Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
97 - 150
اقول ومن الدلیل القاطع علی بطلان کل کلام ارید بہ حل ھذہ العقدۃ ماتواتر عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من نھیہ الامۃ حتی اجلۃ صحابۃ الکرام الذین کانوااعقل واعلم وافھم من کل من بعدھم عن الخوض فیہ وقد اخرج الطبرانی فی المعجم الکبیر عن ثوبان رضی اﷲ تعالٰی عنہ مولٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال اجتمع اربعون من الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم ینظرون فی القدرو الجبر فیھم ابوبکر وعمر وضی اﷲ تعالٰی عنہما، فنزل الروح الامین جبرئیل علیہ الصلٰوۃ والسلام فقال یامحمد اخرج علی امتک فقد احدثوا، فخرج صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ملتمعالونہ متوردۃ وجنتاہ کانما تفقأ بحب الرمان الحامض، فنھضواالی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حاسرین اذرعھم ترعد اکفھم واذرعھم، فقالواتبنا الی اﷲ ورسولہ، فقال اولٰی لکم ان کدتم لتوجبون، اتانی الروح الامین فقال اخرج الٰی امتک یامحمد فقد احدثت۱؎اھ افتری ان ھذا الغضب الشدید والنھی الاکید کان لان ابابکر وعمر وسائر الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم لم یکونوا اھلالان یعرفواکلمۃ سھلۃ خفیفۃ ان العزم لکم والباقی لربکم اوغیر ذٰلک ممایزعمہ  زاعم کلابل ھو دلیل قاطع علی ان الامر سر لاتبلغہ العقول ولایحیط بہ البیان، وان لاخیر للامۃ فی کشفہ علیھم والالماضن اﷲ بہ ورسولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فالحق الناصع ماعلیہ ائمۃ السلف ان الامر بین لاولاولامصدر لنا الاٰن فوق ذٰلک ومانحن من المتکلفین الحمد ﷲ رب العٰلمین
اقول (میں کہتا ہوں) اس پیچیدہ بحث میں ہر کلام کے بطلان پر ایک قاطع دلیل وہ ہے جو تواتر کے ساتھ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنی امت حتی کہ اجلہ صحابہ کرام جو کہ اپنے بعد والے لوگوں سے ہر طرح زیادہ عقل، زیادہ علم اور زیادہ فہم والے تھے، کو اس خطرناک بحث سے منع فرمایا چنانچہ امام طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت ثوبان رضی اﷲتعالٰی عنہ جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے آزاد کردہ تھے، سے روایت کیا کہ چالیس صحابہ کرام جن میں ابوبکر اور عمر رضی اﷲتعالٰی عنہما بھی تھے جمع ہوکر جبر وقدر میں بحث کرنے لگے تو روح الامین جبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیک وسلم !آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے، تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام باہر اس حال میں تشریف لائے کہ غصہ سے آپ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو، تو صحابہ کرام حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے استقبال کے لئے آگے بڑھے در انحالیکہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اورعرض کی ہم نے اﷲ تعالٰی اور رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی تو آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا قریب تھا کہ تم اپنے پر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین تشریف لائے اور کہا کہ آپ باہر امت کے پاس جائیں انہوں نے حادثہ کردیا ہے، الخ، آپ نے یہ شدید غضب اور پُر تاکید نہی دیکھ لی اور کیا یہ اس وجہ سے تھی کہ ابوبکر اور عمر فاروق و دیگر صحابہ رضوان اﷲتعالٰی علیہم اجمعین معمولی سی اس بات کو سمجھنے کے اہل نہ تھے کہ عزم بندے کا خلق ہے اور