شرح مقاصد میں فرمایا: کثیر ماتوردالاراء الباطلۃ للفلاسفۃ من غیر تعرض لبیان البطلان الافیما یحتاج الٰی زیادۃ بیان۲؎۔
بسااوقات فلاسفہ کی آراء باطلہ ذکر کردی جاتی ہیں اور ان کے بطلان کے بیان سے تعرض نہیں کیا جاتا سوائے اس کے جس کے بیان کی زیادتی اور تفصیل کی محتاجی ہو۔(ت)
(۲؎ شرح المقاصد المقصد الثالث النوع الثالث المسموعات دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/ ۲۴۲)
اسی طرح حسن چلپی علٰی شرح المواقف میں ہے ___خود مواقف میں فرمایا:
انمالانتعرض لامثالہ للاعتماد علی معرفتک بھافی موضعھا۳؎۔
ہم اس مباحث کا تعرض نہیں کرتے اس اعتماد پر کہ تو ان کو ان کی جگہوں پر پہچان چکا ہے(ت)
(۳؎ المواقف مع شرح المواقف القسم الاول فی الالوان المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی ۵ /۲۴۲)
شرح مواقف میں فرمایا:
علیک برعایۃ قواعد اھل الحق فی جمیع المباحث وان لم یصرح بھا۔۴؎
تجھ پر تمام مباحث میں اہل حق کے قواعد کی رعایت لازم ہے اگرچہ ان کی تصریح نہ کی گئی ہو(ت)
(۴؎ شرح المواقف القسم الاول فی الالوان المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی ۵ /۲۴۲)
فتح القدیر ونہر الفائق ودرمختار کتاب النکاح میں ہے:
الحق عدم تکفیر اھل القبلۃ وان وقع الزاماً لھم فی المباحث۔۵؎
حق اہل قبلہ کی عدم تکفیر ہے اگرچہ مباحث میں الزامی طور پر تکفیر واقع ہوئی ہے(ت)
(۵؎ درمختار کتاب النکاح فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۸۹)
شاہ عبدالعزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ میں تصریح کی کہ جو کچھ میں اس میں کہوں میر امذہب نہ سمجھاجائے میری باگ ایک قوم بے ادب کے ہاتھ میں ہے جدھر لیجاتے ہیں جانا پڑتاہے، بالجملہ مباحث کلام ومناظرہ کا کچھ اعتبار نہیں کہ محل بیان عقائد میں جو لکھا ہے وہ عقیدہ ہے، یا جس پر صراحۃً اجماع ملت بتایا جائے، یا اسے تصریحاً عقیدہ اہلسنت کہاجائے، یا اس کے خلاف کو مذہب گمراہاں بتایا جائے ایسے مواقع پر ملاحظہ فرمائے کتب مذکورہ میں کیا لکھا ہے،
شرح مقاصد میں ہے :طریقۃ اھل السنۃ ان العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولاغیرہ، وواحد لاشبۃ لہ ولاضد ولاند ولانھایۃ لہ ولاصورۃ ولاحد ولایحل فی شیئ ولایقوم بہ حادث ولایصح علیہ الحرکۃ والانتقال ولاالجھل ولا الکذب ولاالنقص وانہ یری فی الاٰخرۃ۱؎۔
اہل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جونہ اس کاعین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے، نہ اس کی کوئی مثل ہے، نہ مقابل، نہ شریک، نہ انتہا، نہ صورت، نہ حد، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے،۔ نہ اسکے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح، نہ انتقال، نہ جہالت، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بیشک آخرت میں اس کو دیکھا جائےگا۔(ت)
(۱؎ شرح المقاصد المبحث الثامن حکم المومن الخ دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۷۰)
اسی میں ہے :
الکذب محال، امااولا فباجماع العلماء واما ثانیاً فبما تواترمن اخبار الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام واما ثالثا فلان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اﷲتعالٰی محال۲؎الخ۔
اﷲ تعالٰی کے لئے جھوٹ محال ہے، اولاً اس لئے کہ اس پر علماء کا اجماع ہے، اور ثانیاً اس لئے کہ اس میں پہلے انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے متواتر خبریں منقول ہیں، اور ثالثا اس لئے کہ جھوٹ نقص ہے جس پر تمام عقلمندوں کا اتفاق ہے اور نقص کااﷲ تعالٰی میں ہونا محال الخ(ت)
(۲؎شرح المقاصد المبحث السادس فی انہ متکلم دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲ /۱۰۴)
مواقف وشرح مواقف میں ہے:
(تفریع علی) ثبوت(الکلام) ﷲ تعالٰی وھوانہ(یمتنع علیہ الکذب اتفاقا، اما عندنا فثلثۃ اوجہ الاول انہ نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال) اجماعا۳؎۔
یہ اﷲ تعالٰی کے لئے ثبوت کلام پر متفرع ہے اور وہ یہ کہ بیشک بالاتفاق اﷲ تعالٰی کے لئے جھوٹ ممتنع ہے، ہمارے نزدیک اس کی تین وجوہ ہیں، پہلی وجہ یہ کہ جھوٹ نقص ہے اور نقص اﷲ تعالٰی پر بالاجماع محال ہے۔(ت)
