Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
10 - 112
مسئلہ۳۶: ازبنارس کچی باغ مرسلہ مولوی محمد ابراہیم صاحب خلف منشی لعل محمد تاجرپارچہ بنارس۴جمادی الاخری ۱۳۲۱ھ
ماقول العلماء ورثۃ الانبیاء جزاکم اﷲ تعالٰی یوم الجزاء
اس مسئلہ میں کہ یہاں رواج ہے کہ ماہ ربیع الاول میں لوگوں سے محض بغرض ایصال ثواب روح پرفتوح حضرت نبی مکرم نور مجسم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم چندہ لیا جاتا ہے لوگ حسب استطاعت دیتے ہیں اس کا کھانا وغیرہ پکا کر مساکین وفقراء کو کھلایا جاتا ہے، اب اس چندہ سے کچھ روپیہ کھانے وغیرہ کے پخت سے فاضل بچ گیا تو افسران ومہتممین کی صلاح ہوتی ہے کہ اس روپے فاضل سے دیگ آجانا چاہئے کیو نکہ ہر سال ۱۲ تاریخ ربیع الاول کو ضرورت پڑتی ہے اور بڑی تردد سے ملتی ہے کبھی مستعار کبھی کرائے پر، اور اس روپے سے آجائے گی تو ہمیشہ کے واسطے آرام ہوگا، معہذا یہ رائے بھی ہے کہ جس کو ضرورت دیگ کی پڑے گی اس کو کرائے پر دی جائے گی اور وہ کرایہ کی آمدنی مدرسہ میں طالب علم کی حاجتوں میں صرف کی جائے لیکن افسران مختلف ہیں جواز وعدمِ جواز میں،لہذا علماء سے مستفسر ہیں کہ اس طرح جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

