مسئلہ۷۵: ازڈیرہ غازی خاں، بلاک۱۲، مرسلہ مولوی احمد بخش صاحب ۲۱ذی القعدہ ۱۳۳۹ھ
حضرت ملک العلماء والفضلاء ثقتی رجائی ادام اﷲ تعالٰی ظلہ علی رؤس المستفیضین!نیاز بے انداز وشوقِ زیارت کے بعد جن کا کوئی حد وانداز نہیں، گزارش، میں دیوبندیوں کو امکان کذب کے متعلق سخت مبغوض اور ملحد جانتا تھا ان ایام میں جہد المقل مؤلفہ محمود حسن دیوبندی کا اتفاقِ مطالعہ ہوا تو عقلی دلائل کی پرواہ نہ کرکے کتب معتبرہ کی نقول وروایات جو اس میں موجود ہیں سخت مخالف عقیدہ خودثابت ہوئی ہے، سوا اس کے کوئی چارہ نہ ملا کہ حضور کی خدمت میں دریافت کرنے سے یہ مشکل حل ہو، اگر کوئی جہد المقل کا جواب مفصل یا کوئی اور تسلی بخش رسالہ یا کتاب چھپی ہوتو کسی خادم کے نام حکم فرماکر کہ وی پی بھیج دیں ممنون فرمائیں، ورنہ مجھے مطمئن فرمادیں کہ شرح مقاصد وشرح مواقف وشرح طوالع ومسائرہ وغیرہ کتبِ کثیرہ کی عبارات کا کیا جواب ہے جن میں صاف طور پر موجود ہے کہ خدائے پاک جل شانہ سے صدور قبائح ممکن ہے، فقط۔
الجواب
بملاحظہ مولٰینا المکرم ذی المجدالاتم والفضل والکرم دامت معالیہ وبورکت ایامہ ولیالہ، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، نامی نامہ بریلی سے واپس ہوکر یہاں آیا، فقیر ۱۲ربیع الاول شریف کی مجلس مبارک پڑھ کر شام سے سخت علیل ہو اکہ ایسا مرض کبھی نہ ہوا تھا، میں نے وصیت نامہ لکھوادیا، بارے بحمدہٖ تعالٰی مولٰی عزوجل نے شفا بخشی ولہ الحمد۔ اسی دوران میں آپ کا قصیدہ حمیدہ نعتیہ آیاتھا مجھ میں دیکھنے کی قوت کہاں تھی وہ کاغذات میں مل گیا اور مہینوں گم رہا، مجھے زیادہ ندامت اس کی تھی کہ جناب نے تحریر فرمایا کہ اس کا مثنٰی یہاں نہیں، اب الحمد ﷲ مہینوں کے بعد مل گیا، زوال مرض کو مہینے گزرے مگر جو ضعف شدید اس سے پیدا ہوا تھا اب تک بدستور ہےْ۔ فرض ووتر اور صبح کی سنتیں بدقت کھڑے ہوکر پڑھتا ہوں باقی سنتیں بیٹھ کرْ۔ مسجد میرے دروازے سے دس بارہ قدم ہے وہاں تک چار آدمی کرسی پر بٹھاکر لے جاتے اور لاتے، اور باقی امراض کہ کئی برس سے کاللازم ہیں بدستور ہیں، کبھی ترقی کبھی تنزل،
والحمدﷲ علٰی کل حال واعوذ باﷲ من حال اھل النار۔
تمام تعریفیں ہرحال میں اﷲ تعالٰی کےلئے ہیں اور دوزخیوں کے حال سے میں اﷲ تعالٰی کی پناہ مانگتا ہوں(ت)
حاش ﷲ استغفر اﷲ معاذ اﷲ یہ بطور شکایت نہیں بلکہ صرف معذرت کیلئے اظہار واقعیت، اس کی وجہ کریم کو حمد ابدی ہے بعزتہ وجلالہ سر سے پاؤں تک ایک ایک رونگٹے پر کروڑوں بے شمار نعمتیں ہیں لاکھوں بے حساب عافتیں ہیں۔
حمد اسی کے لئے ہے ایسی حمد جو بہت زیادہ پاک، برکت والی ہے جیسے ہمارا رب چاہے آسمان بھر، زمین بھر اور ہر وہ شیئ بھر جو وہ چاہے، اور تمام تعریفیں ا س معبود کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے(ت)
ان حالات میں شدت گرما سے گھبرا کر رمضان شریف کرنے اور گرمیاں گزارنے ۲۹شعبان سے یہاں پہاڑ پر آیا، طالب دعا ہوں، یہ کمزوری یہ قوت ضعف یہ علالتیں پھر میری تنہائی اور اس پر اعدائے دین کا چاروں طرف سے نرغہ، اسی کی پھر اس کے حبیب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی مدد ہے کہ برابر دفعِ اعداءِ دین ودشمنانِ اسلام میں وقت صرف ہوتا ہے،
تقبل المولٰی بکرمہ ولہ الحمد علی نعمہ۔
مولاتعالٰی اپنے کرم سے قبول فرمائے اور اس کی نعمتوں پر اسی کےلئے حمد ہے(ت)