(۳؎ شرح المواقف المرصد الرابع المقصد السابع منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸/ ۰۱۔۱۰۰)
انہیں میں آخر کتاب فذلکہ عقائد اہلسنت میں ہے:
الفرق الناجیۃ اھل السنۃ والجماعۃ فقد اجمعواعلٰی حدوث العالم ووجود الباری تعالٰی، وانہ لاخالق سواہ وانہ قدیم لیس فی حیز ولاجھۃ ولایصح علیہ الحرکۃ والانتقال ولاالجھل ولایصح الکذب ولاشیئ من صفات النقص۔۱؎(ملخصًا)
ناجی فرقے یعنی اہلسنت وجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ عالم حادث ہے اور باری تعالٰی موجود ہے اور یہ کہ اس کے بغیر کوئی خالق نہیں اور یہ کہ وہ قدیم ہے، نہ وہ کسی جہت میں ہے نہ حیز میں، اس پر حرکت وانتقال اور جہل وکذب صحیح نہیں، اور نہ ہی کوئی صفت نقص اس کے لئے صحیح ہے(ت)
(۱؎ شرح المواقف المرصد الرابع فی الامۃ منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸/ ۴۰۰)
انہیں میں بیان فرقہ ضالہ میں ہے :
(المزداریۃ ھوابوموسٰی عیسٰی بن صبیح المزدار تلمیذ بشر) اخذ العلم عنہ وتزھد حتی سمی راھب المعتزلۃ(قال اﷲ قادر علی ان یکذب ویظلم) ولوفعل لکان الھا کاذبا ظالمًا تعالٰی اﷲ عما قالہ علواکبیرا۲؎۔
(مزداریہ، وہ ابوموسٰی عیسٰی بن صبیح مزدار شاگرد ہے بشرکا) اس سے علم حاصل کیا اور زہد اختیار کیا حتی کہ اس کا نام راہب معتزلہ پڑگیا(اس نے کہا کہ اﷲ تعالٰی جھوٹ اور ظلم پر قادرہے) اگر وہ ایسا کرلے تو وہ جھوٹا ظالم معبود ہوگا، حالانکہ اﷲ تعالٰی بہت بلند ہے اس سے جو کچھ اس نے کہا۔(ت)
(۲؎شرح المواقف المرصد الرابع فی الامۃ منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸/ ۳۸۱)
مسایرہ امام ابن الہمام میں ہے :
یستحیل علیہ تعالی سمات النقص والجہل والکذب۳؎۔
اﷲ تعالٰی پر نقص، جہل اور جھوٹ کی علامات محال ہیں۔(ت)
(۳؎ المسایرہ مع المسامرۃ ختم المصنف کتابہ ببیان عقیدہ اہل سنۃ اجمالا المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۳۹۳)
اس کی شرح مسایرہ میں ہے:
لاخلاف بین الاشعریۃ وغیرہم فی ان کل ماکان وصف نقص فالباری تعالٰی عنہ منزہ، وھو محال علیہ تعالٰی والکذب وصف نقص۱؎۔
اشاعرہ اور ان کے غیر میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں جو بھی وصف نقص ہے باری تعالٰی اس سے پاک ہے اورایسا وصف اس پر محال ہے اور جھوٹ وصف نقص ہے۔(ت)
(۱؎ المسامرۃ شرح المسایرۃ اتفقوا علی ان ذلک غیر واقع المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۲۰۶)
یونہی مسایرہ میں تلخیص عقائد اہلسنت میں اس کی تصریح فرمائی۔ مسایرہ کی یہ عبارت میرے پاس منقول نکل آئی، کتاب وطن میں ہے۔ یونہی شرح طوالع یہاں پاس نہیں ورنہ اور عبارتیں بھی حاضر کرتا اور انصافاً کسی مسلم صحیح الاعتقاد کو یہاں عبارات کی کیا حاجت، اگر بفرض غلط علماء تصریح نہ بھی فرماتے تو اپنا ایمان بھی کوئی چیز ہے جس میں معاذا ﷲ نقص کی گنجائش، وہ سبوح وقدوس کیونکر ہوااور اس کی تسبیح کیسی، تعالٰی اﷲ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(جو کچھ ظالم کہتے ہیں اﷲ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ت) اور دیوبندیوں سے تو اب امکان کذب کی بحث ہی فضول ہے، ان کے پیشواگنگوہی نے صراحۃً وقوعِ کذب مان لیا اور تصریح کردی کہ جو ''اﷲتعالٰی کو معاذ اﷲ کاذب بالفعل کہے اسے کافر یا گمراہ یا فاسق کہنا کیا معنی، کوئی سخت لفظ نہ کہنا چاہئے، اس کا اختلاف حنفی شافعی کا سا ہے''، اس بیان کے لئے میرے قصیدہ الاستمدادصفحہ ۲۴ کے پہلے تین شعر، پھر ص۲۵پر ان کا حاشیہ نمبری۱۷۶؎تا۱۸۰؎ پھر اس کی تکمیلات میں ص۹۱ سے ص ۹۴ تک تکمیل ۵۹ ملاحظہ فرمائیے۔ جہد المقل کا مصنف اﷲ عزوجل کا نہ صرف کاذب ہونا ممکن جانتا تھا بلکہ اسے بالامکان ظالم، چور، شرابی بھی جانتا تھا۔ یوں کروڑوں خدا موجود بالفعل مانتا تھا اس کے بیان کے لئے قصیدہ الاستمدادصفحہ۲۲پر ع چور شرابی ظالم جاہل، یہاں سے چار شعر تک، اور اسی صفحہ پر اس کا حاشیہ نمبری۱۵۴؎ تا۱۵۷؎،۱۵۸؎،۱۵۹؎،۱۶۰؎اورتکمیلات آخر صفحہ ۸۱ سے ص۸۲ تک تکمیل۵۰و۵۱، اور اس کے متعلق رسالہ اڈیٹر شکن کہ ص۸۲سے ص۹۰ تک نوٹ میں ملاحظہ ہو،میں مطبع کو لکھ دوں گا کہ یہ اور سبحٰن السبوح ہدیۃً خدمت میں بنظرِ احتیاط بیرنگ حاضر کرے، والسلام مع الکرام۔