان المدۃ اذاکانت معلومۃ کان قدر المنفعۃ فیہا معلوما اذاکانت المنفعۃ لاتتفاوت۱؎۔
کبھی منافع کا تعین مدت کے تعین سے ہوتا ہے جیسے مکانات اور زرعی زمینوں کا اجارہ، تو معینہ مدت جو بھی ہو اس کے مطابق عقد اجارہ جائز ہے کیونکہ مدت معلوم ہوجانے سے منافع معلوم ہوجاتے ہیں جب منافع میں تفاوت نہ ہو(ت)
(۱؎ الہدایۃ کتاب الاجارات مطب یوسفی لکھنؤ ۳ /۲۹۱)
عنایہ میں ہے:
الظن عدم البقاء الٰی تلک المدۃ والظن مثل الیقین فی حق الاحکام فصارت الاجارۃ مؤبدۃ معنی والتابید یبطلھا۲؎۔
اس مدت تک باقی نہ رہنے کا ظن ہے جبکہ احکام ظن مثل یقین ہے تو معناً یہ اجارہ دائمی ہوگا اور دائمی اجارہ عقد کو باطل کردیتاہے(ت)
(۲؎ العنایۃ مع فتح القدیر کتاب الاجارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۸/۸)
چوتھی یوں حرام ہے کہ جب نہ واقف نے اجازت دی ہو نہ وقف کی اپنی کوئی ضرورت ومجبوری ہوتو زمین موقوف کو تین برس سے زیادہ پر اجارہ دینا جائز نہیں۔
ہدایہ میں ہے:
فی الاوقاف لاتجوز الاجارۃ الطویلۃ کی لایدعی المستاجر ملکھا وھی مازاد علی ثلث سنین ھوالمختار۳؎۔
اوقاف کا طویل اجارہ جائز نہیں تاکہ مستاجر کو دعوٰی ملکیت کےلئے گنجائش پیدا نہ ہو، اور طویل مدت تین سال سے زائد کا نام ہے اور یہی مختار ہے(ت)
(۳؎ الہدایۃ کتاب الاجارات مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۲۹۱)
درمختار میں ہے:
فلواجرھا المتولی اکثرلم تصح الاجارۃ وتفسخ فی کل المدۃ لان العقد اذا فسد فی بعضہ فسد فی کلہ فتاوٰی قاری الھدایۃ۴؎۔
اگر متولی نے وقفی چیز کو زیادہ مدت کیلئے اجارہ پر دیا توصحیح نہیں، اور یوں تمام مدت میں اسے فسخ قرار دیا جائےگا کیونکہ جب عقد کا بعض حصہ فاسد ہوا تو تمام مدت فسخ ہوجائیگا، فتاوٰی الہدایہ (ت)
(۴؎ درمختار کتاب الاجارات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۷)
پھر یہ حکم تو اجارہ کے تھے اور وہ جس کےلئے اس باغ کو طلب کررہے ہیں اجارہ نہیں اغارہ ہوگا یعنی وقف کا غارت کرنا، وقفی پیڑ کاٹ ڈالنے کی اجازت کیونکر ہوگی تو یہ اجارہ تین برس درکنار ایک گھڑی کے لئے حلال نہیں ہوسکتا۔