ایسے چندوں سے جو روپیہ فاضل بچے وہ چندہ دہندگان کا ہے انہیں کی طرف رجوع لازم ہے وہ دیگ وغیرہ جس امر کی اجازت دیں وہی کیا جائے، ان میں جو نہ رہے اس کے عاقل بالغ وارثوں کی طرف رجوع کی جائے اگر ان میں کوئی مجنون یا نابالغ ہے تو باقیوں کی اجازت صرف اپنے حصص کے قدر میں معتبر ہوگی صبی ومجنون کا حصہ خواہی نخواہی واپس دینا ہوگا، او راگر وارث بھی نہ معلوم ہوں تو جس کام کے لئے چندہ دہندوں نے دیا تھا اسی میں صرف کریں، وہ بھی نہ بن پڑے تو فقراء پر تصدق کردیں، غرض بے اجازت مالکان دیگ لینے کی اجازت نہیں،
درمختار میں ہے:
ان لم یکن بیت المال معمور ااومنتظما فعلی المسلمین تکفینہ فان لم یقدرواسألواالناس لہ ثوبا فان فضل شیئ ردللمتصدق ان علم والاکفن بہ مثلہ والا تصدق بہ مجتبٰی۱؎۔
اگر بیت المال میں مال نہ ہو یا کوئی منتظم نہ ہوتو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کو کفن پہنائیں اور اگر کوئی قادر نہ ہو تو لوگوں سے چندہ لیا جائے اور کفن کے چندہ سے کچھ بچ جائے تو یہ چندہ لینے والا معلوم  ہوتو اسے لوٹا دیا جائے ورنہ اس سے ایسے ہی کسی فقیر کو کفن پہنادیا جائے، یہ بھی نہ ہوسکے تو کسی فقیر کو صدقہ کردیاجائے،مجتبٰی۔(ت)
 (۱؎ درمختار    باب صلوٰۃ الجنازۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۲۱)
ردالمحتار میں ہے:
 (قولہ والاکفن بہ مثلہ) ھذالم یذکرہ فی المجتبی بل زادہ علیہ فی البحر عن التجنیس والواقعات قلت وفی مختارات النوازل لصاحب الھدایۃ فقیر مات فجمع من الناس الدراھم وکفنوہ وفضل شیئ ان عرف صاحبہ یرد علیہ والایصرف الی کفن فقیر اٰخر اویتصدق بہ۱؎۔
ماتن کا قول کہ اسی جیسے فقیرکو کفن پہنادیاجائے، یہ عبارت مجتبٰی میں مذکور نہیں بلکہ یہ زائد بحرمیں تجنیس اور واقعات کے حوالے سے مذکور ہے میں کہتا ہوں اور صاحب ہدایہ کی کتاب مختارات النوازل میں ہے کہ فقیر فوت ہوا تو لوگوں نے چندہ جمع کرکے اس کو کفن دیا اور چندہ بچ گیا اگر اس زائد چندہ والا شخص معلوم ہوتو اسے واپس کیا جائے ورنہ اس کو کسی دوسرے فقیر کے کفن میں خرچ کیاجائے یا پھر صدقہ کردیا جائے(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     باب صلوٰۃ الجنازۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۵۸۱)
اسی طرح اور کتب میں ہے:
قلت واشارفی ردالمحتار بنقل عبارت المختارات الی انہ لم یذکر الترتیب بین التکفین والتصدق علی مافی الشرحاقول :  لکن فی الخانیۃ ثم الھندیۃ ان عرف صاحب الفضل ردہ علیہ وان لم یعرف کفن بہ محتاجا اٰخر وان لم یقدر علٰی صرفہ الی الکفن یتصدق بہ علی الفقراء۲؎اھ ۔فھذانص فی الترتیب ولاشک ان باختیارہ یخرج عن العھدۃ بیقین ثم ھذا وان لم یکن وقفا فلہ شبہ بہ ولاشک ان مراعاۃ غرض المالک املک واحکم فلذاعولنا علیہ، واﷲتعالٰی اعلم۔
قلت (میں کہتا ہوں) ردالمحتار میں مختارات کی عبارت نقل کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ کسی فقیرکو کفن پہنانے یا صدقہ کرنے میں ترتیب مذکور نہیں ہے جیسا کہ شرح میں ہے،اقول :  (میں کہتا ہوں) لیکن خانیہ پھر ہندیہ میں ہے کہ اگر زائد چندے والا معلوم ہوتو اسے واپس کیا جائے اور اگر معلوم نہ ہوتو پھر کسی اور محتاج کو کفن دیا جائے، اور اگر کسی کفن میں صرف کرنا مقدور نہ ہوتو پھر فقراء پر صدقہ کیا جائے اھ، تو یہ عبارت ترتیب کےلئے نص ہے، اس میں شک نہیں کہ اس ترتیب کو اپنانے سے یقینا عہدہ بر آہوسکتا ہے، پھر یہ اگرچہ وقف نہیں تو اس کے مشابہ ہے اور اس میں شک نہیں کہ چندہ دینے والے مالک کی غرض کو پورا کرنا زیادہ محکم ہے اس لئے ہم نے اس ترتیب کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الصلوٰۃ  الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۶۱)
مسئلہ۳۷: ازبریلی محلہ بہاری پور مسئولہ محمد علی جان خاں صاحب ۸رجب المرجب ۱۳۲۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ مسمی کرامت علی ونیاز علی واقع تکیہ ملوکپور کے خادم تھے جنہوں نے کچھ اراضی مسمی قادر بخش کے پاس بمیعادتیس سال کے بیع بالوفاء کردی جو بعد انقضا ء میعاد مذکورہ بالا کے شیخ مذکور کے قبضہ میں اس بیعنامہ کے ذریعہ سے آگئی، چنانچہ شیخ مذکور کی قبر اور ان کے بزرگان کی قبریں بھی اسمیں بنیں، بعدہ تخمیناً عرصہ سینتالیس سال کا ہوا کہ از جانب سرکار انگریزی تکیہ ہذا میں مردوں کے دفن کرنے کی ممانعت ہوگئی اب وہ اراضی بیکار پڑی ہے اوراس کی صفائی کا کچھ انتظام نہ تھا اس واسطے جملہ مسلمانان محلہ نے شیخ یاد علی وارث قادر بخش سے اس اراضی کا بیعنامہ مسجد کے نام جو اس کے محاذ میں واقع ہے صرف سڑک انگریزی درمیان میں واقع ہے لکھا لیا اور بعد لکھا نے بیعنامہ کے باجازت سرکار انگریزی اس اراضی کو پختہ منڈیروں سے محدود کرکے اس کے اوپر کرایہ دار کو بٹھادیا اور اس سے جو کرایہ حاصل ہوا اس کو مسجد کی مرمت وغیرہ میں صرف کیا اور وقت محدود کرنے اراضی کے اس کو ہموار کردیا تھا اب اس کے محاصل کا مسجد میں صرف کرنا جائز ہے یاناجائز؟بینواتوجروا۔
الجواب