باقی سب اﷲ تعالٰی کی مخلوق ہے یا جیسا کہ گمان کرنے والوں نے یہ گمان کیا ہرگز ہرگز یہ بات نہ تھی بلکہ یہ اس بات پر قطعی دلیل تھی کہ جبر وقدر کا معاملہ ایک راز ہے جس تک عقلوں کی رسائی نہیں اور جس کو احاطہ بیان میں نہیں لایا جاسکتا اور اس راز کو عیاں کرنے میں امت کے لئے بھلائی نہیں ورنہ اﷲ تعالٰی اور اس کا رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کے بیان پر بخیل نہ تھے، تو خالص حق وہی ہے جس پر ائمہ سلف قائم رہے کہ یہ معاملہ نہ جبر ہے نہ قدر ہے بلکہ دونوں کے درمیان ایک امر ہے جس کو اب تک ہم پر اس سے زائد واضح نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہم تکلف میں مبتلا ہوں گے، الحمد رب العٰلمین۔(ت)
 (۱؎ العجم الکبیر     حدیث۱۴۲۳         المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت     ۲/ ۹۵ و ۹۶)
بالجملہ یہ بحث کہ نصوص کے خلاف، اجماع کے خلاف، اشعریہ کے خلاف، حنفیہ کے خلاف، وجدان کے خلاف، برہان کے خلاف، کیا عقیدہ اہلسنت ہوسکتی ہے، یا امام ابن الہمام کا یہ عقیدہ ہے حاش ﷲ، عقیدہ وہی ہے جو خود ہمارے رب عزوجل نے فرمایا:
ھل من خالق غیر اﷲ۱؎
 (کیا اﷲ تعالٰی کے بغیر کوئی خالق ہے۔ت)' اور فرمایا:
الالہ الخلق والامر۲؎
 (صرف اسی کےلئے خلق اور امر ہے۔ت)اور فرمایا:
افمن یخلق کمن لایخلق۳؎
 (توکیا پیدا کرنے والا اس کی طر ح ہے جو پیدا نہیں کرتا۔ت) اور فرمایا:
لایخلقون شیئا وھم یخلقون۴؎
 (وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے جبکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۳)		(۲؎القرآن الکریم    ۷/ ۵۴)

(۳؎القرآن الکریم    ۱۶/ ۱۷)		(۴؎القرآن الکریم    ۱۶/ ۲۰)
عقیدہ وہی ہے جو خود امام ابن الہمام نے اسی اصل کے آغاز میں لکھا کہ
ان اﷲ لاخالق سواہ ۵؎
 (بیشک اﷲ تعالٰی کے سوا کوئی خالق نہیں۔ت)
 (۶؎ المسایرۃ متن المسامرۃ     العلم بانہ تعالٰی لاخالق سواہ     المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر     ص۹۶)
عقیدہ وہی ہے جوخود امام ممدوح نے اسی کتاب مسایرہ کے آخر میں لکھا، جہاں عقائد اہلسنت کی فہرست دی اور تادمِ مرگ اس پر اپنے ثابت قدم رہنے کی دعا کی کہ فرماتے ہیں:
ولنختم الکتاب بایضاح عقیدۃ اھل السنۃ والجماعۃ، وھی انہ تعالٰی واحد لاشریک لہ، منفرد بخلق الذوات وافعالھا،۶؎(الٰی ان قال علیہ رحمۃ ذی الجلال)
ہم اپنی کتاب کو اہلسنت وجماعت کے عقیدہ کی وضاحت پر ختم کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالٰی واحد لاشریک ہے وہ ذات اور افعال کے پیدا کرنے میں منفرد ہے، اور ان رحمہ اﷲ تعالٰی نے آخر میں یوں فرمایا،
 (۶؎المسایرۃ متن المسامرۃ      ختم المصنف کتابہ ببیان عقیدہ اہلسنت     المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۳۹۰)
واﷲ سبحٰنہ نسألہ من عظیم جودہ وکبرمنہ ان یتوفانا علٰی یقین ذٰلک مسلمین انہ ذوالفضل العظیم، وھو حسبنا ونعم الوکیل، ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۱؎۔
اور اﷲ سبحانہ وتعالٰی کے جودوکرم اور اس کی کبریائی سے ہم سوالی ہیں کہ وہ ہمیں اس پختہ یقین حالت اسلام میں وفات نصیب فرمائے، وہ بڑے فضل والا ہے، اور وہی  ہمیں کافی ہے اور بہترین وکیل ہے، ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔(ت) عقیدہ وہ ہے جو امام صدر الشریعۃ کی توضیح سے گزرا، (یہ رسالہ ناقص ملا)
 (۱؎ المسایرۃ متن المسامرۃ  ختم المصنف کتابہ ببیان عقیدۃ اہلسنت اجمالاً   المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۳۹۵)
Flag Counter