یہاں آکر بھی پانچ رسالے رد خبثاء میں تصنیف ہوچکے ہیں اور چھٹازیرِ تصنیف ہے۔ یہ سوال کہ جناب نے فرمایا مدت ہوئی اس کے جواب میں بھی ایک مستقل رسالہ "القمع المبین لآمال المکذبین" تصنیف کرچکا ہوں جومیرے رسالہ "سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح" کے آخر میں طبع ہونا شروع ہواتھا مگر افسوس کہ اب تک پورا نہ چھپا، میں مطبع کو لکھتا ہوں کہ وہ جس قدر بھی چھپا ہے حاضر خدمت کرے۔ اجمالاً یہاں بھی دو حرف گزارش کروں کہ جناب جیسے فاضل کامل کے لئے بعونہ عزوجل کافی ووافی ہوں گے۔ ان عبارتوں کے جواب کو اربابِ دین وانصاف کےلئے بحمدہٖ تعالٰی ایک نکتہ بس ہے۔ عقیدہ وہ ہوتا ہے جو متون، یا تراجم ابواب و فصول، یا فہرست وفذلکہ عقائد میں لکھتے ہیں وہی اہلسنت کا معتقد ہوتا ہے وہ ہی خود ان علماء کا دین معتمد ہوتا ہے۔ ہنگامِ ذکر دلائل وابحاث ومناظرہ جو کچھ ضمناً لکھ جاتے ہیں اس پر نہ اعتماد ہے نہ خود انکا اعتقاد ہے، اورتو اورخود سب سے اعلٰی واجلٰی مسئلہ توحید میں ملاحظہ فرمائیے۔ اس کلام محدث میں اس کے دلائل پر کیا کیا نقض وارد کئے ہیں۔ دلائل عقلیہ بالائے طاق رکھئے خود برہان قطعی یقینی ایمانی قرآنی:
لوکان فیھما اٰلھۃ الا اﷲلفسدتا۱؎۔
اگر زمین وآسمان میں اﷲ تعالٰی کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور تباہ ہوجاتے(ت)
(۱؎ القرآن الکریم۲۱/ ۲۲)
پر کیا کچھ شور و شغب نہ ہوا، حتی کہ علامہ سعد الدین تفتازانی نے اسے محض اقناعی لکھ دیا جس پر نوبت کہاں تک پہنچی، کیا معاذ اﷲ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کو توحید پر ایمان نہیں یا اس میں کچھ شک ہے، نہیں یہ صرف طبع آزمائیاں اور بحث ومباحثہ کی خامہ فرسائیاں ہیں، جو گمراہوں کے لئے باعثِ ضلال ودستاویز اضلال ہوجاتی ہیں، اور اہل متانت واستقامت جانتے ہیں کہ :
ماضربوہ لک الاجدلاط بل ھم قوم خصمون۱؎۔
انہوں نے تم سے یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑنے کو بلکہ وہ ہیں جھگڑالولوگ(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴۳ / ۵۸)
ولہذا ائمہ دین وکبرائے ناصحین ہمیشہ سے اس کلام محدث کی مذمت اور اس میں اشتغال سے ممانعت فرماتے آئے یہاں تک کہ سیدنا امام ابویوسف رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
من طلب العلم بالکلام تزندق۲؎۔
جس نے علم کلام حاصل کیا وہ زندیق ہوگیا(ت)
(۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر عن ابی یوسف مصطفی البابی مصر ص۴)
فقہائے کرام نے فرمایا جو وصیت علماء کے لئے کی جائے متکلمین اس سے کچھ حصہ نہ پائیں گے، میں نے"القمع المبین" میں متعدد نظائر اس کے ذکر کئے ہیں کہ ایمان وعقیدہ کچھ ہے، اور بحث ومباحثہ میں کچھ کا کچھ، حتی کہ کفر صریح تک لکھتے ہیں، مولوی نے حاشیہ خیالی میں خود خیالی سے کیسا ناپاک خیال نقل کیا اور خود اسے مسلم و مقرر رکھا کہ باری عزوجل کا علم متناہی ہے
اناللہ وانا الیہ راجعون۳؎
(ہم اﷲ کے مال ہیں ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۵۶ )
یہ صریح مناقض ایمان ہے۔ علامہ سید شریف قدس سرہ کے استاد سید مبارک شاہ نے شرح حکمۃ العین میں لکھ دیا کہ واجب صرف اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا اپنے تعین وتشخص میں دوسرے کا محتاج ہوتو کیا حرج ہے، کیا یہ دین ہے،کیا یہ اسلام ہے، کلاواﷲ، اوراتنا بھی خیال نہ کیا کہ اس کے تعین ووجود تو ایک ہی ہیں کہ اسکے ذات کریم کے عین ہیں، معاذاﷲ تعین میں محتاج ہوا تو نفس وجود میں محتاج غیر ہوا پھر واجب الوجود کیسے رہاولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم،یہ حضرات خود بھی تصریح کر گئے ہیں کہ عقائد معلوم ومتعین ہوچکے ابحاث ومشاجرات وغیرہا میں جو کچھ ہم لکھیں اس پر اعتماد نہ کرو۔ عقیدہ سے مطابقت سے ومخالفت دیکھ لو پھر بھی اگر
الذین فی قلوبھم زیغ۴؎
(وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے)بگڑیں
فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ۱؎
(وہ تو اشتباہ والی آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے کو۔ت) پراڑیں تو یہ ان کی بدنصیبی و بے ایمانی۔