اگر وہ زمین ان تکیہ داروں کی ملک نہ تھی بلکہ قبرستان عام مسلمین کی وقفی زمین تھی تو وہ بیعیں سب ناجائز ہوئیں اور بذریعہ بیع یہ صورت جو اسے متعلق مسجد کرلینے کی ہے یہ بھی ناجائز ہوئی اس میں جو قبور تھیں انہیں منہدم وہموار کرکے ان پر چلنا پھر نا سب ناجائز، البتہ جو زمین اس میں قبور سے جدا تھی وہ ازانجا کہ اب وہاں دفن ممکن نہ رہا ملک اصل واقف کی طرف عود کرگئی اس کے ورثہ کو اختیار ہے ان کی اجازت سے اس قدر کو متعلق مسجد کرسکتے ہیں اور واقف نہ معلوم ہو یا ورثہ کا پتا نہیں تو مسلمانوں کا یہ فعل باستثناء مواضع قبور ممنوع نہیں، واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ۳۸ تا ۴۱ : مسئولہ حافظ قاضی تلن خاں عرف میزان اﷲ شاہ اشرفی امام ومدرس مسجد مولوی ٹولہ شہر کہنہ ۵شوال ۱۳۳۳ھ
ایک شخص کےپاس دوسو روپے امانت مسجد کا تھا کہ جس کو بلا اجازت متولی اس نے عدالت سے وصولی کرلیا تھا اور بوجہ اس کے سربرآوردہ ہونے کے متولی نے طلب اس سے نہیں کی اور جب طلب کیا تو جواب دیا کہ جس کام میں میری رائے ہوگی صرف کردوں گا، چنانچہ اب اس شخص نے متصل اسی مسجد کے حجرہ کے اراضی افتادہ میں اپنا ذاتی ایک چبوترہ تعمیر کرلیا اور یہ خیال کہ اس چبوترہ کی آڑ دیوار حجرہ سے ہے اور ا س چبوترہ کے آگے بھی اراضی افتادہ ہے جس میں تین پرنالہ مسجد کے قدیم سے جاری ہیں  اس اراضی کی بھی آڑ مسجد سے ہوجاوے پس ایک پاکھا فصیل مسجد پر بنانے کا ارادہ کیا چونکہ وہ تعمیر بلا ضرورت دیوار مسجد پر تھی لہذا یہ ظاہرکیا کہ مرمت مسجد کرائی جاوے،چنانچہ اسی مرمت میں یہ تجویز خودکیا کہ پیش حجرہ ٹین ڈالا جاوے جس کے واسطے پاکھوں کی ضرورت ہے چنانچہ دونوں طرف حجروں کے فصیل پر پاکھے بنوائے گئے او ان کو بغرض حفاظت اراضی افتادہ بند کرنا چاہا تاکہ کوئی وضو فصیل پر نہ کرسکے جس کے مسلمان حارج ہوئے مگرکچھ نہ مانا ایک بہت اونچی جگہ پر کسی قدر ان پاکھوں کو کھولا اور ٹین پیش ہر دو حجرہ ڈلوادیا اور دوسو روپیہ اس تعمیر میں صرف کردئے۔ مسلمانوں کی رائے تھی کہ اور کچھ چندہ فراہم کرکے ایک مکان تعمیر ہوجاتا کہ جس کی آمدنی خرچ وصرف مسجد کوکافی ہوتی یہ رقم دو سو پچاس کی تھی جس میں اب صرف پچاس روپیہ انہیں کی تحویل میں باقی رہے ہیں لہذا تعمیرمکان اب دشوار ہوگئی،
(۱) ایسی حالت میں یہ روپیہ بجا صرف ہوایا بےجا؟

(۲) اور مواخذہ دار اس کا عنداﷲ وہ رہا یانہیں؟

(۳) اور متولی مسجد سے رسید اس روپے کی طلب کرتا ہے تو رسید دینا چاہئے یانہیں جبکہ بلامشورہ ورائے یہ روپیہ صرف ہوا مرمت مسجد میں، اگر صرف بہ انتظام ہوتا تو (صہ /) سے زائد نہ صرف ہوتا، اب ڈیڑھ سوروپیہ صرف دونوں طرف کے پاکھے اورٹین اور فضولیات میں صرف ہوگیا جس کی اس وقت مسجد کوکوئی ضرورت نہ تھی او ر۸ سال تک یہ روپیہ اس نے اپنے قبضہ میں رکھا،

(۴) اور دونوں جانب کے در فصیل کھلوادینے چاہئیں یانہیں کیونکہ ہوا بالکل مسدود ہے اور آرام نمازیوں اور وضو کاجاتا رہا، جو حکم شرع ہو وہ کیا جاوے۔بینواتوجروا۔
الجواب

(۱) شخص مذکور کے یہ تصرفات محض ناجائز وباطل ہیں۔

(۲) روپے کا تاوان اس پر لازم ہے۔

(۳) متولی مسجد کو حرام ہے کہ اسے رسید دے۔

(۴) دونوں طرف کے دربدستور کھول دئے جائیں کہ ہوااور وضو کاآرام ہو،
فی الدرالمختار والبحرالرائق والاشباہ والنظائر وغیرھا التصریح بان المتولی مقدم علی القاضی وان کان منصوبہ فکیف بالاجنبی فکیف فی اضاعۃ المال وسد المرافق۱؎واﷲتعالٰی اعلم۔
درمختار، بحرالرائق، الاشباہ والنظائر وغیرہا میں تصریح ہے کہ متولی قاضی پر مقدم ہے اگرچہ متولی اسی قاضی کا بنایا ہوا ہو تواجنبی کا کیا مقام ہے تو مال کاضیاع اور مفادات پر پابندی کا کیا سوال ہے،واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الوقف    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵ /۲۳۵)
Flag Counter